نوبل انعام کی وجہ تسمیہ سویڈن سے تعلق رکھنے والا سائنس دان الفریڈ نوبل (Alfred Nobel) ہے، جس نے ۱۸۶۷ء میں ڈائینا مائٹ بم ایجاد کیا تھا۔ اس بم کی ایجاد کا محرک جنگ ِکریمیا (Crimean War) ہے، جس کے لیے الفریڈ نوبل کی خاندانی فیکٹری اسلحہ اور بارود سازی کا کام کرتی تھی۔ ۱۸۵۳ء سے۱۸۵۶ء کے درمیان یہ جنگ لڑی گئی۔
نوبل انعام کے اعلان کی سالانہ روایت ۱۱۸؍ سال سے جاری ہے۔ انعام یافتگان کو ایک خطیر رقم بھی انعام کے ساتھ دی جاتی ہے۔۲۰۱۸ء اور ۲۰۱۹ء کے لیے منتخب ہونے والے دونوں مصنفین کو الگ الگ نو لاکھ دس ہزار سویڈن کرنسی کرونا (پاکستانی روپیہ:ایک کروڑ ۴۵ لاکھ ۵۲ ہزار) کی شکل میں دی جائے گی۔
سویڈش اکیڈمی (The Swedish Academy) نے ۲۰۱۸ء اور ۲۰۱۹ء کے لیے ادب کے نوبل انعام کا اعلان کیا۔اس ضمن میں۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کوایک اخباری اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں پولینڈ سے تعلق رکھنے والی خاتون مصنف اولگاتُکارزک (Olga Tokarczuk) کو ۲۰۱۸ء کے لیے اور آسٹریا کے پیٹر ہینڈکے (Peter Handke) کو ۲۰۱۹ء کے لیے منتخب کیا گیا۔
اولگا تکارزک اپنی ناول نگاری کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔ان ناولوں کے عنوانات Primeval and Other Times اور The Books of Jacob ہیں۔پیٹر ہینڈکے کا پہلا ناول اس پہچان کا بنیادی حوالہ ہے۔ اس کے ناول Die Hornissen کی ۱۹۶۶ء میں اشاعت کے بعد ہی اسے یورپ کے اُن اثر انگیز لکھنے والوں میں شمار کیا جانے لگا تھا جنہیں جنگ کے بعد کے دور میں شہرت حاصل ہوئی۔ ہینڈکے کواُس وقت سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا، جب انھوں نے سربیا کے راہنما سلو بوڈان میلوسیوک (Slobodan Milosevic) کی حمایت کرنا شروع کردی۔ نوبل انعام کے اعلان کے بعد پیٹر ہینڈکے پر امریکا کی ایک ادبی تنظیم پین (PEN) نے اعتراضات کیے ہیں۔ اعتراضات کچھ یوں ہیں:’ہم حیران ہیں کہ ایک ایسے مصنف کا نوبل انعام کے لیے انتخاب کیا گیا ہے، جس نے تاریخی حقائق کو اپنے عوام میں شہرت کے ذریعے مسخ کرنے کی کوشش کی ہے اور سربیا کے صدر سلوبوڈان کو اپنی جانب سے مدد فراہم کی جو سیکڑوں انسانوں کا قاتل ہے۔ہمیں اس انتخاب پر شدید افسوس ہے۔آج جب عالم گیر سطح پر غلط معلومات کی تشہیر روز افزوں ہے، اس صورت حال میں پوری دنیا میں ادب سے ذوق رکھنے والے افراد کسی اچھے فیصلے کی امید کررہے تھے۔‘ بوسنیا کے ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام پر سربیا کے صدر کو عالمی عدالت نے سزا بھی سنائی، جس میں اسے انسانیت کے خلاف جرم کامرتکب پایاگیا۔ سربیا کا یہ ظالم صدر ۲۰۰۶ ء میں مرگیا۔ نوبل انعام یافتہ ہینڈکے نے اپنے دفاع میں یہ کہا کہ ’میں ایک ناول نگار ہوں۔ میرا کام منصف کا نہیں۔سربیا کا صدر میرا دوست تھا، بس اُس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک مغموم فرد تھا۔‘
نوبل انعام کا اخباری اعلامیہ:
اولگا تکارزک:
اولگا تکارزک کے ناولوں میں بیانیہ تخیل (Narrative Imagination) کی تکنیک استعمال کی گئی ہے، جس میں جذبات کی پیشکش کی نوعیت قاموسی (Encyclopedic Passion) ہے۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ نہ صرف ملکی سرحدوں سے بعید ( Crossing of Boundaries) ہے بلکہ کسی خاص تصورِ زیست (a form of life) کی ترجمانی سے بھی ماوراہے۔
پیٹر ہینڈکے:
اس کے ناول ایک ایسا متاثر کن کام ہے] جو مصنف کی لسانی خلاقیت سے بھر پور ہے۔اس میں انسانی جذبات کے محیط اور ان کی خصوصیات کو دریافت کیا گیاہے۔
