جو شخص اس امت کے وسیع و عریض ورثے کے آفاق کو دیکھ چکا ہو، اسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے علمائے کرام ترجیحات کے مسئلے کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے اور اس میں پیدا ہونے والے خلل کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے۔ اُن کے اِس اہتمام کے واقعات متفرق صورت میں مختلف مصادر میں موجود ہیں جنہیں اپنے متعلقہ مقامات میں ذکر کیا جاتا ہے۔
حالتِ احرام میں مکھی کے قتل کا سوال
شاید اس اہتمام کے بارے میں جو پہلا واقعہ ہمارے سامنے آتا ہے، وہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے صحیح روایت کے ساتھ مروی ہے۔ ابونعیم کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس آیا۔ میں اس وقت ان کے پاس بیٹھا تھا۔ آدمی نے آکر مچھر کے خون کے بارے میں… اور ایک روایت میں ہے کہ احرام کی حالت میں مکھی کے قتل کے بارے میں… سوال کیا۔ انہوں نے کہا: تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ اس نے کہا: میں عراق سے ہوں۔ انہوں نے لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: واہ! یہ دیکھو، یہ مچھر کے خون کے بارے میں پوچھ رہا ہے، حالانکہ یہی لوگ تھے جنہوں نے رسول اللہﷺ کے لخت جگر کو قتل کر دیا تھا۔ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا کہ ’’یہ دونوں، حسن اور حسین میرے لیے دنیا کی کلی ہیں‘‘۔
اور ایک روایت میں آیا ہے کہ انہوں نے کہا: اہل عراق ہم سے مکھی کے بارے میں پوچھتے ہیں حالانکہ انہوں نے رسول اللہؐ کی بیٹی کے لخت جگر کو قتل کر دیا ہے۔ (احمد۔بخاری)
حافظ ابن حجر فتح الباری میں اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: حضرت ابن عمرؓ نے یہ بات اس حیرت کے اظہار میں کہی کہ اہل عراق ایک معمولی چیز کے بارے میں تو فتویٰ پوچھتے ہیں مگر بڑے معاملے میں سخت کوتاہی کرتے ہوئے بھی نہیں چُوکتے۔ (فتح الباری)
اور ابن بطال کہتے ہیں: اس حدیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ آدمی کے لیے جو معاملہ دینی حوالے سے زیادہ ضروری ہو، اُسے مقدم کرے۔ حضرت ابن عمرؓ نے اس شخص پر نکیر فرمائی جو مچھر کے خون کے بارے میں پوچھ رہا تھا مگر اس نے حضرت امام حسینؓ کے قتل میں مددگار بن کر جس گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیا تھا، اس پر استغفار وہ بھول رہا تھا۔ چنانچہ حضرت ابن عمرؓ نے اسے اس پر ڈانٹا۔ پھر صرف حضرت حسینؓ کا ذکر اس لیے کیا کہ ان کا مقام زیادہ بلند تھا اور آپؓ نبیﷺ کے زیادہ قریب تھے۔ (فتح الباری)
یہ نکیر صرف ایک مخصوص سائل پر نہیں ہے بلکہ اصل نکیر لوگوں کے ایک طرزِ فکر پر ہے جو معمولی معمولی چیزوں کے بارے میں تو بڑی باریک بینی سے کام لیتے ہیں۔ اس میں اپنے آپ کو بھی مشغول کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایک لایعنی کام میں لگا دیتے ہیں، مگر جب بڑے معاملات پیش آتے ہیں تو اس کے بارے میں لاپروائی کرتے ہیں۔
جو واقعہ حضرت ابن عمرؓ کو پیش آیا تھا، اسی طرح کا ایک واقعہ ان کے بیٹے سالم کو بھی ایک عراقی کے ساتھ پیش آیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ لوگ بہت چھوٹے چھوٹے امور کے بارے میں سوالات کیا کرتے تھے، جبکہ قتل و قتال اور خونریزی جیسے بڑے معاملات کو انہوں نے ساقط کر دیا تھا۔ حالانکہ اس سے ایک متفق علیہ حدیث میں سخت ممانعت آئی ہے۔ فرمایا: ’’میرے بعد کافر نہ بنو کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔
امام مسلم نے کتاب الفتن میں حضرت سالم بن عبداللہؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: اے اہل عراق! میں تم سے کسی صغیرہ گناہ کے بارے میں نہیں پوچھوں گا، بلکہ تم پر ایک گناہِ کبیرہ ثابت کرتا ہوں۔ میں نے اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے سنا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپؐ فرما رہے تھے: (فتنہ یہاں سے اٹھتا ہے) یہ کہتے ہوئے آپؐ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا اور پھر فرمایا: (جہاں سے شیطان کے سینگ نکلتے ہیں) تم لوگ اسی طرح ایک دوسرے کی گردنیں مارتے رہو گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جس شخص کو قتل کیا تھا، وہ غلطی سے قتل کیا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تو نے ایک جان کو قتل کیا تھا، ہم نے اس غم سے تو تمہیں نجات دے دی، مگر پھر کئی آزمائشوں میں ڈالا‘‘۔ (طٰہٰ:۴۰)
ترجیحات کے حوالے سے ہمارے ورثے میں ایک قابلِ ذکر چیز وہ دل دہلا دینے والا خط ہے، جو حافظ ابن عساکر نے محمد بن ابراہیم بن ابی سکینہ کی روایت سے حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کے حالات میں نقل کیا ہے۔ محمد بن ابراہیم کہتا ہے کہ عبداللہ بن مبارکؒ نے طرسوس میں مجھے کچھ اشعار لکھوائے اور مجھے رخصت کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ اشعار فضیل بن عیاض کو جاکر سنائوں۔ یہ ۱۷۰ھ اور ایک روایت میں ۱۷۷ھ کا واقعہ ہے۔ اشعار یہ ہیں:
ترجمہ: ’’اے حرمین کے عبادت گزار! اگر آپ ہمیں دیکھیں گے تو یقینا جان لیں گے کہ آپ تو عبادت نہیں کر رہے، کھیل رہے ہیں۔ اگر کسی کا گریبان اس کے آنسوئوں سے تر ہے تو ہمارا گریبان ہمارے خون سے رنگیں ہے۔ اگر کسی کے گھوڑے باطل کے راستے میں تھکے ہوئے ہیں تو ہمارے گھوڑے جنگ کے دنوں میں تھکتے ہیں۔ عطریات کی خوشبو آپ کے لیے ہے، اور ہماری خوشبو گھوڑوں کی کھروں سے اڑنے والی مٹی اور پاکیزہ گردوغبار ہے۔ ہمارے پاس اپنے نبیﷺ کا وہ قول پہنچ چکا ہے جو ایک صحیح اور سچا قول ہے اور جس میں جھوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کے (راستے میں لڑنے والے) گھوڑوں کی (کھروں سے اُڑنے والی) غبار اور (دوزخ کی) بھڑکتی ہوئی آگ کا دھواں ایک شخص کی ناک میں جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ اللہ کی کتاب بھی ہمارے درمیان گواہی دے رہی ہے کہ شہید کبھی مرا نہیں کرتے‘‘۔
محمد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ میں فضیل بن عیاضؒ سے مسجد حرام میں ملا اور یہ خط ان کو دے دیا۔ انہوں نے اسے پڑھا تو آنکھوں میں آنسو آئے اور کہا: ابوعبدالرحمن نے سچ کہا ہے اور میرے ساتھ بھلائی کی ہے۔ پھر اس نے مجھے کہا: کیا تم حدیث میں دلچسپی رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: تم نے اس کا خط مجھ تک پہنچایا ہے لہٰذا اس کے کرایے میں یہ حدیث لکھ لو۔ پھر فضیل بن عیاضؒ نے مجھے یہ حدیث لکھوائی: ہمیں منصور بن المغتمر نے ابوصالح کے حوالے سے حضرت ابوہریرہؓ کی بات روایت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجیے جس کے ذریعے مجھے مجاہدین فی سبیل اللہ کا ثواب ملے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم یہ کرسکتے ہو کہ ہمیشہ رات کو نماز پڑھو اور کبھی اُکتا نہ جائو اور ہمیشہ روزہ رکھو، کبھی افطار نہ کرو؟ آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! میں تو اس کام کے کرنے سے بہت کم ہمت ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تجھے اس کی طاقت دی جائے (اور تم یہ عبادت کرو) تب بھی تم مجاہدین فی سبیل اللہ کے درجے تک نہیں پہنچ سکتے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ مجاہد کے گھوڑے کو سیدھا دوڑا دیا جاتا ہے جتنا یہ دوڑ سکے اس کے برابر اس کے لیے حسنات لکھ دی جاتی ہیں۔
