دنیا تیل کے ایک نئے دور میں!

تیل کی قیمت ۵۰ ڈالر فی بیرل سے زیادہ ہو چکی ہے اور اس کا بہت زیادہ خوف پایا جاتا ہے کہ آئندہ برسوں میں تیل کی قیمت روز افزوں ہو گی۔ آئندہ تیل کا کیا ہو گا؟ اور عالمی معیشت پر تیل کی اس بڑھتی ہوئی قیمت کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ان کا جواب تلاش کرنے کے لیے ’’ٹائم‘‘ کے کالم نگار ایمی فیلڈمین (Amy Feldman) نے ڈینئیل یرجین (Daniel Yergin) سے سوال کیا جو تیل کے حوالے سے دنیا کے صفِ اول کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔ ۵۸ سالہ یرجین کیمبرج انرجی ریسرچ ایسوسی ایٹس کے چیئرمین ہیں اور سیکرٹری آف ایڈوائزری بورڈ کے ایک رکن ہیں نیز پُلیزر انعام یافتہ کتاب “The Prize: The Epic Quest for Oil, Money and Power” کے مصنف بھی ہیں۔


سوال: کیا تیل کی قیمت اسی طرح اونچی ہو گی؟

جواب: ہم تیل کی قیمت کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ لوگ اس سے بے خبر رہے لیکن اب یہ بالکل واضح ہے۔ ۴۰ ڈالر فی بیرل کی قیمت کے نیچے ایک نئی سطح ہے۔ مجھے یہ حیران کن معلوم ہوا کہ آج تیل کا بازار ۱۹۷۳ء کے بحران کے مقابلے میں کہیں زیادہ تنگ اور مشکل ہے۔ آپ اس میں ابھی کافی تغیر دیکھیں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ قیمتیں ۶۵ تا ۸۰ ڈالر تک چلی جائیں گی۔ کتنی اونچی یہ جائیں گی‘ اس کا انحصار جغرافیائی و سیاسی صورتحال نیز بازار کی نفسیات پر ہے۔

س: اونچی قیمتوں سے امریکا کی معیشت کو کس حد تک خطرہ لاحق ہے؟

ج: اب تو اونچی قیمتوں کے حوالے سے برداشت کا رجحان پایا جاتا ہے۔ لوگ عالمی اور امریکی پیداوار کی افزائش و ترقی پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ’’اونچی قیمتوں کا اثر کم ہوا‘ جتنا کہ تصور کیا جارہا تھا‘‘۔ یہ سچ ہے کہ تیل کا اتنا اثر ہماری معیشت پر نہیں ہے جتنا کہ ۷۰ کی دہائی میں تھا۔ ہم اس وقت جتنا تیل خرچ کرتے تھے آج اس کا نصف کرتے ہیں۔ لیکن جب آپ نے ۵۰ ڈالر فی بیرل سے زیادہ قیمت برداشت کر لی ہے تو معاشی اثر لوگوں کے قیاس سے عظیم تر ہو گا۔

س: بنیادی طور پر چین وہ عامل ہے جو قیمتوں کو اتنی اونچی رکھے ہوئے ہے؟

ج: گذشتہ سال ایک جنریشن میں تیل کی مانگ میں مستحکم اضافہ تھا اور ایک جنریشن میں معیشت کی ترقی بہت توانا تھی۔ چین کے تیل کی مانگ میں گذشتہ سال ۱۷ فیصد کا اضافہ ہوا یا کہہ لیں کہ تقریباً دس لاکھ بی بی ایل یومیہ کا۔ تیل کی تاریخ میں ایسا صرف چند بار ہوا ہے کہ مانگ صرف ایک ملک میں بی بی ایل یومیہ دس لاکھ بڑھ گئی ہو۔ ماضی میں ایسا ۱۹۷۷ء میں ہوا تھا‘ جب امریکا مندی کے رجحان سے باہر آرہا تھا۔ ہم اس کے پیچھے چین اور بھارت کے ساتھ جو کچھ دیکھ رہے ہیں تو ان کا معاملہ ۵۰ اور ۶۰ کی دہائی کے یورپی اقتصادی معجزہ کے مشابہ ہے۔ ۱۲ سال پہلے چین آئل امپورٹ بھی نہیں کرتا تھا۔ آج چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی تیل مارکیٹ ہے۔ امریکی Motorists جو کچھ پمپ پر دیکھ رہے ہیں وہ چین میں مضبوط اقتصادی ترقی کا مظہر ہے۔

