عمان مشکلات کا شکار۔۔۔
Posted on August 16, 2019 by Robert Mogielnicki in شمارہ 16 اگست 2019 // 0 Comments

عمان خطرناک پڑوسیوں میں گھرا ہوا ہے۔ جون میں پیٹرو کیمیکل کے دوٹینکروں پر خلیج عمان میں حملہ کیاگیا، اس سے قبل مئی میں بھی چار ٹینکروں پر حملہ کیاجاچکا تھا۔اس دوران پڑوسی ملک یمن میں بھی قبائلی جھگڑے جاری ہیں، باغی المہرہ قبائل کافی عرصے تک عمان کے زیر اثر تصور کیے جاتے رہے۔سیاسی عدم استحکام کے باوجود عمان نے تاریخی طور پرعلاقائی طاقتوں کے ساتھ مثبت تعلقات قائم رکھے ہیں،جس کی وجہ سے عمان کو مشرق وسطیٰ میں ثالثی کا منفرد کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔علاقائی کشیدگی میں کمی کے لیے عمان کا کردار اہمیت کا حامل ہے،لیکن عمان کو چند فوری اور بڑے مسائل کا سامنا ہے،جس کی وجہ سے اس کا ثالثی کا کردار متاثر ہوسکتا ہے۔عمان مسلسل بڑھتے ہوئے قرض اور مالیاتی خسارے کا شکار ہے، جس کی وجہ سے وہ پڑوسی ممالک سے معاشی امدادلینے پر مجبور ہے۔عمان کو مشرق وسطیٰ کا سوئٹزرلینڈ کہاجاتا ہے،لیکن اس کے باوجود خطے میں کشیدہ صورتحال کی وجہ سے عمان کی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔مقبول رہنما سطان قابوس بن سعید نے ایران، قطر اور اسرائیل کے ساتھ مشکل تعلقات میں احتیاط برتی ہے۔ جب کہ کئی دہائیوں تک ملک کے اندر بھرپور سیاسی اعتمادکا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ابھی تک اپنے جانشین کا اعلان نہیں کیاہے۔ بڑھتا معاشی دباؤ، خلیج میں کشیدہ صورتحال اور پڑوسی ممالک میں سیاسی عدم استحکام عمان کے مثبت کردار کو متاثر کرسکتا ہے۔ آئندہ برسوں میں کوئی بھی تبدیلی خطے کی صورتحال کونئی شکل دے سکتی ہے۔
مالی بحران
عمان کو سخت مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف نے ۲۰۱۹ء میں عمان کی شرح ترقی ایک اعشاریہ ایک فیصد سے لے کرصفر اعشاریہ تین فیصد تک رہنے کی پیشگوئی کی ہے۔ اپریل میں ’’اسٹینڈرڈ پاور گلوبل ریٹنگ‘‘ نے ناکافی مالیاتی اقدامات کی وجہ سے عمان کو مستحکم سے منفی درجہ دے دیا ہے۔ ۲۰۱۹ء میں عمان کا بجٹ خسارہ ۲۷ء ۱۷؍ ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، جو مجموعی قومی پیداوار کا ۹ فیصدبنتا ہے۔ حکومتی قرضوں کا مجموعی حجم جو ۲۰۱۴ء میں جی ڈی پی کا محض۵ فیصد تھا، اب ۲۰۱۸ء میں بڑھ کرجی ڈی پی کے ۵۰ فیصد پر پہنچ گیا ہے۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق ۲۰۲۲ء میں قرضوں کا حجم جی ڈی پی کا ۶۴ فیصد ہوگا، تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے عمان کا مالیاتی خسارہ بڑھا اور سرکاری آمدنی میں کمی ہوتی رہی، جس کے نتیجے میں ملک کو بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑا۔ معاشی امداد اور ترقیاتی فنڈز امیر عرب ملکوں کے لیے بیرون ملک اثرورسوخ بڑھانے کا اہم ہتھیار ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت نے بحرین کو دس ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا، جبکہ قطر نے ترکی کی تباہ حال بینک انڈسٹری کی بہتری کے لیے ۱۵؍ارب ڈالر کا وعدہ کیا، اندازہ نہیں کہ ان ممالک نے فنڈ فراہم کرنے کے وعدے پر کتنا عمل کیا۔ ۲۰۱۱ء کے احتجاج کے بعد سے بحرین خلیجی ممالک سے دس ارب ڈالر کی امداد وصول کرچکا ہے، جبکہ عمان نے اس طرح کے پیکیج کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ ہوسکتا ہے کہ حالیہ معاشی بحران کے بعد سلطان قابوس مستقبل میں مالیاتی امداد قبول کرلیں، اگرچہ اس کا انحصار مالیاتی پیکیج سے منسلک شرائط پر زیادہ ہوگا۔ عمان معاشی محتاجی سے بچنے کی کوششیں کررہا ہے، لیکن اس کی مالیاتی صلاحیت بہت محدود ہوچکی ہے، عمان کے مرکزی بینک کے ذخائر مجموعی طور پر ۱۷؍اعشاریہ ۴؍ارب ڈالر ہیں، جو ملک کے بڑھتے مالیاتی خسارے کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ملک کے جنرل ریزرو فنڈ کے پاس کوئی۱۸؍ارب ڈالر کے اثاثے موجود ہیں، عمان نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے عالمی بینکوں کی خدمات بھی حاصل کی ہیں، جس کے ذریعے رواں برس ۲؍ارب ڈالر جمع ہونے کی امید ہے۔ عمان نے اب تک ’’ویلیو ایڈڈ ٹیکس‘‘ نافذ نہیں کیا ہے، جو تمام خلیجی ممالک میں نافذ کرنے کا اعلان ہوچکا ہے۔ عمان اب تک بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے تمباکو، شراب، انرجی ڈرنکس اور سور پر ایکسائز ٹیکس نافذ کرچکاہے، جس سے ۲۶۰ ملین ڈالر کی اضافی آمدنی ہوگی، جو بجٹ خسارے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ قرضے لینے کے علاوہ حکومت اثاثے بھی فروخت کرسکتی ہے، لیکن اس سے معاشی عدم استحکام کا تاثر ابھرے گا، یکم جولائی کو سلطان قابو س نے ۴ شاہی حکم نامے جاری کیے ہیں، جس میں بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے خصوصی قانون بھی شامل ہے۔
سیکورٹی خدشات
خطے کی سیکورٹی صورتحال کی وجہ سے عمان کو سرمایہ کاری کا مرکز بنانے کی کوششوں کو دھچکا لگ سکتا ہے۔ مئی میں فجیرہ، اور جون میں خلیج میں ٹینکروں پر ہونے والے حملے عمان کے بہت ہی نزدیک ہوئے۔ میری ٹائم سیکورٹی خدشات نے صحار کی بندر گاہ اور فری زون پر غیر ملکی سرمایہ کاری کو غیر محفوظ کردیا ہے۔ صحار بندرگاہ فجیرہ سے ۵۵ میل دور جنوب کی طرف واقع ہے، جون کے آخر میں صحار بندر گاہ پر ہائیڈرو کاربن اورپیٹرو کیمیکل کے نئے پلانٹس کی تعمیر کا اعلان کیا گیا تھا، جس پر ڈھائی ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری متوقع تھی۔ عمان کا علاقہ مسندم دنیا کے اہم ترین سمندری تجارتی راستے تک رسائی فراہم کرتا ہے، لیکن اس علاقے کا جغرافیہ بھی عمانیوں کے لیے باعث تشویش ہے، کیوں کہ مسندم آبنائے ہرمز کے ساتھ واقع ہے اور مکمل طور پر عرب امارات کے علاقوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس علاقے کو نہ صرف آبنائے ہرمز پر تجارتی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ فوجی کارروائیوں کے لیے اسٹرٹیجک اڈا بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔ خلیجی ممالک پر طویل عرصے سے عمان کے اہم اسٹرٹیجک علاقوں میں زمین کی خریداری کے ذریعے اثر و رسوخ بڑھانے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ ۲۰۱۷ء میں ابوظہی کے ایک میوزیم میں لگائے گئے نقشے میں مسندم کو عرب امارات کا علاقہ دکھایا گیا ہے، جس سے متحدہ عرب امارات کے عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ ۲۰۱۸ء میں سلطان قابوس نے مسندم سمیت عمان کے اسٹرٹیجک علاقوں میں غیر ملکیوں کے زمین خریدنے پر پابندی عائد کردی۔ عمان کے جنوبی علاقے ظفار کی سلامتی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں، ظفار یمن کے سرحدی علاقے مہرہ کے ساتھ واقع ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور عمان کے درمیان جاری کشمکش یمن میں قبائلی تصادم اور عدم استحکام کی وجہ ہے۔ مہرہ قبائل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی عمان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
