پاک چین اقتصادی راہداری اور ممکنہ خطرات

نیم فوجی دستوں کی وردیوں میں ملبوس مسلح افراد نے کراچی جانے والی بس کو روک کر مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے اور اس کے بعد ان تمام افراد کو قتل کر دیا، جو اُن کے خیال میں پاکستان کے مغربی صوبے بلوچستان کے مقامی نہیں تھے۔ ۲۹ مئی ۲۰۱۵ء کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے جنوب میں ایک ویران سڑک پر پیش آنے والے اس واقعے میں مجموعی طور پر ۲۲ پشتون قتل ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری صوبے میں سرگرم علیحدگی پسند گروہوں میں سے ایک متحدہ بلوچ آرمی نے قبول کی۔

بلوچستان میں موجودہ عسکریت پسندی کا آغاز ایک دہائی قبل ہوا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعدپاکستان کے سب سے بڑے، غیر گنجان آباد اور کم ترقی یافتہ صوبے بلوچستان میں برپا ہونے والی یہ پانچویں بغاوت سب سے زیادہ دیرپا اور پُرتشدد ثابت ہوئی ہے۔ اس وجہ سے بلوچستان پاکستان کے سب سے زیادہ شورش زدہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ حیرت انگیز طور پر ایک ایسا علاقہ جس کے بارے میں پاکستانی حکام کو امید ہے کہ یہ گہرے پانیوں کی بندرگاہ گوادر کو مغربی چین کے علاقے سنک یانگ کے تجارتی مرکز کاشغر سے ملا کر دنیا کی عظیم تجارتی بندرگاہوں میں سے ایک بن جائے گا۔

اپریل میں چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے دوران یہ اعلان کیا گیا تھا کہ چین بندرگاہ کی تعمیر کے اس خواب کو پورا کرنے کے لیے ۲۰۳۰ء تک نئی سڑکوں کی تعمیر، پہلے سے موجود سڑکوں کی مرمت، بجلی گھروں، پائپ لائنوں اور دیگر منصوبوں میں ۴۶؍ارب ڈالر تک سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ رقم اس سے کہیں زیادہ ہے جو امریکا نے حالیہ برسوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری پر خرچ کی ہے۔

چین کو امید ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری خلیجِ فارس سے تیل اور گیس کی ترسیل کو بلوچستان اور کوہِ ہندوکش سے ہوتے ہوئے سنک یانگ تک ممکن بنا دے گی۔ اسی طرح چینی مال کو دنیا کی منڈیوں تک پہنچنے کے لیے آبنائے ملاکا (جس کے بارے میں چین کو فکر رہتی ہے کہ وہ امریکی بحریہ کے رحم و کرم پر ہے) کے مقابلے میں کہیں زیادہ مختصر راستہ میسر آجائے گا۔ (آبنائے ملاکا بحیرۂ جنوبی چین سے سمندری راستے مغرب کی سمت سفر کرنے پر ملائیشیا اور انڈونیشیا کے درمیان تنگ سمندری راستہ ہے۔)

اس سے قبل بھی چین پاکستان میں سرمایہ کاری کا وعدہ کر چکا ہے، تاہم جس وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کا وعدہ ہوا تھا، وہ پورا نہیں ہوا۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس بار کوئی بھی چیز آڑے نہیں آنے دی جائے گی، یہاں تک کہ پاک چین سرحد کی ناقابلِ اعتبار جغرافیائی نوعیت بھی۔ حال ہی میں ایک جھیل کے گرد ۱۴؍میل (۲۳ کلو میٹر) طویل سرنگ تعمیر کی گئی ہے، جس نے دونوں ممالک کی سرحدوں کو ملانے والی شاہراہِ قراقرم کے ایک حصے کو ڈبو دیا تھا۔ یہ جھیل ۲۰۱۰ء میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں بنی تھی۔

