پاکستان کو بنے ساٹھ سال ہو گئے لیکن اس عرصہ میں ہم اپنے سیاسی معاملات کو جمہوری نہج پر چلانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے برخلاف بہت سے ایسے ممالک جو اتنے ہی عرصہ یا اس سے بھی کم عرصہ سے آزاد ہوئے وہاں کسی نہ کسی نوعیت کی جمہوری یا کم از کم سول حکومتیں قائم ہو گئی ہیں۔ پاکستان میں چار آدمی کسی جگہ بھی جمع ہو جائیں اور پاکستان پر گفتگو چھڑ جائے گی تو جس قدر پاکستان پر تنقید و تبّرا ہوتا ہے اس سے احساس ہوتا ہے کہ اس میں کوئی اچھی چیز موجود نہیں ہے۔ یہاں تک کہ غیر ملکی مہمانوں یا میزبانوں کی محفل میں محبوب موضوع سخن پاکستان کی تنقیص ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی تنقیص، لذتِ خود آزاری کی ہوس میں کرتے رہتے ہیں اور غیر ملکیوں سے بھی کروا کر آرام پاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا ایک سیدھا سادا جواب تو یہ ہے کہ ہم میں عزتِ نفس کی کمی ہے۔ لیکن یہ تو اس عمل کو ایک نام دینا ہوا۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ عزتِ نفس کیوں نہیں ہے۔ پاکستان ایک نیا نام ہے اور اس نام سے اپنی عینیت (Identity) قائم کرنے میں ہمیں چند نسلیں درکار ہوں گی۔ ہمارے تحت الشعور میں ’’پاکستان‘‘ ابھی تک ایک خارجی تصور ہے جو ہمارے تشخص کی علامت نہیں بن سکا ہے اور اس پر جا بیجا تنقید یا اس کی تنقیص سے ہم ایک ذہنی عمل کے ذریعہ اپنے کو جدا کر لیتے ہیں اور پاکستان ہمارا ’’غیر‘‘ بن کر اگر مطعون ہوتا ہے تو ہم پر اس کا کوئی نفسیاتی ردّعمل نہیں ہوتا۔ لیکن اجنبی ملکوں میں جہاں اجنبی جو ہم سے ’’غیر‘‘ ہوتا ہے اگر ہماری بحیثیت پاکستانی تنقیص کرے تو اس غیر کے ہاتھوں اپنی برائی سننا ہمیں ناگوار ہوتا ہے۔ باہر کے ملکوں میں بسنے والے پاکستانیوں میں خود اپنے ملک میں رہنے والوں کی بہ نسبت ’’پاکستانیت‘‘ اس لیے زیادہ ہے کہ ’’غیر‘‘ ان کو ایک وحدت میں پرونے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آخر پاکستان کی تعمیر میں کیا خرابی مضمر ہے کہ ایسا نہ ہو سکا۔ یہ سوال اکثر ’’پاکستانیت کا مسئلہ‘‘ ہمارے صحافی اور ٹیلی ویژن کے دانشوروں کے مابین موضوع بحث رہتا ہے۔ لیکن اخباری کالم یا ٹیلی ویژن کے پروگرام کسی قدر عمیق تجزیہ کے متحمل نہیں ہو سکے۔ اس پر نسبتاً زیادہ دیدہ وری سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں تاریخ کی تنقیدی تفہیم (Critical Study of History) کا شعور گہرا نہیں ہے۔ ہم تاریخی واقعات کو قضا و قد کا کھیل سمجھتے ہیں، اکثر تاریخی ہستیوں کی ضرورت سے زیادہ تکریم کرنے لگتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کو صنم بنا کر تقریباً پوجنے لگ جاتے ہیں یا ان پر تنقیدی محاکمہ کرنے کو روا نہیں جانتے۔ تاریخی تبدیلیوں میں ہم صرف شخصیات کے رول کو تبدیلیوں کے عمل کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے تاریخی تفہیم اور معاشروں میں تبدیلی کے اصولوں سے ناواقف رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے حالات کی بہتری کے لیے بھی کسی مردے ازغیب کے منتظر رہتے ہیں۔ ہماری تہذیب میں عموماً اور مذہب میں بالخصوص جو تقلیدی روایت مستحکم ہو گئی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ہم نے اپنے متقدمین کو ہر قسم کی غلطی سے مبرّا جانا ہے۔ یہ بات کہ ایسا فلاں کتاب میں لکھا ہے یا فلاں عالم نے کسی مسئلہ کے بارے میں یہ رائے دی ہے ہماری دلیل محکم بن گئی ہے۔اس طریقہ کار کا ایک بڑا واضح نمونہ علماء کے فتاویٰ میں ملتا ہے جہاں متقدمین کی اسناد کسی مسئلہ کے جواب کے لیے خود مکتفی تصور کی جاتی ہیں۔ یہی بات شخصیات کے بارے اور تاریخی واقعات کے بارے میں بھی درست ہے۔ یہ پیش نظر رہے کہ یہ تنقیدی مطالعہ عوامی تقریروں کا موضوع نہیں ہوتا لیکن دنیا کے مہذّب ملکوں کے دانشور سماجی اور تاریخی عوامل کے تنقیدی شعور کو معاشروں کے استحکام اور ترقی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ یہ تنقیدی عمل کسی قسم کی ادّعایت سے شروع نہیں ہوتا، یہ ایک سلسلہ وار عمل ہے جو تصورات اور خیالات سے تضادات کو ختم کر کے ایک نسبتاً زیادہ جامع نظام کی شکل میں وجود میں آتا رہتا ہے۔ معاشروں کی ترقی کے لیے یہ عمل ناگزیر ہے۔ جن معاشروں میں خود تنقیدی کے عمل کی برداشت ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنے کو مکمل اور خود مکتفی سمجھنے لگتے ہیں بالآخر جمود کا شکار ہو کر روبہ زوال ہو جاتے ہیں۔
یہ چند باتیں پیش بندی کے طور پر لکھی ہیں کہ آگے جو کچھ لکھا جائے گا اس میں کسی حد تک خود تنقیدی کا عمل بھی شامل ہو گا۔ میری آگے آنے والی گفتگو میں بعض ان بحثوں کا اعادہ بھی ہے جو پچھلے پچاس سالوں میں ہوتی رہی ہیں۔ لیکن ان لیکن ان کو دوبارہ معرض بحث اس لیے لایا گیا کہ ہمارے قومی روّیہ نے ان پر کسی قسم کی گفتگو کو تقریباً ایمان کے منافی اور پاکستان کے مفاد کے خلاف قرار دے دیا ہے۔
’’پاکستان‘‘ اور ’’پاکستانی‘‘ نئے الفاظ ہیں۔ اس نام کی کوئی قوم برصغیر میں اور نہ دنیا کے کسی دوسرے کونے میں آباد تھی۔ یہ بات کہ محمد بن قاسم کی ہندوستان میں آمد یا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی، پاکستان کی تشکیل کا پہلا قدم ہے، ہندوستانی مسلمانوں کو تاریخی تشخص فراہم کرنے کی مبالغہ آمیز کوشش ہے۔ خود ہندوستان میں مسلم لیگ کی تشکیل کا مقصد برطانوی حکومت کے لیے وفاداری کے جذبوں کو ابھارنا اور ہندوستان کے مسلمانوں کے مفادات اور سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان دو بڑے مذہبی گروہوں کی حیثیت سے تو ہندوستان میں موجود تھے لیکن مسلمانوں کا بحیثیت مجموعی ایک ’’تہذیبی اکائی‘‘ ہونے کا تصور بیسویں صدی کی سیاسی تحریکوں کے زیر اثر پیدا ہوا۔ مسلمانوں کی تہذیب میں، یہودی مذہب کی طرح ’’جلا وطنی‘‘ اور بابل سے منتشر ہو جانے کا کوئی تصور (Diaspora) بھی نہیں تھا۔ یہودیوں کے برعکس، وہ جلا وطن ہو کر نہیں بلکہ عموماً فاتح کے طور پر دنیا کے مختلف ملکوں میں داخل ہوئے اور وہاں سلطنتیں قائم کیں۔ یہی صورتحال ہندوستان کی بھی تھی۔ یہاں مسلمانوں کا کوئی چھوٹا بڑا Diaspora نہیں تھا۔ اور انہیں جلا وطنی کے ’’دکھ‘‘ کا کوئی اجتماعی احساس بھی نہیں تھا۔ اس لیے ہندوستان میں مسلمان ایک Diaspora کی ذہنیت سے آباد نہیں تھے کہ یہودیوں کی طرح اصلی مستقر کی طرف مراجعت کی کوئی دائمی آرزو ان کے تحت الشعور میں پیوست ہو۔
