فلسطین: عالمی برادری کی مجرمانہ غفلت
Posted on September 1, 2020 by Ramzy Baroud in شمارہ یکم، 16 ستمبر 2020 // 0 Comments

فلسطینی اپنے وطن کو چھوڑ کر نہیں جا رہے۔یہ مرحلہ فلسطینیوں کی صہیونی استعمار کے خلاف ۷۰ سالہ جدوجہد کا حاصل ہے۔ تیس سالہ عمارنہ جو سول انجینئر بھی ہے، مغربی کنارے کے ایک دیہات فرسان سے تعلق رکھتا ہے، عمارنہ اپنے خاندان کے ساتھ کئی برسوں سے ایک غار میں قیام پذیر ہے۔ عمارنہ کے خاندان نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ اپنا گھر تعمیر کر لیں لیکن اسرائیلی فوجی حکام انہیں اجازت دینے کو تیار نہیں۔ فرسان سے تعلق رکھنے والا تقریباً ہر خاندان اور بیشتر فلسطینی انہی مسائل اور حالات کا شکار ہیں۔ مغربی کنارے میں قیام پذیر یہ بدقسمت خاندان اسرائیل اور فلسطینی تنظیم الفتح کے درمیان ۱۹۹۵ء میں طے پانے والے ’’اوسلو معاہدے‘‘ کے تحت یہاں آباد ہوئے تھے۔ لیکن ان کا اب کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ علاقہ مغربی کنارے کے کل رقبہ کا ۶۰ فیصد ہے، بے شمار قدرتی وسائل سے مالامال ہے، لیکن آبادی کے لحاظ سے بہت کم افراد پر مشتمل ہے۔یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ کیوں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اس علاقے پر مکمل قبضہ چاہتاہے۔ صہیونی استعمار کاآغاز سے ہی یہ منصوبہ رہا ہے کہ فلسطینیوں کو منتشر رکھا جائے، یعنی بہت بڑے رقبے پر بہت کم آبادی۔ نیتن یاہو کا یہ منصوبہ کچھ حصوں پر قانونی اور متنازع حیثیت کی وجہ سے مؤخر ہے، لیکن گزشتہ کئی برسوں سے اسرائیل نے مختلف طریقوں اور سازشوں سے فلسطینی آبادی پر قبضہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اسرائیل کی توسیع پسندانہ اور ظالمانہ کارروائیوں میں مسلسل شدت آرہی ہے۔ چند ماہ قبل اسرائیل نے مغربی کنارے میں ۳۰ گھروں کو مسمار کر دیاہے، اس شرمناک کارروائی کی وجہ سے ۱۰۰ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے مطابق اس علاقے میں اسرائیلی افواج نے غیر رہائشی ۳۳ عمارتوں کو بھی منہدم کر دیا ہے۔بدقسمتی سے فرسان اور اس جیسے بہت سے علاقے اسرائیلیوں کے نشانے پر ہیں۔
۲۰۰؍افراد پر مشتمل ایک اور آبادی کو اسرائیلی فوج گزشتہ کئی برسوں سے ہراساں کر رہی ہے۔ اسرائیل کی خواہش ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے عین وسط میں یہودیوں کو لاکر آباد کر دے۔ ۲۹ جولائی کو اسرائیلی افواج نے فرسان پر حملہ کیا اور یہاں کی آبادی کو ڈرا دھمکاکر ڈیملولیش آرڈر تھما دیا۔فرسان کے ایک ذمہ دار شخص نے بتایا کہ آغاز ہی سے اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ پوری مسلم آبادی کو ختم کردے۔ عمارنہ کے خاندان کو بھی بے دخلی کا حکم نامہ دیا گیا ہے، جبکہ وہ تو کسی باقاعدہ گھر میں رہتے ہی نہیں، غار میں رہتے ہیں۔ عمارنہ کا کہنا تھا، اسرائیلی ہمیں غار میں رہنے سے کیوں کر روک سکتے ہیں۔ غار اور پہاڑوں میں رہنے والے جانوروں کو بھی ان کے مسکن سے محروم نہیں کیا جاتا۔ چلیں یہ ہمیں جانور ہی سمجھ کر غار میں رہنے دیں۔ عمارنہ کا یہ کہنا محض جذباتیت پر مبنی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔اسرائیل اپنے اس منصوبے کے لیے تمام شاطرانہ اور ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے تاکہ یہاں کے مسلمانوں کو زبردستی بے دخل کردے۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کی تعمیر و ترقی کو روکنے لیے زمین کے ایک بڑے حصے کو ازخود ریاستی زمین، سروے لینڈ، فائرنگ زون، نیشنل پارک کا درجہ دے دیا ہے۔ اسرائیل منظم انداز سے بتدریج اس منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ اصل مقصد مقامی مسلمانوں سے زمین چھین کر یہاں یہودی آباد کاروں کو بسانا ہے۔
یہ محض اتفاق نہیں بلکہ اس سے پہلے نومبر ۲۰۱۷ء میں اسرائیل نے ۱۸۰ فلسطینی علاقوں میں سے صرف ۱۶ علاقوں کو ترقیاتی کاموں کی اجازت دی تھی۔ ۲۰۱۶ء سے ۲۰۱۸ء تک ۱۴۸۵ فلسطینیوں نے تعمیرات کے لیے درخواست جمع کروائی تھی لیکن ان میں سے صرف ۲۱؍ کو اجازت دی گئی۔اس غیر حقیقی اور جابرانہ پابندیوں کی وجہ سے فلسطینیوں کے پاس صرف یہی راستہ بچا ہے کہ وہ اجازت حاصل کیے بغیر تعمیرات شروع کر دیں۔ بہت سے خاندانوں کے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے عمارنہ کی طرح متبادل طریقے کو اختیار کیا اور پہاڑوں اور غاروں کا رخ کیا۔یہ صورتحال خاص طور پر نابلس اور الخلیل کے علاقوں کی ہے۔ نابلس کے مضافات میں واقع مغربی پہاڑوں میں جا بجا خالی گھروں،منہدم مکانات اور نامکمل گھروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ سارے مناظر اسرائیلی افواج اور فلسطینی مجاہدین کے درمیان جاری جنگ کی خبر دے رہے ہیں۔ عمارنہ اور اس طرح کے بے شمار خاندان جو استقامت اور عزیمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں،جنھوں نے تاریک غاروں کو اپنا مستقر بنا لیا ہے،انسانی برادری سے بنیادی انسانی حقوق اور انصاف کا تقاضا کر رہے ہیں۔
(ترجمہ:محمودالحق صدیقی)
“People of the Cave’: Palestinians take their fight for justice to the mountains”. (“middleeastmonitor.com”. August 18, 2020)
Related Posts
Leave a comment