ایک زمانے سے بھارت میں مسلمان زوال کا شکار ہیں۔ معاشی اور معاشرتی پستی کے حوالے سے ان کا ذکر نمایاں طور پر کیا جاتا ہے۔ معاشی اور معاشرتی اشاریوں میں بھارتی مسلمانوں کی کارکردگی شیڈولڈ کاسٹ ہندوؤں اور دیگر پس ماندہ طبقات کے ہندوؤں سے بھی گئی گزری ہے۔
تعلیمی اداروں میں ۱۵ سے ۲۴ سال تک کے نوجوانوں کی انرولمنٹ کے حوالے سے مسلمانوں کا حصہ صرف ۳۹ فیصد ہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں یہ تناسب ۵۹ فیصد، شیڈولڈ کاسٹ کے ہندوؤں میں ۴۴ فیصد اور دیگر طبقات کے پسماندہ ہندوؤں میں ۵۱ فیصد ہے۔
۲۰۱۹ء کے عام انتخابات نے بھارتی سیاست میں مسلمانوں کی انتہائی کمزور پوزیشن بالکل واضح کردی۔ ایوان زیریں (لوک سبھا) میں مسلمانوں کی نمائندگی برائے نام رہ گئی ہے۔ معاشی اور معاشرتی سطح پر بھی یہی معاملہ ہے۔ سیاست کے حوالے سے پیدا ہونے والی کمزوری دیگر تمام معاملات پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ ۲۰۰۵ء میں تیار کی جانے والی سچر کمیٹی رپورٹ کے بعد سے اب تک بھارتی مسلمان نچلی اور پس ماندہ ذاتوں کے ہندوؤں سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے۔
آیے، حال ہی میں پیش کی جانے والی این ایس ایس او رپورٹ (PLFS-2018) اور این ایس ایس ای یو ایس رپورٹ کی روشنی میں بھارتی مسلمانوں کی پسماندگی کا جائزہ لیں۔ ہم ۲۰۱۱ء میں ۱۳ ریاستوں کے ۱۷ کروڑ مسلمانوں کے ۸۹ فیصد انرولمنٹ کا سہارا لیں گے۔ ہم ۲۱ سے ۲۹ سال کے گریجویٹ مسلمانوں، تعلیمی اداروں میں انرولمنٹ رکھنے والے ۱۵ تا ۲۴ سال کے مسلمانوں اور تیسرے نمبر پر تعلیم نہ پانے والے اور نہ ہی کوئی کام کرنے والے مسلم نوجوانوں کا جائزہ لیں گے۔
۱۸۔۲۰۱۷ء میں ملک بھر میں تعلیم پانے والے یا گریجویشن کی سطح تک تعلیم مکمل کرنے کے حوالے سے مسلمانوں کا تناسب مجموعی مسلم آبادی کا صرف ۱۴ فیصد تھا۔ دلتوں میں یہ تناسب ۱۸ فیصد، دیگر پسماندہ طبقات کے ہندوؤں میں ۲۵ فیصد اور اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں ۳۷ فیصد ہے۔ مسلمانوں اور شیڈولڈ کاسٹ (دلتوں) میں فرق ۴ فیصد ہے۔ ۱۲۔۲۰۱۱ء میں یہ فرق صرف ایک فیصد تھا۔ ۱۲۔۲۰۱۱ء میں دیگر پسماندہ طبقات کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان یہ فرق ۷ فیصد تھا جو اب ۱۱ فیصد ہوچکا ہے۔ مسلمانوں اور اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں یہ فرق ۹ء۹ فیصد تھا جو اب ۱۱ فیصد ہوچکا ہے۔
ہندی بولنے اور سمجھنے والی ریاستوں میں مسلمان تعلیم کے حوالے سے بہت کمزور ہیں۔ ہریانہ کے مسلمانوں میں صرف ۳ فیصد تعلیم یافتہ (گریجویٹ) ہیں۔ راجستھان میں یہ تناسب ۷ فیصد، اتر پردیش میں ۱۱ فیصد اور مدھیہ پردیش میں ۱۷ فیصد ہے۔ مدھیہ پردیش کے سوا ان تمام ریاستوں میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی تعلیمی کارکردگی مسلمانوں سے بہتر ہے۔ ہریانہ اور راجستھان میں مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں میں تعلیمی فرق ۱۲ پوائنٹس اور اتر پردیش میں ۷ پوائنٹس ہے۔ ۱۲۔۲۰۱۱ء میں ان تمام ریاستوں میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی تعلیمی کارکردگی مسلمانوں سے بہتر تھی۔
مشرقی بھارت کی ریاستوں کی بات کیجیے تو بہار میں نچلی ذات کے ہندوؤں کے ۷ فیصد کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعلیمی کامیابی ۸ فیصد، مغربی بنگال میں نچلی ذات کے ہندوؤں کے ۹ فیصد کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعلیمی کامیابی ۸ فیصد اور آسام میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی ۸ فیصد کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعلیمی کامیابی ۷ فیصد ہے۔ ۶ سال کی مدت میں مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے درمیان تعلیمی فرق گھٹا ہے مگر خیر، نچلی ذات کے ہندو اب بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
