ایک فی صد طبقہ، دنیا کی نصف دولت پر قابض

The Swiss ski resort of Davos, home to the annual meeting of the World Economic Forum. Photograph: Christian Kober/Robert Hardi/REX

دنیا میں غربت کے خاتمے اور سماجی انصاف کے لیے سرگرم ایک برطانوی تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ دنیا میں امیر اور غریب طبقات کے درمیان خلیج میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور آئندہ سال کے اختتام تک ایک فی صد طبقے کے پاس دنیا کی باقی ۹۹ فی صد آبادی سے زیادہ دولت ہوگی۔

برطانوی تنظیم ’’آکسفام‘‘ نے حال ہی جاری کی جانے والی اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا ہے کہ ۲۰۰۹ء میں یہ ایک فی صد با اثر طبقہ دنیا کی ۴۴ فی صد دولت کا مالک تھا اور یہ دولت ۲۰۱۴ء میں ۴۸ فی صد تک جاپہنچی تھی۔ اس متمول طبقے کے برعکس دنیا کی ۸۰ فی صد آبادی صرف ۵ء۵ فی صد دولت کی مالک ہے اور اپنی اس متاعِ قلیل سے تیزی سے محروم ہورہی ہے۔ ’’آکسفام‘‘ کے مطابق اگر دولت کی تقسیم کی موجودہ شرح برقرار رہی تو ۲۰۱۶ء کے اختتام تک دنیا کی ۵۰ فی صد سے زائد دولت ایک فیصد امیر طبقے کے ہاتھوں میں جاچکی ہوگی۔

’’آکسفام انٹرنیشنل‘‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر وِنّی بیانیما کے مطابق ۹۔۲۰۰۸ء کے اقتصادی بحران کے بعد بین الاقوامی معیشت میں دولت کے ارتکاز میں تیزی آئی ہے جو اَب خطرناک سطح تک پہنچ چکی ہے۔ برطانوی اخبار ’’گارجین‘‘ کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں امدادی ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں دنیا میں طبقاتی تفریق بڑھ رہی ہے جس کی روک تھام کے لیے حکومتوں کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ بیانیما کے بقول یہ طبقاتی تفریق معاشرتی ناہمواری اور نظمِ حکومت کے لیے مسائل کھڑے کرسکتی ہے کیوں کہ دولت کے ارتکاز کے نتیجے میں ایک مخصوص طبقہ بتدریج طاقت پکڑ رہا ہے اور عوام کے مفادات اور مسائل سے اس کی بے نیازی میں اضافہ ہورہا ہے۔

اپنے انٹرویو میں وِنّی بیانیما نے کہا ہے کہ عالمی رہنمائوں اور عوام کو سوچنا ہوگا کہ کیا واقعی ہم ان حالات میں جینا چاہتے ہیں جہاں بمشکل ایک فیصد طبقہ دنیا کی باقی ۹۹ فیصد آبادی سے زیادہ وسائل کا حامل ہو اور امیر اور غریب کے درمیان موجود خلیج روز بروز بڑھ رہی ہو؟ انہوں نے کہا کہ دنیا میں حد سے تجاوز کرتی ہوئی معاشی عدم مساوات نہ تو حادثاتی ہے اور نہ ہی یہ نظمِ معیشت کا کوئی لازمی نتیجہ ہے۔ بلکہ، ان کے بقول، یہ حکومتوں کی ماضی کی روش کا شاخسانہ ہے جسے ذرا مختلف حکمتِ عملی اختیار کرکے گھٹایا بھی جاسکتا ہے۔

’’آکسفام‘‘ نے گزشتہ برس اسی نوعیت کی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ صرف ۸۵؍امیر ترین افراد دنیا کی نصف غریب ترین آبادی (ساڑھے تین ارب نفوس) کے برابر دولت رکھتے ہیں۔ تنظیم کے مطابق اس سال کی تحقیق میں یہ تعداد مزید کم ہوگئی ہے اوراب دنیا کے ۸۰؍امیر ترین افراد کے پاس دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ دولت ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ۲۰۱۰ء میں دنیا کی نصف آبادی کے برابر دولت کے مالک امیر افراد کی تعداد ۳۸۸ تھی۔

برطانیہ میں معاشی ناہمواری کے خاتمے کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم ’’اکویلیٹی ٹرسٹ‘‘ کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ۲۰۰۸ء میں برطانیہ کے ۱۰۰؍امیر ترین خاندانوں کی مجموعی دولت میں کم ازکم ۱۵؍ارب پونڈز کا اضافہ ہوا تھا جب کہ اس عرصے کے دوران ایک عام خاندان کی آمدنی میں ہونے والا اوسطاً اضافہ صرف بارہ سو پونڈز کے لگ بھگ تھا۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران دنیا میں طبقاتی تفریق اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے مسئلے نے شدت سے سر اٹھایا ہے اور عالمی رہنمائوں اور اداروں نے اس پر سنجیدگی سے غور شروع کیا ہے۔ اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں ۹۔۲۰۰۸ء کے معاشی بحران کا بھی اہم کردار ہے جس کے بعد غریب طبقے کے لیے ضروریاتِ زندگی کا حصول بتدریج مشکل جب کہ امیر طبقے کے اثاثوں، خصوصاً حصص اور جائیدادوں کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

