اومان بھی جاگ اٹھا ہے!

اومان کو دنیا کی سب سے چارمنگ پولیس اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔ موجودہ سلطان قابوس بن سعید نے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں اپنے والد کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور اب وہ مشرق وسطیٰ میں طویل ترین مدت تک راج کرنے والے حکمرانوں کی صف میں کھڑے ہیں۔ اور شاید وہ دنیا کے واحد مطلق العنان حکمران ہیں جنہوں نے اپنے کسی جانشین کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔ گزشتہ برس اومان میں بھی لوگوں نے احتجاج کیا اور جمہوریت کے حق میں آواز بلند کی تو چند ایک اصلاحات نافذ کی گئیں مگر ان سے کچھ بھلا نہ ہوا۔ اب بھی بیشتر اختیارات سلطان قابوس کے ہاتھ میں ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ سلطان قابوس مزید اختیارات سے دستبردار ہوں۔ ویسے اومان میں احتجاج کی سطح وہ نہیں جو مشرق وسطیٰ کے دوسرے بہت سے ممالک میں رہی ہے۔

بہت سے سیاسی کارکنوں کو اس بات سے اطمینان ہے کہ سلطان قابوس نے کسی کو جانشین مقرر نہیں کیا۔ ان کا خیال ہے کہ اومان میں چیک اینڈ بیلنس قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سلطان قابوس کے خلاف کچھ کرنے سے بہتر یہ ہے کہ کسی ولی عہد کی آمد کو روکا جائے۔

اومان میں تبدیلی مرحلہ وار آ رہی ہے۔ یہ عمل بہت سست رفتار ہے مگر کچھ لوگ یہ سوچ کر مطمئن ہیں کہ چلیے، تبدیلی کی راہ ہموار تو ہوئی۔ ملک کی معیشت کا مدار آئل انڈسٹری پر ہے۔ آئل انڈسٹری سے وابستہ افراد بہتر تنخواہوں اور مزید سہولتوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے احتجاج، ہڑتالوں اور دھرنوں سے انڈسٹری کو نقصان پہنچا ہے۔ جمہوریت نواز کارکنوں کو احتجاجی ملازمین کی حمایت کرنے پر گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ۱۱؍ اور ۱۲؍ جون کو مسقط میں سینٹرل پولیس اسٹیشن کے باہر مظاہرے کرنے والوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ یہ لوگ پہلے سے گرفتار شدہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ بحرین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں سیاسی کارکنوں سے بدسلوکی کے خلاف احتجاج کی لَے تیز ہوتی جارہی ہے۔ اب اومان بھی اس کلب کا حصہ بن گیا ہے۔

اومان میں لوگ اب تک سلطان قابوس پر براہِ راست تنقید سے مجموعی طور پر احتراز برت رہے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سلطان قابوس کو نشانہ بنانے کے بجائے جمہوریت کے حق میں پیغامات چھوڑے جارہے ہیں۔ چند ایک افراد نے ٹوئٹر پر سلطان کے خلاف بھی ریمارکس دیے ہیں۔ پراسیکیوٹر جنرل نے انتباہ کیا ہے کہ جو لوگ سلطان کے خلاف نازیبا زبان استعمال کر رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

اومان مجموعی طور پر مغرب نواز ہے۔ وہاں ہونے والے احتجاج اور دھرنوں کو خبروں میں کم ہی جگہ مل پائی ہے۔ جب عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی تب اومان میں بھی لوگ بیدار ہوئے مگر خبروں میں انہیں جگہ نہ مل پائی جس سے دنیا کو یہ تاثر ملا جیسے اومان میں کچھ ہوا ہی نہیں۔ لوگ بہتر تنخواہوں اور اعلیٰ تر معیار زندگی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ چند ایک فائیو اسٹار ہوٹلوں کے باہر بھی احتجاج کیا گیا ہے تاکہ حکمراں طبقے کو عوامی مسائل کے حل کی طرف مائل کیا جاسکے۔ سلطان قابوس نے بحرین کے حکمرانوں کے مانند زیادہ سخت رویہ اختیار کرنے پر چند ایک اقدامات کو ترجیح دی۔ ابتدائی مرحلے میں جب پولیس کے ہاتھوں دو مظاہرین قتل ہوئے تو صورت حال کو طاقت کے مزید استعمال کے ذریعے قابو کرنے کے بجائے سلطان نے بہتر یہ سمجھا کہ چند ایک اصلاحات نافذ کی جائیں۔ انہوں نے چند وزرا کو برطرف کیا، عدلیہ میں کچھ بہتری لانے کی کوشش کی، سیاسی کارکنوں کو رہا کیا اور سلامتی کے اداروں میں بھی چند ایک ردوبدل کیے۔ ساتھ ہی انہوں نے میڈیا کو بھی کچھ آزادی سے نوازا۔

اصلاحات نے اومان کے باشندوں کو جمہوریت نواز بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ برس انتخابات میں پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی سے زائد اومانی پولنگ اسٹیشن آئے۔ وہ جانتے ہیں کہ جمہوری عمل میں حصہ لے کر ہی وہ کسی حقیقی تبدیلی کی راہ ہموار کرسکیں گے۔ اومان میں ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ ووٹ دینے کے قابل عمر کے دو تہائی اومانی خود کو رجسٹر کراسکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی ہے مگر مجموعی طور پر لوگ پرامید ہیں کہ ملک جمہوریت کی راہ پر گامزن ہو رہا ہے۔

اومان میں اب لوگ آن لائن اظہار رائے کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ سبلت اومان (Sablat Oman) کے نام سے ایک آن لائن فورم پر اومان میں پختہ عمر کے دس فیصد افراد روزانہ جاتے ہیں اور اپنی رائے دل کھول کر بیان کرتے ہیں۔ وزرا اور حکام اس آن لائن فورم کو پڑھنا اپنے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ بہت سے نوجوان خاموشی سے سیاسی اور معاشرتی مسائل پر آن لائن بحث کا اہتمام کر رہے ہیں۔ حکومت کے خلاف کوئی بات کرتے ہوئے لوگ ہچکچاتے ہیں اور اصلاحات کے حامی اومانی بھی کھل کر کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں۔

سلطان قابوس نے عوام کو خوش رکھنے کے لیے چند ایک اقدامات کیے ہیں۔ حکومت کے سول اور سیکورٹی اداروں میں پچاس ہزار نئی ملازمتوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ چند ایک دوسری ترغیبات بھی دی گئی ہیں۔ مگر اب تک صورت حال کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ آئل انڈسٹری تیزی سے زوال کی طرف جارہی ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں قائم خلیجی مجلس تعاون نے اومان کے لیے دس ارب ڈالر کا امدادی پیکیج منظور کیا مگر اومان نے یہ پیکیج لینے سے انکار کیا کیونکہ وہ خودمختار رہنا چاہتا ہے۔ اومان کی نصف آبادی عبادی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ سعودی عرب میں وہابیوں کی اکثریت ہے جو اومان کے لوگوں کو بہت حد تک مشکوک عقائد کا حامل سمجھتی ہے۔

اب تک اومانی پُرسکون رہے ہیں مگر اب انہیں بہت کچھ سوچنا ہے۔ ایک طرف تو یہ سوال ہے کہ سلطان قابوس کے بعد کیا ہوگا اور ساتھ ہی یہ سوال بھی ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ آئل انڈسٹری کے زوال کے بعد کیا ہوگا۔ اومان نے اب تک متبادل معیشت کے بارے میں نہیں سوچا۔

(“Oman Waking up too”… “Economist”. June 23rd, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*