مغربی بھارت کی ریاستوں میں مسلمانوں کی مجموعی تعلیمی کارکردگی اگرچہ اچھی ہے، مگر پھر بھی اسے اعلیٰ اور نچلی ذات کے ہندوؤں کی کارکردگی سے بہتر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ گجرات میں ۱۲۔۲۰۱۱ء میں مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں میں تعلیمی فرق ۸ فیصد تھا جو ۱۸۔۲۰۱۷ء میں بڑھ کر ۱۴ فیصد ہوگیا۔ مہا راشٹر میں تعلیم کے حوالے سے مسلمان ۱۲۔۲۰۱۱ء میں نچلی ذات کے ہندوؤں سے ۲ پوائنٹس بہتر تھے۔ اب نچلی ذات کے ہندو ۸ فیصد آگے ہیں۔
بھارت بھر میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے مسلم نوجوان تامل ناڈو میں ہیں جہاں گریجویٹ نوجوانوں کی تعداد ۳۶ فیصد ہے۔ کیرالا میں ۲۸ فیصد، آندھرا پردیش میں ۲۱ فیصد اور کرناٹک میں ۱۸ فیصد مسلم نوجوان گریجویٹ ہیں۔ تامل ناڈو اور آندھرا پردیش میں مسلم نوجوان تعلیم کے حوالے سے بھرپور مسابقت کر رہے ہیں، جبکہ کیرالا میں وہ پیچھے رہ گئے ہیں۔ جنوبی بھارت میں مسلم نوجوانوں کی عمدہ تعلیمی کارکردگی کا ایک کلیدی سبب یہ بھی ہے کہ وہاں مسلمانوں سے امتیازی سلوک برائے نام ہے۔ اچھے معاشرتی ماحول میں آگے بڑھنے والوں کی کمی نہیں۔ ان ریاستوں میں نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ ساتھ پسماندہ رہ جانے والے مسلمانوں کو بھی کوٹا دیا جاتا ہے۔
بھارتی مسلم نوجوان بڑی تعداد میں تعلیمی نظام سے باہر آکر اس درجہ بندی میں شامل ہو رہے ہیں، جس میں تعلیم ہے نہ روزگار۔ اور نہ ہی کسی قسم کی پیشہ ورانہ تربیت۔ ایسے مسلم نوجوانوں کا تناسب ۳۱ فیصد ہے۔ نچلی ذات کے ہندوؤں میں یہ تناسب ۲۶ فیصد، دیگر پسماندہ طبقات کے ہندوؤں میں یہ تناسب ۲۳ فیصد اور اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں ۱۷ فیصد ہے۔ ہندی بولنے والی ریاستوں میں یہ معاملہ زیادہ خراب ہے۔ تعلیمی نظام سے باہر اور کسی بھی نوع کی معاشی سرگرمی میں حصہ نہ لینے والے مسلم نوجوانوں کا تناسب راجستھان میں ۳۸ فیصد، اتر پردیش اور ہریانہ میں ۳۷ فیصد اور مدھیہ پردیش میں ۳۵ ہے۔ جنوب میں صورتِ حال کچھ بہتر ہے۔ تعلیم اور معاشی سرگرمی سے دور مسلم نوجوانوں کا تناسب تلنگانہ میں ۱۷ فیصد، کیرالا میں ۱۹ فیصد، تامل ناڈو میں ۲۴ فیصد اور آندھرا پردیش میں ۲۷ فیصد ہے۔
عمومی طور پر بھارتی مسلمانوں کی اور خصوصی طور پر مسلم نوجوانوں کی پسماندگی کا سفر بہت پہلے شروع ہوا تھا تاہم اس میں تیزی چند برسوں کے دوران آئی ہے۔ سیم ایشر (Sam Asher) نے حال ہی میں تیار کی جانے والی اسٹڈی ’’انٹرجنریشنل موبلیٹی اِن انڈیا: ایسٹیمیٹس فرام نیو میتھڈز اینڈ ایڈمنسٹریٹیو ڈیٹا‘‘ میں بتایا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کو تعلیم کے حوالے سے پیچھے چھوڑا جارہا ہے جبکہ نچلی ذات کے ہندوؤں کو تعلیم کے حوالے سے اوپر لایا جارہا ہے۔
تعلیم اور روزگار کے حوالے سے پیچھے رہ جانے کے حوالے سے مسلم نوجوانوں کی مشکلات کا درست اندازہ لگاکر اصلاحِ احوال کی بھرپور کوششوں کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کے دورِ حکومت میں گائے کی حفاظت کے نام پر جو نگراں ہندو گروپ سامنے آئے ہیں، اُن کے باعث مسلم نوجوان اپنے خول میں مزید سمٹ گئے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“On socio-economic indicators, Muslim youth fare worse than SCs and OBCs”.(“Indian Express”. Nov. 1st, 2019)
Leave a Reply