لاہور کے ایک عشائیے میں جہاں مَیں موجود تھا‘ تاخیر سے پہنچنے والے ایک مہمان نے یہ انکشاف کیا کہ نئی دہلی نے حریت کے رہنمائوں کو آزاد کشمیر سے آگے سفر کرنے سے اس لیے منع کیا تھا کیونکہ ایسا کر کے وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک مفاہمت کی خلاف ورزی کریں گے۔ سری نگر اور مظفر آباد کے درمیان کے بس کے سفر کی بحالی سے متعلق مفاہمت یہ ہوئی تھی کہ ریاست جموں و کشمیر کے مسافر صرف آزاد کشمیر جائیں گے اور آزاد کشمیر سے آنے والے سیاح اپنے دورے کو جموں و کشمیر تک ہی محدود رکھیں گے۔ اس مفاہمت کے باوجود اس عشائیے میں موجود مہمانوں کا ردِعمل مایوس کن تھا۔ ایک صاحب نے قدرے تیکھے لہجے میں کہا کہ بٹوارے سے پہلے کی ’’ہندوانہ عیاری‘‘ پھر سے سطح پر آگئی ہے۔ صاف نظر آرہا تھا کہ وہاں موجود مہمان جن کا پیشہ ہی لیڈری تھا دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی استواری کی بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ جب حالات کے معمول پر آنے میں تاخیر ہوئی تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ انہیں فریب دیا گیا ہے۔ ایک صاحب نے مجھ سے رکھائی سے پوچھا: کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے آنے میں کتنا عرصہ لگے گا؟
اس طرح کے فقرے بازی پاکستان کی جھنجھلائی ہوئی اکثریت کے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ وہ ان پابندیوں کے شکنجے کو توڑنا چاہتے ہیں جو ان کے ارد گرد صدیوں سے کسا جاتا رہا ہے۔ ان پابندیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ہندوستان کے ساتھ کسی طرح کا بھی تعلق نہ رکھا جائے۔ ملک کی تقسیم کے دوران جوش میں آئی عداوت و نفرت پر ملامت کی جارہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ محدود پیمانے پر ہی سہی عوام سے عوام کے رابطے نے تنائو کی فضا کو چھانٹا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو ان شکنجوں سے نکلنے کا ایک ذریعہ سمجھا جارہا ہے‘ جس میں پاکستان گھر کر رہ گیا ہے۔ تاہم اس سے یہ قیاس نہیں لگانا چاہیے کہ ہندوستان کی شدت سے مخالفت کرنے والے فرقے کو پست کر دیا ہے۔ آج بھی بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ایک پڑوسی کی شکل میں ان کا سامنا ایسے ملک سے ہے جس کے رگ و ریشے میں ہندو کٹر پن بھرا ہوا ہے لیکن ہندوستان سے تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا دامن بہرحال وسیع ہے۔ لوگ تیزی سے اعتماد سازی کے اقدامات کو عملی شکل دینے کی شدید خواہش رکھتے ہیں تاکہ وہ آزادی سے ہندوستان کا سفر اور یہاں سے تجارت کر سکیں۔
وزیرِ خارجہ خورشید قصوری کی یہ دھمکی کہ پاکستان‘ کشمیر سے متعلق اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا اعادہ کر سکتا ہے‘ ظاہر کرتی ہے کہ ان جیسا بردبار شخص کیسے خود پر ضبط نہ رکھتے ہوئے ہندوستان کی ’’سرکشی‘‘ پر انگشت نمائی کر سکتا ہے۔ پاکستان کی اکثریت کی طرح وہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ معمول کی طرف پیش رفت سست ہے اور یہ کہ موجودہ صورتحال کسی حل کے حصول کے لیے بہترین ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کا بیان جو ان کی حکومت کے موقف کی نمائندگی کرتا ہے یہ کہ ہمارے سامنے ایک بھاگتا ہوا لمحہ ہے جسے ہندوستان کو اپنی گرفت میں لینا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زمانی حدود کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی نے اس کا کوئی طریقہ تلاش کر لیا ہو کہ تینوں نقطوں کو باہم ملایا کیسے جائے گا۔ یعنی نئی دہلی‘ اسلام آباد اور سری نگر کو بلکہ جب بھی انہیں مساعی امن میں کوئی رکاوٹ نظر آئی ہے تو وہاں کے بیشتر حضرات ہندوستان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر سے آگے سفر نہ کرنے کے لیے نئی دہلی کی طرف سے حریت لیڈروں کو انتباہ کو بھی اسی نقطہ نطر سے دیکھا گیا تاہم پاکستان کے عوام‘ اگرچہ تاخیر سے ہی سہی‘ اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ کشمیر ان کے ملک کا حصہ نہیں بننے والا ہے۔ برسر اقتدار نظام جس نے آزادی کے وقت سے ہی اس خیال کی تشہیر کی تھی کہ اب دوبارہ اس راگ کو نہیں چھیڑنا چاہتا بلکہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے حریت لیڈروں کے سفر سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ صدر پرویز مشرف نے چند ماہ پہلے اسلام آباد میں مجھے بتایا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ حریت لیڈران سری نگر سے روانہ ہونے والی پہلی بس میں سفر کریں تاکہ ہم ان کا پرجوش استقبال کر سکیں۔ ان کے ذہن کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کا الحاق اولین ترجیحات کے زمرے میں نہیں ہے۔ حریت لیڈران کا دورہ ان کے لیے اہم تھا اس لیے جب نئی دہلی نے حریت لیڈروں کو آزاد کشمیر تک محدود رکھنے میں گہری دلچسپی ظاہر کی تو ان کی حکومت پر مایوسی کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
نئی دہلی کا موقف بہرحال بھونڈا تھا اگرچہ تکنیکی اعتبار سے وہ درست ہے۔ لیکن امن کی کوششوں میں یہ ایک رکاوٹ نظر آیا۔ اگر ہندوستان خاموش رہ جاتا تو آسمان نہ ٹوٹ پڑتا۔ کیا اس مسئلے کو ہمیشہ بی جے پی کے دبائو میں رہ کر ہی دیکھا جائے گا جس نے پاسپورٹ اور ویزا کا سوال اٹھایا تھا۔ اس دور میں جبکہ کوئی بھی کانفرنس کہیں بھی ہو سکتی ہے اور کسی بھی شخص کے ساتھ ہو سکتی ہے اس کی حقیقی موجودگی کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ بات ہندوستان کے حق میں مفید ہوتی کہ حریت کے لیڈروں کو پورے پاکستان کا دورہ کر کے عوام کے سوالات کا سامنا کرنے کا موقع دیا جائے۔ یاسین ملک جیسا کوئی لیڈر ہی کشمیر کی آزادی کے معاملہ کو اٹھا سکتا ہے۔ لیکن یہی وہ معاملہ ہے جس کی مخالفت پاکستانی حکومت شدت سے کرتی رہی ہے۔ حریت لیڈران کس موقف کی حمایت کرتے ہیں یہ بات سامنے آجائے گی۔ کشمیر میں موجودہ صورتحال کی برقراری کی مخالفت کو جاری رکھنا آسان ہے اور یہی کام یہ عظیم برسوں سے کرتی آئی ہے۔ حقیقتاً وہ کس موقف کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان میں اتفاقِ رائے کس مسئلے پر ہے یہ بات ابھی واضح ہونی باقی ہے۔