البتہ بلوچستان کا بحران یہ گمان کرنے کی ایک معقول وجہ ہے کہ چینی سرمایہ اس کثرت سے ملک میں نہیں آپائے گا جس کا وعدہ صدر شی جن پنگ کے دورے کے دوران کیا گیا تھا، خاص طور پر صوبہ بلوچستان میں۔ جنوری میں ایک بجلی گھر پر بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملے نے بشمول دارالحکومت اسلام آباد ملک کے ۸۰ فیصد حصے کی بجلی بند کر دی تھی۔ ان حقائق کے باوجود حکام اس کو ایک کم درجے کی عسکریت پسندی کہہ کر رَد کرتے ہیں جس میں سرگرم علیحدگی پسند گروہ ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما ہیں اور نسلی طور پر بلوچستان میں اکثریت میں بھی نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، خاص طور پر اُس ۱۰؍ ہزار طاقتور فورس کی بدولت جس کا پاکستان نے محترم شی جن پنگ سے وعدہ کیا ہے کہ چینی کارکنان کی حفاظت کے لیے ترتیب دی جائے گی۔

چین البتہ ابھی بھی فکرمند ہے۔ حالیہ برسوں میں بلوچستان سمیت پاکستان میں چینی اہلکار کبھی کبھی قتل اور اغوا ہوتے رہے ہیں۔ مارچ میں بلوچ علیحدگی پسندوں نے اس ٹینکر پر حملہ کیا جو کان کنی کے ایک منصوبے پر کام کرنے والی چینی کمپنی کے لیے ایندھن لے کر جا رہا تھا۔ گوادر بندرگاہ، جو حال ہی میں چین کی ایک ریاستی کمپنی کے زیرِ انتظام دی گئی ہے، علیحدگی پسندوں کا خاص ہدف ہے۔ عسکریت پسند اسے ترقی یافتہ نہیں دیکھنا چاہتے جب تک بلوچستان آزاد نہ ہو جائے۔ ان کو خوف ہے کہ اگر کبھی یہ ایک مصروف بندرگاہ بن گئی تو یہاں غیر مقامی افراد کا سیلاب آجائے گا، نتیجے کے طور پر صوبے کا آبادیاتی توازن بلوچوں کے خلاف مزید بگڑ جائے گا۔

بلوچستان میں شورش کو ٹھنڈا کرنے کی پاکستان کی سابقہ کوششیں زیادہ امید افزا نہیں ہیں۔ طالع آزما جرنیلوں کا عسکریت پسندی کو بے دردی سے دبانے پر اصرار اُسے صرف بڑھانے کا باعث بنا ہے۔ فوج ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ صوبے کا امن و امان حکومتی کنٹرول میں موجود پولیس اور نیم فوجی فرنٹیئر کانسٹبلری کے ہاتھوں میں ہے۔ تاہم یہ قوتیں فوج اور انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتی ہیں۔

۲۰۱۳ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وزیراعظم نواز شریف نے بلوچ اعتدال پسندوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی حمایت کے ساتھ اعتدال پسندوں نے ۲۰۱۳ء میں ہی حکومت کی کمان سنبھالی اور باغیوں کے ساتھ بات چیت شروع کی۔ لیکن نئی حکومت کو سکیورٹی فورسز کو اس بات پر قائل کرنے میں دشواری ہوئی ہے کہ وہ اپنی زیادتیوں پر قابو پائیں۔ حاصل بزنجو، جو ایک سرکردہ بلوچ راہنما ہیں، کا کہنا ہے کہ اگرچہ قتل اور مشتبہ عسکریت پسندوں کی لاشیں ملنے میں کمی آئی ہے لیکن جبری گمشدگیوں کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ فوج ایک سیاسی مکالمے کی صرف چند ماہ مزید حمایت کرے گی، جس کے بعد وہ عسکریت پسندوں کے ساتھ ’ـ’صحیح طرح‘‘ جنگ لڑے گی۔

کچھ پاکستانیوں کا خیال ہے کہ سی پی ای سی (پاک چین اقتصادی راہداری) بلوچستان کی معیشت کو فروغ دے گی اور اس طرح استحکام کی بحالی میں مدد دے گی۔ اگر یہ خیال غلط ثابت ہوا تو راہداری کی تعمیر سے جو تجارت ہوگی، بلوچستان کا بڑا حصہ اس سے محروم رہے گا۔ زیادہ تر تجارت نسبتاً پُرامن پنجاب کے ذریعے ہوگی۔ بلوچ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کو دراصل اسی نتیجے کا انتظار ہے۔

(مترجم: طاہرہ فردوس)

“Pakistan and China: Dark corridor”.
(“The Economist”. May 12, 2015)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*