اِنتشار کی جانب
Posted on February 16, 2011 by Timuthy Garton Ash in شمارہ 16 فروری 2011 // 0 Comments

عالمی معاشی بحران کے اثرات نے پوری دنیا کو اب بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ڈیووس میں تین سالانہ سربراہ اجلاس ہوچکے ہیں اور ہم اب یہ جائزہ لینے کے قابل ہوئے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں ایسا لگ رہا تھا کہ لبرل ڈیموکریٹک کیپٹل ازم کا مکمل زوال بہت قریب ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اصلاح احوال کی کوئی ایسی صورت بھی نہیں نکل پائی ہے جسے اطمینان بخش قرار دیا جاسکے۔
مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام شدید زخمی ہے اور تھکا ہوا بھی۔ قرضوں، عدم مساوات، بنیادی ڈھانچے کی کمزوری اور سماجی تفاوت کے اعتبار سے یہ نظام بہت کمزور ثابت ہو رہا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کرلی گئی ہیں۔ جن ممالک نے مغربی معاشی ماڈل کو نہیں اپنایا وہ بھی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ ان میں چین، بھارت، برازیل اور روس نمایاں ہیں۔ ان چاروں ممالک نے اپنی بھرپور پس ماندگی کو معاشی تحرک میں تبدیل کیا اور اب اپنی افرادی قوت کی غیر معمولی صلاحیت اور سکت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مگر اس کے نتیجے میں کیا ہو رہا ہے؟ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور رہا ہے۔ چین، بھارت، برازیل اور روس کی ترقی سے سپر پاور کے اسٹیٹس میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی اور کوئی نئی سپر پاور نہیں ابھر رہی بلکہ ایک ایسی دنیا سامنے آرہی ہے جس میں مرکزی قوت کسی بھی ملک کے پاس نہ ہوگی۔ یہ صورت حال خالص انتشار کو جنم دے گی اور دنیا بھر میں اندازے سے کہیں زیادہ بگاڑ پیدا ہوگا۔ دنیا کو نئے عالمی نظام کی ضرورت ہے مگر یہ صورت حال غیر معمولی انتشار کی طرف لے جارہی ہے۔ جو کچھ سامنے آ رہا ہے اس کے آثار تو نہ تھے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوری ماڈل مثالی حیثیت کا حامل دکھائی دے رہا تھا۔ مغرب کے مخالفین رفتہ رفتہ ختم ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ چین اور روس بھی سرمایہ دارانہ نظام کی طرف پلٹتے نظر آئے تھے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ انہیں جلد یا بہ دیر مغربی انداز کی جمہوریت کی طرف آنا پڑے گا۔
سابق امریکی صدر جارج واکر بش نے ۲۰۰۲ء میں امریکی نیشنل سیکورٹی پالیسی جاری کی تو اس کے ابتدائی الفاظ یہ تھے کہ بیسویں صدی میں آزادی اور استبداد کے درمیان لڑائی میں آزاد کی قوتیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ آزادی، جمہوریت اور آزاد منڈی کی معیشت پر مبنی مغربی نظام مثال بن کا ابھرا اور دنیا نے اسے اپنایا۔ اکیسویں صدی میں وہی اقوام پنپ سکیں گی جو بنیادی انسانی حقوق اور معاشی آزادی کے تحفظ کے لیے مل کر کام کریں گی۔ وہی اقوام آگے بڑھیں گی جو اپنے لوگوں کو ان کی صلاحیت کے مطابق کام کرنے کے مواقع فراہم کرسکیں گی اور ان کا مستقبل محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کریں گی۔
ہوسکتا ہے کہ مستقبل بعید میں یہ الفاظ درست ثابت ہوں اور دنیا کو اندازہ ہو جائے کہ قومی سطح پر خوش حالی اور طاقت کو انسانی حقوق کے احترام اور سیاسی آزادی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ہوسکتا ہے کہ بعد میں ایسا ہی ہو مگر خیر، ۲۰۱۱ء میں ایسا دکھائی نہیں دیتا۔
ایک طرف مغرب نے بیسویں صدی کے آخری برسوں میں چند ایک پریشان کن لمحات کا سامنا کیا ہے۔ تاریخ کا اصول یہی رہا ہے کہ تکبر کے بعد موت واقع ہو جایا کرتی ہے۔ صدر باراک اوباما نے حال ہی میں اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں جن اصلاحات کا اعلان کیا ہے ان کا نفاذ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ امریکا کے سیاسی نظام کی خامیاں اظہر من الشمس ہیں۔ اگر یورپ میں اصلاحات کے حوالے سے پرامید رہنا ہے تو آپ کو مقوی ادویہ بڑی مقدار میں کھانی پڑیں گی۔
دوسری طرف مغرب سے باہر کی بہت سی اقوام نے ۱۹۹۰ء کے عشرے میں سیاسی نظام کو اس عمدگی سے متوازن اور مستحکم کیا ہے کہ مغرب کے بظاہر کامیاب سیاسی نظام کے مقابلے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایک طرف تو کھلے بازار کی معیشت ہے اور دوسری طرف ایک جماعت یا ایک خاندان کی حکمرانی۔ ساتھ ہی کرپشن بھی ہے اور قانون سے بالا تر رہنے کی روایت بھی۔
