القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی بیواؤں کے بیانات جاری کرنے سے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ حکام کا خیال تھا کہ ایبٹ آباد آپریشن کے وقت اسامہ بن لادن کے ساتھ سکونت اختیار کی ہوئی اس کی تین بیواؤں کی کہانی سن کر لوگوں کو پاکستان کی بے گناہی پر یقین آ جائے گا مگر جو کچھ ہوا ہے وہ اس کے برعکس ہے۔
اسامہ بن لادن کی بیواؤں نے تفصیل سے بتایا ہے کہ القاعدہ سربراہ کے ساتھ ان کی زندگی کے آخری عشرے کے دوران وہ کس طور روپوشی کی زندگی بسر کرتی رہیں اور نقل مکانی کے عذاب کو سہنا پڑا۔ اسامہ کی تینوں بیواؤں کو انٹرسروسز انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ نے ۲ مئی ۲۰۱۱ء کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجیوں کے آپریشن کے بعد حراست میں لیا تھا۔ آئی ایس آئی نے ایک سابق جنرل کے ذریعے اسامہ کی بیواؤں کی کہانی کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ دنیا کو یقین دلایا جاسکے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی روپوشی میں اس کا ہاتھ تھا نہ اسے علم تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اسامہ کی بیواؤں نے جو کچھ بیان کیا ہے اس کی روشنی میں پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسامہ کی روپوشی میں ملوث ہونے کا شک مستحکم ہوتا ہے۔
اسامہ بن لادن نے ایبٹ آباد کے جس کمپاؤنڈ میں چھ سال گزارے اس میں اس کے ساتھ تین بیویاں، آٹھ بچے اور پانچ پوتے پوتیاں بھی تھے۔ پاکستانی انٹیلی جنس نے حراست میں لیے جانے والے تمام افراد کی ڈی بریفنگ کی ہے اور اب ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کو تفتیش سے متعلق دستاویز تک رسائی بھی دی ہے۔ حال ہی میں سبکدوش ہونے والے آئی ایس آئی ڈائریکٹر احمد شجاع پاشا شاید یہ الزام دھونا چاہتے تھے کہ یا تو انہیں اسامہ بن لادن کے روپوش ہونے کا علم نہیں تھا یا پھر وہ اس کی روپوشی میں معاون تھے۔
کہانی میں مرکزی کردار یمن کی امل کا ہے جو اسامہ بن لادن کی آخری بیوی تھی۔ اُس کی شادی ۱۹۹۹ء میں یمن کی بندرگاہ عدن میں امریکی طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس کول پر حملے سے قبل ہوئی تھی۔ امل شادی کے بعد مستقل طور پر اسامہ بن لادن کے ساتھ رہی اور شاید اس کے سب سے زیادہ قریب تھی۔ امل نے بتایا کہ ۲۰۰۱ء کے آخری دنوں میں وہ افغانستان میں تورا بورا کے پہاڑوں سے فرار ہوکر کوہاٹ آئی اور وہاں اس کی ملاقات نائن الیون کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد سے ہوئی۔ خالد شیخ محمد کو یکم مارچ ۲۰۰۳ء کو راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا۔ ۲۰۰۳ء میں اسامہ بن لادن وزیرستان میں گھومتا رہا۔ پھر چند ماہ وہ سوات میں رہا۔ ۲۰۰۵ء میں ایبٹ آباد منتقل ہونے سے قبل وہ چند ماہ ہری پور کے ایک مکان میں رہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہ تقریباً دس سال پاکستان میں رہا۔ اور اس دوران وہ زیادہ تر شہری علاقوں میں رہا، دیہاتی اور پہاڑی علاقوں میں نہیں۔
امل کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۲ء میں اسامہ بن لادن کے گردے کی پیوند کاری ہوئی۔ مگر یہ بات خاصی مبہم ہے۔ کچھ واضح نہیں کہ آپریشن کہاں ہوا، کراچی میں یا بیرون ملک؟ یعنی جب آئی ایس آئی اسے تلاش کرتی پھر رہی تھی تب اسامہ بن لادن گردے کے آپریشن کے لیے پاکستان میں ٹھکانے بدل رہا تھا یا پھر پاکستان سے باہر بھی چلا گیا تھا۔
امل نے بتایا کہ ۲۰۱۱ء کے اوائل میں جب اسامہ بن لادن کی سعودی بیوی خیرہ صابر، جو تب تک ایران میں تھی، ایبٹ آباد والے کمپاؤنڈ میں رہنے آئی تب زندگی مشکل ہوگئی۔ اسامہ بن لادن کے بعض اہل خانہ اور کئی ساتھی قندھار میں حالات خراب ہونے پر پاکستان کے بجائے ایران چلے گئے تھے۔ ایرانی حکام نے دس سال تک نظر بند رکھنے کے بعد اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کو پراسرار حالت میں پاکستان جانے کی اجازت دی۔ ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ القاعدہ کے لوگوں نے ایک ایرانی سفارت کار کو پکڑ رکھا تھا اور اسامہ بن لادن کی بیوی اور بیٹے کو اس کے عوض چھوڑا گیا۔ بہرحال، ایبٹ آباد کمپاؤنڈ میں اسامہ کی دونوں بیویوں کے درمیان ٹھنی رہی۔