رہنما کی اطاعت
دیگر خلیجی ریاستوں کے برعکس عمان میں کسی کو ولی عہد نامزد نہیں کیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سلطان قابوس نے مسقط اور صلالہ کے شاہی محلات میں اپنے جانشین کا نام بند لفافے میں لکھ کر رکھ دیا ہے۔ بہت سے مبصرین کا کہناہے کہ شاہی خاندان کے افراد پر مشتمل کونسل ہی اگلے سلطان کا فیصلہ کرے گی، لیکن یہاں بہت کچھ داؤ پر لگا ہے، مقامی سطح پر عمان کو مسلسل بے روزگاری کے چیلنج کا سامنا ہے، ورلڈ بینک کے مطابق نوجوانوں میں بے روزگاری کا تناسب ۴۹ فیصد ہے۔ سلطان قابوس کی حکومت طویل عرصے سے ہائیڈرو کاربن سے حاصل آمدنی کو سماجی تصادم روکنے اور وسیع انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ کررہی ہے۔ ملک کے وژن ۲۰۴۰ء میں تیل پر انحصار کم کرکے دیگر شعبوں میں معاشی ترقی کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
نئے سلطان کو بھی عدم استحکام کا شکار مشرق وسطیٰ ملے گا، جہاں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی نوجوان قیادت خطے کے حوالے سے اپنا ایجنڈا رکھتی ہے، جو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے طویل مدتی اتحادی کا استقبال کرے گی۔ نئی عمانی قیادت کس طرح علاقائی اتحادیوں کے ساتھ خود کو جوڑے گی، اس کے بعد ہی خلیج میں عمان کے منفرد کردار کے قائم رہنے کے بارے میں کچھ کہا جاسکتا ہے۔
خلیج تعاون کونسل کا مستقبل
عمان نے ہمیشہ خطے میں ایک منفرد سوچ اپنائی ہے، جس کے تحت اس کے ایران کے ساتھ گرم جوش تعلقات قائم ہوئے۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۰ء میں عمان نے ایران کے ساتھ دفاعی تعاون کا معاہدہ کیا، جس کے تحت اپریل ۲۰۱۹ء میں ملٹری کمیشن کا چھ روزہ اجلاس ہوا اور مشترکہ بحری مشقیں کی گئیں، دونوں ممالک نے مزید فوجی تعاون بڑھانے کے معاہدے پر دستخط بھی کیے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے عمان کو طویل عرصے تک خلیج تعاون کونسل میں غیر جانبدار کردار ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔ جس کی وجہ سے عمان کو خطے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے، جیسا کہ یمن کے تنازع میں دیکھنے میں بھی آیا۔ سعودی، اماراتی بلاک کی عمان کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کھلے عام کوششیں ایک نئی خارجہ پالیسی اور معاشی اتحاد کو جنم دے سکتی ہیں، جس سے عمان کا خطے میں ثالثی کا کردار اور غیر جانبداری کی شہرت کم ہوتی چلی جائے گی۔ خلیجی ممالک کی نظر میں عمان کو لاحق مالی، سیاسی اور سلامتی کے بحران کے تناظر میں خطے میں عمان کا غیر جانبدار رہنا طویل مدتی فوائدکا باعث بن سکتا ہے۔ دیکھنا ہوگا عمان آنے والے برسوں میں ان چیلنجوں سے کیسے نمٹتا ہے، جس کے بعد ہی خطے کی صورتحال اور خلیج عرب کے اہم کھلاڑیوں کے تعلقات میں عمان کے کردار کا فیصلہ ہوگا۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Fiscal and security pressures highlight, and threaten, Oman’s unique position in the region”. (“agsiw.org”. Jul 9, 2019)
Leave a comment