سید علی شاہ گیلانی کے رویے سے پہلے ہی ظاہر ہو چکا ہے کہ حریت لیڈران کے درمیان اختلاف کتنے گہرے ہیں۔ انہوں نے پاکستان جانے سے اس لیے انکار کر دیا ہے کہ اب انہیں یہ احساس ہو گیا ہے کہ اس ملک کے ساتھ کشمیر کے الحاق کے ان کے موقف سے خود اسلام آباد میں بھی اتفاق نہیں ہے۔ حریت کا ایک بڑا حلقہ گیلانی سے بہت دور ہو گیا ہے۔ حریت کے اندر رسہ کشی اسلام آباد کے اس مقصد پر پانی پھیر سکتی ہے جس کے لیے اس نے یہ ساری بھاگ دوڑ کی ہے۔ پاکستان کی مذہبی جماعتیں گیلانی کی ہم نوا ہیں۔ مشرف ان کے ساتھ سختی برت نہیں سکتے کیونکہ وہی تو پاکستان میں ان کا بھی بہترین سہارا ہیں۔
نئی دہلی کو اپنی سمت کا علم نہیں۔ موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنے کے علاوہ اس کے پاس رہنمائی کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ وہ خود مختاری کی بجائے کشمیر کے بدلے ہوئے موقف کو اختیار کر سکتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ کہیں یہ ہندوستان کو پھنسانے والا جال تو نہیں ثابت ہو گا۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے یقین دلایا ہے کہ وہ پوری دلچسپی لے کر پاکستان کے نئے موقف کی حمایت کریں گے لیکن وہ شاید شدت پسندوں کو شکست نہ دے سکیں جن کی قیادت وزیرِ خارجہ نٹور سنگھ کر رہے ہیں۔ کشمیر میں سرحدوں کو نرم کرنے کی پیشکش کے بعد نئی دہلی کو مثبت رویہ اپنانا چاہیے تھا۔ ہندوستان کو کم از کم عوام سے عوام کے رابطے کے میدان میں نئی راہیں کھولنی چاہیے تھیں۔ ویزائی سہولتوں کے مسئلے پر پاکستانیوں کو ڈھیروں شکایات ہیں۔ یہاں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بالادستی ہے۔ ہوٹل کے ایک ملازم نے مجھ سے سوال کیا کہ اگر کسی پاکستانی باشندے کا کوئی رشتہ دار یا اسے مدعو کرنے والی کوئی تنظیم نہ ہو تو وہ ہندوستان کے لیے آسکتا ہے۔ نئی دہلی کی توجیہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی مثال پر عمل کر رہا ہے۔ نئی دہلی میں پاکستان مخالف تانا شاہ اسلام آباد کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ہندوستان جیسے آزاد جمہوری نظام کو پاکستانیوں کو آنے جانے کی آزادی دینی چاہیے۔ کیونکہ اس کی قبولیت کا راز اس کے کھلے پن میں ہے۔ اسلام آباد یہ دیکھ ہی چکا ہے کہ نئی دہلی اپنے طریقہ کار میں اتنا ہی بخیل رہا ہے جتنا کہ خود پاکستان۔
کم از کم ایسی ایک مثال پیش کرنے کے لیے ہم اسلام آباد سے مختلف ہیں‘ ممبئی کے جناح ہائوس کو ویزا آفس کھولنے کے لیے پاکستان کے حوالے کر دیا جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نائب وزیر خارجہ کی حیثیت سے نٹور سنگھ اسلام آباد کو تحریری طور پر یہ اطلاع دیتے ہیں کہ ہندوستان جناح ہائوس کو ڈپٹی ہائی کمشنر کی رہائش گاہ بنانے کے لیے پاکستان کے حوالے کر دے گا۔ وہی نٹور سنگھ وزیرِ خارجہ ہو کر اس طرح کی تجویز کو مسترد کر دیتے ہیں۔ ہمارے محبت و نفرت کے تاثرات قوموں اور افراد کو یکساں طور پر متاثر کرتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس طرح کی چیزیں جھوٹے وقار کی بھینٹ چڑھا دی جائیں۔
(بحوالہ نقوش ڈاٹ کام)
Leave a Reply