مسلم لیگ کے قیام کے بعد مسلمانوں کو ہندوستان میں ایک علیحدہ ریاست کے تصور کی تشکیل میں ۳۴ سال کا عرصہ لگا اور ۱۹۴۰ء میں قرار داد لاہور پاس کی گئی۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے یکے بعد دیگرے تینوں دساتیر میں سے کسی میں بھی اسلامی ریاست کا قیام اغراض و مقاصد شامل نہیں ہے۔ ۱۹۳۲ء میں ہندوستان میں خود مختاری کا حصول جس میں مسلمانوں کے سیاسی، مذہبی اور دیگر حقوق کی حفاظت اور دوسرے مذاہب اور کمیونٹیز سے دوستی اور اتحاد نصب العین تھا۔ ۱۹۳۷ء میں مکمل آزادی جس میں وفاقی اکائیوں کو خود مختاری ہو اور دستوری تحفظ حاصل ہو اور ۱۹۴۲ء میں مسلمانوں کی اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد ریاستوں کے قیام کا مطالبہ شامل تھا۔ ان میں کسی دستور میں بھی ’’اسلامی مملکت‘‘ کے قیام کا نصب العین موجود نہیں تھا۔ البتہ یہ بات مفروض کر لی گئی تھی کہ مسلمان ریاستوں کو اسلامی ہی کہا جائے گا جس طرح اس سے قبل تاریخ میں مسلمان بادشاہتیں اسلامی کے نام سے موسوم ہوتی رہی ہیں۔ اگر پاکستان کا مطالبہ جیسا آجکل مفروض کیا جاتا ہے ’’اسلام‘‘ کے تحفظ کی خاطر کیا گیا تھا تو ہندوستانی مسلمانوں کا کیا قصور تھا کہ ان کو اور ان کے ’’اسلام‘‘ کو ہندوستان کی اکثریتی تہذیبی اکائی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ اس ژولیدہ فکری کے نتیجے میں یہ قرار داد، ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی تقسیم کا باعث تو بن گئی، لیکن ’’اسلام‘‘ اور مسلمانوں کی ایک تہائی آبادی کے لیے کوئی واضح اور محفوظ قلعہ نہ بن سکی۔ سوچنے کی بات تھی کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان کوئی معمولی اقلیت نہیں ہوتے، بلکہ اپنی تعداد کے اعتبار سے اور ممکنہ طور پر اپنی فہم و فراست اور محنت کی بنیاد پر ہندوستانی قسمت (Destiny) کے فیصلوں میں برابر کے حصہ دار ہوتے۔ اتنی بڑی اقلیت کے حقوق کو نظر انداز کر دینا ہندوستانی ریاست کے بس میں نہیں ہوتا۔
برصغیر کے مسلمانوں کی دشواری یہ تھی کہ ان میں ایسے دانشور جو زمانہ جدید کے سماجی، عمرانی، معاشی اور سیاسی مسائل سے واقف نہ ہونے کے برابر تھے۔ مسلمانوں میں جدید تعلیم بہت تاخیر سے آئی، اس لیے اتنے کم عرصہ میں دانشوری کی وہ اقل ترین مقدار (Critical Mass) فراہم کرنے سے قاصر رہی جو حالات کا صحیح ادراک کرنے کے قابل ہو اور معاشروں میں تغیر و تبدّل کا باعث ہو سکے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی مذہبی دانش کا ایک غالب حصہ پاکستان کے تصور کو مسلمانوں کے لیے قابل ترجیح بھی نہیں سمجھتا تھا۔ ایک حلقہ اس کی تشکیل کی جدوجہد میں اسلام کو ایک محرک کے طور پر استعمال کیے جانے کے خلاف تھا۔ مثلاً خود مولانا مودودیؒ اور جماعت احرار الاسلام اس خیال کے حامل تھے کہ مسلم لیگ کے طریق کار سے ایک ’’اسلامی مملکت‘‘ وجود میں آنا ناممکن ہے۔ اس طرح مسلمانوں کی ایک سلطنت تو بن سکتی ہے لیکن اس کو ’’اسلامی‘‘ کی صفت سے موسوم کرنا یا یہ سمجھنا کہ اس کے قائدین اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں صحیح نہیں ہو گا۔ اس سب کے باوجود ۱۹۴۰ء کے بعد بہت جلد مسلمانوں کا سواد اعظم، اسلام سے جذباتی لگاؤ کے زیر اثر پاکستان کا مویدّ بن گیا اور علماء کی آراء کے علی الرغم پاکستان کے قیام پر متحد ہو گیا۔ یہ بات تحریک پاکستان کے رہنما سمجھنے سے قاصر رہے کہ اس اتحاد کی بڑی وجہ، اسلامی جذبہ کے ساتھ ہی یہ بھی تھی کہ ایک ’’غیر‘‘ (ہندوستان کا دوسرا مذہبی گروہ) موجود تھا، جس کے خلاف، (خاص طور پر اقلیتی علاقوں کے) مسلمان متحد ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ اس ’’غیر‘‘ کے سامنے سے ہٹ جانے کے بعد محض اسلامی جذبہ کے زیر اثر مسلمانوں کو ایک قوم کی صورت مجتمع رہنے پر بھروسہ کرنا قرین قیاس نہیں تھا۔ یورپ کی دوسری دو بڑی جنگیں عیسائیت کے مشترک ہونے کے باوجود اور سو سالہ مذہبی جنگیں مذہب کے سبب ہی لڑی گئی تھیں اسلامی تاریخ میں بھی ایسی مثالیں کم ہیں جہاں مذہب فی نفسہٖ اپنے تمام پیروکاروں کے سیاسی اتحاد کا خود مکتفی سبب بن سکا ہو۔
پاکستان کا مسئلہ اسی فکری ابہام سے پیدا ہوا کہ آیا ایک نئے ملک کا قیام اسلامی نظام کے قائم کرنے کے لیے ضروری تھا یا مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے؟ اور کیا واقعی مسلمانوں کے حقوق متحدہ ہندوستان میں اتنی کثیر اقلیت ہونے کے باوجود پامال کیے جا سکیں گے یا نہیں؟ ان باتوں پر سیر حاصل سوچ بچار نہیں کی گئی بلکہ وقتی ضرورتوں کے پیش نظر ان کو غالباً قصداً مبہم رکھ کر کام چلایا جاتا رہا۔ عوامی تحریک کو ہوا دینے کے لیے مسلمانوں کا سب سے بڑا جذباتی محرک اسلام کی حفاظت کا نعرہ اور اسلامی نظام کا قیام تھا۔ مسلمانوں کی رومانوی طبیعت میں اسلامی نظام کے ذریعہ موجودہ زمانہ میں ایک ارضی جنت بنانے کی خواہش بڑی شدت سے موجزن تھی۔ قائد اعظم نے بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اس محرک کو استعمال کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ ان کی صدارت میں نواب بہادر یار جنگ کی تقریریں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے میں بڑی معاون ثابت ہوئیں اور مولانا ظفر احمد انصاری کی پس پردہ کوششوں سے مسلمان علماء میں سے کچھ لوگ تحریک پاکستان کی حمایت کرنے لگے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اگر پاکستان بن گیا جیسا کہ نظر آتا ہے، تو اس کو محمد علی جناح اور اُن جیسے سیکولر ہاتھوں میں چھوڑا نہیں جا سکتا۔ محمد علی جناح نے عمومی اصطلاحات اور اسلام کی آفاقی اقدار کے بیان سے زیادہ کبھی اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ پاکستان میں اسلامی نظام کی عملی صورت کیا ہو گی، اس کو کون نافذ کرے گا؟ کیا وہ تمام قوانین جو اس سے قبل اسلامی ریاستوں میں اسلامی شریعت کے نام سے رائج تھے۔ ان کو بجنسہٖ پاکستان میں نافذ کر دیا جائے گا یا نئے قوانین بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر نئے قوانین بنیں گے تو ان کے شرعی اور غیر شرعی ہونے کا فیصلہ کون کرے گا۔ یہ مسائل تو صرف پاکستان اور اسلام کے تعلق کے حوالے سے تھے۔ ان کے علاوہ بھی مسلم لیڈر شپ کو پاکستان کے نظم و نسق، قانون اور دستور، صوبوں کے تعلقات، پاکستان میں بسنے والوں کی امنگوں اور خواہشات جیسے مسائل کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا اور نہ مسلم دانشوری کے پاس ان مسائل کا بالاستعیاب مطالعہ کرنے کی استعداد موجود تھی۔ عوام کو تو اس بارے میں متّہم نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ اسلام ان کے لیے ایک ارضی جنت کی آرزو تھا لیکن جہاں تک مسلم لیگ اور مذہبی لیڈروں کے اسلام کے نام کا استعمال کرنے کا سوال ہے صاف ظاہر ہے کہ اس کے معانی ان میں سے ہر طبقہ کے لیے مختلف تھے۔ مغربی ذہن رکھنے والوں اور مذہبی علماء کے درمیان کوئی متفقہ لائحہ عمل تھا اور نہ مذہبی علماء کے پاس ایک جدید مسلم ریاست کا کوئی واضح نقشہ۔ مجھے کسی نے یہ بتلایا تھا کہ مستقبل کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے مسلم لیگ نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں مسلمانوں کے حوض دانش (Think Tank) ڈاکٹر ظفر الحسن جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فلسفہ کے پروفیسر تھے، ڈاکٹر افضال حسین قادری، ڈاکٹر ایم ایم احمد اور کچھ دوسرے حضرات شامل تھے۔ کمیٹی کی رپورٹ میں ہندوستان کا ایک نقشہ بھی شامل تھا جس میں اکثریتی صوبوں کے علاوہ دوسرے بہت سے چھوٹے بڑے ہرے رنگ کے گول نشان بنے ہوئے تھے جو ان مسلمان ریاستوں کے تھے جو بالآخر پاکستان کا حصہ بنتے۔ گویا ایک ملک کے لیے یہی کیا کم تھا کہ اس کے دوٹکڑوں میں ایک ہزار میل کی دوری ہو مستزاد یہ کہ یہ ملک ہندوستان کے ان چھوٹے بڑے ’’جزیروں‘‘ پر بھی مشتمل ہو گا جو مسلمان والیان ریاست کے زیر نگیں تھے اور جن کے چاروں طرف ہندوستان کے نہنگِ خون آشام منہ کھولے کھڑے تھے۔ ببیں عقل و دانش بباید گریست۔
پاکستان کے وجود میں آنے کی داستان اتنی سیدھی سادی نہیں ہے جتنا ہمارا سواد اعظم سمجھتا ہے یا اس کو سمجھایا جاتا ہے۔ یعنی مسلمان ملکوں میں ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ (یہ بھی مبہم اصطلاح ہے) کی جو لہر اٹھی اور ہندوستان و پاکستان کی تقسیم سے جو تاریخی عمل ہوا اس کے نتیجے میں مسلمانوں نے بڑی جدوجہد اور بڑی قربانیاں دے کر ایک خطہ زمین حاصل کیا تاکہ یہاں نشاۃ ثانیہ کے اُس خواب کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ یہ بات عوامی اور علمی دونوں سطحوں پر ہوتی رہی ہے۔ عوامی سطح پر تو اس کو کسی بھی سیاسی مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن علمی سطح پر ہماری جامعات اور تحقیقی اداروں میں جس تحقیقی اور تنقیدی رویہ کا فقدان ہے اس کی وجہ سے یہ بھی واضح نہیں ہو سکا کہ اس نشاۃ ثانیہ کے خدوخال کیا ہے اور کیا یہ نئی راہوں کی نشاندہی کرتی ہے یا پرانی ڈگر پر رجعت کی دعوت دیتی ہے۔ اگر نئی راہوں کی تلاش مقصود ہے تو ان کی بنیاد کیا ہو گی اور وہ کون سا نیا پیراڈائم ہو گا جس کے تحت نئے نظامِ زندگی کی تشکیل ہو گی۔
’’پاکستان‘‘ ہمارے تشخص کا لازمی حصہ نہ بن سکنے کی وجہ تصورات کا یہی تناقض ہے جو پاکستان کے قیام میں کار فرما رہے ہیں۔ اگر ہمارے تشخص کی اصل بنیاد ہمارا مذہب ہے تو یہ کسی ملک کا نام نہیں ہے۔ اگر ’’اسلام‘‘ اور ’’ملک‘‘ کے درمیان کسی قسم کی عینیت ہوتی تو دنیا کے تمام مسلمان عربی، عجمی، ہندوستانی، عراقی اور شامی میں تقسیم نہیں ہوتے۔ بات یہ ہے کہ اسلام،’’غیر اسلام‘‘ کے مقابل تو وجہ اتحاد بن سکتا ہے، لیکن اگر یہ ’’غیر‘‘ موجود نہ ہو جیسا کہ غیر منقسم ہندوستان میں تھا، تو پھر ہمارا تشخص اپنی قوم، قبیلہ، صوبے، لسانی گروپ کی طرف اولاً رجوع کرے گا اور اس تشخص سے پہلو تہی کرنے اور دوسرے تصور سے تشخص جوڑنے کے لیے اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہو گا جتنا امریکا میں نو آبادکاروں کو امریکی یا فرانس والوں کو فرانسیسی اور جرمنوں کو جرمن بننے میں لگا۔ ہندوستان کے جن حصوں میں پاکستان بنا ان کا اپنا ایک ذاتی تشخص پہلے سے موجود تھا جو اسلام سے متصادم نہیں تھا اور کفر کی طرح ان کے لیے اس ذاتی تشخص سے انکار لازمی نہیں تھا۔ پہلے سے موجود تشخص، دوسرے تشخص سے متضاد ہونے کی صورت میں ہی چھوڑا جا سکتا ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ قبائلی، لسانی اور دوسرے پرانے میلانات اور رجحانات پھر سے نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سرسری مطالعہ بھی اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ حضورﷺ کی وفات کے فوراً بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ان میں بڑا دخل مختلف قبیلوں کے قبل اسلام تشخص کا بھی تھا جو اگرچہ رسول اللہﷺ کی فوق قبائلی (Supratribal) لیڈر شپ کے تحت ثانوی ہو گیا تھا لیکن حضورﷺ کی وفات کے بعد وہ دوبارہ عود کر آیا۔ پہلے دو خلفائے راشدین کی حکمت عملی کے سبب اگرچہ وہ پھر ثانوی ہو گیا، لیکن فوراً بعد ہی آہستہ آہستہ اس نے ریاستی اداروں پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا۔ مسلمانوں کی مملکت کو کئی حصوں اور بعض اوقات متحارب مملکتوں میں تقسیم ہو جانے کے پس پشت بھی ایک بڑا محرک یہی تھا۔
’’پاکستانیت‘‘ کو عام حالات میں بھی پاکستانیوں کی فطرت ثانیہ بننے میں بھی طویل عرصہ کی ضرورت تھی لیکن ایسے حالات میں جب اس تصور کے متضاد یا اس پر مستزاد محرکات کار فرما ہوں اور عالمی سیاست بھی دخل انداز ہوتی رہتی ہو تو پھر یہ مسئلہ بجائے خود Problematic بن جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام بجائے خود اتنا طاقتور محرک نہیں تھا کہ پہلے سے تسلیم شدہ تشخص کو جو اسلام کی ضد بھی نہ ہو ختم کر سکے۔ اس کی قابلِ عمل صورت صرف یہی ہو سکتی ہے کہ تصوراتی وحدت کی جگہ قابلِ حصول زمینی اغراض و مقاصد اور مشترک مفادات ’’پاکستانیت‘‘ کی بنیاد بنیں، جو کسی تشخص کی قربانی دیئے بغیر مجموعی ترقی اور بہتری کے امکانات رکھتے ہوں۔
قیامِ پاکستان میں مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں سے انکار کیے بغیر پاکستان کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے چند اور حقائق پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
