
پاکستان کے وزیرِ خارجہ خورشید قصوری نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان مشترک مذاکرات سے کچھ خوش نہیں ہیں۔ انہیں شک ہے کہ حکومتِ ہند نے دانستہ طور پر اپنی رفتار سست کر لی ہے اور وہ اس کے لیے وزارتِ خارجہ میں ’’بعض جارحیت پسندوں‘‘ کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ بات ہمیں اپنے ذاتی ذرائع سے معلوم ہوئی ہے لیکن نہ تو صدر (پرویز مشرف) اور نہ ہی میں نے اس کے باوجود امید چھوڑی ہے اگرچہ بہت سے پاکستانیوں نے ہم پر یہ الزام لگایا ہے کہ ہم ایک بار پھر فریب کھا گئے ہیں‘‘۔
خورشید ذاتی طور پر اس لیے پریشان ہیں کہ وہ ہند نواز اعتدال پسند لیڈر کی حیثیت سے معروف ہیں۔ چونکہ وہ ماضی میں ٹریک۔II یعنی عوام سے عوام کے رابطے کا حصہ رہے ہیں۔ وہ مایوسی کے سمندر میں تیرتے تنکے سے بھی لپٹ جانا چاہتے ہیں۔ مثلاً جس دن میری ملاقات ان سے اسلام آباد میں ہوئی‘ انہیں وزیراعظم من موہن سنگھ کے اس بیان میں ایک مثبت پیغام نظر آیا کہ وہ ملک کے پڑوسیوں یعنی پاکستان اور چین سے تنازعات سلجھانے کے لیے غیرمشروط حل چاہتے ہیں۔
بگلیہار پراجیکٹ سے متعلق مذاکرات کی ناکامی خورشید کے ذہن پر چھائی ہوئی تھی۔ وہ پاکستان کے اس ممکنہ موقف سے آگے نہیں گیا کہ ہندوستان کا پیش کردہ پـھاٹکوں کا ڈھانچہ ’’ناقص‘‘ تھا۔ تاہم انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس مسئلہ کا حل نکل آتا تو بہتر ہوتا۔ انہوں نے اس کا اعتراف کیا کہ اس طرح کی باتیں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی استواری پر برا اثر ڈالتی ہیں۔ سب نے انہیں بتایا کہ میں پہلے ہی سے عوام سے عوام کے رابطے کے اثرات دیکھ چکا ہوں۔ حکومتِ پاکستان نے ان ۲۵ غیرسرکاری تنظیموں کو ویزا دینے سے انکار کر دیا جو لاہور میں کسی امن و دوستی کے سیمینار میں شرکت کرنے کی خواہشمند تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں گے۔ میں نے ان کی وزارت کے ڈائریکٹر جنرل کو اس کی تفصیلات فراہم کیں‘ پھر بھی ویزا ملنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ آخر سیمینار کو موخر کرنا پڑا۔
کیا یہ اسلام آباد کی طرف سے انتباہ ہے کہ عوام سے عوام کے رابطہ کشمیر سے متعلق مذاکرات میں پیش رفت کے تناسب سے ہو گا؟ پاکستان کی طرف سے ایل او سی پر پہلی گولہ باری جنگ بندی کے بعد ۱۸ جنوری کے آس پاس ہی ہوئی تھی جب مذکورہ سیمینار کا انعقاد ہونا تھا۔ اسے سُوے اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے۔ میں نے لاہور اور اسلام آباد دونوں شہروں کے دورے میں دیکھا کہ وہاں لوگوں میں دوستی کا جذبہ ہے۔ آپ کے گرد منڈلاتے جاسوسوں کو چھوڑ کر پاکستان میں راحت کا ماحول ہے۔ لوگ تصادم کی بات کم اور امن و دوستی کی باتیں زیادہ کرتے ہیں۔ ہندوستانیوں کے تئیں وہ بے پناہ پُرخلوص ہیں۔ پریس جس میں اردو اخبارات بھی شامل ہیں‘ ایک سال پہلے کے سخت رویے کو ترک کر چکا ہے۔ ہندوستانی فلموں پر اب بھی پابندی ہے لیکن آپ انہیں ٹی وی چینلوں کو اپنے ہوٹل میں آرام سے دیکھ سکتے ہیں۔ ہندوستان اچانک لوگوں کی نظروں میں چڑھ گیا ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس کی اقتصادی ترقی کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ملک کی جمہوری سیاست کی بڑی تعریف کی جاتی ہے جس کی خصوصیات حکومتوں کی پُرامن طور پر تبدیلی‘ منصفانہ انتخابات اور مسلح افواج کا مقررہ کردار۔ جس ملک کی ۵۷ سالہ زندگی کے ۴۵ سال اس طرح گزرے ہوں کہ وقتاً فوقتاً فوجی حکومتیں آتی اور جاتی رہیں تو ظاہر ہے کہ اسے آزاد اور کھلے معاشرے پر رشک آئے گا۔
