ایبٹ آباد میں ۲ مئی۲۰۱۱ء کو رونما ہونے والے واقعہ کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی خودمختاری کو قائم رکھنے کے لیے اپنی کمزوریوں کا ازالہ کریں اور امریکا و پڑوسی ممالک کے ساتھ خصوصاً دوستانہ تعلقات کے حوالے سے نئی ترجیحات پر غور کریں۔ ۵/۲ کو پیش آنے والاواقعہ در اصل ہمارے لیے رحمتِ خداوندی ہے تاکہ ہم پھر سے اپنی خودمختاری قائم کر سکیں۔ ۱۱/۹ کا کھیل ۲ مئی کے سانحے کی طرح ایک ڈرامہ اور جھوٹ تھاجس کی آڑ میں امریکا نے مسلم ممالک کے خلاف صلیبی جنگ کا آغاز کیا تھاتاکہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد وہ ساری دنیا پر اپنی برتری اور حاکمیت قائم کر سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسامہ کے ہم شکل ایک قیدی کوبگرام کے ائر بیس سے ایبٹ آباد لایا گیا اور یہاں پر مقیم اس کے اہل خاندان کے سامنے اسے نہایت سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسامہ کو کچھ عرصہ پہلے ہی افغانستان میں قتل کر دیا گیا ہو اور ان کی میت مردہ خانے میں پڑی ہو۔ان کی گولیوں سے چھلنی جو تصویر دکھائی گئی ہے وہ دو سال پہلے کی ہے جبکہ دوسری تصویر ان سے مماثلت نہیں رکھتی۔ ان کی لاش کو نہایت عجلت میں سمندر برد کر کے جرم کی پردہ پوشی کی گئی۔ در اصل ۵/۲ کا واقعہ ۱۱/۹ کے جھوٹ کاتسلسل ہے جس کے پیچھے تین بڑے اہداف تھے (۱) اسامہ کا قصہ پاک کر کے اوباما آنے والے انتخابات میں اپنی حیثیت مستحکم بنانا چاہتے ہیں (۲) افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کا معقول بہانہ چاہیے(۳) پاکستانی حکومت‘ مسلح افواج اور آئی ایس آئی کو بدنام کیا جائے۔ تینوں اہداف کے حصول میں امریکا کامیاب ہوا ہے جبکہ ہم دشمن کے ایجنٹوں اور اپنے کم فہم اور نادان دوستوں کی مدد سے مسلح افواج اور آئی ایس آئی پر الزامات کی بارش کر کے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ ادارے ملکی سلامتی کے تحفظ میں ناکام ہو چکے ہیں۔لیکن وہ نہیں جانتے کہ سیاسی چالوںاور سازشوں کی وجہ سے پاکستان کی قومی خودمختاری تو بہت پہلے سے ہی دائو پر لگ چکی ہے‘ جو ایک المناک داستان ہے‘ جسے یادرکھنا ضروری ہے۔
۱۹۵۸ء میں صدر ایوب کے برسر اقتدار آتے ہی امریکا نے پاکستانی معاملات میں مداخلت شروع کر دی اور جب دیکھا کہ ایوب خان ان کے لیے کارآمدنہیں رہے توایک سیاسی تحریک کے ذریعے ان کی جگہ جنرل یحییٰ خان کو لے آئے جو پاکستان کو دولخت کرنے کا موجب بنے۔اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم بنے۔ وہ ایک زیرک ‘ دوراندیش اور محب وطن سربراہ تھے۔یہی وجہ تھی کہ وہ امریکا کے ’عالمی بساط پر عظیم کھیل‘ کے ایجنڈے کی تکمیل میں رکاوٹ بن سکتے تھے لہٰذا انہیں ناپسندیدہ اور خطرناک قرار دے دیا گیا کیونکہ انہوں نے چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرلیے تھے۔ شاہ فیصل کو عالم اسلام کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کیاتھا اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی جس کی پاداش میں وہ سزا کے مستحق ٹھہرے اور انہیں فوجی آمر اور تابعدار عدلیہ کے ہاتھوں ’’دردناک مثال‘‘ بنا دیا گیا۔
جنرل ضیا ء نے ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۸ء تک روس کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا۔ اس عرصے میں سی آئی اے نے پاکستان میں وسیع پیمانے پر اپنے جاسوسی کے مراکز قائم کر لیے اور ہمارے تمام ادارے ‘ میڈیااور سول سوسائٹی ان کی دسترس میں آگئے۔افغانستان سے روسی فوجوں کی پسپائی کے بعد امریکا نے افغانستان اور پاکستان کے معاملات سے پیٹھ پھیر لی۔افغانستان میںحکومت سازی کے عمل میں طالبان کو ان کے جائز حق سے محروم کرتے ہوئے خانہ جنگی شروع کرا دی گئی اور پاکستان میں جنرل ضیاء کو مجاہدین کی مدد کرنے کے جرم میں منظر سے ہٹا دیا گیا۔ ۱۹۸۸ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو بر سر اقتدار آئیں لیکن جلد ہی امریکیوں کے دبائو میں آکر انہوں نے آئی ایس آئی کے شعبہ افغانستان کو ختم کر دیا کیونکہ افغانستان میںروسی فوجوں کی شکست اور پسپائی کے حوالے سے آئی ایس آئی کی پیشہ ورانہ کارکردگی سے امریکی خوف زدہ تھے۔ اس طرح آئی ایس آئی کو افغان معاملات سے الگ کر دیا گیااور افغانستان کے متعلق پاکستان اپنی آنکھوں اور کانوں سے محروم ہو گیا۔ ۱۹۹۸ء میں میاں نواز شریف نے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے اور امریکا کی نظروں میں ’’ناپسندیدہ شخصیت بن گئے‘‘۔ اور۱۹۹۹ء میں ایک سیاسی تحریک کے پس پردہ فوج کے اقتدار پر قبضے کی راہ ہموار کی گئی اور نواز شریف سے نجات حاصل کی۔یہی وہ وقت تھا جب امریکا نے عالم اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کا فیصلہ کر لیا تھا جس کے لیے ۱۱/۹ کا ڈرامہ رچایا گیا۔ جنرل مشرف اقتدار سنبھال چکے تھے جنہوں نے تمام کی تمام امریکی شرائط کو بلا چون و چران تسلیم کرلیا اور ایک برادر ہمسایہ اسلامی ملک کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر تیار ہو گئے جس کے بعد امریکی میرینز اور سی آئی اے کے کارندوں کو تمام افغان سرحدوں کی نگرانی پر مامور کرتے ہوئے آئی ایس آئی کو ان علاقوں سے نکال لیا گیاجس سے پاکستان کی علاقائی خودمختاری کو ضرب لگی۔یہ وہ وقت تھا جب ’را‘ نے افغانستان میں جاسوسی کے اڈے قائم کر لیے تھے اورسی آئی اے کی ملی بھگت سے پاکستان کی ساری سرحدیں اپنے جاسوسوں سے بھر دیں اور نتیجتاً ۲۰۰۵ء میں افغانستان کی جنگ کا رخ پاکستان کی جانب موڑ دیا گیا۔
