جاپان میں قیادت کی تبدیلی کا نوٹس آج کل بالکل نہیں لیا جاتا مگر ناؤٹو کان کا وزیر اعظم بننا اسٹریٹجک اعتبار سے غیر معمولی اور دور رس اثرات کا حامل ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ چار برسوں میں جاپان کے پانچویں وزیر اعظم ہیں۔ انہوں نے یوکیو ہاتویاما کی جگہ یہ منصب سنبھالا ہے جنہوں نے اوکی ناوا میں امریکی فوجی اڈے کو ہٹانے میں ناکامی پر استعفیٰ دیا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان کی مقبولیت یوکیو ہاتویاما کی کارکردگی سے برائے نام رہ گئی ہے۔ ناؤٹو کان کی قیادت میں پارٹی دوبارہ ابھر رہی ہے۔ اگر ناؤٹو کان نے پالیسی کے حوالے سے کوئی بڑی غلطی کی تو امریکا جاپان تعلقات داؤ پر لگ جائیں گے جو نصف صدی سے بھی زائد مدت سے خطے کی سلامتی کے لیے اہم ثابت ہوئے ہیں۔ ناؤٹو کان سے لوگوں کو بڑی امیدیں ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ اپنے پیش روؤں کے برعکس کچھ کر دکھانے میں کامیاب رہیں گے۔
ناؤٹو کان نے کچھ وقت وزیر خزانہ کی حیثیت سے بھی گزارا ہے۔ انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ کسی بھی حالت میں اپنے پیش رو کی پالیسیوں کو جاری نہیں رکھیں گے۔ مثلاً چائلڈ الائونسز کی رقم نصف کی حد تک کم کردی جائے گی۔ ٹیکس میں اضافہ ہوگا اور صرف بڑے صنعتی و تجارتی اداروں کے منافع پر ٹیکس کم کردیا جائے گا۔ جاپان کے برآمدی تاجر چاہتے ہیں کہ جاپانی کرنسی ین کی قدر میں کمی کردی جائے تاکہ برآمدات کو بڑھاوا ملے اور منافع بھی بلند ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی بات سن لی گئی ہے۔ ناؤٹو کان بھی ین کی قدر میں کمی چاہتے ہیں۔ اس صورت میں وہ اپنی معیشت کو بہتر بنانے کی راہ پر گامزن ہوں گے۔
جاپان میں جو قرضوں کے بھوکے ہیں وہ یونان کی مثال دے کر اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جاپان اور یونان کا کوئی موازنہ ممکن نہیں۔ یونان کا نصف سے زائد قرضہ دوسروں کا ہے جبکہ جاپان کا قرضہ مکمل طور پر سیف فائنانسڈ ہے۔ اس پر بیرونی قرضے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریٹنگ ایجنسیز قرضوں کے حوالے سے بھیانک تصویر پیش کرتی رہی ہیں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ انہوں نے تو امریکا میں سب پرائم ریٹنگز بھی تین گنا کرکے پیش کی تھیں۔ بہترین پیمانہ اگر کوئی ہے تو وہ جاپان کی بونڈ مارکیٹ ہے جو اس سال بلند ہوئی ہے۔ دس سالہ قرضے پر ایک اعشاریہ دو فیصد کی شرح سے منافع اس بات کی دلیل ہے کہ جاپان کی حکومت بہت بڑی مقروض ہے۔
جاپان میں تاجرانہ ذہنیت کے حوالے سے جو کچھ رونما ہو رہا ہے وہ نیا نہیں، نیا اگر کچھ ہے تو وہ بدلتا ہوا عالمی رجحان ہے۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے قرضوں نے بچت اور صرف کے درمیان شدید عدم توازن ظاہر کیا ہے۔ اور یہ کوئی راتوں رات پیدا نہیں ہوا بلکہ برسوں کے عمل کا نتیجہ ہے۔ اگر جاپان اور جرمنی جیسے سرپلس ممالک اپنے صرف کو سکیڑ لیں تو کبھی بچتوں اور صرف میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ امریکا اور برطانیہ جیسے مقروض ممالک کے پاس پھر ایک ہی آپشن رہ جائے گا: قرضے لیے جائیں اور صرف کیے جائیں۔
کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا یا دینا تو پڑے گا۔ اگر امریکا کا متوسط طبقہ اپنی ملازمتیں کسی ایسے ملک کو جاتے ہوئے دیکھے گا جو عدم تعاون کا علمبردار ہو تو یقینی طور پر آزاد تجارت کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ برٹش پٹرولیم اور ٹویوٹا کے معاملے میں یہ ثابت بھی ہوچکا ہے کہ اب معیشت کی بنیادوں میں دوبارہ قوم پرستی در آئی ہے اور لوگ اپنی معیشت کو بچانے کے معاملے میں قدرے ’’تنگ نظر‘‘ بھی ہوتے جارہے ہیں۔ ہم یہ فلم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ آٹھ عشرے قبل جو فلم ہم نے دیکھی تھی اس کا انجام المیہ ہی تھا۔ اگر ہم نے توجہ نہ دی تو صورت حال ابتر ہوتی جائے گی۔
امریکا اور جاپان کے درمیان عسکری تعلقات کی بدلتی ہوئی نوعیت کے باعث صورت حال مزید غیر متوازن ہوتی جارہی ہے۔ سرد جنگ کی بات اور تھی۔ تب سابق سوویت یونین کو مشرق میں کنٹرول کرنے کے لیے امریکا نے جاپان میں اڈے قائم کیے اور جواب میں جاپان کو سیکورٹی کی ضمانت فراہم کی۔ اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں جاپان چونکہ امریکا کی ضرورت تھا اس لیے کانگریس کے ارکان اگر جاپان سے تجارت میں خطرہ محسوس بھی کرتے تھے اور کیپٹل ہل پر توشیبا کی مصنوعات کو توڑ کر غصے کا اظہار کرتے بھی تھے تو حکومت زیادہ متوجہ نہیں ہوتی تھی۔
اب ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ چین کی قوت میں بے پناہ اضافے سے کئی ممالک پریشان ہیں جن میں جاپان اور جنوبی کوریا نمایاں ہیں۔ امریکا بھی ایشیا میں ایک بڑی قوت کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جاپان کا ساتھ دینے کی کوشش میں امریکا کیا چین سے تعلقات داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہوگا؟ اور کیا جاپان بھی چین اور تائیوان کے جھگڑے میں امریکا کا ساتھ دے سکے گا؟
اگر حالات معمول پرہوں تو ایسے تمام سوالات کو لات مار کر ایک طرف ہٹایا جاسکتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اب حالات نارمل نہیں رہے۔ بہت سوں کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ امریکا اور برطانیہ کے خصوصی تعلقات بھی متنازع ہوگئے ہیں، ان پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ایسے میں اگر جاپان اور امریکا کے تعلقات سلامت رہ گئے تو بڑی بات ہوگی۔ جاپانی معیشت کے لیے بھی یہ بڑے پریشان کن لمحات ہیں۔
(پیٹر ٹاسکر آرکس انویسٹمنٹ کے بانی پارٹنر ہیں۔)
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘ ۔۳ جولائی ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply