پاکستانی نظامِ تعلیم پر ایک عالمی ادارے کا اظہارِ تشویش

انٹرنیشنل کرائس گروپ‘ برسلز کی اوائلِ اکتوبر میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا نظامِ تعلیم مکمل تبدیلی کا متقاضی ہے جو کہ اس کے خیال میں معاشرے میں بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے رجحانات کے فروغ کا سبب ہے۔ مزید برآں سیاسی عزم و ارادہ جو کہ اصلاحات کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے‘ کا شدید فقدان پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ حالانکہ اعلیٰ سرکاری افسران کی جانب سے اصلاحات کے حوالے سے نہ جانے کتنے اعلانات اور دعوے کیے گئے ہیں۔

Pakistan: “Reforming the Education Sector” کے زیرِ عنوان رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہادی گروہوں کے طلبہ پر بڑھتے ہوئے اثرات کی ایک وجہ ’’ملک کا بگڑتا ہوا تعلیمی نظام ہے جس نے بہت سارے نوجوانوں کو بنیاد پرستی کی طرف مائل کر دیا ہے کیونکہ جدید معیشت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے انہیں جن صلاحیتوں کی ضرورت تھی‘ ان سے یہ نظامِ تعلیم انہیں آراستہ کرنے میں ناکام رہا‘‘۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ اصلاحات کی سب سے زیادہ ضرورت سرکاری اسکولوں کے تعلیمی نظام میں ہے جو کہ بہت زیادہ عدم توجہ کا شکار ہے نہ کہ مدارس اور نجی اسکولوں کو ہے۔ لہٰذا حکومت اور فنڈ فراہم کرنے والوں کو چاہیے کہ یہاں اپنی توجہ مرکوز کریں۔ حالیہ برسوں میں موجودہ حکومت کی طرف سے سرکاری لوگوں کی اصلاحات کے لیے کی گئی کوششوں کے نتیجے میں بہت کم بہتری کی گئی ہے۔ جی ڈی پی کا جو فیصد تعلیم پر خرچ کیا جارہا تھا‘ حقیقی معنوں میں اس میں گذشتہ پانچ برسوں میں کمی ہی واقع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان ان بارہ ’’نیک نام‘‘ ملکوں میں سے ہے جسے تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا دو فیصد سے بھی کم خرچ کرنے کا ’’شرف‘‘ حاصل ہے۔ صوبوں نے جو مفت پرائمری تعلیم کا اعلان کیا ہے تو وہ محض ایک معمولی سا دکھاوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کا عموماً حکومت کا کلیدی مقصد رہا ہے جو کہ حاصل نہیں کیا جاسکا اور اس محاذ پر عدم پیش رفت کی وجہ سے حکومت کی اپنی توسیع شدہ مدتِ معینہ میں بھی حاصل نہیں کیا جاسکے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کے تعلیمی نظام کی ناکامی نے صرف اس رجحان کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ غریب خاندان اپنے بچوں کو مدارس میں بھیجیں‘‘۔ رپورٹ اسے مشرف حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہوئے اسے اپنی تنقید کا نشانہ بناتی ہے کہ ’’یہ حکومت اس مذہبی لابی سے لڑائی مول نہ لینے کی پالیسی پر گامزن معلوم ہوتی ہے جو سرکاری تعلیمی اداروں کو مزید سیکولر آئوٹ بُک دینے سے روکنا چاہتی ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نظامِ تعلیم میں موثر اصلاح کے لیے ایک مضبوط سیاسی ارادے اور عزم کی ضرورت ہے جس کا سراسر فقدان ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے کیے گئے بلند و بانگ دعوئوں کو شاید ہی کبھی کسی موثر پالیسی کے ذریعہ حقیقت کا روپ دیا گیا ہو۔ وزیرِ تعلیم زبیدہ جلال نے مارچ ۲۰۰۲ء میں امریکا کا دورہ کیا تھا تاکہ حکومت کے ذریعہ تعلیم کو سیکولر بنانے اور غیراصلاح شدہ مدارس کی جانب سے درپیش روز افزوں چیلنجز کے مقابلہ کے لیے کی جانے والی کوششوں کے لیے حمایت حاصل کریں۔ اس کی وجہ سے پاکستان کو تعلیمی اصلاحات کے لیے قابلِ ذکر رقوم وصول ہوئیں جن میں حکومتِ امریکا کی جانب سے دی گئی دس کروڑ ڈالر کی رقم شامل ہے۔ بہرحال رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود تعلیمی ضروریات اور مدارس کی اصلاحات کے حوالے سے کیے گئے بکثرت حکومتی وعدوں کو پورا نہ کرتے ہوئے بنیادی ترجیحات سے صرفِ نظر کیا گیا۔ تعلیمی شعبہ ہنوز بہت زیادہ سیاسیہ دیاگیا ہے اور یہ مختلف صوبوں اور سیاسی مہم جوئوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے تعلیمی ضروریات کا معروضی اندازہ لگانے میں ناکام رہا ہے۔ سرکاری اسکول سسٹم میں عظیم تبدیلی لانے کے حوالے سے عزم کی کمی اور حکومتی قول و فعل میں فرق کے علاوہ کچھ دوسرے عوامل بھی ہیں جو تعلیم کے مسلسل زوال کا سبب ہیں۔ پہلی اہم وجہ تو یہ ہے کہ محکمۂ تعلیم خواہ وفاقی ہو یا صوبائی‘ سرکاری ملازمت اور سرکاری سرپرستی کا اہم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ بیورو کریٹس کو ایک بار جب سول بیورو کریسی میں ملازمت مل جاتی ہے تو وہ ترقی پاکر پالیسی سازی کے اعلیٰ منصب تک پہنچ جاتے ہیں‘ اگرچہ تعلیمی میدان میں نہ ان کی اپنی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی کوئی تربیت ہوتی ہے اور نہ ان کے پاس درس و تدریس کا کوئی تجربہ ہوتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں اس بات کا بہت امکان ہوتا ہے کہ سول سروینٹس کے ذریعہ بنائی گئی پالیسیوں کا تعلق حقیقی مسائل سے نہیں ہوتا جو اساتذہ‘ طلبہ اور ان کے والدین کو پریشان کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں تک نچلی سطح کے حکومتی منصوبہ (Devoloution Plan) کا تعلق ہے تو رپورٹ کے مطابق اگر اس کا کوئی اثر تعلیم پر پڑا بھی ہے تو اس کا مشاہدہ کیا جانا ابھی باقی ہے۔ ڈیوولیشن سے جو کچھ ہوا ہے وہ یہ کہ اس نے سنگین نوعیت کا کنفیوژن ہی پیدا کیا ہے اور ایک ذمہ داری کو بیک وقت کئی لوگوں کے سپرد کر دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران اپنی ذمہ داریوں کا تھوڑا حصہ بھی انجام دینے سے قاصر رہے جو انہیں تفویض کیے گئے تھے۔ عدم مرکزیت کے اس اصول کے ٹھیک برعکس حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد سرکاری اسکولوں میں پڑھائے جانے والے تعلیمی مواد پر اپنی مضبوط گرفت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہر جگہ یکساں نصابِ تعلیم ہے جو پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والے مختلف النوع لسانی‘ سماجی‘ مذہبی اور معاشی گروہوں کی مناسب نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ وفاق Syllabus اور Curriculum پر بھی مضبوط گرفت رکھتا ہے جس کے متعلق رپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ علاقی‘ لسانی و مذہبی بنیادوں پر عدم برداشت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ حکومت اپنے داخلی اور خارجی ایجنڈا کی تکمیل کر سکے۔ زیادہ تر طلبہ جو سرکاری اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں‘ وہ غریب اور پسماندہ طبقے سے آئے ہوئے ہوتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کی نااہلی کے پیشِ نظر تعلیمی نظام کے اس حصے میں کوئی حقیقی اصلاحات نہیں لائی جاسکیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اصلاً غریب اور محروم طبقہ متاثر ہوا جو سماج کا وہ عنصر ہے جسے شاید حکومت کی توجہ اور مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں حکومت کی اس کام میں ناکامی کے سبب سرکاری اسکولوں میں بگاڑ اور زوال کا ایسا گھن چکر شروع ہو گیا ہے جس نے ذہین طلبہ کے والدین کو سرکاری اسکولوں سے مزید متنفر کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ غریب والدین بھی اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ یہ صورتحال ملک میں مدرسے کے فروغ کا سبب بنی ہے جو کہ بہرحال بالخصوص معاشی نقطۂ نظر سے اس طبقے میں تعلیم کی مانگ کے خلا کو پُر کرتی ہے۔ رپورٹ نے حکومتِ پاکستان کو مندرجہ ذیل سفارشات پیش کی ہیں:

٭ تعلیم پر سرکاری اخراجات کو بڑھا کر کم از کم جی ڈی پی کا ۴ فیصد کیا جائے جیسا کہ یونیسکو کی تجویز تھی۔ سرکاری اسکولوں کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے پر زور دیا جائے۔

٭ سوشل سیکٹر کی ترقی پر خرچ کی جانے والی رقم میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ اس سے سرکاری اسکول تک طلبہ اور اساتذہ کی رسائی آسان ہو جائے گی‘ خصوصاً ان کی جو دیہی علاقوں اور شہر کی کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔

٭ حکومت کو اُن انتہا پسند تنظیموں اور افراد کے گروہوں کے خلاف فوری اقدام کرنا چاہیے جو تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے حکومتی اقدامات کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے حکومت کو ہر ممکنہ قانونی طریقوں کو بروئے کار لانا چاہیے اور پولیس کی بھی مدد لینی چاہیے۔

٭ مدارس کے نصابِ تعلیم کو بہتر بنانے کے اقدامات نیز اس کے رجسٹریشن کے عمل کو بھی اس وقت تک کے لیے روک دینا چاہیے جب تک کہ وفاقی وزارتِ تعلیم کا نصابی شعبہ سرکاری اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب پر جامع انداز میں نظرثانی نہیں کر لیتا ہے اور اصلاحات کا عمل مکمل نہیں کر لیتا ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ نصابی شعبہ تاریخی سقوم کو شناخت کر کے اسے ختم کرے اور ایسے تمام مواد کو قومی نصاب سے محو کرے جو مذہبی منافرت کی حوصلہ افزائی کرتا ہو اور لسانی و فرقہ ورانہ تعصب کو جنم دیتا ہو۔ نیز اسلامی حوالوں کو صرف مطالعہ اسلامی کے کورسز تک محدود کر دیا جائے تاکہ غیرمسلم طلبہ کے مذہبی حقوق کا احترام ہو سکے اور انہیں کوئی گزند نہ پہنچے۔

٭ حکومت کو تعلیمی اور نصابی مواد کے حوالے سے پالیسی اور فیصلہ سازی کے معاملے میں عدم مرکزیت کی پالیسی پر گامزن ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے اسے قومی نصاب کو سرے سے ختم کر دینا چاہیے اور مختلف صوبائی ٹیکسٹ بکس بورڈ کو متعارف کرانا چاہیے جن کی ٹیکسٹ بکس پر اجارہ داری ہو۔ صوبائی تعلیمی وزارتیں نئی ٹیکسٹ بک کی تیاری کے لیے اعلانیہ مسابقانہ کنٹریکٹس کا اشتہار دیں اور پرائیویٹ سیکٹرز سے ماہرین کو دعوت دیں کہ وہ آگے آئیں اور نصابی شعبہ کے رہنما خطوط کے مطابق ٹیکسٹ بکس کے ڈرافٹ پیش کریں۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ صرف کسی ایک پر اکتفا کرنے کے بجائے ایسے ٹیکسٹ بکس کا انتخاب کر سکیں جو وہ اپنے طلبہ کو پڑھانا چاہتے ہیں۔

٭ محکمۂ تعلیم کی مانیٹرنگ کی اہلیت کو بڑھانے کے لیے صوبائی سطح پر مزید اسٹاف بھرتی کیے جائیں اور انہیں مناسب ٹرانسپورٹ فراہم کی جائیں۔ فنڈ کی منظوری اور پھر اس کی فراہمی کا انحصار حُسنِ کارکردگی پر ہونا چاہیے مثلاً پاس ہونے والوں کی فیصد‘ داخلہ کی شرح نیز اساتذہ و طلبہ کی حاضری کی شرح پر۔ تعلیمی بیورو کریسی کی مرکزیت کو بھی ختم کرنے کے لیے اقدام کرنے چاہییں۔ یہ کام ڈیوولیشن کے جاری عمل کو مضبوط بناتے ہوئے کیا جاسکتا ہے اور سرکاری اسکولوں میں بورڈ آف گورنرز کی تشکیل کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ ان بورڈوں کا انتخاب اساتذہ اور والدین کے ذریعہ عمل میں آنا چاہیے۔ بورڈ میں مقامی حکومت کے اراکین کو ووٹ کے ذریعہ منتخب کیا جانا چاہیے۔ ان بورڈوں میں بذریعہ ووٹ نمائندگی کا حق مقامی حکومت کے کارندوں‘ والدین‘ اساتذہ اور کمیونٹی کے ارکان کو ہونا چاہیے۔ اس بورڈ کو اساتذہ اور کارندے بحال کرنے‘ انہیں معزول کرنے نیز کارکردگی کی بنیاد پر اس طرح کے فیصلے لینے کا اختیار ہونا چاہیے۔

٭ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ اور منتظمین کا تقرر مختصر المدت معاہدوں کے تحت ہونا چاہیے۔ کارکردگی کی بنیاد پر معاہدے کی تجدید یا خاتمہ ہونا چاہیے۔ کارکردگی کا جائزہ ہر سال بورڈ آف گورنرز کو لینا چاہیے نہ کہ سول سروینٹس کو۔ یہ جان کر کہ ان کی ملازمت ہمیشہ کے لیے نہیں ہے اور انہیں ہر سال اس بات کی جوابدہی کرنی ہو گی کہ انہوں نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا‘ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔

٭ تعلیمی سرگرمیوں میں والدین کی شرکت کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ یہ کام حکومت اس طریقے سے کر سکتی ہے کہ وہ پیرنٹس ٹیچرز ایسوسی ایشن تشکیل دے اور ان کی سرگرمیوں اور ملاقاتوں کے لیے ٹیکنیکل اور مالی مدد فراہم کرے۔ پیرنٹس ٹیچرز ایسوسی ایشن مقامی آبادیوں میں پبلک میٹنگز کا اہتمام کرے تاکہ تعلیم کی اہیمت کو اجاگر کیا جاسکے اور تذبذب میں مبتلا والدین کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے سلسلے میں مطمئن کر سکے۔

٭ اسکول کے سربراہوں کو یہ آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اداروں کے معاملات مقامی آبادی کی ضروریات اور مطالبوں کے مطابق چلائیں۔

مثال کے طور پر انہیں کلاسوں کے اوقات اور اس کے شیڈول کو آگے پیچھے کرنے کی آزادی ہو تاکہ وہ اپنے اداروں میں ایسے طلبہ کے لیے بھی گنجائش نکال سکیں جو دن کا کچھ حصہ روزی کمانے پر خرچ کرتے ہیں۔ اس طریقۂ کار میں والدین کے لیے ایک کشش ہو گی اور وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے میں دشواری محسوس نہیں کریں گے اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ ان کے بچوں کی تعلیم سے ان کی معاشی سرگرمیاں معطل نہیں ہوں گی اور ان کے ذریعہ ہونے والی آمدنی سے والدین محروم نہیں ہوں گے۔

اساتذہ کو اس بات کی بھی تاکید کی جانی چاہیے کہ وہ ٹیکسٹ بکس کے علاوہ بھی کتابیں پڑھائیں اور بچوں کو کیمپس سے باہر کے لیے سیر کے لیے لے جائیں۔ مقامی حالات کے پس منظر میں اس طرح کے سفر سے بچوں میں اپنے ہمسائے علاقوں یا دیگر علاقوں کے مسائل سے آگہی ہو گی۔

٭ جو نئے اسکول حکومت کی طرف سے تعمیر کیے جائیں وہ آبادیوں سے قریب ہوں‘ خاص طور سے دیہی علاقوں میں۔ یہ بات لڑکیوں کے نئے اسکولوں سے متعلق بہت اہم ہے۔ اگر ممکن ہو تو ایک رقم ایسی مختص کی جائے جس سے دور دراز کے علاقوں سے آنے والے طلبہ و اساتذہ کو رعایتی کرایہ پر ٹرانسپورٹ کی سہولت بہم پہنچائی جائے۔

٭ دیہی علاقوں اور شہری کچی آبادیوں میں مڈل اسکولوں کی تعداد کافی ہونی چاہیے۔

٭ ۲۰۰۲ء کے آخر میں یہ اعلان کہ پہلی کلاس سے انگلش کو متعارف کرایا جائے گا‘ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انگلش زبان کی تعلیم کے لیے انہیں مناسب انگلش مواد اور باضابطہ تربیت یافتہ اساتذہ سے مدد دی جائے۔

آئی سی جی کی رپورٹ میں عطیہ کنندگان کے لیے بھی چند سفارشات ہیں:

٭ پاکستانی حکومت کو امداد اس شرط پر دی جائے کہ وہ جی ڈی پی کا مجوزہ تناسب تعلیم پر خرچ کرے گی۔

٭ امداد دینے والـے اسلام آباد کو تاکید کریں کہ وہ قومی نصاب تبدیل کرنے کے لیے اقدامات کرے اور ایسے مواد کو نصاب سے نکال باہر کرے جس کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہو کہ وہ عدم برداشت و عدم رواداری کے فروغ کا سبب ہے۔

٭ حکومت کو اس بات کی ضمانت دینی چاہیے کہ امدادی فنڈ سے ٹریننگ پائے ہوئے اساتذہ کا کم از کم تین سالوں تک تبادلہ نہیں کیا جاسکے گا۔

٭ عطیہ کنندگان کو اچھے معیار کے انگلش مواد مقامی پبلشرز کو فراہم کرنا چاہیے۔ دوسرے تعلیمی مواد بھی سرکاری اسکولوں کو فراہم کیا جانا چاہیے جو طلبہ کی انگریزی زبان سے واقفیت وسیع تر کر سکے۔

٭ عطیہ کنندگان کو اس امکان کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ مقامی تنظیموں اور این جی اوز جن کا تعلیمی ریکارڈ ثابت شدہ ہے‘ کے ساتھ اشتراک کر کے اس سمت میں کس طرح پیش رفت کی جائے۔ رپورٹ میں اس حوالے سے سٹیزن فائونڈیشن کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں خلاصہ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

’’پاکستان اپنی آزادی کے ۵۷ برسوں بعد بھی ایک مساویانہ نظامِ تعلیم سے محروم ہے اور اس کی شرحِ خواندگی دنیا میں سب سے کمترین ہے۔ تعلیم کی فراہمی اور اس کی خرابیوں کو دور کرنے کے حوالے سے اعلانیہ حکمت ہائے عملی کی ترتیب اور درجہ بندی کے باوجود تعلیمی صورتحال افسوسناک ہے اور خرابیاں جوں کی توں ہیں‘ جن میں اس مد میں کم ترین حکومتی صرفہ‘ خواندگی‘ داخلے کے معیارات‘ داخلے میں زبردست کمی‘ بدترین قسم کی علاقائی اور جنسی تفریق اور نامناسب بجٹ کے مسائل شامل ہیں‘‘۔

آئی سی جی کا ادارہ ایک بورڈ کے زیرِ انتظام ہے جس کے چیئرمین فن لینڈ کے صدر Martli Ahtisaari ہیں اور اس کے صدر اور چیف ایگزیکٹو جنوری ۲۰۰۰ء سے آسٹریلیا کے وزیرِ خارجہ Gareth Evans چلے آرہے ہیں۔ ماضی میں اس نے پاکستان پر کئی رپورٹیں شائع کی ہیں‘ جن میں Pakistan: Transition to Democracy? (Oct. 2002) اور Pakistan: The Mullahs and the Military (March 2003) شامل ہیں۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ کراچی۔ ۷ نومبر ۲۰۰۴ء۔ عمر قریشی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*