ایٹمی ٹیکنالوجی

پہلا ایٹم بم بنے ہوئے تقریباً نصف صدی گزر چکی ہے۔ ایک ایسا ہتھیار جس کی تباہ و بربادی کا کسی بھی اسلحے سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ درحقیقت ایٹمی ہتھیار وجود میں آنے کے بعد انسانوں کے قتلِ عام اور ملکوں کے حیاتی تنصیبات تباہ کرنے کی سمت اہم قدم اٹھایا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ خطرناک ترین جنگی ساز و سامان ان حکومتوں نے بنائے ہیں جو انتہائی شیطانی اور غیرانسانی اہداف و مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اسی بنا پر امریکا نے دنیا پر ظلم و ستم ڈھانے اور اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے پہلا ایٹم بم بنایا۔ واشنگٹن کے حکمرانوں نے ایٹم بم حاصل کرنے کے فوراً بعد اپنی بدنیتی کا بدترین شکل میں مظاہرہ کیا۔ ۶ اگست ۱۹۴۵ء کو ہیروشیما کے عوام میں امریکا کے بی۔۲۹ دیو پیکر طیارے کو دیکھ کر کسی قسم کا خوف و ہراس پیدا نہیں ہوا کیونکہ یہ طیارے شہر ٹوکیو پر بمباری کے لیے جا رہے تھے‘ لیکن خوش فہمی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہی اور ایٹمی بمباری کے نتیجے میں چند لمحوں میں تقریباً نوے فیصد شہر ہیروشیما تباہ ہو گیا۔ ایسی حالت میں کہ دنیا اس قتلِ عام سے حیرت زدہ تھی۔ ۹ اگست کو جاپان کا ایک اور شہر ناگاساکی بھی ہیروشیما جیسے انجام سے دوچار ہو گیا اور امریکی ایٹمی بموں سے ویرانے میں تبدیل ہو گیا۔ لاکھوں انسان امریکی جنگ پسندی اور توسیع پسندی کا شکار ہو گئے جو دوسری عالمی جنگ کے کھنڈرات پر اپنی آمرانہ اور شیطانی شہنشاہیت کا محل تعمیر کرنا چاہتا تھا۔ البتہ جلد ہی سابق سوویت یونین کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کی ایسی وحشتناک دوڑ شروع ہو گئی جس سے پوری دنیا خاص طور سے امریکی و روسی عوام کے درمیان خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس دوران امریکا نے اپنی ٹیکنالوجی اور مالی وسائل کے سہارے جنگی جہاز‘ بحری بیڑے‘ آبدوز اور انواع و اقسام کے میزائل تیار کر لیے۔ وہائٹ ہاؤس نے پچاس سال کے برسوں کے دوران ٹریلین ڈالر سے زیادہ ایٹمی ہتھیار تیار کرنے پر صرف کیے ہیں۔ اب اگر اتنے عظیم سرمائے کو دنیا سے غریبی دور کرنے یا خود امریکا میں فلاحی کاموں پر خرچ کیا جاتا تو عوام کی زندگی میں غیرمعمولی تبدیلیاں آجاتیں۔ امریکا نے ۱۹۴۵ء سے ۱۹۹۰ء تک ۷۰ ہزار سے زیادہ ایٹمی وار ہیڈز تیار کیے ہیں جو کرۂ ارض کو کئی بار تباہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح وہائٹ ہاؤس کے مدنظر نشانوں کو ہدف بنانے کے لیے امریکا نے اب تک ۴۶۸۰ ایٹمی بمبار اور ہزاروں ایٹمی میزائل بنائے ہیں۔ اس طرح امریکا انواع و اقسام کے ایٹمی اسلحوں کے انبار میں تبدیل ہو چکا ہے‘ جو پوری دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ شمار ہوتا ہے۔

اس خطرے کے پہلو اس وقت مزید اجاگر ہو جاتے ہیں‘ جب ہم یہ جان لیں کہ یہ ایٹمی اسلحے ایسی حکومت کے ہاتھوں میں ہیں‘ جو خوفناک اور تباہ کن ہتھیار استعمال کرنے میں سیاہ ترین ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ بنا برایں ہر حکومت سے زیادہ امریکی حکومت کے اندر ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ البتہ امریکی حکومت نے صرف ہیروشیما اور ناگاساکی پر ہی ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کیے بلکہ اس ملک نے گذشتہ برسوں میں ان ہتھیاروں کو محدود پیمانے پر استعمال کیے ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں خلیج فارس کی پہلی جنگ کے تھوڑے ہی دنوں بعد واضح ہو گیا کہ اس نے اس جنگ میں غیرافزودہ یورینیم سے تیار ہوئے بم استعمال کیے ہیں جو چھوٹے ایٹم بم کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ یہ ہولناک اسلحہ نشانہ پر لگنے کے بعد وسیع پیمانے پر تباہی مچاتے ہیں اور ایک وسیع علاقے میں آگ لگ جاتی ہے۔ اسی بنا پر بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیرافزودہ یورینیم سے تیار شدہ اسلحہ بھی دوسرے عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی طرح ممنوع ہیں۔ لیکن امریکی جرنلوں نے نہ صرف پہلی جنگ خلیج فارس میں بلکہ جنگ بلقان‘ افغانستان اور عراق پر ہونے والے حالیہ حملے میں بھی اسی قسم کے خطرناک ہتھیار استعمال کیے ہیں‘ جن علاقوں میں امریکا نے غیرافزودہ یورینیم سے تیار شدہ ہتھیاروں کو استعمال کیا ہے۔ وہاں بہت سے عام شہری ہلاک اور زخمی ہو گئے ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ خونی کینسر‘ معذور ہونا‘ بچوں کا ناقص الاعضا ہونا وغیرہ انہیں مہلک ہتھیاروں کے استعمال کا نتیجہ ہے۔ لیکن امریکی حکام اس قسم کے جرائم کا جواب دینے سے بھاگتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں اپنے بیمار فوجیوں کو بھی صحیح اطلاع نہیں دیتے‘ کیونکہ محاذ پر غیرافزودہ یورینیم کے استعمال سے بعض امریکی فوجی بھی ان بیماریوں کا شکار ہوئے ہیں۔ اس مسئلے سے امریکا میں کافی شور و غل برپا ہوا ہے۔

