اُمید کا دامن تھام رکھا ہے!

Palestinian Prime Minister Salam Fayyad

سابق اسرائیلی وزیر اعظم بن گوریان نے ۱۹۴۸ء میں ملک کے قیام کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اب فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم سلام فیاض وہی کردار کر رہے ہیں۔ وہ فلسطینی ریاست کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ٹام سیگیو: آپ آج بھی فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اب ڈیڈ لائن کے مطابق صرف نو ماہ رہ گئے ہیں۔ کیا تب تک ریاست معرض وجود میں آ جائے گی؟

سلام فیاض: میں پوری کوشش کر رہا ہوں کہ ریاست کے لیے مستحکم ادارے معرضِ وجود میں آ جائیں۔ ایک مضبوط ریاست کے لیے بہتر انفرا اسٹرکچر اور اعلیٰ درجے کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔

ٹام سیگیو: کوئی خاص تاریخ بھی مقرر کی گئی ہے؟

سلام فیاض: ۲۶؍ اگست۔

ٹام سیگیو: کیا آپ ۲۶؍ اگست کو فخر سے کہہ سکیں گے کہ ’’ریاست معرض وجود میں آچکی ہے؟ ‘‘

سلام فیاض: نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تب تک ہم ایسی حالت میں ہوں گے کہ ریاست کے قیام کے لیے فیصلہ کن مرحلہ شروع کر سکیں گے۔ یہ ہمارا بنیادی مقصد ہے۔

ٹام سیگیو: اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پُر امید رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، رجائیت کی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں؟

سلام فیاض: میں پُرامید رہنے کو ہر صورت حال میں ترجیح دیتا ہوں۔

ٹام سیگیو: اس حقیقت کو آپ کس طرح لیتے ہیں کہ بیشتر اسرائیلی اب امن پر یقین ہی نہیں رکھتے؟

سلام فیاض: اسرائیل اور فلسطین میں آج بھی رائے عامہ کے جائزوں میں اکثریت یہ کہتی ہے کہ دو ریاستوں کے نظریے کو عملی جامہ پہناکر ہی اس خطے میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔

ٹام سیگیو: مگر ساتھ ہی ساتھ بیشتر اسرائیلی یہ بھی مانتے ہیں کہ ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

سلام فیاض: میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔ ہم جس قدر زیادہ تعمیر کرتے جائیں گے، ہماری بنیاد اتنی ہی مضبوط ہوتی جائے گی۔

ٹام سیگیو: چلیے، ہم فرض کرلیتے ہیں کہ آپ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اور ایک فلسطینی ریاست معرضِ وجود میں آ جاتی ہے، لیکن اگر غزہ کی پٹی اس میں شامل نہ ہو تو؟ ایسی فلسطینی ریاست کی قدر و قیمت کیا ہوگی؟

سلام فیاض: یہ تو جامد سوچ کا معاملہ ہے۔ ہمیں معاملات کو ایک خاص نقطہ نگاہ ہی سے نہیں دیکھنا چاہیے۔

ٹام سیگیو: واقعی؟

سلام فیاض: اگر ہم ناممکن کے بارے میں سوچنے کو ترجیح دینے کے بجائے جو کچھ ممکن ہے اس کے بارے میں سوچنے کو ترجیح دینے لگیں تو کیسا رہے؟ عملی زندگی میں اِس بات کی زیادہ اہمیت ہے کہ کیا ممکن ہے اور اس کے بارے میں ہم کیا رائے رکھتے ہیں۔

ٹام سیگیو: بیت المقّدس کے حوالے سے کیا ممکن ہے؟

سلام فیاض: مشرقی بیت المقدس مسلمانوں کا ہے اور ہمیں اس معاملے کو اسی نقطہ نظر سے لینا چاہیے۔

ٹام سیگیو: مگر ایسی باتوں سے اسرائیلی خوف محسوس کرتے ہیں؟

سلام فیاض: میں نہیں چاہتا کہ اسرائیلی کسی بھی چیز یا بات سے ڈریں۔ اسرائیلی کے لیے خوف کا باعث بننے والا معاملہ آخری آپشن ہونا چاہے۔