غیر منقسم ہندوستان میں ہندوؤں کا ایک معتدبہ اور موثر طبقہ ہندوستان کے مسلمان اکثریتی علاقوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ علاقے اگر آزاد کر دیئے گئے تو اپنے درونی معاشرتی تضادات کی وجہ سے یا تو خود ختم ہو جائیں گے یا مستقل طور پر بدامنی اور بے چینی کا شکار رہیں گے۔ اس لیے ان حصوں کو کاٹ کر الگ کرنے سے ہندوستان کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ ہندوستان میں ہندوؤں کی اس فکر کے ساتھ ایک اور موثر طبقہ بھی ہندوستان کی تقسیم کا، یا کسی ایسے انتظام کا حامی تھا جہاں اس کو اپنی مقصد براری کے لیے مواقع فراہم ہوں۔ تاریخ کے اس حصہ کے متعلق جو اب تک قیاسی تھا، شواہد ملنے لگے ہیں۔ برطانوی حکومت کی سرکاری دستاویزات ان کی مدت ِ اخفاء ختم ہونے کے بعد اب لوگوں کی دسترس میں ہیں۔ برطانیہ اور مغربی طاقتوں کی دلچسپی پاکستان کی تشکیل میں اس لیے تھی کہ ان کو آنے والے دنوں میں مشرق وسطیٰ اور روس دونوں میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے جغرافیائی اعتبار سے ایک ایسا ملک مہیا ہو سکے گا جس کو وہ آسانی سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر سکیں گے اور ان کو شمال مغربی علاقوں میں ہوائی اڈے اور کراچی کی بندرگاہ ایک سمندری سہولت کے طور پر میسر ہو سکیں گے۔ پاکستان کے قیام میں یہ سارے محرکات کام کر رہے تھے، جو اس نئی ریاست کے لیے پیچیدہ اور جلد حل نہ ہونے والے مسائل کا پیش خیمہ تھے۔
ماؤنٹ بیٹن کی یادداشتوں میں ۷ جولائی ۱۹۴۷ء کی ایک دستاویز ملتی ہے جس کے سرنامہ پر ’’انتہائی خفیہ‘‘ لکھا ہے اور جس پر کسی کے دستخط نہیں ہیں اس میں لکھا گیا ہے کہ، مشرق وسطیٰ اور اس کے تیل کے ذخائر کے لیے کسی بھی دفاعی منصوبہ میں وادی سندھ مغربی پنجاب، بلوچستان بڑی اہمیت کے ملک ہیں۔ اگر اس خط پر نظر ڈالیں تو دفاعی حصار کی دیوار میں آپ کو پانچ اہم اینٹیں نظر آئیں گی اور یہ ترکی، ایران، عراق، افغانستان اور پاکستان ہیں۔ سویت یونین کی جارحیت کے مقابلہ کے لیے کراچی ہی وہ بندرگاہ ہے جہاں سے دفاعی عمل ممکن ہے۔ یہ سمندر تمام ملکوں سے رابطہ کا ذریعہ ہے اور اُن سمندری راستوں کی حفاظت کا ضامن ہے جو خشکی سے گھرے ہوئے ہیں اور جو روسی فضائی حملوں کا نشانہ بن سکتے ہیں یا جہاں پر فوجیں اُتر سکتی ہیں، دولت مشترکہ برطانیہ اور امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنے حساس مفادات کے تحفظ کے لیے سب سے زیادہ مناسب اور محفوظ مقام پاکستان کی سرزمین ہے۔ پاکستان اس دفاعی منصوبہ کی کلید ہے جو بحیرۂ ہند پر اور متعلقہ علاقوں پر کسی حملہ کی صورت میں پیش آ سکتا ہے پاکستان بننے کے بعد آنے والے دنوں میں جو کچھ ہوا وہ بین الاقوامی کنٹرول حاصل کر لینے کے لیے اسی منصوبہ کا حصہ تھا۔
مندرجہ بالا باتوں کا اگر خلاصہ کیا جائے تو کچھ اس طرح ہو سکتا ہے۔
۱۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا مسئلہ ان کے حقوق کا تحفظ اور آبادی کے لحاظ سے ملک کے نظم و نسق کو چلانے میں ان کا حصہ تھا۔ یہاں تک تو بات واضح اور غیر مبہم ہے۔
۲۔ لیکن پاکستان بنانے کا مقصد مبہم اور غیر واضح تھا اور متضاد محرکات کا شکار تھا۔ مزید مسلمانوں کا بنیادی تشخص زبان، نسل اور قوم کا تھا ’’پاکستانیت‘‘ کا نہیں۔
۳۔ اگر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا معاملہ تھا تو اس سوال کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں تھا کہ پاکستان بننے کی صورت میں ان کا تقریباً ایک تہائی حصہ اُس احساسِ تحفظ سے بھی محروم ہو جائے گا جو اس کو ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے ایک ہی ریاست میں رہنے کی صورت حاصل ہو گا۔
۴۔ اگر پاکستان بنانے کا مقصد ’’اسلام‘‘ تھا تو اس کے خدوخال کیا تھے؟ کیا وہ جو قائد اعظم کی مختلف اوقات میں کی گئی تقریروں میں مبہم انداز میں ملتا ہے یا وہ جس کی وکالت مولانا مودودیؒ کر رہے تھے یا سیدھا سادا روایتی شریعت کا نفاذ تھا جس کا تجربہ افغانستان میں ہوا؟۔
۵۔ جنگ عظیم کے بعد کی عالمی منصوبہ بندی کے پیش نظر اس نوزائیدہ ریاست کے عمومی اہداف کا رُخ کیا ہو گا؟۔
۶۔ بیسویں صدی کے نصف آخر اور اکیسویں صدی کے متوقع سیاسی اور سماجی نظاموں کے ساتھ جن میں سرمایہ دارانہ اور جمہوری اقدار بالادست ہوں گی نبرد آزما ہونے کا رُخ کیا ہو گا؟ اگر جمہوری رخ اختیار کرنا ہو تو اس کے اور اسلامی رُخ کے بنیادی تضادات کے حل کا طریقہ کیا ہو گا؟۔
پاکستان کے بنیادی تصور کا یہ ابہام ہر قسم کی تعبیر و تشریح کے امکانات کو کھلا چھوڑ دیتا ہے جس کے نتیجے میں انتشارِ فکری کے ساتھ مرکز گریز تصورات کو آسانی سے در آنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔
’’پاکستان کے مسئلہ‘‘ کے اس کے علاوہ کچھ داخلی عوامل بھی ہیں اور یہ عوامل بنیادی طور پر اس اجتماعی پیراڈائم سے متعلق ہیں جو پاکستانی مسلمانوں کو دوسری اقوام سے ممّیز کرتا ہے۔ اور جس کی وجہ سے ہندوستان میں دو قومی نظریہ پیدا ہوا۔ اس پیراڈائم کا قریبی تعلق مسلمانوں کے مذہب اور معاشرتی بنت سے ہے جن کے مجموعہ کو آپ افتادِ طبع (Mind set) بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کی وضاحت تھوڑی تفصیل اور تجزیہ کی طالب ہے۔
جب افتادِ طبع کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ مغربی ذہن مشرقی ذہن سے مختلف ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انسانی گروہوں کے درمیان کچھ محرکات، عقائد، اقدار، سماجی رویئے، رسم و رواج اور طور طریقے مشترک ہوتے ہیں۔ اس کے معنیٰ یہ نہیں ہوتے کہ یہ تمام اوصاف ہر شخص میں بدرجہ اُتم موجود ہوں۔ ہر گروہ میں کچھ اشخاص اس گروہ کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بھی ہو سکتے ہیں، لیکن افتاد طبع، یا مجموعی ذہن ان خصوصیات کا مجموعہ ہوتا ہے جو گروہ کے اکثر ارکان میں پایا جاتا ہے۔ اسی تعریف کے ساتھ ہم ’’مسلمان ذہن‘‘ یا مسلمان ’’ذہنیت‘‘ کو بھی موضوع بحث بنا سکتے ہیں۔ اس بڑے ذہنی سِٹ (Set) کے تحتانی سٹ (Sub-sets) بھی ہو سکتے ہیں اور مسلمان ذہن بھی کئی تحتانی سٹوں میں تقسیم ہو سکتا ہے جسے ایرانی، پاکستانی یا ترک۔ ان کی افتادِ طبع میں پس منظر یکساں اور مناظر مختلف ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہم ان دونوں اقسام کو جانے بغیر پاکستانیوں کی افتادِ طبع کو نہیں جان سکتے۔ ہمارے ذہنی نقشہ میں مذہب کا رنگ گہرا ہے۔ اور بڑی حد تک محیط ہے اور اس ذہن کو بننے میں تاریخی عوامل اسی طرح بہت اہم ہیں جس طرح وہ دوسری اقوام یا طبقات میں۔ اسلام، جیسا کہ خود رسول اللہﷺ نے کہا تھا کوئی نیا مذہب نہیں ہے۔ بلکہ یہ اسی سلسلہ مذاہب کی ایک آخری کڑی ہے جن کو ہم کتابی مذاہب کہتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی رسول آئے ہوں گے لیکن مذاہب کے بنیادی اصول مشترک ہونے کے باوجود اپنے اظہار کے روّیوں میں وسیع حد تک مختلف ہو سکتے ہیں۔ کتابی مذاہب کی ایک خاص لسانیات (Vocabulary) اور ایک خاص دائرہ بیان (Universe of Discourse) ہوتا ہے جو دوسرے مذاہب کی لسانیات اور دائرہ بیان سے چند بنیادی تصورات کے اتحاد کے باوجود کافی مختلف ہے۔ اسلام کے بنیادی تصورات میں کوئی تصور ایسا نہیں ہے جو اُس وقت کے عربوں اور منسلکہ علاقوں کے لیے نیا ہو۔ البتہ ان کی تفہیم میں ترمیم و تنسیخ ہوئی ہے۔ اللہ، یومِ آخرت، رسول و نبی، ملائکہ، جِن، نیک کاموں کا بدلہ اور برے کاموں کا حشر، یہ سارے وہ تصورات تھے جن سے اُس وقت کے لوگ روشناس تھے لیکن ان تصورات کا اطلاق رسمی اور ضمیاتی (Mythological) ہو گیا تھا اور قبائلی معاشرہ میں مقصدیت اور یکجہتی پیدا کرنے سے قاصر تھا۔
مدینہ ہجرت کرنے کی وجہ سے رسول کو جو سیادت میسر آئی اس نے رفتہ رفتہ اسلام کو اصلاحی تحریک سے آگے بڑھ کر ایک متحرک سماجی اور معاشرتی نظام میں تبدیل کر دیا۔ سیاست میں قبائلی طرز تو برقرار رہا، لیکن لیڈر شپ البتہ قبائلی نظام سے آزاد ہو گئی۔ مدنی معاشرہ کے وجود میں آنے کے بعد اسلام بڑی سرعت کے ساتھ پھیلا لیکن اس کی تفہیم کے ارتقاء کے سلسلے میں دو باتیں خاص طور پر واقع ہوئیں۔ اوّلاً وہ ضرورتاً ایک فقہی نظام کی حیثیت سے سمجھا جانے لگا اور ثانیاً بہت جلد اس نے دوسرے کتابی مذاہب کی طرح عقائد کے ایک نظام کی شکل اختیار کرلی۔ اور یہ عقائدی نظام مع اپنی تفصیلات کے مسلمانوں کے تشخص کا لازمی حصہ بن گیا۔ یہ دونوں خصوصیات ایک مجمل ایمان اور سپردگی کی کیفیت کے مقابلہ میں زیادہ معروضی تھیں اور ان کی بنیاد پر اسلام اور کفر کا فرق مبینہ عقائدی نظام کے اقرار یا انکار پر مبنی ہو گیا۔ اسی عقائدی اور فقہی نظام کی وجہ سے مسلمانوں میں فقہا اور متکلمین کا ایک طبقہ بھی پیدا ہوا جو لوگوں کے عقائد کی صحت اور عدم صحت کے فیصلے صادر کر سکے۔ اس عقائدی اور فقہی نظام نے مسلمانوں کی زندگی ہر چھوٹے بڑے فیصلے کو ایک ’’حکم و اطاعت‘‘ کے پیرایہ میں منتقل کر دیا اور ان کے ہر عمل کو فقہی استناد کا پابند کر دیا۔
اسلام کے سرعت کے ساتھ پھیلنے اور اس کے عقائدی نظام کی حیثیت سے متشّکل ہونے کے ساتھ ہی ابتدائی ادوار میں یکے بعد دیگرے ایسے واقعات ہوئے جن کی وجہ سے مسلمانوں کے دل میں منتشر ہوجانے کا خوف بیٹھ گیا۔ رسول اللہﷺ کی وفات خود ایسا حادثہ تھا جس کا پہلا ردّعمل اضطراری اور نفسیاتی تھا۔ حضرت عمرؓ نے بدحواسی کے عالم میں، ایک روایت کے مطابق یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضورؐ، حضرت موسیٰؑ کی طرح اپنے رب کی طرف گئے ہیں اور جس طرح حضرت موسیٰؑ چالیس رات بعد اپنی قوم میں واپس آئے، حضورؐ بھی آجائیں گے۔ بعض دوسرے لوگوں نے اپنے کو اسلام کی طرف سے عائد کردہ بہت سی ذمہ داریوں سے بری کر لیا۔ انصار نے سمجھا کہ رسول اللہ کے بعد سرداری ان کا حق ہے۔ دوسری طرف خاندان بنو ہاشم اور قریش سمجھتے تھے کہ سرداری کے فطری حقدار وہ ہیں۔ اس کے نتیجے میں رسول اللہﷺ نے جو ماورا قبیلہ معاشرہ بنانے کی کوشش کی تھی وہ یکایک بکھرتی نظر آئی اور مسلم معاشرہ کو انتشار کا خطرہ نظر آنے لگا۔ خود رسول اللہﷺ کے مدینہ کے میزبانوں میں سرداری کے منصب کے لیے قبیلوں میں مسابقت شروع ہو گئی۔ بالآخر ایک سمجھ دار روّیہ کے نتیجہ میں حضرت ابوبکرؓ کو رسول اللہﷺ کا جانشین بنا دیا گیا۔ یہ فیصلہ جس مصلحت اور ضرورت کے تحت کیا گیا وہ یہ تھی کہ قبیلہ قریش ممتاز قبیلہ تھا۔ باقی قبائل قریش میں سے تو کسی کی امامت قبول کر سکتے تھے لیکن کسی اور کی نہیں۔ اس موقع پر رسول اللہﷺ کی اتھارٹی نے بڑا کام کیا اور ائمہ کے قریش میں سے ہونے پر حضور کا ایک قول سند کے طور پر پیش کر دیا گیا۔ ابوبکرؓ کے خلیفہ بن جانے کے بعد بھی انتشار اور شورش ختم ہونے میں ایک عرصہ لگا اس لیے کہ کچھ لوگوں نے ایک مرکزی اتھارٹی کو اسی نہج پر ماننے سے انکار کر دیا جس طرح وہ رسولﷺکو مانتے تھے۔ کچھ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا، کچھ لوگوں نے پیغمبری کا دعویٰ کر دیا اور اسلامی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکنے کی کوشش کی اس افراتفری کا نتیجہ ردّہ جنگوں کی صورت میں سامنے آیا۔ حضرت ابوبکرؓ اپنے دو سال سے کچھ زیادہ دور خلافت میں زیادہ تر انہی مرکز گریز قوتوں پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے اور بالآخر کامیاب ہوئے۔ لیکن ان واقعات نے دانشِ وقت کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ انتشار کے خطرہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ اس خطرہ کے مقابلہ کے لیے جو قابلِ عمل طریقہ اُس وقت آسانی سے قابلِ حصول اور قابل قبول تھا وہ یہ تھا کہ لوگوں کو آزاد فکری سے باز رکھا جائے اور تقلید کو اسلامی طرز عمل کا مستند معمول بنا دیا جائے۔ اس کا ایک مظاہرہ اس وقت ہوا جب حضرت عمرؓ کے انتقال کے بعد خلافت کے لیے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان انتخاب کا سوال پیدا ہوا تو حضرت عثمانؓ کے حق میں فیصلہ کن بات یہ رہی کہ انہوں نے شیخین کی پیروی کے عزم کا اظہار کیا جبکہ حضرت علیؓ مسائل کو اپنی فہم و فراست کی مدد سے حل کرنے کے قائل تھے۔
ردّہ جنگوں کے علاوہ مسلمانوں میں انتشار کی اور بھی کئی وجوہات ہوئیں جو زیادہ تر سیاسی نوعیت کی تھیں لیکن مذہب ایک لازمہ کے طور پر ان اختلافات کا اہم جزو رہا۔ جنگ جمل، جنگ صفین اور بالآخر کربلا کا واقعہ یہ سب امت مسلمہ کے مختلف حصوں میں بٹ جانے اور منتشر ہونے کے خطرہ کا احساس دلا رہے تھے۔ اس کا حل خاص طور پر فقہا اور علماء کے گروہ نے یہی نکالا کہ عقائدی نظام کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لیا جائے اور تقلید پر زور دیا جائے۔ اس طرح تقلید کی یہ روش مستقل طور پر مسلمانوں کے ذہنی رویہ کا جزو بن گئی۔ اس تقلیدی نظام کے باوجود جزئیات سے اختلاف کے سبب یا تو نئے نئے فرقے ظہور میں آتے رہے، یا معاشرہ اختلاف کرنے والوں کو اپنے سے خارج کرتا رہا۔ امت کا فرقوں میں بٹ جانا بھی اس اعتبار سے غنیمت ٹھہرایا گیا کہ ہر فرقہ اسلام کی بنیادی تعلیمات پر مجملاً تو ایمان رکھتا ہے، اختلاف تفصیل میں ہے اور اس کی بنیاد بھی قرآن و حدیث سے تخریجِ مسائل میں ہے۔ یہ تقلیدی اور عقائدی ذہن کچھ اس طرح مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن گیا کہ چاہے وہ تصوف کا میدان ہو، فقہ اور فکر کا میدان ہو یا علمِ کلام کا، ایک بنیادی تقلیدی رجحان کم و بیش ہر جگہ پایا جائے گا۔ جس کی وجہ سے معاشرہ کے بنیادی پیراڈائم میں تخلیق و تفّکر کا عنصر کم سے کم ہو کر حق و باطل کا معیار سمع و طاعت بن گیا۔ فکری آزادی بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ ایک لیکھ پر چلتے رہنا اور اپنے افعال کا دوسروں کو ذمہ دار قرار دے دینا بڑا آسان کام ہے۔ دنیا میں آمریت کے چلن کا ایک بڑا سبب انسان کی یہ فطرت بھی ہے کہ حکم ماننا اور پیروی کرنا اس کے لیے زیادہ آسان عمل ہے۔ بیسویں صدی میں یورپ میں چار ڈکٹیٹروں کے عروج میں دوسرے اسباب کے ساتھ یہ عنصر بھی داخل تھا کہ انسانی فطرت آزادی اور ذمہ داری سے ڈرتی ے اور تقلید کو اپنے اعمال کے جواز کا زیادہ سہل طریقہ سمجھتی ہے۔ مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ میں اس فطری عنصر کے ساتھ اس خوف کا محرک بھی شامل ہو گیا کہ فکری آزادی سے اسلامی تشخص مجروح ہو سکتا ہے اور مسلمان انتشار کا شکار ہو کر اُس سیاسی غلبہ کو بھی کھو سکتے ہیں جو ان کو حاصل ہو گیا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد دستور سازی کے مرحلہ میں اور بہت سی پیچیدگیوں کے ساتھ مذہب کے اس پیراڈائم نے اُس نئی تعبیر کے ساتھ جو بیسویں صدی میں پیدا ہوئی تھی مزید مشکلات پیدا کر دیں۔ روایتی طور پر اسلامی حکومتوں کے قاضی دیوانی اور فوجداری مقدمات کا فیصلہ کسی فقہی مذہب کی روشنی میں کر دیا کرتے تھے اور حکمرانوں کے ساتھ ان کا رویہ عدل گستری کی نصیحت کا رہتا تھا۔ ملکی اور سیاسی معاملات میں حکمرانِ وقت، ضرورتاً ان کی مدد بھی حاصل کر لیا کرتا تھا، لیکن حکمرانی کا فیصلہ اور سیاسی معاملات ان کی پہنچ سے باہر تھے۔ بیسویں صدی میں اسلام کا ایک ’’کلی نظامِ حیات‘‘ کا تصور پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں قانون سازی، سیاسی اور معاشی نظام کی ساخت اور ان کے اطلاق کے طریقے اور انتظامی معاملات بھی اسلام کے دائرہ اختیار میں شامل ہو گئے۔ نتیجتاً اس دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کی اہلیت کے استحقاق کا فیصلہ بھی ظاہر ہے وہی لوگ کر سکیں گے جو مذہبی تعلیمات سے بہرہ ور ہوں۔ اس طرح، مملکتی امور میں علماء کو قولِ فیصل کاحق دے کر ایک طرح کا پاپائی نظام جس سے اسلامی مزاج اِبا کرتا رہا تھا ایک دوسرے انداز میں نظامِ حکومت میں دخیل ہو گیا جس کی ایک مثال ایرانی طرز حکومت ہے۔ پاکستان میں ایرانی طرز پر تو مذہب کو سیاست میں دخیل کرنا مشکل ہے، لیکن اسلام بحیثیت مجموعی معاشرہ کا ایک طاقتور جز و ہے۔ اس کو دستور سازی کے مرحلہ میں اوّلاً شریک کرنے کی کوشش اسلام کے نام پر ایک زبردست تحریک کی شکل میں ہوئی جس کا مطالبہ تھا کہ دستور ساز اسمبلی ’’اسلامی دستور‘‘ بنائے۔ اسلامی دستور بنانے کے لیے بنیادی خدوخال بھی علماء نے ۲۲ نکات کے ذریعہ متعین کر دیئے۔ فیصلہ اس طرح ہوا کہ دستور میں قرارداد مقاصد کے نام سے ایک تمہید شامل کر دی گئی جو ابتداء میں دستور کا حصہ نہیں تھی۔ یہ پاکستان میں اسلامی قوت کا پہلا مظاہرہ تھا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ تمہید دستور کا حصہ بنی اور مزید چند شقوں کا اضافہ بھی کر دیا گیا جن کی رو سے پاکستان میں کوئی قانون کتاب و سنت کے مغائر نہیں بن سکتا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کہ کون سا قانون کتاب و سنت کے مغائر ہے ایک ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل دستوری وجوب کے ساتھ قائم کیا گیا اور رفتہ رفتہ پاکستانی حکومت نے اقدار کی بنیاد پر کسی نظام کی تخلیق کی بجائے اپنی اسی قانونی نظام کے نفاذ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی جو مسلمان مملکتوں میں ہزار سال تک رائج رہا تھا۔
دستوری حکومتیں، زمانہ جدید کی پیداوار ہیں اور ان دساتیر میں جو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں ان کا ایک تاریخی پس منظر ہے جو عیسائی مذہب کی تجدید (Reformation) اور نشاۃ ثانیہ سے منسلک ہے۔ یہ اصطلاحات پاپائی اقتدار اور بادشاہت کے تصور سے برأت کا اعلان ہیں۔ جدید دستوری حکومتوں میں مقتدر، یا مقتدر اعلیٰ (Sovereign) کی اصطلاح غیر مذہبی (Secular) ہونے کے سبب ہی استعمال ہوتی ہے اور اس کے معنی ایک ایسے شخص یا ادارہ کے ہوتے ہیں جو مملکتی امور سے متعلق فیصلے کرنے کا اہل ہو اور اس پر قدرت رکھتا ہو کہ وہ ان کو نافذ کر سکے۔ مسلمان حکومتوں میں یہ مقتدر اعلیٰ بادشاہ ہوتا تھا اور دستوری حکومت میں دستور کے مطابق بنائے گئے ادارے۔ مقتدر کا تصور بنیادی طور پر زمینی ہے۔ لیکن پاکستان میں اس اصطلاح کو ’’اسلامیانے‘‘ کے عمل میں آسان ترین طریقہ یہ نظر آیا کہ خدا کے کونیاتی اقتدار کو ایک سیاسی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جائے اور چونکہ خدا خود مقرون معنوں میں موجود نہیں ہے اس کی نیابت جو استعارتاً انسان کو دی گئی تھی عملاً ان لوگوں کی طرف منتقل کر دی جائے جو زمانہ حال میں خدا کے احکام کی ترجمانی کا کام انجام دیتے ہیں۔ پاپائیت بھی اسی دلیل کے تحت قائم ہوئی تھی اور چرچ کا سیاسی اقتدار بھی تفویض کردہ اختیار تھا۔ اب علمائے کرام چونکہ اسی پیراڈائم میں کام کرنے کے عادی ہیں اور اس کو ایک غیر مبتدل پیراڈائم گردانتے ہیں اسی لیے ان کی فکری پہنچ کتاب الحیل سے آگے نہیں بڑھتی۔ اسلامی بینکنگ کی ایجاد اس کی ایک مثال ہے جس کے متعلق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا بڑے فخر سے یہ کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت ایک ٹریلین ڈالر کی اسلامی بینکنگ ہو رہی ہے۔ یہ کون کر رہا ہے اور اس کا منافع کسے ہو رہا ہے اس پر غور کرنے کی اس مسلم امّت کو ضرورت نہیں ہوتی۔ نتیجتاً اسلام کے نام پر استحصال کا ایک نیا طریقہ وجود میں آگیا جس کا فائدہ بھی وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو دنیا میں طاقت کے مالک ہوتے ہیں۔ ’’مجاہدین‘‘ کی افغانستان میں روسیوں کے خلاف اور اب پاکستان کے خلاف جنگ اس کی ایک اور مثال ہے۔
لیکن اس وقت ہماری گفتگو کا موضوع تقلیدی روش کے نتیجے میں علماء کا سیاست، دستور سازی اور قانون سازی میں دخیل ہونا ہے۔ بحیثیت پاکستان کے شہری کے وہ اس مداخلت کا حق رکھتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس مداخلت کو اسلامی قرار دے کر اس پر کسی دوسری رائے کے اظہار کا راستہ بند کر دیتے ہیں اور ان کی مداخلت دوسروں کے برعکس ’’فیصل‘‘ ہوتی ہے۔ پاکستان میں دستور سازی کی تاخیر میں دوسری بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ اسلامی آئیڈیالوجی بھی اس کا ایک بڑا سبب رہی ہے۔
اس وقت کا مخمصہ یہ ہے کہ اسلام کو آئیڈیالوجی کے جدید تصور میں عواقب پر غور کیے بغیر ڈھالنے سے یہ صورتحال پیدا ہوئی کہ دستور میں تو اسلامی شقیں داخل ہو گئیں لیکن اسلامی فکر کتاب الحیل سے آگے نہ بڑھی اور ایک جدید ریاست کے لیے اسلامی فکر کی جس نئی تفہیم کی ضرورت تھی وہ پیدا نہیں ہوئی۔ بعض جدید باتوں کو استخراجی طریقہ سے کسی نہ کسی طرح اس روایتی نظام سے اخذ کر لیا جاتا ہے۔ لیکن سیاسی فکر و فلسفہ، معاشی نظام، تعلیمی نظام اور معاشرتی مسائل، اس طرح نہ ’’اسلامی‘‘ بن پاتے ہیں اور نہ کلّی طور پر جمہوری۔
اسلام کو دستوری بنانے سے ایک اور مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ خود جمہوریت کا تصّور دھندلا ہو گیا۔ مانا کہ جمہوری نظام خامیوں سے مبّرا کوئی مثالی نظام نہیں ہے لیکن جمہوریت اور اسلامی آئیڈیالوجی کے تصور میں جو بنیادی تضاد موجود ہے اس پر سیر حاصل گفتگو کر کے ایک راستہ نکالنے کی بجائے چند سطحی اور پیش پا افتادہ باتوں سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً اسلام میں شورائیت ہے، اس لیے اسلامی نظام جمہوری ہے۔ واضح رہے کہ جدید فلسفہ سیاست میں جمہوریت دراصل پاپائیت کی نقیض کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ لیکن اسلامیانے کی تعجیل میں جمہوریت کو شورائیت اور دستور ساز اسمبلی کو مجلس شوریٰ بنا کر یہ سمجھا گیا کہ ہم نے جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کر دیا یا اسلام کو مشرف بہ جمہوریت۔ نہ اس شورائیت پر کوئی سیر حاصل تحقیق ہوئی جو زمانہ رسالت، زمانہ خلافت اور پھر زمانہ بادشاہت میں مسلمانوں میں اب تک رائج رہی ہے اور نہ جمہوریت کی اساس سے کما حقہ واقفیت حاصل کر کے ہمارے مفتیان کرام نے اسلام سے اس تصور کی مغائرت دور کرنے کا کوئی پیراڈائم وضع کیا۔ نتیجتاً پاکستان میں وہ لوگ جو مقتدر تھے اسلام اور جمہوریت دونوں میں سے کسی کو بھی پاکستان میں قائم کرنے سے قاصر رہے اور ذہنی پراگندگی کے سبب دستور پاکستان میں ایک نہ ختم ہونے والے مخمصہ کو بھی شامل کر دیا۔ اس کا فائدہ اٹھانے والے ہر سیاسی مقتدر نے یہ کہہ کر اٹھایا کہ پاکستان کی اپنی ایک دیسی جمہوریت (Indigenous Democracy) ہے اور اس کو مغربی ملکوں کی جمہوریت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
اسلام کو آئیڈیالوجی سمجھ کر پاکستان میں نافذ کرنے کا مسئلہ ہر اس مسلمان ملک میں بھی ہے، یا رہے گا جہاں اس قسم کی کوششیں کی گئیں اور چونکہ مسلمان بحیثیت مجموعی سمع و اطاعت کی سوچ کے خوگر ہیں اس لیے جمہوریت کو اس روایتی سوچ کے ساتھ پروان چڑھانا مشکل ہے۔ الاّ یہ کہ وہ مغرب کی طرح سیاسی معاملات میں مفتیان کرام اور علماء کی ثالثی ختم کر دیں۔ یہ بات کہ یہ طریقہ غیر اسلامی ہے، جدید آئیڈیالوجیکل فکر کے ایک سطحی نعرہ کے طور پر سامنے آیا اور اس کا بڑا سبب مغربی فکر کی مخالفت (جو بہت سے دوسری قومی بنیادوں پر بھی کی جا سکتی ہے) تھا۔ دین و سیاست کی علیحدگی، سیاست کو اخلاقی اقدار سے جدا کرنے کے معنی میں استعمال نہیں کی جاتی اور یوں بھی تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ دین سیاست میں کبھی داخل نہ ہو سکا البتہ سیاست دین میں آسانی سے داخل ہو گئی۔ میری دانست میں عیسائیوں کی طرح اسلام میں سیکولرازم مسئلہ نہیں ہے ان دونوں مذاہب میں جو چیز بے چینی کا سبب بنی وہ مذہب نہیں بلکہ تھیاکریسی تھی۔ بدقسمتی سے ہم نے اس تھیاکریسی کو پچھلے دروازے سے اسلام میں داخل کر کے یہ مسئلہ اپنے لیے بھی پیدا کر لیا۔
پاکستان کے مسئلہ میں اس ذہنی روّیہ (Mind set) کے ساتھ یہاں کے کچھ دوسرے معاشرتی عوامل مزید شدت پیدا کر دیتے ہیں۔ اس وقت کے پاکستان کا معاشرتی پیراڈائم بھی بنیادی طور پر اس سمع و اطاعت کے ماڈل پر قائم ہے غیر منقسم ہندوستان میں یہ علاقہ آریوں کے زمانہ سے باہر سے آنے والوں کی گزر گاہ رہا ہے۔ آریوں کے وقت سے لے کر مغلوں تک جو قومیں یہاں مسلّط رہیں ان کا مرکز عام طور پر گنگا جمنا کا دوآبہ رہا ہے۔ مختلف تاریخی وجوہات سے موجودہ پاکستان کا علاقہ کراچی سے تورخم تک فیوڈل یا سرداری نظام کے تابع رہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں سرداری نظام اور میدانی علاقوں میں کاشت کاری کی وجہ سے فیوڈل سلسلہ کو مسلمانوں کے عہد سے لے کر آزادی سے پہلے تک ہندوستان کے حکمرانوں نے تقویت دی۔ یہ نظام بڑی آسانی سے مذہبی رویوں میں پیوست ہو گیا اور اس کو اسلامی جواز میسر آ گیا۔ یہ مسلمانوں کی تاریخی روایت کی ایک توسیعی شکل تھی جو آج تک جاری ہے۔ یہ ذہنی روّیہ جمہوری طرز زندگی کی ضد ہے اور مذہب کے ساتھ مل کر اس کا اثر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ہندوستان کی طرح پاکستان کا مسئلہ صرف جاگیرداری نہیں ہے بلکہ اس کے پسِ پشت مذہبی جواز کی ایک مضبوط پشت پناہ موجود ہے۔ مولانا مودودیؒ کی مسئلہ ملکیت زمین اس نقطہ نظر کی ایک بڑی مضبوط اور مدلل کتاب ہے۔