دولت کے اس تیزی سے چند ہاتھوں میں ارتکاز نے جن عالمی رہنمائوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے ان میں رومن کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سربراہ کرسٹین لگارڈ بھی شامل ہیں جنہوں نے خبردار کیا ہے کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی معاشی تفریق عالمی معیشت اور معاشرت کو نقصان پہنچائے گی۔

معروف فرانسیسی ماہرِ معیشت تھامس پکیٹی کی حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی کتاب ’’کیپٹل‘‘ کا موضوع بھی دنیا میں دولت کی یہی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ سنجیدہ اور پالیسی ساز حلقوں میں دولت کے ارتکاز اور غیر مساوی تقسیم پر سنجیدہ بحث چھیڑنے میں ریکارڈ تعداد میں فروخت ہونے و الی اس کتاب کا اہم کردار ہے۔

امریکا کے صدر براک اوباما بھی اس مسئلے کی سنگینی کا بارہا اظہار کرچکے ہیں لیکن ان کے مخاطب زیادہ تر امریکی عوام اور سیاست دان ہی رہے ہیں۔ صدر اوباما مسلسل امریکی کانگریس پر ایسے اقدامات کرنے اور ایسی پالیسیاں وضع کرنے پر زور دے رہے ہیں جن کے ذریعے متوسط طبقے کی معاشی حالت بہتر بنائی جاسکے۔ ان کے برعکس ری پبلکن پارٹی، جسے اب کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے۔ روایتی سرمایہ داری کی زبردست وکیل بنی ہوئی ہے اور اس کا موقف ہے کہ بڑے کاروباری اور امیر طبقے کو بے لگام چھوڑ دیا جائے اور اسے اپنے سرمایے میں اضافہ کرنے دیا جائے جس کے مثبت اثرات لامحالہ زیرِ دست طبقات تک بھی پہنچیں گے۔

’’آکسفام‘‘ نے اپنی حالیہ تحقیق میں کہا ہے کہ دنیا کے ۸۰؍امیر ترین افراد کے اثاثوں کی مالیت میں ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۴ء کے دوران دگنا اضافہ ہوا ہے۔ تحقیق کے مطابق یہ امیر طبقہ اپنی اس دولت کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بطور آلہ استعمال کر رہا ہے اور یوں یہ دولت اس کے اثاثوں میں مزید اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امیر طبقے کی دولت کا وراثت کے ذریعے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونا معمول ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دولت دنیا کے محروم طبقات کی محرومی اور غربت دور کرنے میں استعمال نہیں ہورہی۔

تحقیق کے مطابق امریکی جریدے ’’فوربز‘‘ کی فہرست میں جگہ بنانے والی دنیا کی ۱۶۴۵؍ارب پتی شخصیات میں سے ایک تہائی کو ان کی دولت کا بیشتر یا تمام حصہ وراثت میں ملا ہے۔ ان ارب پتی لوگوں میں سے ۲۰ فیصد کے اثاثے بینکوں اور انشورنس کے شعبے میں ہیں جن میں صرف بارہ مہینوں کے دوران (مارچ ۲۰۱۴ء تک) ۱۱؍ فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق بینکنگ اور انشورنس کے اداروں اور شخصیات نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے صرف ۲۰۱۳ء کے دوران دو شہروں واشنگٹن اور برسلز میں لابنگ پر ۵۵۰ ملین ڈالر خرچ کیے۔ اس سے قبل امریکا میں ۲۰۱۲ء کے صدارتی انتخابات میں امیدواروں کو ان کی انتخابی مہم کے لیے صرف فنانشل سیکٹر نے ۵۷۱ ملین ڈالر کا ریکارڈ چندہ دیا تھا۔ ان دو مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا کا امیر ترین طبقہ کس طرح اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پانی کی طرح پیسا بہاتا ہے۔ دولت مند طبقے کی اس شاہ خرچی کا لازمی نتیجہ اس کی دولت میں کئی گنا اضافے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

’’آکسفام‘‘ نے اپنی رپورٹ میں دولت کے ارتکاز کو روکنے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے حکومتوں سے سات نکاتی منصوبے پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ منصوبے میں شامل تجاویز درج ذیل ہیں:

۱۔ کارپوریشنوں، بڑے کاروباری اداروں اور شخصیات کی جانب سے ٹیکس چوری کی روک تھام یقینی بنائی جائے۔

۲۔ عوام الناس کو صحت اور تعلیم سمیت دیگر بنیادی سہولتوں کی مفت فراہمی کے لیے ان شعبوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے۔

۳۔ ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات متعارف کی جائیں اور دولت اور اثاثوں پر محصولات کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔

۴۔ مزدور اور کارکنوں کی کم از کم اجرت میں اضافہ اور اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

۵۔ مساوی تنخواہوں اور خواتین کے ساتھ غیر مساوی سلوک کے خاتمے کے لیے ضروری قانون سازی کی جائے۔

۶۔ غریب طبقات کے لیے آمدنی کی کم از کم شرح مقرر کی جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔

۷۔ دنیا سے معاشی ناانصافی کے خاتمے اور دولت کے ارتکاز کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر منظم کوششیں کی جائیں۔

(مترجم: ابنِ ریاض)

“New Oxfam report says half of global wealth held by the 1%”. (“The Guardian”. January 19, 2015)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*