محمد مرسی حرکت میں آگئے، مگر…

مصر کے صدر محمد مرسی نے جو کچھ کہا تھا وہ کر دکھایا ہے۔ انہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ صدر کے منصب پر منتخب ہونے کے بعد وہ اقتدار کے ایوان سے ان لوگوں کو نکال باہر کریں گے جو طویل مدت سے قومی مفادات کے جسم پر جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ طویل مدت تک مصر کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہنے والے جرنیل اب برطرف کیے جاچکے ہیں۔ محمد مرسی نے ۱۲؍ اگست کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے ان تمام جرنیلوں کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کا اعلان کیا جو تین عشروں سے بھی زائد مدت سے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے تھے۔ یہی جرنیل تھے جنہوں نے جون میں صدر مرسی کے انتخاب کو روکنے اور پھر ان کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی۔

طویل مدت تک وزیر دفاع کے منصب پر خدمات انجام دینے والے فیلڈ مارشل حسین طنطاوی اور ان کے متوقع جانشین جنرل سمیع عنان تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے ساتھ فارغ کیے جاچکے ہیں۔ حسین طنطاوی اور سمیع عنان کو شاندار میڈلز کے علاوہ صدارتی مشیر کا منصب بھی دیا گیا ہے۔ ۸؍اگست کو صحرائے سینا کے علاقے میں جب ۱۶؍ مصری فوجی شرپسندوں کی فائرنگ سے مارے گئے تو انٹیلی جنس چیف سمیت متعدد اعلیٰ سکیورٹی اہلکاروں کو صدر مرسی نے فارغ کردیا۔ تب یہ سمجھا گیا تھا کہ وہ اپنی بات زیادہ زور دے کر منوانا چاہتے ہیں مگر جلد ہی لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ یہ تو محض وارم اپ تھا۔

صدر مرسی کے اقدامات پر ردعمل حیرت انگیز رہا ہے۔ فوج کی سپریم کونسل نے چپ سادھ لی ہے۔ فیس بک پر نئے وزیر دفاع عبدالفتح السیسی (Abdel Fatah Al-Sissi) کے کوائف اَپ لوڈ کر دیے گئے ہیں۔ دوسری طرف فوج میں اعلیٰ سطح پر فراغت کا عمل جاری ہے۔ ۱۴؍اگست کو ایک اور ٹاپ جنرل حسین راوینی نے نجی وجوہ کی بنیاد پر ریٹائرمنٹ لینے کا اعلان کیا۔ وہ سینٹرل ملٹری زون کے سربراہ تھے جس کے تحت دارالحکومت قاہرہ اور اس کے گرد و پیش فوجیوں کی تعیناتی کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ حسین طنطاوی اور ان کے رفقا نے صدر مرسی کے ماتحت کام کرنے پر آمادگی ظاہر کرکے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ فوج کی طرف سے کوئی بغاوت نہیں ہوگی۔ فوج کے ساتھ صدر مرسی نے وہی کیا ہے جو گزشتہ برس معزول صدر حسنی مبارک کے ساتھ فوج نے کیا تھا یعنی ان کے تمام اختیارات سلب کرلیے تھے۔ فوج نے نومنتخب پارلیمان کو تحلیل کرکے قانون سازی کے اختیارات اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کی تھی۔ صدر مرسی نے یہی کھیل فوج کے ساتھ کھیلا ہے۔ حسین طنطاوی اور ان کے ساتھیوں نے کسی نہ کسی طور اقتدار میں رہنے کے لیے صدر مرسی کے ساتھ ڈیل کی ہے۔

فوج کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کو مصر میں مجموعی طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ سابق صدارتی امیدوار اور ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے سابق سربراہ محمد البرادعی نے بھی صدر مرسی کی صلاحیت کی ستائش کی مگر ساتھ ہی ٹوئٹر پر انہوں نے لکھا کہ اب محمد مرسی کے پاس استعماری اختیارات آچکے ہیں!

صدر مرسی نے جو کچھ کیا ہے اس کی تعریف کرنے والوں کی کمی نہیں مگر ساتھ ہی انہیں احتیاط برتنے کا مشورہ بھی دیا جارہا ہے۔ انہوں نے فوج کو قابو میں رکھنے کے اقدامات میں فی الحال کامیابی حاصل کی ہے مگر فوج کی معاشی قوت میں کمی لانے کے لیے انہیں بہت احتیاط سے کام کرنا ہوگا۔ اب ان کا سامنا فوج کے ایسے افسران سے ہوگا، جو طاقتور تو ہیں مگر مجموعی طور پر مل کر چلنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ چند ایک فوجی افسران نے صدر مرسی کا ساتھ بھی دیا ہے۔ بروکنگز دوہا سینٹر کے ڈائریکٹر آف ریسرچ شاذی حامد کہتے ہیں ’’فوج کے بہت سے جونیئر افسران کے ایوان صدر سے رابطے قائم ہوئے ہیں۔ حسنی دور کے فوجی افسران کو ہٹاکر جونیئر افسران کو سامنے لانا صدر مرسی کا بڑا کارنامہ ہے۔ یہ افسران ہر معاملے میں ایوان صدر کی طرف دیکھیں گے‘‘۔

صدر مرسی نے فوج کو قابو میں کرنے کے لیے جو کچھ کیا ہے اس پر عوام کا ردعمل بھی ملا جلا رہا ہے۔ جب انہوں نے فوج کے خلاف اقدامات کیے تو اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکنوں نے قاہرہ کے تحریر اسکوائر میںجمع ہوکر خوشی کا اظہار کیا مگر اگلے ہی دن تحریر اسکوائر خالی ہوگیا۔ فوج بھی خاموش ہے۔ سویلین حلقے بھی صدر کے اقدامات کے حوالے سے زیادہ خوش گمان نہیں۔ وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اقتدار کے مآخذ پر کنٹرول کی نئی جنگ شروع ہوئی ہے۔

(“New Broom in Action”… “Economist”. August 18th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*