لبرل کیپٹل ازم پر یقین رکھنے والے کہیں گے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام نہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح لبرل مسلمان یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ اسامہ بن لادن اور القاعدہ پیش کرتے ہیں وہ اسلام نہیں ہے۔ مگر خیر کسی کو بھی مکمل طور پر بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نئی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں جو خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں وہ سرمایہ دارانہ نظام ہی کے بطن سے پیدا ہوئی ہیں۔ سرمائے کا ارتکاز ہی چین کو طاقتور بنا رہا ہے اور مشکلات کا باعث بھی بن رہا ہے۔
یہ نئی حقیقت کا بڑا جز ہے۔ اس سال ڈیووس کے ورلڈ اکنامک فورم کا مرکزی خیال بھی یہی تھا۔ خاصی رجائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نعرہ دکھایا گیا کہ نئی حقیقت کے لیے مشترکہ اقدار۔
بین الاقوامی امور کے چینی ماہر یان ژوئے ٹونگ کا کہنا ہے کہ نئی ابھرتی ہوئی طاقتیں جب بین الاقوامی مذاکرات کی میز تک آتی ہیں تو اپنی اقدار اور شرائط ساتھ لاتی ہیں۔ وہ اقدار کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا بھی چاہتی ہیں۔ یان ژوئے ٹونگ کی بات میں دم ہے۔ روس، چین، برازیل اور بھارت دس سال پہلے تک مغربی اقدار کو جس حد تک قبول کرنے کے لیے تیار تھے اب اس سے کہیں کم سطح پر قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دنیا کے جنوبی خطے کی اقوام دس سال قبل مغرب اور چینی تہذیب کے اثرات کے درمیان جتنی بٹی ہوئی تھیں اب اس سے کہیں زیادہ بٹی ہوئی ہیں۔
ہمیں مشترکہ اقدار کے لیے کام کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا میں مختلف اقدار پائی جاتی ہیں۔ جب تک ہم دوسروں کی اقدار کو تسلیم نہیں کریں گے، ان کا احترام نہیں کریں گے تب تک انہیں اپنانے کے بارے میں نہیں سوچیں گے۔ چینی حکمران ایک ایسی دنیا پسند کریں گے جس میں امریکی، یورپی اور چینی قیادت اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کرے اور کوئی کسی کے معاملات میں زیادہ مخل نہ ہو۔ اس معاملے میں وہ جغرافیائی حدود میں رہنا بھی پسند کریں گے۔
مشترک اقدار کسی بھی نئے عالمی نظام کے بنیادی اصولوں کے حوالے سے محدود ہوں گے اور ان کا معاملہ تجارت، ایئر ٹریفک اور ایسے ہی دوسرے امور تک محدود رہے گا۔ اور ساتھ ہی یہ مضبوط مفروضہ بھی رو بہ عمل رہے گا کہ قومی خود مختاری کا احترام کیا جائے۔ آج کے دور کا سب سے مشکل مرحلہ یہ طے کرنا ہے کہ ہمیں کتنی مشترکہ اقدار درکار ہیں۔
جن ممالک میں کسی نہ کسی حد تک لبرل اور ڈیموکریٹک سرمایہ دارانہ نظام نافذ ہے ان کے عوام کے لیے کیا ہونا چاہیے؟ کم از کم دو چیزیں۔ سب سے پہلے تو ہم اہل مغرب کو اپنے معاملات درست کرنے چاہئیں۔ ڈاکٹر کے لیے مشورہ یہ ہے کہ پہلے اپنا علاج کرے۔ اگر ہم دنیا کو متاثر کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اندرونی اصلاح پر توجہ دینی ہوگی، اپنے معاملات درست کرنے ہوں گے۔ ہم کئی عشروں سے ایسے نظام اور ڈھانچے کے تحت جی رہے ہیں جس میں صرف کامیابی ہی ہمارے ہاتھ لگی تھی۔ اب دنیا بھر میں ترقی کی بھرپور لہر پائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے لیے چیلنج بھی پیدا ہوئے ہیں اور ایسے میں ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی ہماری طرح بھرپور ترقی سے ہمکنار رہیں، ان کا معیار زندگی بھی بلند ہی رہے اور دنیا انہیں مثال کی حیثیت سے دیکھے۔ اپنے بچوں کی سلامتی، ترقی اور آزادی ہر حال میں یقینی بنائے رکھنے کے لیے ہمیں جی جان سے محنت کرنی ہوگی۔
مشترکہ اقدار سے وابستہ توقعات کو ہمیں کم کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہمیں سخت فیصلے کرنے ہوں گے، کسی بھی چیز کا انتخاب بہت احتیاط سے کرنا ہوگا۔ کیا ہم امن کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ کی حالت میں نہ ہوں؟ یا عالمی درجہ حرارت میں کمی؟ یا بین الاقوامی تجارت اور مالیاتی کی راہیں کھلی رکھنا؟ یا پھر انسانی حقوق کے لیے بھرپور آواز اٹھانا؟ اس میں کیا شک ہے کہ ہمیں ان میں سے ہر چیز درکار ہے؟ مگر خیر، ہمیں اپنے لیے ایسا لباس تیار کرنا ہے جو ہمارے جسم پر فٹ ہو، موزوں دکھائی دے۔
میں ایک امید افزا بات کرنا چاہتا ہوں۔ دو سال قبل ڈیووس میں جو خدشات ظاہر کیے گئے وہ غلط تھے۔ اور جو امیدیں وابستہ کی گئیں وہ بھی غیر حقیقت پسندانہ تھیں۔ دس سال قبل ڈیووس میں جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ اب بہت عجیب دکھائی دیتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی اور ہی دنیا، بلکہ کائنات تھی۔ تاریخ حیرت انگیز واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اور ان سے سب سے زیادہ حیران اگر کوئی ہوتا ہے وہ مؤرخین ہیں۔
(بشکریہ: ’’ڈان‘‘۔ ۲۸جنوری ۲۰۱۱ء)
Related Posts
Leave a comment