کچھ دنوں سے اس نوعیت کی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ جمال خاشقجی کو مغربی طرز کی جمہوریت سے کچھ خاص غرض نہ تھی اور یہ کہ وہ سیکولر ازم کو دشمن گردانتا تھا۔ سعودی نواز سوشل میڈیا اور انتہائی دائیں بازو کے مبصرین نے جو کچھ لکھا ہے، اس کی روشنی میں امریکا کے لیے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ جمال خاشقجی کے معاملے میں بہت آگے بڑھنے سے پہلے یہ سوچ لے کہ جمال خاشقجی کو جتنا آزاد خیال تصور کیا جارہا ہے، وہ اُس سے کہیں کم آزاد خیال تھا۔ مزید یہ کہ جمال خاشقجی ایک انتہا پسند تھا اور جو لوگ اس کے قتل کی مذمت کررہے ہیں وہ دراصل امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کشیدہ کرنے سے متعلق ایرانی ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں۔
میں اس حوالے سے کسی نظریۂ سازش پر تو بات نہیں کروں گا مگر ایسی افواہوں کو جن نکات سے تقویت مل رہی ہے، اُن کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے۔
٭ جی ہاں، اخوان المسلمون میں جمال خاشقجی کے بہت سے دوست تھے۔ اس کے دوست اور معروف تجزیہ کار ڈیوڈ اگنیشیس نے بھی لکھا ہے کہ اس نے اٹھتی جوانی میں اخوان سے وابستگی اختیار کی تھی اور بعد میں وہ اس سے الگ ہوگیا تھا۔ جو بھی جمال خاشقجی کو اچھی طرح جانتا ہے وہ ایسی کسی بھی بات سے زیادہ حیرت زدہ نہیں ہوگا۔ ماضی میں خواہ کچھ ہوا ہو مگر اس حقیقت کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اظہارِ رائے کی آزادی کے حوالے سے کام کرنے پر جمال خاشقجی کو اغوا کرنے کے بعد قتل کردیا گیا۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مغرب میں جو لوگ اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے جدوجہد سے وابستہ رہے ہیں، وہ اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ کسی کے سیاسی نظریات سے قطعِ نظر اظہارِ رائے کی آزادی سے متعلق اس کے حق کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ یہ معاملہ موجودہ سیاسی نظام کے خلاف غیر مقبول نظریات کی حفاظت کے حوالے سے انتہائی دائیں بازو کے لیے ایسڈ ٹیسٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر ہم ایک لمحے کے لیے فرض بھی کرلیں کہ جمال خاشقجی اخوان کا رکن تھا اور عرب دنیا کو اسلامی رنگ میں رنگا ہوا دیکھنا چاہتا تھا تب بھی اس بات کی شدید مذمت کی جانی چاہیے کہ اسے اپنی بات کہنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
٭ سرگوشیوں پر مبنی ایک مہم یہ بھی چل رہی ہے کہ سرد جنگ کے دور میں جب سابق سوویت یونین کی افواج نے افغانستان پر لشکر کشی کی، تب جن مجاہدین نے سوویت افواج کے آگے بند باندھا اُن کی جدوجہد کی رپورٹنگ بھی جمال خاشقجی نے کی اور اس نے اسامہ بن لادن کو بھی کور کیا۔ اب اس نکتے پر زور دیا جارہا ہے کہ مجاہدین کی سرگرمیوں کی کوریج کو مغرب مخالف تصور کیا جانا چاہیے۔ معاملہ یہ ہے کہ اس دور میں جمال خاشقجی سعودی عرب کے ایک اخبار کا نمائندہ تھا اور اپنا کام کر رہا تھا۔ سعودی عرب کی حکومت افغانستان پر سوویت لشکر کشی کی مخالف تھی اور اس نظریے سے جمال خاشقجی بھی متاثر رہا ہوگا۔ ایسے میں جمال خاشقجی کو اگر مغرب مخالف تصور کیا جائے تو مغربی دنیا سے تعلق رکھنے والے میڈیا کے ان نمائندوں کے بارے میں کیا کہا جائے گا، جو افغانستان پر سوویت لشکر کشی اور اس کے خلاف مجاہدین کی سرگرمیوں کی کوریج کرتے رہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ریگن انتظامیہ کے تحت کانگریس بھی افغانستان پر سوویت لشکر کشی کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے فعال رہی اور اس حوالے سے سعودی عرب سے غیر معمولی اشتراکِ عمل کیا گیا؟ دونوں نے مل کر مجاہدین کی حمایت اور مدد کی تاکہ سوویت افواج کو افغانستان سے نکالا جاسکے۔ ڈیوڈ اگنیشیس نے لکھا ہے کہ جمال خاشقجی کے دل میں اسامہ بن لادن کے لیے نرم گوشہ ضرور تھا مگر بعد میں جب اس نے معاملات کی خرابی دیکھی تو خیالات میں تبدیلی رونما ہوئی۔ جب اس نے دیکھا کہ اسامہ بن لادن مغرب کے خلاف جارہا ہے تو وہ اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوا۔ اور وہ اس خیال کے بھی حامل تھے کہ نائن الیون کے حوالے سے اسامہ بن لادن کو ذمہ دار قرار دینے کے معاملے میں سعودی عرب کو دو ٹوک موقف اپنانا چاہیے تھا۔
سعودی عرب کی نظر میں آج اخوان المسلمون دہشت گرد تنظیم ہے، یہ تبدیلی نئی ہے۔ عشروں تک سعودی عرب نے اپنے ملکوں میں اذیت کا سامنا کرنے والے اخوان المسلمون کے ارکان کا خیرمقدم کیا اور مدد بھی کی۔ شام، عراق اور مصر میں اخوان المسلمون کے کام کرنے والوں کو سعودی عرب عشروں تک اپنا سمجھتا رہا کیونکہ تب اُسے عرب دنیا میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے اخوان جیسی تنظیموں کی حمایت درکار تھی۔ سعودی عرب نے اسلام کے حوالے سے جو نظریہ اپنا رکھا ہے، اسے اخوان کی حمایت حاصل تھی کیونکہ اخوان کی قیادت کا بنیادی تصور یہ تھا کہ ہر اس حکومت کی حمایت کی جانی چاہیے، جو اسلامی تعلیمات کو نافذ کرنے میں لیت و لعل سے کام نہ لے۔ یوں اخوان کی نظر میں سعودی حکومت قابلِ قبول اور قابلِ احترام تھی۔ جمال خاشقجی نے بھی لکھا ہے کہ سعودی عرب میں اخوان کے ارکان کا خیر مقدم ہی نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اُن کی تعلیمات اور سرگرمیوں پر بھی کوئی قدغن نہ تھی کیونکہ سعودی حکومت کا خیال تھا کہ اخوان اسلامی تعلیمات کے فروغ کے ذریعے لوگوں کا ذہن اصلاح کی طرف موڑ رہی ہے جس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر معاشرتی اصلاحات کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ اس پورے عمل میں کسی بھی مرحلے پر سعودی حکومت یا سعودی حکمراں خاندان کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والی کوئی بات نہ تھی۔
سعودی عرب میں اصلاحات کے حامی اسلام پسند حلقوں کے ابھرنے، ترکی میں رجب طیب ایردوان کے برسر اقتدار آنے اور پھر عرب دنیا میں بیداری کی لہر دوڑنے سے خطے میں تمام مطلق العنان حکومتوں کو اپنے وجود کی فکر لاحق ہوئی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ریاستوں کے حکمراں خاندانوں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ اب ان کے وجود کو غیر معمولی خطرہ لاحق ہے کیونکہ مصر اور تیونس کے عام انتخابات میں اخوان المسلمون اور اس کے حمایت یافتہ امیدواروں نے نمایاں کامیابی حاصل کرکے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ اس بدلی ہوئی صورتِ حال میں سعودی عرب اور اس کی حلقہ بگوش تمام ریاستوں نے اخوان کو اپنے وجود کے لیے حقیقی خطرہ تصور کرنا شروع کیا اور یوں ان تمام ریاستوں میں اخوان المسلمون کے لیے مشکلات بڑھتی گئیں۔ سعودی عرب اور مطلق العنان حکومت والی دیگر عرب ریاستوں میں شہری آزادیوں کو یقینی بنانے پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔ یہی سبب ہے کہ جب اخوان نے عوام کے حقوق کی بات کی اور شہری آزادی یقینی بنانے پر زور دیا تو اسے دوبارہ دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کرنے کی باضابطہ مہم شروع کی گئی۔ یہی سبب ہے کہ سعودی عرب نے مصر میں اخوان کی منتخب حکومت اور منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے میں جنرل عبدالفتاح السیسی کی حمایت اور مدد کی۔ جب عبدالفتاح السیسی نے مصر میں کریک ڈاؤن کیا تو سعودی عرب نے اس کی بھرپور حمایت کی۔ اس کریک ڈاؤن میں ۸۰۰ سے زائد سیاسی مخالفین یعنی اخوان المسلمون کے ارکان کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور ہزاروں افراد کو پابندِ سلاسل کردیا گیا۔ اخوان کو ۲۰۱۳ء میں سعودی عرب کی بھرپور حمایت و امداد کے تحت اقتدار سے محروم کیا گیا، مگر خود سعودی حکومت نے اخوان کو کم و بیش ایک سال کے بعد دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔
٭ سعودی عرب اگر اخوان المسلمون کو اپنے وجود کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے تو یہ بھی محض منافقت ہے، کیونکہ سعودی عرب کے قریب ترین حلیفوں کے ہاں اخوان سے تعلق رکھنے والی شخصیات سیاسی عمل کا غیر معمولی حصہ رہی ہیں اور اب بھی معاملہ زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ بحرین اور کویت کی پارلیمان میں اخوان المسلمون کی طرف واضح جھکاؤ رکھنے والوں نے سیاسی عمل میں بھرپور حصہ ہی نہیں لیا بلکہ حکمراں سیٹ اپ کا حصہ ہیں۔ اردن میں اخوان سے تعلق رکھنے والے سیاست دان ایک مدت سے سیاسی عمل اور اقتدار کا باضابطہ حصہ ہیں۔ یہی حال مراکش کا ہے جہاں اخوان سے تعلق رکھنے والی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی دو ادوار سے حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔ یہ تمام ریاستیں سعودی عرب اور امریکا کی دوست ہیں۔ اور ان سب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا ہے۔ ایسے میں یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ سعودی عرب نے ان میں تو اخوان کا وجود برداشت کر رکھا ہے مگر اپنے ہاں نہیں کیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکام سے اس سلسلے میں بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہر عرب ملک اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے مرتب کرتا ہے اور آزاد فیصلے کرتا ہے۔ یہ بات حلق سے نہیں اترتی کیونکہ اگر ان تمام ریاستوں کی نظر میں اخوان المسلمون واقعی دہشت گرد تنظیم ہوتی تو وہ اسے کسی بھی حال میں اپنے سیاسی نظام اور ایوان اقتدار کا حصہ بنانے پر راضی نہ ہوتے۔
ان تمام امور کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا نہیں تھا کہ اخوان کے حوالے سے جو تحفظات ہیں وہ ختم ہوگئے ہیں یا جمہوریت کے بارے میں اخوان کے جو بھی نظریات ہیں وہ اب قابلِ قبول ٹھہرتے ہیں۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ سعودی حکومت اور اخوان کا معاملہ وہ نہیں ہے، جو دکھائی دے رہا ہے۔ جو لوگ اخوان المسلمون سے خاشقجی کی ہمدردی کے معاملے کو سعودی عرب کے لیے سیاہ دھبّے کا درجہ دے رہے ہیں وہ دراصل یہ بتارہے ہیں کہ انہیں سعودی عرب، اس خطے اور اس کی تاریخ کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“On Jamal Khashoggi, the Muslim Brotherhood, and Saudi Arabia”. (“brookings.edu”. October 19, 2018)
Leave a Reply