معروف انگیز صحافی رابرٹ فسیک نے برطانیہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’انڈیپنڈنٹ‘‘ میں لکھا کہ عراق میں غیرافزودہ یورینیم ڈی۔یو کا استعمال جنوب مشرقی عراق اور بصرہ کے اطراف میں بچوں کی ناگہانی موت اور کینسر میں اضافے کے باعث ہوا ہے۔ کچھ دنوں سے امریکی دانشور نیا ہتھیار تیار کرنے میں مصروف ہیں‘ جو منی نیوک نامی ایٹمی ہتھیار سے معروف ہے۔ ان ہلکے جنگی ہتھیاروں میں وحشت ناک دھماکے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اس ایٹمی ہتھیار کو زیرِ زمین اہداف کو نشانہ بنانے اور اسے تباہ کرنے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس قسم کے اسلحوں کی تیاری ایٹمی ریوالور بنانے کی سمت پہلا قدم ہے۔ منی نیوک اسلحوں سے بے گناہ لوگ زیرِ زمین پناہ گاہوں میں بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ اس طرح امریکا مختلف مقاصد کے لیے مختلف سائز کے وحشتناک ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے‘ جس سے عام طور پر بے گناہ عوام کو نقصان پہنچے گا۔

امریکا نہ صرف دنیا کے لیے ایک بڑا ایٹمی خطرہ شمار کیا جاتا ہے بلکہ اس قسم کے خطرات کا سرچشمہ بھی ہے۔ کنیڈین ماہر پل ہاریس کہتے ہیں: امریکا اب تک ۲۹ ملکوں کو غیرافزودہ یورینیم سے بنے ہوئے ہتھیار بیچ چکا ہے۔ اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ امریکا کے ذریعہ اس قسم کے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے۔ پل ہاریس مزید کہتے ہیں: امریکا نے اسرائیل کو غیرافزودہ ہتھیار دیے اور صیہونی حکومت نے اسے ۱۹۷۳ء کی سات روزہ جنگ میں استعمال کیا۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ واشنگٹن ایٹمی ہتھیار بنانے میں تل ابیب کے منصوبوں کی حمایت کر رہا ہے اور اس سلسلے میں اس نے صیہونی حکومت کی کافی مدد کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ حکومت جو این پی ٹی پر دستخط کرنے سے اجتناب کر رہی ہے۔ اس وقت اس کے پاس کم از کم دو سو ایٹم بم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایٹمی ہتھیار تباہ کن اور خوفناک جنگی اسلحہ ہے جس کے اثرات انسانوں اور ماحولیات پر مدتوں برقرار رہیں گے۔ اس وقت وہ لوگ جو ہیروشیما اور ناگاساکی میں ہلاک ہونے سے بچ گئے ہیں۔ ناقابلِ علاج بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان کے یہاں ناقص الخلقت بچے پیداہوتے ہیں۔ پل ہاریس تاکید کرتے ہیں کہ غیرافزودہ یورینیم بھی مہلک ہوتا ہے اور اس کے اثرات انسان کی تباہی و نابودی کے بعد بھی مدتوں کرہ ارض پر باقی رہیں گے۔ اس کے باوجود امریکا وہ واحد ملک ہے‘ جس نے مختلف قسم کے چھوٹے بڑے سائز کے ایٹم بم استعمال کیے ہیں اور اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے انبار میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ قابلِ توجہ یہ ہے کہ امریکا اپنے مخالف ملکوں کو اس قسم کے ہتھیار رکھنے کا الزام لگاتا ہے اور اس بہانے ان ملکوں کو دھمکی دیتا ہے اور صیہونی حکومت کی ایٹمی سرگرمیوں کی بھی حمایت کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے ایٹمی ہتھیار خاص طور پر امریکا کے ایٹمی ہتھیاروں سے عالمی برادری کے امن و امان کو خطرہ لاحق ہے۔ ضروری ہے کہ مختلف ممالک اور عالمی ادارے دنیا سے ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ کا خطرہ دور کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ اس خطرے کو دور کرنے کا بہترین راستہ بین الاقوامی اداروں کی نگرانی میں پوری دنیا سے اس قسم کے تمام اسلحوں کو تباہ کرنا ہے۔

ترجمہ: میثم رضا خان

(بحوالہ: ’’ایران براڈ کاسٹنگ‘‘)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*