پاکستان کے موجودہ چاروں صوبوں کی معاشرتی بنت میں صدیوں سے یہی پیراڈائم کام کر رہا ہے۔ غزنوی، غوری اور مغلوں کے دور سے سامراجی عہد تک سلطنت کا نظام اسی روایتی طریقے پر چلتا رہا جس طرح دنیا کی دوسری بادشاہتیں چلتی ہیں۔ جہاں حکومت کرنے کا جواز شرف طاقت فراہم کرتی ہے اور طاقت، دوسروں سے اطاعت اور فرمانبرداری کا مطالبہ کرتی ہے۔ ماضی کی دوسری مملکتوں کی طرح یہ حکمران طبقہ مذہب کو بھی ایک اضافی سہارے کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ ظل اللہ، خلیفتہ فی الاراض، محافظِ شریعت بن کر مذہب کی قولی اور عملی توثیق حاصل کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اپنے امراء اور نائبین سے مشورہ کرتا ہے جن کی مدد اور طاقت پر خود اس کا اپنا اقتدار منحصر ہوتا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کے لیے وہ شورائی نظام کا جواز بھی مہیا ہو جاتا ہے۔ یہ بات کہ یہ حکومت اچھی ہوتی ہے یا بری بڑی حد تک بادشاہ کی سیرت اور اس کے حواریوں کے کردار پر منحصر ہوتا ہے۔چنانچہ مسلم مفکرین مثلاً ماوردی، غزالی، ابن جماعہ، ابن تیمیہ کے سامنے مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ریاست کیسے قائم ہونا چاہیے۔ ان کے فلسفہ سیاست میں ریاست کا ایک سیاسی ادارے کی حیثیت سے وجود مسلم امت یا جماعتہ کے تصور ہی میں مضمر تھا۔ مسئلہ صرف ’’شریعت‘‘کے نفاذ کا تھا جو خلیفہ یا امیر المومنین کا فرضِ منصبی تھا۔ اس کا کام مسلمانوں کو اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے کے لیے ضروری سہولتیں اور آزادی مہیا کرنا اور اسلامی سطوت کی توسیع تھا جس کے لیے وہ ’’جہاد‘‘ کر سکتا تھا اور اس فرض کی ادائیگی میں اس کی سلطنت کے مسلمانوں کا حصہ لینا فرض تھا۔ اس بات کا فیصلہ کہ وہ کب اور کس کے خلاف جہاد کرے اس کی اپنی صوابدید پر تھا اور وہ ضروری سمجھے تو لوگوں کے مشورہ سے ورنہ صرف ایک جماعت کو اکٹھا کر کے کسی ملک پر حملہ کرنے کا اختیار رکھتا تھا۔ اس قسم کے حملوں کا جواز تقریباً اسی قسم کا تھا جس طرح آج کل امریکی اپنے لیے جواز تلاش کرتے ہیں۔ ایک بہتر نظام کا نفاذ، مظلوم انسانوں کی داد رسی، اپنے کو معروضہ خطروں سے بچانا (Pre-emptive strike) اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے دوسروں کی سرحدوں کو محدود کرنا وغیرہ۔ یہ باتیں چاہے کتنی ہی تلخ کیوں نہ لگیں اور مسلمانوں کا ذاتی رویہ دوسری اقوام کے مقابلہ میں کتنا ہی زیادہ انصاف پسند کیوں نہ ہو یا مسلمانوں کا طریقہ جنگ اخلاقی اقدار کتنا ہی لحاظ کیوں نہ کرتا ہو اپنی اصل میں اسی طرح توسیع پسندانہ ہے جس طرح دوسری اقوام کا۔ وقت اور زمانہ کے اعتبار سے ان جنگوں سے جو ضمنی تباہی (Collateral Damage) ہوتی تھی وہ آج کل جدید ہتھیاروں کی تباہی سے البتہ کم ہوتی تھی اور حالتِ جنگ میں زور و زیادتی کا جواز بھی مذہب کی رو سے جائز نہ تھا۔ اگرچہ اکثر ’’جہاد‘‘ یا فتوحات مذہبی اعتبار سے درست نہیں تھیں، لیکن مسلمانوں کے مذہبی طبقہ سے ان کے خلاف کوئی مذمت یا اجتماعی مزاحمت نظر نہیں آتی۔
پاکستان کے اس روایتی فیوڈل پیراڈائم کو مذہب کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ کچھ تو اس وجہ سے کہ مذہب کے پاس نظامِ سلطنت چلانے کا کوئی نیا پیراڈائم موجود نہیں تھا اور اسلامی تاریخ میں امیر کی اطاعت اور اس کے خلاف بغاوت نہ کرنے کی بڑی مضبوط مذہبی دلیلیں وجود میں آگئی تھیں۔ مغلوں کے زوال کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی سلطنت کے احیاء کے لیے شاہ ولی اللہ کی نظریں بھی روہیلوں اور احمد شاہ ابدالی کی طرف اٹھیں اس لیے کہ مذہبی فکر میں ایک مضبوط بادشاہ ہی اسلام کا محافظ ہو سکتا تھا جو صوبہ داری سسٹم کے تحت رعایا کو کنٹرول بھی کر سکتا تھا اور ملک میں امن و امان بھی قائم کر سکتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اٹھارویں صدی میں دنیا میں کسی دوسرے نظام کی توقع رکھنا محال تھا۔ لیکن یہاں صرف یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ مسلمانوں کے ذہن میں سمع و طاعت کا فلسفہ ہی سیاسی اور مذہبی اعتبار سے محکم تاریخی اسلوب رکھتا ہے اور اس میں جمہوری فلسفہ، یا شخصی آزادی کی روایت کا در آنا بڑا مشکل امر ہے۔ یورپ میں اگرچہ مذہب کا اسی قسم کا روّیہ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی بادشاہت اور جاگیردارانہ نظام کا تسلط بھی قائم تھا۔ لیکن سائنسی فکر، صنعتی انقلاب، سرمایہ دارانہ نظام اور معاشرہ میں اٹھارویں صدی سے مفکرین کے ایک معتدبہ گروہ کا تخلیقی عمل تبدیلی کا سبب بنا۔ سو سالہ مذہبی جنگوں سے بھی یورپ نے یہ سبق سیکھا کہ پرانا نظام اب زندگی کے مسائل حل نہیں کر سکتا اس لیے بعض جگہ انقلاب کے ذریعہ (جیسے فرانس میں) اور بعض جگہ معاشی معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں کے ذریعہ نیا نظام وجود میں آگیا۔ ایسا مسلمان ملکوں میں اس لیے نہیں ہو سکتا کہ اولاً یہاں استعمار کا تسلط تھا معاشرہ زرعی تھا اور مسلمانوں میں مفکرین کا علمی دائرہ ایک خاص فقہی نہج سے باہر نہیں نکل سکا تھا۔ مغربی استعمار سے جدید تعلیم کا جو فائدہ وہ اٹھا سکتے تھے وہ بھی اپنا تشخص کھو دینے کے خوف کی وجہ سے نہ اٹھا سکے۔ ایک مغلوب ملّت کی یہ فطری نفسیات ہے لیکن مذہب کے تائیدی روّیہ کی وجہ سے بھی مسلمان علومِ جدید سے فائدہ اٹھانے اور تاریخ کے تنقیدی مطالعہ میں سب سے زیادہ مذبذب رہے ہیں۔
سیاسی اور معاشرتی اسباب و عوامل کے ساتھ مسلمانوں کا نظامِ اخلاق بھی اسی پیراڈائم کا پابند ہے۔ یعنی اخلاقی اور غیر اخلاقی کا انحصار اقدار کے فی نفسہٖ خیرو شر ہونے پر نہیں بلکہ خدا کے حکم اور مرضی پر ہے۔ یہ بات کہ سچ بولنا چاہیے اس لیے اخلاقی نہیں ہے کہ سچائی بجائے خود ایک قدر ہے بلکہ اس لیے ہے کہ خدا نے سچ بولنے کو کہا ہے۔ سچ بولنے میں خدا کا عمل دخل انسانوں کو سچا رہنے پر آمادہ تو کر سکتا ہے لیکن سچ کی علّت ہونا ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ خیرو شر فی نفسہٖ خدا کے حکم کے تابع ہونے سے انسان کی شخصی آزادی اور قوتِ فیصلہ ختم ہو کر چند ایسے لوگوں کے فتوؤں کی پابند ہو جاتی ہے جو یہ بتا سکیں کہ خدا کس کام کو کرنے کو کہتا ہے۔ فقہ اسلامی نے انسانی اعمال کا ایک ایسا ہمہ گیر نظام تیار کر لیا کہ شاید ہی کوئی انفرادی عمل اب انسان اپنی ذمہ داری پر اس یقین کے ساتھ کر سکتا ہے کہ ایسا کرنا اس کے لیے اخلاقی قدر کا حامل ہے۔ یہی صورتحال انسانی معاملات سے متعلق قوانین کی ہے جو یا تو متعین ہیں یا متعینہ قوانین سے استخراج کیے جا سکتے ہیں۔ کسی مفسدہ کو ختم کرنے یا کسی اخلاقی قدر کو معاشرہ میں قائم کرنے کے سلسلے میں مناسب قانون سازی کا حق انسانی اختیار میں نہیں رہا بلکہ وہ بھی ہمیشہ کے لیے خدائی نیت کے شارحین کے نام منتقل کر دیا گیا۔ اس میں اجتہاد کے ذریعہ صرف ضمنی تبدیلی ہی ممکن ہے اور اس کی سند بھی وہی شارحین دے سکیں گے۔ کسی متعین قانون کی جگہ کوئی دوسرا قانون اگرچہ وہ نتائج کے اعتبار سے بہتر ہی کیوں نہ ہو نہیں بنایا جا سکتا۔ ان سب عوامل نے مل کر انسان میں فکری آزادی کو بڑی حد تک معدوم کر دیا۔ اب ایسا کرنا معاشرے سے انقطاع یا کسی دوسرے ضرر رساں نتیجہ تک لے جا سکتا ہے۔
{}{}{}
Leave a Reply