س: کیا چین تیز رفتار ترقی کی اس شرح کو برداشت کرے گا؟

ج: لوگ یہ سوال اس وقت سے کرتے آرہے ہیں جب ۱۹۸۰ء میں وہاں ریفارم کا دور شروع ہوا۔ اب تک چین ۸‘ ۹‘ ۱۰ فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ کی شرح برداشت کرتا رہا ہے۔ اب یہ لوگ ترقی کی رفتار کو کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں کیونکہ انہیں بہت زیادہ سرمایہ کاری اور افراطِ زر کے متعلق تشویش ہے۔ ہمیں کبھی یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ چیزیں ہمیشہ راست سمت میں آگے بڑھیں گی۔ لیکن جب تک چین اور ہندوستان مضبوط اقتصادی ترقی کی شرح کا تجربہ کرتے رہیں گے تو یہ تجربہ بڑھتی ہوئی تیل کی مانگ میں منتقل ہوتا رہے گا۔

س: اس بڑھتی ہوئی مانگ سے آئل انڈسٹری کس طرح بخوبی نمٹے گی؟

ج: جب مارکیٹیں دشوار اور تنگ ہوتی ہیں تو تمام اوپیک ممالک اپنے آپ کو رواں اور برقرار رکھنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ تقریباً تمام ہی ممالک اپنی استطاعت کے مطابق پروڈکشن کر رہی ہوتی ہیں۔ اونچی قیمتیں سرمایہ کاری کی شدتِ حوصلہ افزائی کی تخفیف کا سبب بنتی ہے۔ ہم غیر اوپیک پیداواری ممالک میں نمایاں ترقی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ مثلاً آذربائیجان‘ انگولا‘ قازقستان اور روس میں۔ سعودیوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنی پیداواری صلاحیت میں آئندہ پانچ برسوں میں تقریباً ۲۰ فیصد کا اضافہ کریں گے جو کہ ایک نمایاں اضافہ ہو گا۔

س: کیا عراق ایک عامل ہو سکتا ہے؟

ج: حتی کہ بغیر شورش اور مزاحمت کے بھی عراقیوں کو یہ معلوم کرنے میں وقت لگتا کہ وہ اپنی آئل انڈسٹری کا کیا کریں۔ اس وقت عراق دوسری صف کا ایکسپورٹر ہے۔ گذشتہ سال کے مقابلے میں اس کی ایکسپورٹ امسال نیچے ہے۔ عراقی آئل انڈسٹری کو اس وقت تقریباً ۴۰ ڈالر بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ یہ اپنے ذخائر کے شایانِ شان پیداوار کا آغاز کر سکے۔ اس کے لیے اسے نہ صرف وقت درکار ہے بلکہ پیسہ‘ استحکام‘ سلامتی اور سیاسی اتفاقِ رائے کی بھی ضرورت ہے۔

س: آئل مارکیٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کے پیشِ نظر بڑا تصویری خاکہ کیا ہے؟

ج: میری آئندہ کتاب اس بارے میں ہو گی کہ کس طرح آئل اور جیو پالٹیکس ایک دوسرے سے وابستہ و پیوستہ ہیں۔ نوے کی دہائی کا جو عرصہ تھا‘ اس میں سلامتی کے یہ تمام مسائل ایک طرف رکھ دیے گئے تھے۔ اب ہمیں یہ احساس ہو چلا ہے کہ تیل اور قوموں کا انجام ایک دوسرے سے بہت مضبوطی کے ساتھ وابستہ ہے۔

(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘۔ ۲۵ اپریل ۲۰۰۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*