تاہم پاکستان کا پریس اور اس کے عوام شاید ہی کسی مسئلے پر مسلح افواج کے ساتھ مل کر غور کرتے ہوں۔ وہ اس موٹے احساس میں گھرے ہوئے رہتے ہیں جس کے آگے جانے سے ان کے پر جل جائیں گے۔ جب بھی چند لوگوں نے اس حد سے تجاوز کرنے کی کوشش کی ہے‘ ان کی سزا سخت سے سخت تر کر دی گئی ہے۔ پاکستان میں چار روزہ قیام کے دوران مجھے ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو فوجی اقتدار سے خوش ہو لیکن مجھے ایسا بھی کوئی شخص نہیں ملا جو مجھے یہ بتا سکے کہ پاکستان میں جمہوریت کب واپس آئے گی۔
ایک طرح کی دست برداری کا احساس طاری ہے لیکن اطمینان بخش پہلو یہ بھی ہے کہ لوگ آج بھی سیاست اور سیاسی جماعتوں کی بات کرتے ہیں۔ مذہبی جماعتیں تیزی سے عوامی حمایت کھوتی جارہی ہیں۔ بصورتِ دیگر بھی مولوی کو پاکستان میں کوئی نمایاں حیثیت حاصل نہیں رہی لیکن اس کا سہرہ صدر مشرف کے سر جاتا ہے کہ وہ اسلام کو جدید رخ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ صدر کے منصب کو اور چیف آف آرمی اسٹاف کے منصف کو بحال رکھے ہوئے ہیں۔
متوسط طبقہ جو فوجی اقتدار کو مقابلے کی دعوت دے سکتا تھا‘ اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے میں منہمک ہے۔ معاشی نشوونما کی شرح پانچ فیصد کے قریب ہے اور امریکی امداد کثیر مقدار میں آرہی ہے۔ یہاں تک کہ امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا کے لیے بھی۔ سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے اور اس طرح ریستورانوں اور ہوٹلوں میں بھی لوگوں کی بھیڑ ملے گی۔ دکانوں میں سامان اچھی طرح سجھے ہوئے ہیں اور جدید بازاروں اور مالوں میں خریداروں کا ریلا لگا ہوا ہے۔ چیختے ہوئے نعروں اور پوسٹروں سے اب لاہور کی دیواریں خالی ملیں گی اور وہاں کا ایئرپورٹ بھی دلی کے مقابلے میں خوبصورت ہو گیا ہے۔ آنکھوں کو متوجہ کرنے والے اشتہارات میں بھی تبدیلی آئی ہے اور اب ان میں عورتیں بھی نظر آتی ہیں۔ ہندوستان کے برعکس پورٹر بیلٹ سے سامان اتار کر گاڑی میں پہنچائے ہیں جس سے عورتوں اور بچوں کو سکھ کا سانس ملا ہے۔ امیگریشن ڈیسک پر کوئی نوجوان خاتون تیزی سے آپ کے کاغذات دیکھ کر آگے جانے کا اشارہ کر دیتی ہے۔ اسے آپ کے مذہب سے شاید ہی کوئی غرض ہو۔ پاکستانی پاسپورٹ سے اس کے خوف کیے جانے کی ہدایت پر انتہا پسندوں نے مخالفت کا اظہار کیا تھا۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک خاتون کو ننگے سر خبریں پڑھتے ہوئے دیکھا۔ یہ ایک انتشار زدہ ملک ہے۔ اس کے چاروں صوبوں میں ہر ایک میں کسی نہ کسی طرح کا ہنگامہ چھڑا رہتا ہے۔ مسلکی تشدد بھڑکتا جارہا ہے۔ فوجی قیادت کی حکومت میں ایک شخصی اقتدار نے صوبائی حکومتوں کو الگ تھلگ کر دیا ہے۔ دوسری پارٹیوں کو ڈرا دھمکا کر شاہی پارٹی یعنی مسلم لیگ میں شامل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ اب فوجی تحویل میں آجانے والی سوئی گیس کی تنصیب پر حملے کی وجہ عصمت دری کے معاملے میں ہونے والا ہنگامہ تھا لیکن واقعہ یہ ہے کہ بلوچیوں کو ہمیشہ دیوار سے لگا کر رکھا گیا ہے۔ مشرف نے خودمختاری دینے کا وعدہ کیا تھا اور بھٹو نے تو ان کے اس مطالبے کو بم باری سے دبا دیا تھا اور دوسری طرف گلگت میں پھوٹ پڑنے والا مسلکی تشدد ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply