فلسطین باغیرت و باحمیت مسلمانوں کی دل کی دھڑکن رہا ہے۔ عالمی بساطِ سیاست پر نہایت منصوبہ بند طریقہ سے فلسطین کے تاریخی حقائق اور جغرافیائی نقشہ کو بدلنے کی جو کوششیں ہوئیں اور ہو رہی ہیں‘ اس تناظر میں ضروری ہے کہ ہم فلسطین کی تاریخ اور اس کے جغرافیہ سے نہ صرف خود واقف رہیں بلکہ اپنی نسلوں کو بھی اس سے واقف کرائیں۔ یاسر عرفات کے انتقال کی خبر نے درد کسک کے اس احساس کو زندہ اور اس داغِ کہن کو تازہ کر دیا ہے۔ زیرِ نظر مضمون اسی کے احساس کے ساتھ نذرِ قارئین ہے۔
ملک فلسطین
فلسطین اٹھارہ بیس لاکھ کی آبادی کا ایک زرخیز اور شاداب ملک تھا۔ اس کے مغربی جانب بحرِ روم یا بحرِ ابیض متوسط نامی سمندر ہے اور خشکی میں ساحل سے کچھ فاصلہ پر ایک پہاڑی سلسلہ ہے‘ اسی سلسلہ میں ’’بیت المقدس‘‘ کا مقدس شہر آباد ہے اور اسی کے پہاڑ اور اس کے سامنے کے میدانی و ساحلی خطہ میں فلسطین کے دوسرے شہر آباد ہیں۔ فلسطین میں یہودی بہت قلیل تعداد میں تھے لیکن برطانیہ اور امریکا کی مدد سے انہوں نے ہجرت کر کے وہاں اپنی خاصی تعداد کر لی‘ جس کے نتیجہ میں وہاں کے مسلمان باشندوں کو نکال کر قابض ہو گئے اور ان علاقوں سے جہاں یہودی قابض ہوئے‘ مسلمان و عرب بڑی تعداد میں نکلنے پر مجبور ہوئے جو کہ اس علاقہ سے باہر غریب الوطنی یا خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس علاقہ میں یہودیوں نے زبردستی اپنی حکومت قائم کر لی‘ جس کا نام اسرائیل ہوا۔
۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے اچانک اور طاقتور حملہ کر کے پورے فلسطین بلکہ عرب ملکوں کے کئی مقامات پر قبضہ کر لیا اور انہوں نے بیت المقدس کے نئے اور پرانے حصہ کو ایک کر لیا۔
شرق اردن کا ملک فلسطین کے مشرق میں اس سے ملا ہوا تھا۔ اس کے اور فلسطین کے درمیان ایک لمبی سمندری جھیل اور جھیل کے شمال میں دریائے اردن تھا جو کہ دونوں کے درمیان سرحد تھی لیکن جب سے فلسطین کا ایک مشرقی حصہ شرق اردن میں شامل ہوا‘ شرق اردن کو صرف اردن کہنے لگے۔ درمیان کے سمندری جھیل بحرِ میت یا بحرِ لوط کہلاتی ہے۔ اسی کے قریب حضرت لوطؑ کی قوم آباد تھی اور اسی کی سدوم نامی بستی پر عذاب آیا تھا۔
فلسطین وہ ملک ہے جس میں حضرت ابراہیمؑ ، حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوبؑ اور ان کی ساری اولاد آباد رہی اور یہاں ان کے علاوہ حضرت دائود، حضرت زکریاؑ، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰؑ اور بے شمار انبیا مبعوث ہوئے اور یہیں شہر بیت المقدس میں وہ مسجد ہے جو مسجدِ اقصیٰ کہلاتی ہے اور جو حضرت ابراہیمؑ سے لے کر بعد کے تمام انبیا تک کی مقدس مسجد رہی۔ حضورﷺ نے اور مسلمانوں نے ایک سال سے زیادہ اس کا رخ کر کے نماز پڑھیں اور اسی فلسطین میں شہر الخلیل ہے جس میں حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحاقؑ اور دوسرے اہلِ بیت مدفون ہیں۔
(شہر) بیت المقدس
اس شہر کا سب سے پہلا نام جو تاریخ میں منقول ہے وہ پندرہ سو سال قبل مسیحؑ میں بتایا جاتا ہے۔ اس کے بعد سنہ دس سو قبل مسیح میں بدل کر اورشلیم کہا گیا جس کو یورپ میں یروشلم کہتے ہیں۔ پھر ۷۰ء میں حضرت عیسیٰؑ کے ماننے والوں نے ایلیا کر دیا۔ مسلمانوں نے فتح کرنے کے بعد اس کو قدس یا بیت المقدس کہا۔ یہ شہر بڑا تاریخی اور پرانا شہر ہے۔ یہ دو پہاڑی ٹیلوں پر آباد ہے ایک جبل صیہون اور دوسرے کو جبل عکرہ کہتے ہیں۔ شہر کے مشرقی جانب وادی سدردن کا نشیب ہے جس کو وادیٔ مریم بھی کہتے ہیں اور شہر کے مغربی جانب وادی ہتوم کا نشیب ہے۔
بیت المقدس دو حصوں پر مشتمل ہے‘ ایک نیا‘ دوسرا پرانا۔ نئے شہر پر یہودیوں کا قبضہ تھا اور پرانے پر مسلمانوں کا۔ پرانے شہر ہی میں مسجدِ اقصیٰ ہے۔ یہ مسلمانوں‘ عیسائیوں اور یہودیوں تینوں کا مشترکہ مقدس مقام ہے۔ یہ شہر ایک فصیل سے گھرا ہوا ہے‘ اس کے سات دروازے ہیں‘ گلیاں تنگ اور تمدن نسبتاً قدیم ہے البتہ نیا شہر فصیل سے باہر تعمیر کیا گیا ہے اور متمدن ہے۔ شہر بیت المقدس عبادت خانوں اور گرجائوں کی کثرت میں ممتاز ہے۔
مسجدِ اقصیٰ (بیت المقدس)
مسلمانوں کی تیسری مسجد‘ مسجدِ اقصیٰ ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ تین مقامات کا سفر درست ہے۔ ایک مسجدِ حرام‘ دوسرے مسجدِ نبوی اور تیسرے مسجدِ اقصیٰ۔ مسجدِ اقصیٰ کی زیارت کا وقت کوئی مخصوص نہیں۔ مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے۔ کعبہ مشرفہ کے قبلہ مقرر کیے جانے سے پہلے اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم تھا۔ مدینہ منورہ میں سولہ ماہ تک مسلمانوں نے اسی کا رخ کر کے نمازیں ادا کی ہیں۔ اس کے بعد تحویل قبلہ کا حکم دیا گیا ہے۔
حرم مسجدِ اقصیٰ
اسی جگہ حضورﷺ کو معراج ہوئی اور یہیں معراج کی شب میں آپﷺ نے تمام انبیا کی امامت فرمائی۔ مسجدِ اقصیٰ جبلِ زیتون کے مغربی جانب بنی ہوئی ہے۔ اس کے مشرق جنوبی پہلو پر وادیٔ سدرون ہے۔ اس کے متصل جبل صیہون پر شہر بیت المقدس آباد ہے۔ مسجدِ اقصیٰ کا حرم وسعت میں مسجد الحرام سے سہ چند ہے۔ وہ شہر کے مشرقی گوشہ میں فصیل سے ملی ہوئی واقع ہے مگر فرش شکستہ جگہ جگہ گھاس کی کیاریاں اور درخت ہیں اور بجز چھوٹی مسجدِ اقصیٰ قبۃ الصخرۃ کے سب جگہ لوگ بے تکلف جوتے پہنے ہوئے پھرتے ہیں۔ حرم مسجد کے دس دروازے ہیں‘ سات دروازے ایک قطار میں بجانب غرب واقع ہیں۔ باب المغار‘ یہ باب السکینہ جو باب السلسلہ بھی کہلاتا ہے۔ باب القطا میں باب الجدید‘ باب الناظر‘ باب الغوانم اور شمالی جانب تین دروازے ہیں۔ باب شرفِ الانبیا میں سے سیدنا حضرت عمرؓ داخل ہوتے تھے۔ باب حطہ‘ بنی اسرائیل کو میدانی قبہ سے آکر مسجدِ اقصیٰ میں اسی دروازے سے داخل ہونے کا حکم ہوا تھا اور باب الاسباط جس کو باب الرحمۃ بھی کہتے ہیں نیز مشرقی جانب دو دروازے اور ہیں‘ جو تعمیرِ سلیمانی کے وقت سے بند ہیں۔ ایک کا نام باب التوبہ اور دوسرے کا نام باب الرحمۃ۔ مزورین مسجد میں داخلہ کا ادب اس طرح بیان کرتے ہیں کہ زائر باب حطّہ سے داخل ہو اگر وقت مکروہ نہ ہو تو یہیں دو رکعت نماز تحیۃ المسجد پڑھ لے۔ یا حطّہ سے داہنی طرف مسجد کا شمالی دروازہ باب شرف الانبیا ہے اور ان کے درمیان ایک چھوٹا سا قبہ چار ستونوں پر قائم ہے‘ جس میں قبلہ رو محراب بنی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ حضرت سلیمانؑ کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ اس قبہ کی غربی جانب دوسرا قبہ ہے‘ جس میں وہ چٹان ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ حضرت سلیمانؑ اس پر کھڑے ہوتے تھے اور یہ نسبتاً تمام زمین سے اونچا ہے۔ حرم کے دروازوں سے متصل اندر متعدد حجرے ہیں‘ جن میں سے بعض فلسطینی پناہ گزین مقیم ہیں اور بعض میں بعض اداروں کے دفتر قائم ہیں‘ جن میں سے خاص طور پر موتمر اسلامی فلسطین قابلِ ذکر ہے اور اسی غربی جانب قبۃ الصخرۃ کے سامنے مولانا محمد علی جوہر کی قبر ہے۔ مسجدِ اقصیٰ کے حرم میں اہم مقامات و چھوٹی مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرۃ ہے۔
(چھوٹی) مسجدِ اقصیٰ
یہ حرم مسجد کے جنوبی حصہ میں بنی ہوئی ہے۔ یہ اس جگہ ہے جس کو حضرت ابراہیمؑ کے وقت سے برابر انبیا نے بطور عبادت گاہ کے اختیار کیا۔ اس جگہ ہیکل سلیمانی ہے جو اسی مسجدِ اقصیٰ کے نیچے کے تہہ خانوں میں بتایا جاتا ہے۔ یہ حضرت سلیمانؑ کی وہ مخصوص جگہ تھی جہاں انہوں نے عمارت کی تعمیر کی تھی۔ اس عمارت میں یہودیوں کے نزدیک توریت کا صحیفہ کھو گیا جو اب تک نہیں مل سکا‘ اسی لیے وہ اب تک اسی جگہ کے قریب پہنچ کر روتے ہیں اور اپنے نقصانِ عظیم کا اس طرح اظہار کرتے ہیں۔ ان کے لیے اسی مسجدِ اقصیٰ کے غربی جانب ایک دیوار بنی ہوئی ہے‘ اس کو ہیکل سلیمانی کی حد سمجھ کر وہاں روتے ہیں۔ یہ دیوارِ گریہ کہلاتی ہے۔ قبل اسلام اس جگہ عیسائیوں نے گرجا بنا رکھا تھا۔ اس کے ایک پہلو پر حضرت عمرؓ نے فتح بیت المقدس کے موقع پر نماز ادا فرمائی تھی اور وہاں پھر مسجد بنا دی گئی جو مسجدِ عمرؓ کہلاتی ہے۔ گرجا مسجد میں تبدیل ہو گیا اور اسی کو مسجدِ اقصیٰ کہا جاتا ہے۔ مسجدِ عمرؓ اس کے مشرقی پہلو میں ہے۔ بہرحال حرم مسجدِ اقصیٰ اپنے اندرونی و بیرونی حصوں کے ساتھ مسلمانوں‘ عیسائیوں اور یہودیوں تینوں کے لیے مقدس مقام ہے۔ یہی وہ اصل جگہ ہے جو مسلمانوں کا قبلۂ اول رہی۔
قبۃ الصخرۃ
چھوٹی مسجدِ اقصیٰ کے قریب ہی شمالی رخ پر ایک وسیع چبوترے پر ایک بلند اور خوبصورت قبہ بنا ہوا ہے۔ اس قبہ کے اندر ایک چٹان ہے‘ اس چٹان کو حضرت ابراہیمؑ اور دوسرے انبیاؑ بطور قربان گاہ استعمال کرتے تھے۔ حرم مسجدِ اقصیٰ میں سب سے ممتاز اور خوبصورت جگہ یہی گنبد اور مزید لکڑی کا گنبد بعد کے مسلمان سلاطین نے بنوایا تھا تاکہ نیچے کے گنبد کے نقش و نگار بارش وغیرہ کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ نیچے کا گنبد ۲؍۱۱۱ میٹر بلند ہے اور اس کا قطر ۲۰ میٹر ہے۔ یہ گنبد بہت خوبصورت ہے اور آٹھ گوشوں کے میناروں پر قائم ہے۔ ہر پہلو کی وسعت ۴۰ و ۲۰ میٹر ہے اور ان کی دیواریں مرمر سے لگی ہوئی ہیں۔ اس گنبد کے اندرونی حصوں میں وہ قابلِ احترام چھوٹی چٹان ہے جو صخرۃ کہلاتی ہے‘ اس کے ارد گرد لکڑی کا گھیرا ہے جو مربع شکل کا ہے‘ جس کا طول مشرق سے مغرب تک ۱۷۷۰ میٹر اور عرض ۱۳۰۵۰ میٹر ہے۔ اس کے گوشوں میں قبلہ کے رخ پر دو محرابیں ہیں۔ قبۃ الصخرۃ کا ہی قبہ وہ قبہ جو تصویروں میں نظر آتا ہے۔
دوسرے مقامات
بیرون شہرِ حرم مسجدِ اقصیٰ کی مشرقی فصیل کے محافہ میں حضرت عبادہ بن صامتؓ کا مزار ہے اور اسی جانب بیرون باب الاسباط‘ وادی مریم‘ میں قطنطین کی والدہ ہیلانہ کا تعمیر کردہ وہ مشہور کلیسا ہے جس میں بی بی مریم کا مرقد بنا ہوا بتایا جاتا ہے۔ یہ مقام بہت نشیب میں واقع ہے‘ جہاں تقریباً ۱۸ سیڑھیوں سے اتر کر نیچے پہنچتے ہیں اور دن میں بھی بغیر روشنی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ صبح سے آٹھ بجے تک اٹلی کے پادری یہاں عبادت کرتے ہیں۔ کوئی اندر نہیں جاتا‘ جو جاتا ہے‘ دربان موم بتی روشن کر کے اس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے کہ اس کو لے کر اندر جائیں۔
شہر کے جنوبی سمت ۵ کلو میٹر یعنی ۲؍۳۱ میل پر موضع بیت اللحم ہے جو سیدنا عیسیٰؑ کی جاے ولادت بیان کرتے ہیں۔ یہ مختصر گائوں ہے‘ جس میں ایک کلیسا ہے‘ جس کا نام کنیۃ المہد ہے‘ یہ سب سے قدیم کلیسا ہے۔ اس میں صبح کے وقت جب گھنٹہ بجتا ہے تو اس وقت دنیا کے تمام گرجا گھروں میں گھنٹے بجتے ہیں۔ یہی راستہ مدینۃ الخلیل کو جاتا ہے جس کو خلیل الرحمن بھی کہتے ہیں۔
شہر الخلیل
بیت المقدس سے ۳۶ کلو میٹر یعنی ۲؍۲۲۱ میل کے فاصلہ پر ہے۔ یہ قصبہ چھوٹا سا گائوں ہے مگر آباد اور نہایت پیارا مقام ہے۔ ایک نہایت عالی شان مسجد ہے‘ جس کے ایک قبہ میں سیدنا ابراہیمؑ کا مزار ہے اور سامنے کے قبہ میں آپ کی بیوی حضرت سارہؓ کا۔ جنوب میں وسط جانب مسجد میں ایک قبہ کے اندر آپ کے صاحبزادے سیدنا اسحاقؑ اور ان کی بیوی افقہ کا مزار ہے اور غرب و شمال کے گوشہ میں سیدنا یعقوبؑ اور ان کی بیوی حضرت لائقہ اور اس کے متصل ایک خوبصورت قبہ میں سیدنا یوسفؑ کا مزار ہے۔
(بشکریہ: پندرہ روزہ ’’تعمیرِ حیات‘‘۔ لکھنؤ)
Leave a Reply