ریمنڈ ڈیوس کی حالیہ گرفتاری اور انکشافات نے سی آئی اے اور را کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا پردہ چاک کیا ہے اور انہیں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بغاوت اور دیگر جگہوں پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔لہذا حکومتی عملداری قائم کرنے کے لیے ہماری حکومت کا سی آئی اے سے اپنے کھوئے ہوئے علاقوں کی واپسی کا مطالبہ جائز ہے۔اس مقصد کے لیے پاکستانی مسلح افواج اورآئی ایس آئی نے جو اقدامات اٹھائے وہ امریکا کی برہمی کا باعث بنے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ۱۱/۹ کے سانحہ میں امریکا نے اپنی مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایاکہ وہ ملک کواتنے بڑے سانحے سے محفوظ نہ رکھ سکیں۔ اسی طرح ۲۰۰۹ء میں سانحہ ممبئی کے بعدبھارت نے اپنی مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوئوں کی ناکامی پرالزام تراشی نہیں کی بلکہ اس سانحے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جبکہ امریکا نے ۱۱/۹ کا سارا الزام اسامہ بن لادن اور القائدہ کے سر تھوپ دیا۔پاکستان میں مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر ناکامی کے جو الزامات عائد کیے جارہے ہیں اس کے پیچھے ’’سی آئی اے اور را کے ایجنٹ اورہمارے زر خرید ‘‘ کار فرما ہیںجو ان اداروں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں جنہوں نے ملکی سالمیت اور خودمختاری کے لیے اتنی عظیم قربانیاں دی ہیں۔
امریکا نے اسامہ اور القائدہ کو ایک عفریت بنا لیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۹۰ء کے بعد سے افغانستان اور پاکستان کے معاملات سے اسامہ کے صرف فروعی نوعیت کے تعلقات باقی تھے۔ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک افغانستان میں قیام کے دوران القائدہ نے شاید امریکی اہداف کے خلاف چند خود کش حملے کیے ہوں لیکن مغربی میڈیا افغانستان اور خطے میں ہونے والے تمام دہشت گردی کے معاملات میں انہیں ملوث قرار دیتا رہاہے تاکہ افغانوں کی تحریک آزادی کو بدنام کیا جا سکے۔در حقیقت ۱۱/۹ کے بعد اسامہ اور القائدہ غاروں اور خندقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اس کی دلیل یہی ہے کہ اسامہ کے نام نہادقتل کے بعدالقائدہ کی جانب سے اب تک کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا کہ وہ ان کی موت کاانتقام لیں گے۔اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ اس قدر محنت شاقہ سے مرتب کیا جانے والا اسامہ کا افسانہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔
سانحہ ۵/۲ ہماری حکومت ‘ مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے’’اللہ کی غیبی رحمت‘‘ ہے تاکہ وہ مستحکم اقدامات کریں اور دشمنوں کے کارندوں اور زر خرید لوگوں کا محاسبہ کریںجو ’’ہماری جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر دھونی (Fumigation) دینے کی ضرورت ہے‘‘۔ یہ عمل بلوچستان میں شروع ہو چکا ہے جسے پورے ملک تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔جب ہماری قومی خودمختاری قائم ہو جائے گی تو اس کے بعد ہمسایہ اور دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا آسان ہو جائے گا۔خصوصأہمیں امریکا کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا اور اس حوالے سے تدبر اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
المیہ: پاکستانی قوم کو جمہوری حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں کہ وہ خودمختارپارلیمنٹ اورآزاد عدلیہ کے قیام کو یقینی بنائے گی کیونکہ کسی بھی جمہوری ملک میں خودمختار پارلیمنٹ اور آزاد عدلیہ ہی قومی خود مختاری کے امین ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ ان دونوں اداروں کے تقدس کو بری طرح پامال کیا گیا ہے اور عملأ انہیں ناکارہ بنا دیا گیا ہے جس کے سبب ہماری قومی خودمختاری زبوں حالی کا شکار ہے اور قوم تضحیک کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔
(موصولہ از ’’فرینڈز‘‘ اسلام آباد)
Leave a Reply