یہ بات اب طشت از بام ہوچکی ہے کہ ایبٹ آباد کمپاؤنڈ میں اسامہ بن لادن طالبان کے امیر ملا عمر مجاہد اور لشکر طیبہ سے مکمل رابطے میں تھے اور تمام اہم امور پر ان کے درمیان تبادلہ خیالات ہوا کرتا تھا۔ لشکر طیبہ اور طالبان دونوں ہی آئی ایس آئی کے بہت قریب ہیں۔ لشکر طیبہ کے قائد نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر کھل کر غم کا اظہار کیا اور اب وہ ملک بھر میں امریکا اور بھارت کے خلاف جہاد کی تحریک دینے کے لیے ریلیوں سے خطاب کرتے پھر رہے ہیں۔ ان کی تحریک کو آئی ایس آئی مدد فراہم کر رہی ہے۔ طالبان نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا ماتم کیا تھا۔
ایبٹ آباد کوئی عام شہر نہیں۔ اسے ۱۸۵۳ء میں سر جیمز ایبٹ نے برٹش ایسٹ انڈیا آرمی کی گیریژن کے طور پر بسایا تھا۔ یہ آج بھی فوجی شہر ہے۔ یہ تین رجمنٹس کا گھر ہے اور کاکول ملٹری اکیڈمی اس کے پہلو میں واقع ہے۔ یہ شہر کس قدر محفوظ ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۹ء میں یہاں چین کے اشتراک سے انسداد دہشت گردی کی مشقیں کی گئی تھیں۔ ۲۰۰۶ء میں افغان انٹیلی جنس کے سربراہ نے بھی اس وقت کے حکمران پرویز مشرف سے کہا تھا کہ اس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں کہیں ہے مگر پرویز مشرف نے اس بات کو یکسر مسترد کردیا تھا۔
۲۰۰۷ء میں دوہا (قطر) میں ایک کانفرنس کے دوران میری ملاقات پاکستان کے ایک سابق سفیر سے ہوئی۔ میں نے پوچھا اسامہ بن لادن کہاں ہوسکتا ہے۔ موصوف نے کہا کہ آئی ایس آئی نے کسی مضبوط کمپاؤنڈ میں رکھا ہوگا۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد یہ بات پاکستانی اخبارات میں بھی اُچھلی کہ اسامہ بن لادن کے خفیہ ٹھکانے کا فوج کو علم تھا۔
ہم اب تک پورے یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اسامہ بن لادن کی موجودگی کا آئی ایس آئی کو علم تھا یا نہیں یا یہ کہ اس کی مدد ہی سے وہ وہاں چھپا بیٹھا تھا۔ احمد شجاع پاشا بضد رہے ہیں کہ آئی ایس آئی کو کچھ علم نہیں تھا مگر اب اسامہ کی بیواؤں کے بیان کے بعد بہت کچھ سامنے آچکا ہے اور آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل کی بات پر یقین کرنے والے کم ہیں۔
ایک بات تو طے ہے اور وہ بات یہ ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کی تحقیقات کے لیے قائم کیا جانے والا کمیشن ہمیں کچھ بھی نہیں بتائے گا۔ اسامہ بن لادن کی بیواؤں پر ملک میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے کا الزام عائد کیا جارہا ہے اور اب حکومت نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا کمپاؤنڈ تباہ بھی کردیا ہے۔ سویلین حکومت بھی فوج سے اسامہ بن لادن کے بارے میں کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں کر پارہی۔ گزشتہ برس ایک صحافی سلیم شہزاد اس حوالے سے جواب پانے کی منزل تک پہنچ گیا تو اسے قتل کردیا گیا۔
(بروس ریڈل امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کا سابق اعلیٰ افسر ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کی فرمائش پر اس نے ۲۰۰۹ء میں پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے امریکا کی اسٹریٹجک پالیسی کا جائزہ لیا۔ وہ نیو یارک کے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ میں سبان سینٹر کے سینئر فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ ’’دی ڈیڈلی ایمبرس: امریکا، پاکستان اینڈ دی فیوچر آف گلوبل جہاد‘‘ اور ’’دی سرچ فار القاعدہ: اِٹز لیڈر شپ، آئیڈیالوجی اینڈ فیوچر‘‘ کے مصنف ہیں)
(“Osama’s Wives”… “Newsweek” Pakistan. March 23rd, 2012)
Leave a Reply