ادب کے نوبل انعام پر اعتراضات:
ادب کے نوبل انعام پر بہت سے اعتراضات کیے گئے ہیں۔اس انعام کا آغاز ۱۹۰۱ء میں ہوا۔اب تک اس کے لیے ۱۱۶؍ مصنفین کا انتخاب کیا جاچکا ہے، جن میں خواتین مصنفین کی تعداد صرف ۱۵ ہے۔ ان اعتراضات کی صراحت کچھ یوں ہے: یہ انعام صرف اُن مصنفین کو دیا جاتا ہے جن کی تصنیفات انگریزی زبان میں ہوتی ہیں۔یہ انعام صرف مرد مصنفوں کو دیاجاتا ہے۔یورپی مصنفوں کو یہ انعام دیا جاتا ہے۔ یورپی بھی وہ جو شہرت حاصل کرلیتے ہیں۔انتخاب کا طریق کار بھی غیر واضح ہے۔
ایک سال میں ادب کے دو نوبل انعام کیوں؟
۲۰۱۸ء میں ادب کے نوبل انعام کے اعلان کا فیصلہ اس لیے موخر کردیا گیا کہ جین کلاوڈ آرنلٹ (Jean-Claude Arnault) کے خلاف جنسی حراساں کرنے اور مالی بدعنوانی کا الزام تھا۔سویڈن سے تعلق رکھنے والایہ فرد فوٹو گرافر ہے اور نوبل انعام دینے والی سویڈش اکیڈمی کی ایک رُکن اور مصنف کیتا رینا فروسٹین سن (Katarina Frostenson) کا شوہر ہے۔ سویڈن کے اخبار ڈی جینزنی ہیٹر (Dagens Nyheter) نے ایک رپورٹ شائع کی، جس میں اٹھارہ خواتین نے الزام عائد کیا تھا کہ آرنلٹ نے اپنے بیس سالہ دور میں انھیں جنسی اور جسمانی طور پر حراساں کیا۔ آرنلٹ اور فروسٹین سن نے ایک ایسا فورم قائم کیا ہوا تھا جس کا کام نمائشوں کا انعقاد،بلند خوانی کے مقابلے اور فنکارانہ کارکردگی کا انعقاد کرنا شامل تھا، جس میں مشہور افراد کے ساتھ ساتھ نوبل انعام یافتہ افراد بھی حصہ لیتے تھے۔ سویڈش اکیڈمی کی جانب سے اس فورم کی مالی مدد بھی کی جاتی تھی، جس کی وجہ سے میاں بیوی پر مالی مفاد حاصل کرنے کا الزام تھا۔ اس ضمن میں جو کارروائی عمل میں لائی گئی اُس میں الزامات کو درست قراردیا گیا، جس میں ایک الزام یہ بھی تھا کہ نوبل انعام کے لیے ابتدائی طور پر منتخب ہونے والے مصنفین کے ناموں پر مبنی اطلاع کو عام کیا گیا۔
مسلم ممالک اور ادب کا نوبل انعام:
پاکستان کے کسی مصنف کو ادب کے نوبل انعام سے تاحال نوازا نہیں جاسکا ہے۔ مصر کے نجیب محفوظ (۱۹۱۱ء۔۲۰۰۶ء) اورترکی کے اُرہن پامُک (Orhan Pamuk) (پ:۱۹۵۲ء) کا شمار اُن لکھنے والوں میں ہوتا ہے جن کا تعلق مسلم ممالک سے ہے جنھیں بالترتیب۱۹۸۸ء اور ۲۰۰۶ء میں انعام مذکور دیا گیا۔
نجیب محفوظ کو عربی زبان میں ادبی کاموں کی وجہ سے انعام کا حق دار قرا ر دیا گیا تھا۔اس ضمن میں سویڈش اکیڈمی نے جومختصر اخباری اعلامیہ جاری کیا، اُس کے الفاظ کچھ یوں ہیں:’ان کے عربی ادب کے کام تفاوتِ معنی (nuance) کا شاہ کار ہیں جنھیں واضح طو ر پر ادب میں حقائق کی پیش کش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔صنعتِ ابہام (ambiguity) نے انھیں مزید اہم بنادیا ہے۔ان تمام عوامل نے عربی زبان کے بیانیہ ادب (narrative arts) کی صورت گری میں اہم کردار انجام دیا ہے، جس کاگہرا تعلق تمام انسانیت سے ہے۔‘
ترکی مصنف اُرہن پامُک اپنے ناولوں کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ادب کے نوبل انعام کے لیے ان کے نام کا اعلان کرنے کے بعد مختصر اخباری اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں ان کے انعام یافتہ ناولوں My Name is Red اور Snow کی اہمیت کو ان الفاظ میں پیش کیا گیا:’مصنف اپنے شہر کے اُداس اور حزنیہ وجود (melancholic soul) کے محرکات جاننے کی تلاش میں جو نئی علامات (new symbols) تلاش کرتا ہے وہ وہاں موجود انتشار اورثقافتوں کے درمیان ربط کا کام کرتی ہیں‘۔
Leave a Reply