کشمیر: ’خالی میدان میں الیکشن کی ڈفلی‘

جنوبی کشمیر کے حساس ترین ضلع شوپیاں آرش گنا پورہ گاؤں کی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر پاکستانی جھنڈا لہرا رہا ہے۔ پہاڑی کے دامن میں گاؤں کا پنچایت گھر ہے، جو دو سال سے مقفل ہے۔ پنچایت گھر کے سنگِ بنیاد پر سبز اور سفید رنگ سے پاکستانی جھنڈا پینٹ کیا گیا ہے۔

۲۰۱۶ء تک ولی محمد اسی پنچایت کے سرپنچ رہے ہیں۔ جموں وکشمیر کی آٹھ ہزار پنچایتوں کے لیے انتخابات طویل مدت کے بعد ۲۰۱۱ء میں ہوئے تھے۔

ان پنچایتوں کی مدتِ کار کا خاتمہ ۲۰۱۶ء میں عین اُسی وقت ہوا، جب مقبول مسلح کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت نے کشمیر میں ہندمخالف احتجاجی لہر بھڑکا دی۔

ولی محمد کہتے ہیں حکومت انتخابات کا اعلان تو کر رہی ہے، لیکن انتخابات میں حصہ کون لے گا۔ ’پچھلی بار ایک پنچ کو گولی لگی تھی، حکومت نے اس کے علاج کا معاوضہ تک نہیں دیا۔ حالات بہت خراب ہیں، فضا میں خوف ہے، کون لڑے گا انتخابات، ہم خوف کے دور سے گزرے ہیں، حکومت کو کیا پتا یہاں کیا ہو رہا ہے‘۔

یہ پہلا موقع ہے کہ ہندنواز سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے بھی پنچایتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ این سی کے سربراہ فاروق عبداللہ اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کم و بیش یکساں لہجے میں کہا ہے کہ حکومت زمینی صورتحال کا جائزہ لیے بغیر انتخابات نہیں کروا سکتی۔

تاہم دونوں جماعتوں نے سپریم کورٹ میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن کو بی جے پی کی حامی این جی اوز کی طرف سے چیلنج کیے جانے اور اس پر حکومتِ ہند کی خاموشی کو بنیادی جواز کے طور پیش کیا ہے۔

شوپیاں کے ہی رحمین احمد کہتے ہیں ’حکومت ایک شو کرنا چاہتی ہے، لیکن یہ شو آگ اور خون اگلتا ہے۔ اس آگ میں ہم خود کو نہیں جھونک سکتے‘۔

شوپیاں میں ہی پنچ رہ چکے عبدالرشید کہتے ہیں ’میں اخبار کے ذریعے قوم سے معافی مانگ چکا ہوں۔ میری پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ جان دینے سے بہتر ہے کہ میں اپنی کھیتی باڑی اور دکانداری پر توجہ دوں‘۔

واضح رہے دو سال سے کشمیر میں حالات اس قدر کشیدہ ہیں کہ اننت ناگ سیٹ کے لیے پارلیمان کے ضمنی انتخابات تک نہیں ہوسکے۔ اس کے باوجود حکومت نے نومبر میں پنچایتی انتخابات کا اعلان کیوں کیا ہے؟

اس حوالے سے تجزیہ نگار اعجاز ایوب کہتے ہیں ’حکومت کہتی ہے انتخابات امن عمل کا حصہ ہے، لیکن امن سے انتخاب ممکن ہوتا ہے، انتخاب سے امن نہیں آتا۔ ناانصافیوں کے انبار ہیں، نوجوان مارے جارہے ہیں، اظہار رائے کی آزادی پر قدغن ہے، سیاسی عمل جمود کا شکار ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پہلے عوام کے اندر عدم تحفظ کا احساس ختم کرے، انتخابات بعد میں بھی ہوسکتے ہیں‘۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد حکومت نے غیرجماعتی بنیادوں پر یہ انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گاؤں گاؤں ایسے باصلاحیت نوجوانوں کو تلاش کیا جائے گا، جو آزادانہ طور انتخابات لڑنے پر آمادہ ہوں۔ اس کے لیے پنچوں اور سرپنچوں کے لیے ماہانہ ۲۴ ہزار روپے کی تنخواہ کا بھی اعلان کیا گیا ہے، لیکن شوپیاں کے عبدالرشید کہتے ہیں کہ پانچ سال تک پنچایت سے جڑے رہنے کے بعد حکومت نے ان کی اکیس ماہ کی تنخواہ آج تک واگزار نہیں کی ہے۔

مبصرین کہتے ہیں کہ حکومت اس عمل سے ایک نفسیاتی رعایت چاہتی ہے تاکہ یہ باور کرایا جاسکے کہ کشمیر میں سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ نوجوان صحافی ریاض ملک کہتے ہیں ’جمہوریت کا اصول ہے کہ اس میں عوام کی بلاجبر شرکت ہو۔ لوگ تیار ہی نہیں ہیں، حالات سازگار نہیں ہیں، یہ تو خالی میدان میں الیکشن کی ڈفلی بجانے کے مترادف ہے‘۔

(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام۔ ۱۳؍ستمبر ۲۰۱۸ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*