ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے نام پر جو آپریشن کیا گیا اس کے بارے میں کامیابی کے خمار سے بھرپور دو امریکی صحافیوں نے پروپیگنڈا انداز سے ایک مضمون تحریر کیا جسے ایسوسی ایٹیڈ پریس سے زیادہ وائٹ ہاؤس کی وزارت حق (Ministry of Truth) کے نمائندوں کی حیثیت سے تیار کی جانے والی دستاویز کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ اس مضمون میں ایڈم گولڈمین اور کرس بلمٹ نے لکھا کہ مشرقی یورپ میں سی آئی اے کی خفیہ جیلوں اور حراستی مراکز سے حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں کی جانے والی کارروائی میں دہشت گردی کا سب سے بڑا ماسٹر مائنڈ (اسامہ بن لادن) مارا گیا۔ اس مضمون سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سی آئی اے کی خفیہ جیلیں یورپ میں موجود ہیں۔ اگر یہ خفیہ جیلیں یا حراستی مراکز نہ ہوتے تو ۲۰۰۱ء میں گردوں کی بیماری سے ہلاک ہونے والا اسامہ بن لادن مزید زندہ رہتا!
اب سوال یہ ہے کہ کتنے امریکی اس بات کو سمجھ پائیں گے کہ جس شخص نے امریکا کی ۱۶ خفیہ ایجنسیوں، اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد، امریکی محکمہ دفاع، امریکی مسلح افواج کے سربراہوں اور دوسرے بہت سے حکام کو چکمہ دے کر ایک ہی دن میں امریکا کے ایئر ٹریفک سیکورٹی سسٹم کو چار مرتبہ ناکامی سے دوچار کرکے نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی عمارت میں (پرواز کا ہنر نہ جاننے والے نوجوانوں کے ذریعے) تین طیارے جھونک دیئے اس ماسٹر مائنڈ نے دس سال کے دوران امریکا پر ایک معمولی سا بھی حملہ کیوں نہیں کیا؟ کیا امریکی اس بات پر یقین کرلیں گے کہ سعودی نوجوانوں نے باکس کٹرز کے ساتھ جس ایئر ٹریفک سیکورٹی سسٹم کو بری طرح ناکامی سے دوچار کردیا تھا وہ راتوں رات بحال ہوگیا ہوگا اور محفوظ تر ہوگا؟
خالد شیخ محمد نے ۱۸۳ مرتبہ واٹر بورڈنگ کا نشانہ بننے کے بعد یہ اعتراف کرلیا تھا کہ نائن الیون کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ وہی تھا۔ ایسے میں کتنے امریکی اس حقیقت یا انکشاف کو تسلیم کر پائیں گے کہ اسامہ بن لادن نائن الیون کا ماسٹر مائنڈ تھا؟
امریکی اس وقت اسامہ بن لادن کی موت کا جشن منانے میں کچھ اس طرح مصروف ہیں کہ سوچنے کی صلاحیت کے حامل دکھائی نہیں دیتے۔ ویسے بھی شاید سوچنا اب امریکی تعلیمی نظام کی ترجیحات کا حصہ نہیں۔
امریکی عوام تو اس حقیقت پر بھی غور نہیں کر رہے کہ جس شخص کا سراغ برسوں پہلے لگا لیا گیا تھا اور جو پاکستان کی ایک مرکزی ملٹری اکیڈمی کے پہلو میں کروڑوں روپے مالیت کے شاندار مکان میں جدید ترین ٹیلی مواصلاتی ساز و سامان کے ساتھ رہائش پذیر تھا اس تک پہنچنے میں اتنی دیر کیوں لگائی گئی؟ سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ خفیہ حراستی مراکز سے اسے اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات مل چکی تھیں۔ اگر واقعی ایسا تھا تو اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں کون سا امر مانع تھا؟
پہلے تو یہ اعلان کیا گیا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف سی آئی اے اور نیوی کے اہلکاروں نے آپریشن کیا اور یہ کہ القاعدہ کے سربراہ نے فائرنگ سے بچنے کے لیے ایک عورت کی آڑ لی اور پھر اس کے فوراً بعد سی آئی اے کے سربراہ لیون پینیٹا نے ایک میمو بھی جاری کردیا جس میں امریکیوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن کی موت کا بدلہ لینے کے لیے القاعدہ نیٹ ورک امریکا میں غیر معمولی دہشت گردی کرسکتا ہے۔ اور پھر چند ہی گھنٹوں میں داخلی سلامتی کے محکمے نے بھی ایسا ہی انتباہ جاری کردیا۔ اس محکمے نے یہ بھی کہا کہ خطرہ امریکا ہی میں موجود دہشت گردوں سے ہے۔
انسداد دہشت گردی کے امور میں وائٹ ہاؤس کے مشیر جان برینن نے کہا کہ یہ سوچنا محال ہے کہ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں رہائش کے دوران پاکستانی حکومت کی حمایت حاصل نہیں رہی ہوگی۔
ایک آزاد اور خود مختار ملک میں، جس کے ساتھ امریکا کی کوئی جنگ بھی نہیں ہے، اسامہ بن لادن کو آپریشن کے ذریعے ہلاک کرنے سے امریکا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ اس قتل سے تین امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ اول تو یہ کہ سی آئی اے کے بیان کے مطابق، اب اسامہ بن لادن کی موت کا بدلہ لینے کے لیے امریکی سرزمین پر دہشت گردی کی کوئی بڑی واردات ہوسکتی ہے۔ دوم یہ کہ داخلی سلامتی کے نام پر امریکی شہریوں کی زندگی میںمزید مداخلت کی جائے گی، شہریوں کو سیکورٹی کے نام پر مزید پریشان کیا جائے گا، غیر ملکیوں کو مزید ہزیمت کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جائے گا اور سوم یہ کہ بھارت کو اس بات کا موقع ملے گا کہ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی پاداش میں پاکستان کو مزید مطعون کرے۔
امریکی کانگریس میں یہودی لابی سرگرم ہوچکی ہے۔ سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین کارل لیون نے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کے ایک نمایاں ملٹری اکیڈمی کے اس قدر نزدیک ایک شاندار، قلعہ نما مکان میں پناہ لینے اور ایک مدت وہاں گزارنے پر پاکستان کو بہت سے سوالوں کا جواب دینا پڑے گا۔ دونوں رپورٹرز امریکی حکومت سے کوئی جواب طلب کرنے کی بات نہیں کرتے بلکہ وہ بھی فتح کا جشن منانے والوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ ہاں انہوں نے یہ بات ضرور کہی ہے کہ حکومت اسامہ بن لادن کی لاش کا ایک فوٹو ضرور منظر عام پر لانا چاہتی ہے تاکہ آپریشن میں اسامہ کی موت واقع ہونے کے حوالے سے شبہات کو رفع کرنے میں مدد ملے۔ گارجین اور دیگر برطانوی و یورپی اخبارات نے لکھا ہے کہ اسامہ بن لادن کی لاش کا فوٹو جعلی ہے۔ امریکی حکومت کے پاس اب اسامہ کی لاش کے حوالے سے کچھ نہیں کیونکہ وہ خود کہہ چکی ہے کہ لاش سمندر برد کی جاچکی ہے۔ یعنی جھوٹ کا ایک اور پلندہ۔ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی بات بھی جھوٹ تھی۔ ایٹمی ہتھیاروں کے اجزا کے بارے میں پھیلائی جانے والی باتیں بھی بے بنیاد تھیں۔ ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کی بات بھی غلط نکلی۔ اور تو اور، ہزاروں ماہرین کے مطابق نائن الیون میں بھی حقیقت کچھ اور ہے۔
سچ یہ ہے کہ امریکی حکومت کو بجٹ خسارے پر قابو پانے اور افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے لیے ایک بہانہ درکار تھا اس لیے اسامہ بن لادن کی موت کا ڈرامہ رچایا گیا۔ امریکیوں کو ان کی فوج کی ایک اور بڑی فتح کا یقین دلایا گیا۔ اب امریکا کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس مزید مستحکم ہوگا اور لوگوں کو فتح کے احساس سے سرشار ہونے کا موقع ملے گا۔
(پال کریگ رابرٹس معاون امریکی وزیر خزانہ اور وال اسٹریٹ جرنل کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب ’’ہاؤ دی اکانومی واز لاسٹ؟‘‘ شائع ہوئی ہے۔)
☼☼☼
Leave a Reply