چین کی حقیقی اسٹیبلشمنٹ دی کمیونسٹ پارٹی آف چائنا ہے۔ یہ پارٹی فوجی نظم و ضبط کے تحت کام کرتی ہے تاہم سوچنے کا انداز سویلین ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی ہی ملک کی ترقی یقینی بنانے والا حقیقی انجن ہے۔ پارٹی کو غیر معمولی سنجیدگی اور یکسوئی رکھنے والے بے غرض قائدین ملتے رہے ہیں۔ ان میں ماؤ زے تنگ، چو این لائی، ڈینگ ژیاؤ پنگ، وین جیا باؤ اور موجودہ صدر شی جن پنگ شامل ہیں۔
سوشل ازم کے آدرشوں سے غیر معمولی، بلکہ مثالی نوعیت کی وابستگی اور بہبودِ عامہ پر توجہ کا ارتکاز وہ جذبہ ہے، جس نے اب تک چین کے جہاز کو ہر سمندر میں رواں رکھا ہے۔ چین نے ۴۱ برس میں جس انداز سے اور جو ترقی کی ہے وہ واقعی دم بخود کردینے والی ہے۔
چین کے قومی ادارۂ شماریات نے ۲۰۱۸ء میں ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ۱۹۵۲ء میں چین کی خام قومی پیداوار ۳۰؍ارب ڈالر تھی۔ ۲۰۱۸ء میں چین کی خام قومی پیداوار ۱۳۶۱۰؍ارب ڈالر ہوچکی ہے۔ یعنی چین نے خام قومی پیداوار کے تناظر میں ۶ء۴۵۲ گنا ترقی کی ہے!
۱۹۷۸ء میں چین خام قومی پیداوار کے اعتبار سے گیارہویں نمبر پر تھا۔ ۲۰۱۰ء میں اس نے جاپان کو پیچھے چھوڑ دیا اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں تبدیل ہوگیا۔ تب سے اب تک چین دوسری پوزیشن کا حامل ہے۔ ۱۹۶۱ء سے ۱۹۷۸ء تک عالمی معیشت میں چین کا کردار اوسطاً ۱ء۱ فیصد سالانہ سے زیادہ نہ تھا تاہم ۱۹۷۹ء سے ۲۰۱۲ء تک یہ تناسب ۹ء۱۵ فیصد ہوگیا، جس کے نتیجے میں چین عالمی سطح پر دوسرے پر نمبر پر رہا۔ ۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۸ء کے دوران یہ تناسب ۱ء۲۸ فیصد تک جا پہنچا، جس کے نتیجے میں چین پہلے نمبر پر آگیا۔ ان اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چینی قیادت نے غیر معمولی اقتصادی پیش رفت کو اب تک ترجیحات میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ ماؤ زے تنگ، ڈینگ ژیاؤ پنگ اور شی جن پنگ جیسے اہل دانش اور بے لوث جذبے کے حامل قائدین نے چینی کمیونسٹ پارٹی کو ایسی قوت بنادیا ہے، جو ملک کو یکجا رکھتی ہے اور یہی قوت جدید چین کو مثالی اقتصادی قوت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
دوسری طرف پاکستان کا حال یہ ہے کہ افغانستان اور بھارت کے درمیان محصور حالت میں سلامتی کے حوالے سے غیر معمولی پریشانی سے دوچار رہا ہے۔ پاکستان کا وجود خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں بھارت سے تنازع نے پاکستان کے نیشنل سیکورٹی پیراڈائم کو موجودہ شکل دی ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے بہت سے مسائل اندرونی سیاست میں اس کے الجھاؤ کے بطن سے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک تباہ کن گٹھ جوڑ سامنے آیا ہے۔ سرحدوں کی محافظ فوج نے ہمیشہ خود کو پاکستان کے مفادات کا بہترین محافظ سمجھا ہے۔ ویسے یہ تصور گراس روٹ لیول کے حوالے سے برائے نام دانش کا حامل ہے۔ خود کو قومی مفادات کا حقیقی اور بہترین محافظ سمجھنے کا تصور گیریژن میں پیدا ہوا اور تائید کے لیے جاگیر داروں، کاروباری طبقے اور ایرسٹوکریٹس پر منحصر رہا ہے۔ ان سب نے ملک کو بچانے کے نام پر برپا کیے جانے والے coups میں شراکت دار کا کردار ادا کیا ہے۔ اس کے برعکس چین کی کمیونسٹ پارٹی اپنی طاقت گراس روٹ لیول سے حاصل کرتی ہے۔ ایسا ڈھانچا تیار کیا گیا ہے، جو مستقبل کے لیے لیڈر تیار کرتا رہتا ہے۔
صدر شی جن پنگ نے سات سال تک رضاکار کی حیثیت سے شینگژی صوبے کے ایک دور افتادہ گاؤں میں پانی کی فراہمی، نکاسی اور توانائی کے منصوبوں میں مقامی لوگوں کی مدد کی۔ شی جن پنگ نے جب اس گاؤں میں قدم رکھا تب وہ ۱۵ سال کے تھے اور جب رخصت ہوئے تو وہاں بہت سے لوگوں کو اپنا دوست بناچکے تھے۔چینی کمیونسٹ پارٹی کے تقریباً تمام ہی قائدین اس راہ پر گامزن رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ عوام کے لیے انتہائی قابل قبول ثابت ہوئے ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی فوج اپنے نظم و ضبط کی پیرو ہے، جو گیریژن میں پیدا ہوتا وہیں پروان چڑھتا ہے۔ عوام کی عمومی رائے سے اس کا بظاہر کچھ خاص تعلق ہے نہ لینا دینا۔ چیئرمین ماؤ زے تنگ کسان کے بیٹے تھے اور انہوں نے بھی عنفوان شباب کا زمانہ اس گاؤں میں لوگوں کی خدمت انجام دیتے ہوئے گزارا جہاں وہ پروان چڑھے۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ فوج ہے، جو ملک کا سب سے منظم اور مضبوط ادارہ ہے۔ اس کا ذہنی ڈھانچہ البتہ گیریژن میں لنگر انداز ہے۔ فوج اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ معاملہ کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کو پروان چڑھانے کا ہو یا منظم طور پر مخالفت کرنے کا، وہ ہمیشہ ملک کے بہترین مفاد میں متحرک ہوتی ہے۔ ناقدین اسے سوشل انجینئرنگ کہتے ہیں، جس کی جڑیں موجودہ حکمراں جماعت میں بھی پائی جاتی ہیں۔
بلا واسطہ یا بالواسطہ مداخلت نے، خواہ نیک نیتی سے کی گئی ہو، ایسے ناقابل قبول نتائج پیدا کیے ہیں جن کا ارادہ نہیں کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں میرٹ، شفافیت، جواب دہی اور سیاسی درستی کے اصول پر سودے بازی پر مجبور ہونا پڑا۔
چین میں ہر معاملہ کامیاب اس لیے رہا کہ اس نے ایک نظام، ایک جماعت، ایک زبان اور ایک قوم کے تصور پر پختہ یقین رکھا۔ اس کے قائدین نے ذرا سی بھی ناکامی کا سامنا کیے بغیر تمام مقاصد حاصل کیے۔
پاکستان کا معاملہ بہت سے معاملات کے آپس میں گڈمڈ ہو جانے کا ہے۔ فعال جمہوریت کو غیر فعال نظامِ حکمرانی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ معاملات کو مزید خراب، بصیرت سے محروم خود غرض قائدین اور برطانوی عہد کی طرزِ حکمرانی کی حامل ایسی بیورو کریسی نے کیا ہے جو موم کی ناک جیسی ہے کہ جس طرف بھی جی چاہے، موڑ دیجیے۔ ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اپنی غالب حیثیت اور اس غالب حیثیت کا چہرہ چھپانے کی کوشش کے ذریعے توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان کی چند جماعتیں اس بیلینسنگ ایکٹ کا نمونہ ہیں۔ نتائج بالکل برعکس ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں چین دنیا کی بڑی معیشت ہے۔ جی ایچ کیو کے پیراڈائم کی ہدایات کے تحت پاکستان علاقائی اور بین الاقوامی محاذوں پر لڑتے ہوئے سلامتی کو لاحق خدشات کی حامل ریاست سے نارمل ریاست بننے کے مرحلے میں ہے۔ پاکستان کے تمام مسائل سیکورٹی کو بنیاد بناکر تیار کی جانے والی پالیسیوں کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں۔ چین میں حکمرانی کا طریق درست اور سخت رہا ہے۔ مفادِ عامہ کو مرکزی حیثیت دینے والی ریاستی مشینری وہاں فعال رہی ہے۔ یہی وہ نظام ہے جس کی مدد سے چین کی کمیونسٹ پارٹی ملک کو معاشی کرشمے کی شکل دینے میں کامیاب رہی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کسی بھی خرابی کے لیے کسی اور کو موردِ الزام ٹھہرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اسے اگر الزام دینا تھا تو اپنے ہی لوگوں کو۔ یہی سبب ہے کہ وہ اہم عہدوں پر فائز ہونے والوں کے محاسبے کے حوالے سے غیر معمولی اور نمایاں حد تک سفاک و غیر لچک دار رہی ہے۔
ایسے میں اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ نیویارک ٹائمز کے کالم نگار ٹامس فرائیڈمین کو بھی کہنا پڑا کہ ایک جماعت کی حکومت کے بہت سے نقصانات اور خامیاں بھی ہوتی ہیں مگر روشن خیال شخصیات قیادت کا فریضہ انجام دیں تو اس طرز حکومت کے چند فوائد بھی ممکن ہیں اور یہ بات چین کو دیکھ کر سمجھی جاسکتی ہے۔ ساتھ ہی اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک جماعتی اقتدار کے تحت معاشرے کو اکیسویں صدی میں بہتر انداز سے آگے بڑھانے کے لیے سیاسی طور پر مشکل مگر اہم فیصلے آسانی سے نافذ کیے جاسکتے ہیں۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنی صفوں میں احتساب کا عمل تواتر سے آگے بڑھایا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں فوج نے اپنے مفاد کو اولیت دینے والے سیاست دانوں کو بے صبری سے باریاں لیتے ہوئے دیکھا، جنہوں نے اختیارات غلط طریقے سے استعمال کیے، دولت جمع کی اور حکمرانی کے نظام کی اصلاح پر برائے نام توجہ دی۔ اس کے نتیجے میں حکمرانی کی لاگت بڑھ گئی اور فوج کو ملک بچانے کی خاطر مداخلت کرنا پڑی۔ جرنیل (ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف) جب اقتدار میں تھے تب انہوں نے ملک کے گوناگوں معاشی مسائل کا حقیقت پسندانہ حل تلاش نہیں کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے بدعنوانی کے الزام کی بنیاد پر اور احتساب کا نعرہ لگاکر سیاسی معاملات میں بلا واسطہ یا بالواسطہ مداخلت کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی۔ احتساب کا عمل ملک میں کبھی مقبولیت حاصل نہیں کرسکا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کرپشن کرنے والوں سے جواب طلب کرنے کے نظام ہی میں خرابیاں پائی جاتی ہیں۔
تضاد بہت نمایاں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ معاملات کو درست تو کرنا چاہتی ہے مگر اس کے لیے موجودہ سویلین لیگل فریم ورک ہی استعمال کرتی ہے۔ سیاست دانوں، کاروباری افراد اور قانون دانوں پر مشتمل مفاد پرست عناصر احتساب کے عمل کو نیچا دکھا دیتے ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جو لوگ احتسابی نظام کو چلانے کے ذمہ دار ہیں ان میں مطلوب صلاحیت ہے نہ آہنی ارادہ۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Pakistani and Chinese establishments”.(“Daily Times”. Sept 12, 2019)
Leave a Reply