ٹام سیگیو: کیا آپ یہ تسلیم کریں گے کہ اسرائیل نے سرحد پر چند برسوں کے دوران جو دیوار (سرحد پر باڑ) تعمیر کی ہے وہ آپ کی کوششوں کے لیے بار آور ثابت ہوسکتی ہے؟

سلام فیاض: دیوار؟ اور مفید؟

ٹام سیگیو: میں بن گوریان کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ جب عرب ممالک نے جفا کی بندر گاہ بند کی تو اسرائیل کے پاس اپنی بندر گاہ قائم کرنے کے سوا کوئی آپشن نہ تھا۔

سلام فیاض: دیوار کی تعمیر سے غرب اردن کا ایک بڑا حصہ غیراہم ہوکر رہ گیا ہے۔ دیوار کی تعمیر سے زمین کا ایک ٹکڑا عارضی طور پر ہم سے دور ہوگیا ہے۔ مگر یہ کوئی حتمی صورت حال نہیں۔

ٹام سیگیو: اسرائیل میں بہت سے لوگ آپ کا موازنہ بن گوریان سے کرتے ہیں۔ یہ موازنہ آپ کے لیے اشتعال انگیز تو نہیں؟

سلام فیاض: اشتعال انگیز کیوں ہوگا؟ میں کہتا رہتا ہوں کہ اسرائیل کے قیام کے معاملے میں بھی یہی ہوا تھا کہ اس کے ادارے پہلے معرض وجود میں آئے اور مضبوط ہوئے۔ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اِس سے بہت ملتا جلتا ہے۔

ٹام سیگیو: آپ نے ایک بار کہا تھا کہ یہودی آباد کار بھی فلسطینی ریاست کے شہری ہوسکتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟

سلام فیاض: کیوں نہیں؟ یہودی بھی ہمارے لیے مساوی درجے کے شہری ہوں گے۔

ٹام سیگیو: مگر یہودی آباد کار اس آپشن کو قبول کرنے کے لیے شاید راضی نہ ہوں۔

سلام فیاض: ہم ایک ایسی فلسطینی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں کسی بھی شخص سے کسی بھی بنیاد پر امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے، آئین کے تحت سب کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ ہم چاہیں گے کہ آزاد فلسطینی ریاست میں جمہوریت ہو، اظہارِ رائے کی آزادی ہو اور سب کو برابر کے حقوق ملیں۔

ٹام سیگیو: میں نے ایک بار بن گوریان کا بھی انٹرویو کیا تھا۔ وہ بہت پُر امید تھے۔ مجھے نہیں لگتا کہ آپ کے ساتھی بھی اُسی طرح پُرامید ہیں۔

سلام فیاض: کچھ سال پہلے تک وہ اس قدر پُرجوش اور پُر امید نہ تھے۔ یہ اہم بات ہے۔

ٹام سیگیو: میں حقیقی امن کے حوالے سے زیادہ پُرامید نہیں ہوں۔ اگر چالیس سال قبل آپ نے مجھ سے پوچھا ہوتا کہ ۲۰۱۰ء میں امن قائم ہو جائے گا تو میں شاید کسی حد تک رجائیت کا مظاہرہ کرتا مگر اب نہیں۔ میرے بیٹے نے چھ ماہ قبل شادی کی ہے مگر میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اسرائیل میں زندگی شروع کرکے کوئی اچھا فیصلہ کیا ہے۔

سلام فیاض: اگر ہم سب اسی طرح مایوس ہوکر بیٹھ جائیں تو پھر ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہوں گے جو ہمیں انگلی کے اشارے پر نچانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں اور کسی بھی وقت کھیل کا رخ پلٹ دیتے ہیں۔

ٹام سیگیو: کیا آپ کو لگتا ہے کہ اسرائیلی معاشرہ خطے میں حقیقی امن کی خاطر کچھ رعایتیں دینے پر آمادہ ہوسکتا ہے یا ایسا کرنے کی سکت رکھتا ہے؟

سلام فیاض: اراضی پر قبضہ ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔ اور خود اسرائیلیوں کے لیے بھی یہ نقصان دہ ہے۔ یقین کیجیے کہ وہ وقت بھی آئے گا کہ سب ایک ہو جائیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن ایسا ہوکر رہے گا۔

(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۳ جنوری ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*