پاک امریکا تعلقات میں سرد مہری
Posted on May 1, 2011 by محمد ابراہیم خان in شمارہ یکم مئی 2011 // 0 Comments

پاک امریکا تعلقات میں غیر معمولی سرد مہری در آئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے خفیہ ادارے اب ایک دوسرے کو مزید رعایتیں دینے اور صورت حال کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ افغانستان سے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے انخلاء کی ڈیڈ لائن قریب آ رہی ہے اور اِسی مناسبت سے اتحادیوں پر دباؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان سے عسکری انخلاء کے بعد وہ اس ملک اور خطے کی سیاست پر اثر انداز ہوتا رہے۔ اس مقصد کے لیے وہ بھارت کو اہم مقام دینا چاہتا ہے مگر پاکستان اور دیگر علاقائی ممالک ایسے کسی بھی منظرنامے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس میں بھارت کو افغانستان کے بیشتر یا اہم معاملات پر برتری اور اجارہ داری حاصل ہو۔ مغربی میڈیا نے اس صورت حال پر سیر حاصل تبصروں کے ساتھ ساتھ قیاس آرائیاں بھی کی ہیں۔ ذیل میں ہم نیو یارک ٹائمز اور برطانوی خبر رساں ادارے ’’رائٹرز‘‘ کے تبصرے پیش کر رہے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز
پاکستان اور امریکا کے خفیہ اداروں کے درمیان کشیدگی اب انتہا کو چھو رہی ہے۔ پاکستان کے سول اور فوجی حکام اپنی سرزمین پر سی آئی اے کے خفیہ آپریشنز سے سخت نالاں ہیں۔ اس صورت حال نے دو طرفہ تعلقات کو نچلی ترین سطح تک پہنچا دیا ہے۔ نائن الیون کے جارج واکر بش اور پرویز مشرف کے درمیان جو تزویراتی اتحاد قائم ہوا تھا وہ اب ڈھونڈے سے بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ڈرون حملوں نے بھی پاک امریکا تعلقات کو سرد خانے تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ افغان جنگ ختم کرنے اور وہاں سیکورٹی سیٹ اپ قائم کرنے کے حوالے سے پاکستان اور امریکا کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے دونوں کے اہداف میں واضح فرق ہے۔
افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے انخلا اور دیگر امور سے متعلق امریکا اور پاکستان دونوں ایک دوسرے کے مفادات کو نظرانداز کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور جہاں موقع ہے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اِس وقت اسلام آباد اور واشنگٹن میں کوئی بھی نہیں جو دونوں ممالک کے درمیان طویل المیعاد بنیادوں پر اسٹریٹجک اتحاد قائم کرنے کی بات کرے۔ امریکی فوج کے سابق افسران بھی پاکستان سے کسی طویل المیعاد عسکری اتحاد کا امکان محسوس نہیں کر رہے۔ دونوں ممالک کی فوجی قیادت میں ایک دوسرے پر اعتماد کا شدید فقدان ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دونوں ممالک کی فوجی قیادت کے درمیان اعتماد کا رشتہ کبھی قائم ہی نہیں رہا۔
امریکا نے پاکستان کو امداد کی مد میں اربوں ڈالر دیئے ہیں مگر ان ڈالروں سے کچھ بھلا نہیں ہوا۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ امداد کا بڑا حصہ قومی خزانے کے بجائے حکمرانوں اور حکام کی جیبوں میں چلا گیا۔ دولت نے دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے میں کبھی کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا۔
افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور امریکا کے اختلافات دن بہ دن شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ جب وہ افغانستان سے رخصت ہو تو وہاں ایک مضبوط مرکزی حکومت ہو اور فوج اتنی طاقتور ہو کہ اپنے ملک کی سیکورٹی کا معاملہ خود سنبھال سکے۔ امریکا چاہتا ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں پر کابل کی مرکزی حکومت کا کنٹرول ہو۔ دوسری طرف پاکستان چاہتا ہے کہ اتحادیوں کے انخلاء کے بعد افغانستان میں بننے والی مرکزی حکومت کمزور ہو اور ملک کے بیشتر حصوں پر اس کا ڈھیلا ڈھالا کنٹرول ہو تاکہ صورت کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالا جاسکے۔ جن معاملات پر اختلاف پایا جاتا ہے ان میں افغان فوج کے حجم کے علاوہ یہ قضیہ بھی شامل ہے کہ طالبان کے کس دھڑے کو حکومت کا حصہ بنایا جائے۔ اور پھر بھارت کا معاملہ بھی تنازع کا باعث بن گیا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ اتحادیوں کے انخلاء کے بعد کے افغانستان میں اس کا بھی اہم کردار ہو۔ اس نے اچھی خاصی سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان اس امر پر بھی اختلاف ہے کہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا انخلاء کس طور ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے پاکستان کا کردار اب تک متعین نہیں کیا جاسکا۔
امریکی مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائک مولن اب تک پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے 24 مرتبہ مل چکے ہیں۔ وہ افغانستان میں اتحادی افواج کے سربراہ امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے مقابلے میں پاکستان کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ امریکی فوج میں اس امر پر بھی اختلافات پائے جاتے ہیں کہ پاکستان سے کس طور نمٹا جائے۔ ایڈمرل مائک مولن پاکستان کو چند ایک رعایتیں دینے کے حق میں ہیں۔
پاکستان کا بنیادی شکوہ یہ ہے کہ افغانستان سے انخلاء کی حکمت عملی کے حوالے سے امریکا نے اسے دھوکے میں رکھا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ کہ اسے بتایا جائے کہ افغانستان سے انخلاء حقیقی معنوں میں کب شروع ہوگا اور کب تک مکمل ہوگا۔ وہ اس معاملے میں تمام تفصیلات چاہتا ہے۔ امریکا اس معاملے میں اس پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس معاملے میں اپنی ناراضی کے اظہار کے لیے پاکستان نے کبھی نیٹو سپلائی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی ہے، کبھی طالبان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے اور کبھی افغان صدر حامد کرزئی کو رجھانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل شجاع احمد پاشا نے گزشتہ ماہ مل کر کابل کا دورہ کیا۔ یہ دورہ اس امر کا غماز تھا کہ اتحادیوں کے رخصت ہو جانے کے بعد ابھرنے والی صورت حال میں پاکستان کسی بھی طور افغانستان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا۔ پاک افغان جوائنٹ کمیشن بھی تشکیل پایا ہے جس میں اب پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ افسران کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ پاکستان اپنے مفادات کے لیے امریکا کو الگ تھلگ کرکے اب حامد کرزئی سے براہ راست ڈیل کر رہا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ افغان فوج کا حجم زیادہ نہ ہو اور مرکز میں کمزور یا ڈھیلی ڈھالی حکومت ہو۔ پاکستان افغان حکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ بڑی فوج کو برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوگا۔
امریکا نے پاکستان کو افغانستان سے انخلا کے حوالے سے ابتدائی کوششوں سے اس لیے دور رکھا ہے کہ وہ طالبان سے چند رعایتیں چاہتا ہے اور اسے اندازہ ہے کہ پاکستانی اگر اس عمل میں شریک ہوئے تو طالبان سے مطلوبہ رعایتوں کا حصول ممکن نہ ہوگا۔ امریکا چاہتا ہے کہ مشرقی افغانستان میں سرگرم حقانی نیٹ ورک کو کمزور کیا جائے۔ یہ نیٹ ورک پاکستان کے لیے قیمتی اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا کا الزام ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے لوگ شمالی وزیرستان سے افغانستان میں داخل ہوکر اتحادی فوجیوں کو شدید جانی نقصان پہنچاتے ہیں۔ امریکی کسی بھی صورت میں اس نیٹ ورک کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور اس کے لیے اسے پاکستان کی مدد درکار ہے۔ فی الحال تو پاکستان اس نیٹ ورک کے خلاف کچھ کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ امریکا کو اس معاملے میں اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔
رائٹرز
کسی کو اب اس حوالے سے کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان کی فوج افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کے عمل میں مرکزی کردار چاہتی ہے۔ پاکستان میں رائٹرز کے بیورو چیف کرس آلبریٹن کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان نے حال ہی میں ایک بڑا اور جرأت مندانہ قدم اٹھایا ہے، یعنی دونوں نے افغان مسئلے کے حل کے لیے طالبان سے بات چیت کرنے والے کمیشن میں پاکستانی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کو بھی شامل کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات طویل مدت تک اس لیے کشیدہ رہے ہیں کہ افغانستان میں بھارت نواز حکومتیں قائم کی جاتی رہی ہیں۔
پاکستان کی فوج طالبان سے خاصے مضبوط تعلقات کی حامل رہی ہے اور یہ بھی کہتی آئی ہے کہ افغانستان میں حقیقی امن اور استحکام کا راستہ اسلام آباد سے ہوکر گزرتا ہے۔ ماضی میں افغان حکومت نے طالبان سے مذاکرات کی جو کوششیں کی ہیں ان پر پاکستان اس لیے خفگی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے کہ اسے اعتماد میں لینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ امریکا نے پاکستان کو ساتھ ملائے بغیر طالبان سے رابطوں کی کوششیں کی ہیں جن پر پاکستان نے شدید ناراضی دکھائی ہے۔ امریکا سے پاکستان کے تعلقات میں در آنے والی سرد مہری کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ امریکا کسی نہ کسی طور افغانستان سے سلامتی کے ساتھ نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور اس حوالے سے ہر معاملے میں پاکستان سے مشاورت نہیں کر رہا۔
اتحادیوں کے انخلاء کی ڈیڈ لائن قریب آتی جارہی ہے اور ایسے میں علاقائی طاقتیں زور آزمائی میں مصروف دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان نے افغان صدر حامد کرزئی سے تعلقات بہتر بنانے پر زیادہ محنت کی ہے تاکہ اتحادیوں کے بعد کے افغانستان میں پاکستان کا کردار جاندار ہو۔ دوسری جانب بھارت بھی افغانستان میں قدم جمانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے کیونکہ یہ اس کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور عسکری قوت کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر وہ افغانستان میں پاکستان کے ہاتھوں دب گیا تو پورے خطے ہی میں نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بھد اڑے گی۔ بین الاقوامی امور کے مشہور بھارتی ماہر سی راجہ موہن کا کہنا ہے کہ حامد کرزئی پاکستان پر افغانستان میں عسکریت پسندی کو ہوا دینے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں مگر اب پاکستانی فوج کی جانب سے مفاہمت کی پیشکش کا انہوں نے اس لیے مثبت جواب دیا ہے کہ اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد انہیں اپنا اقتدار برقرار رکھنے کا صرف ایک ہی راستہ دکھائی دے رہا ہے اور وہ راستہ یہ ہے کہ پاکستان پر بھروسہ کیا جائے اور اس کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ سی راجہ موہن کا یہ بھی کہنا ہے کہ حامد کرزئی کو اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے طالبان سے بھی ہاتھ ملانا پڑے گا، انہیں منانا پڑے گا۔ اس کے لیے انہوں نے پاکستانی فوج سے مدد مانگی ہے۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست اور رسمی مذاکرات تو شروع نہیں ہوئے ہیں مگر ہاں، رابطوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ مذاکرات کی ابتداء کسی بھی وقت متوقع ہے۔ دوسری جانب امریکا سے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے پر پاکستان اور افغانستان نے ایک دوسرے کو گلے لگانے کی ابتدا کی ہے۔ افغانستان سے امریکا کے تعلقات اس وقت بگڑنا شروع ہوئے جب حامد کرزئی کے دوبارہ انتخاب کو اوباما انتظامیہ نے شک کی نظر سے دیکھا اور ان پر کرپشن کا الزام عائد کیا۔ امریکی خفیہ ادارے پاکستان میں غیر قانونی طور پر آپریٹ کر رہے ہیں۔ ڈرون حملوں پر پاکستانی عوام اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ میں یکساں طور پر شدید خفگی پائی جاتی ہے کیونکہ ان حملوں کو پاکستان کی خود مختاری پر ضرب قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان میں یہ خدشہ بھی پایا جاتا ہے کہ امریکا نے جس طرح سابق سوویت یونین کے انخلا کے بعد پاکستان کو افغانستان کا ملبہ اٹھانے کے لیے چھوڑ دیا تھا بالکل اُسی طرح وہ افغانستان سے اپنے فوجی واپس بلائے گا اور خرابیوں کا نتیجہ بھگتنے کے لیے پاکستان کو تنہا چھوڑ دے گا۔
معروف کالم نویس سیرل المیڈا کا کہنا ہے کہ افغانستان سے اتحادیوں کے انخلاء کی ڈیڈ لائن اب سر پر ہے۔ ایسے میں فریقین کو مذاکرات کی میز پر آکر معاملات طے کرنے چاہئیں تاکہ بعد میں کوئی بھی بات خرابی کا درجہ اختیار نہ کرسکے۔ مگر ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ طالبان کی نئی نسل کس حد تک جنگ سے تھک گئی ہے یا جنگ کے ہاتھوں مزید پختہ ہوگئی ہے اور یہ کہ ان پر ملا عمر مجاہد کا اثر اور کنٹرول کس حد تک ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ اب طالبان پر پاکستان کا کنٹرول کس حد تک رہا ہے کیونکہ نائن الیون کے بعد امریکا اور یورپ کے دباؤ پر پاکستان کے لیے طالبان سے کنارہ کش ہونا ناگزیر ہوگیا تھا۔
ایک زمانے میں طالبان سے پاکستان کے تعلقات بہت قریبی اور خوشگوار تھے۔ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والے تین ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اب پاکستان اور طالبان کے تعلقات خاصے پیچیدہ ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک اسٹریٹفار کے ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا و مشرق وسطیٰ کامران بخاری کا کہنا ہے کہ اب طالبان کو بہتر طریقے سے ڈیل اور کنٹرول کرنا آسان نہیں رہا۔ وہ اس قدر بکھری ہوئی قوت ہیں کہ انہیں نظم و ضبط کے دائرے میںلانا بھی دردِ سر سے کم نہیں۔ کامران بخاری کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام بھی نہیں چاہیں گے کہ افغانستان ایک بار پھر طالبان کے رنگ میں رنگ جائے۔ پاکستان اب افغانستان میں ایک ایسی مخلوط حکومت بنانے کے لیے کوشاں ہے جس میں طالبان کو اہم مقام ضرور حاصل ہو تاہم وہ پورے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک نہ ہوں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکا اس کے لیے تیار ہوگا یا نہیں مگر چونکہ افغانستان میں کوئی عسکری فتح ممکن دکھائی نہیں دیتی اس لیے امریکا کے پاس بھی اس آپشن یا منظر نامے کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ امریکی اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے بات چیت کی جائے مگر اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ کامران بخاری کہتے ہیں کہ یہ بات امریکیوں کے مفاد میں جاتی ہے کہ پاکستان کسی نہ کسی طور ان کا بوجھ کم کرنے کے لیے طالبان سے رابطہ کرے اور انخلاء کے عمل کو آسان اور موثر بنائے۔
پاکستان کو افغانستان کے امور میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کے لیے پہلے افغانستان میں اپنا اعتبار قائم کرنا ہوگا۔ اسے یہ یقین بھی دلانا ہوگا کہ اپنے مفادات کے لیے وہ طالبان کو استعمال نہیں کرے گا۔
افغانستان اینیلسٹس نیٹ ورک کے شریک ڈائریکٹر ٹامس رٹگ کہتے ہیں کہ اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ اتحادیوں کے انخلاء کے بعد کے افغانستان میں پاکستان اہم اور تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے تاہم یہ بھی صاف دکھائی دیتا ہے کہ ۲۰۱۴ء کے بعد افغانستان میں ابھرنے والی ممکنہ صورت حال میں طالبان کو استعمال کرنے کا خیال پاکستانی حکام نے ترک نہیں کیا۔
☼☼☼
Leave a comment