ایک بار الجزائر میں فکرِ اسلامی کے حوالے سے ایک کانفرنس میں اس واقعہ کا تذکرہ ہوا تو ایک بہت بڑے آدمی نے اس پر اعتراض کیا اور اس بات سے انکار کیا کہ اس واقعہ کی کوئی صحیح بنیاد ہو۔ کیونکہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ عبداللہ بن مبارکؒ جیسے آدمی حرمین میں عبادت کو کھیل کہیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ بالکل صحیح ہے۔ اسے ابن عساکر نے عبداللہ بن مبارکؒ کے حالات میں سند کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ابن کثیر نے بھی اسے اپنی تفسیر میں سورۂ آل عمران کے آخر میں ذکر کیا ہے اور اس کی تائید کی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
اسی طرح اسے حافظ ذہبی نے اپنے انسائیکلو پیڈیا سِیَرُ أعلامِ النُّبلائِ میں ابن مبارکؒ کے حالات میں نقل کیا ہے۔
اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو اسلام کے اصول یا اس کی نصوص کے خلاف ہو۔ بلکہ ابن مبارکؒ نے تو اپنے اشعار میں خود کتاب و سنت سے استدلال کیاہے۔ اسی طرح فضیل بن عیاض جیسے عابد و زاہد نے اس کی تائید کی ہے، اسی لیے تو انہوں نے خط لانے والے کو حدیث لکھوائی۔
ہمارے بزرگ شیخ البہی الخولی نے اپنی مشہور کتاب تذکرۃ الدعاۃ میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے اور اس پر یہ تعلیق کی ہے: ابن مبارکؒ نے یہ خط اپنے دوست فضیل بن عیاضؒ کو ایسے وقت میں لکھا تھا جب جہاد فرضِ عین نہیں تھا، اس کے باوجود انہوں نے عبادت بلا جہاد کو کھیل سے تعبیر کیا ہے حالانکہ یہ عبادت روئے زمین کے مقدس ترین حصے پر کی جارہی تھی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر جہاد فرضِ عین ہوتا اور دوسری طرف عبادت کسی ایسے مقام پر ہوتی جس کو مسجد حرام جیسا تقدس حاصل نہ ہوتا تو ابن مبارکؒ کے احساسات کیا ہوتے۔
میل جول یا گوشہ نشینی
اسی حوالے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ آیا مسلمان کے لیے فتنے، فساد اور گناہوں کے دور میں معاشرے میں گھل مل کر رہنا اور اس کی اصلاح کے لیے کوشش کرنا بہتر ہے یا عزلت اختیار کر کے اپنی فکر کرنا؟
صوفیا کی اکثریت نے تو دوسرا راستہ اختیار کیا ہے، رہے وہ جمہور علمائے ربانی جو جہاد کے راستے پر عمل پیرا ہیں تو انہوں نے انبیا کے طریق کار کو اپنایا ہے اور وہ ہے لوگوں سے میل جول رکھنا، مجاہدہ کرنا اور لوگوں کی ایذائوں پر صبر کرنا۔
حضرت ابن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’وہ مسلمان جو لوگوں سے خلط ملط ہوتا ہے اور ان کی ایذائوں پر صبر کرتا ہے، اس سے بہتر ہے جو لوگوں سے میل جول بھی نہیں رکھتا اور ان کی ایذائوں پر صبر بھی نہیں کرتا‘‘۔ (احمد، بخاری، ترمذی)
امام ابوحامد الغزالیؒ کی کتاب احیاء علوم الدین میں ایک پورا باب اسی مسئلے کے لیے مخصوص ہے کہ عزلت اور خلطت میں کیا فوائد یا نقصانات ہیں اور ان میں کن آفات سے بچنا چاہیے۔
اس میں ایک بحث دنیا اور اس کے ساز و سامان کے حوالے سے ہے کہ اس کے بارے میں کیا طرزِ عمل اختیار کیا جائے، کیا آدمی اس کے ہنگاموں اور اس کے مختلف میدانوں میں داخل ہو، دنیا داروں کے ساتھ مزاحم ہو اور حدود کا خیال رکھتے ہوئے اس کے طیبات سے مستفید ہو، یا اس سے منہ موڑے، اس سے بے رغبتی اختیار کرے اور اس کے زیب و زینت اور مال و دولت سے ہاتھ اٹھا لے؟
اکثر صوفیا نے دوسرا انتخاب کیا ہے۔ مگر امت کے محققین علمائے ربانیین نے پہلا انتخاب کیا ہے۔ یہی وہ طریق کار ہے جسے حضرت یوسف، دائود اور سلیمان علیہما السلام جیسے انبیا اور حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، طلحہ بن زبیرؓ اور سعدؓ جیسے صحابہ کرام نے اپنایا تھا۔
علامہ ابن الجوزیؒ (متوفی ۵۹۷ھ) نے ان صوفیا کی تردید کی ہے جنہوں نے مال کو علی الاطلاق مذموم ٹھہرایا ہے اور اسے شر اور آفت قرار دیا ہے، اور جنہوں نے ہر اس شخص پر نکیر کی ہے جو مال کا مالک بنے یا اسے کمائے، اگرچہ حلال ہی طریقے سے ہو۔ ابن الجوزیؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب تلبیس ابلیس میںاس مسئلے پر کتاب و سنت، سیرتِ صحابہ اور شرعی قواعد سے استدلال کیا ہے۔
ممنوع کا ترک یا مامور پر عمل
اس سلسلے میں ایک بحث یہ ہے کہ اللہ کے ہاں ممنوع اور حرام اشیا کو چھوڑ دینا زیادہ اہم اور افضل ہے یا اوامر اور طاعات پر عمل۔
بعض کہتے ہیں کہ ممنوع اشیا کا ترک زیادہ اہم ہے اور ان کو جاری رکھا جائے تو یہ زیادہ خطرے کا باعث ہے۔ ان کا استدلال اس حدیث صحیح سے ہے جو بخاری اور مسلم دونوں نے روایت کی ہے، جسے امام نوویؒ نے اپنی اربعین میں بھی ذکر کیا ہے۔ ابن رجبؒ نے اپنی الجامع میں اس کی تشریح کی ہے۔ حدیث یہ ہے کہ: ’’جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو اس سے اجتناب کرو اور جب تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اسے ممکن حد تک ادا کرو‘‘۔ (بخاری۔مسلم)
یہ حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بات نکل آئی کہ نہی والے احکام زیادہ ضروری ہیں، بہ نسبت امر والے احکام کے۔ کیونکہ نہی میں کسی طرح کی رخصت نہیں دی گئی ہے جب کہ امر استطاعت کے ساتھ مقید کر دی گئی ہے۔ یہ رائے امام احمد سے بھی مروی ہے۔
بعض لوگوں کا یہ قول اسی قبیل سے ہے کہ نیک اعمال تو نیک و بد سب کرتے ہیں، مگر معاصی کو صرف وہی لوگ ترک کرتے ہیں جو صدیق ہوتے ہیں۔
اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’محارم سے بچو، تم سب سے زیادہ عبادت گزار بن جائو گے‘‘۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’جو چاہتا ہے کہ بڑے بڑے کام کرنے والے اور اس میں جان کھپانے والوں سے آگے بڑھ جائے تو اسے چاہیے کہ گناہوں سے بچے‘‘۔
یہ روایت ان سے مرفوعا بھی وارد ہوئی ہے۔
حضرت حسن فرماتے ہیں: عابدین کے اعمال میں سے اللہ کی منع کردہ امور سے باز آنا ہی وہ عمل ہوتا ہے جس پر انہیں سب سے زیادہ عبادت گزار کہا جاتا ہے۔
اس میں یہ بات ظاہر ہے کہ طاعات پر عمل کے مقابلے میں محرمات سے اجتناب کی جو فضیلت ذکر کی گئی ہے، اس میں طاعات سے مراد وہی طاعات ہیں جو نوافل کی جنس سے ہوں۔ اس لیے کہ جو افعال واجبات کی جنس سے ہیں، اُن پر عمل کرنا بالاتفاق نواہی کو ترک کرنے سے افضل ہے۔ کیونکہ اعمالِ صالحہ بذاتِ خود مقصود ہوتے ہیں، جب کہ حرام اشیا کا نہ ہونا مطلوب ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ان میں نیت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کے برعکس اعمالِ صالحہ میں نیت ضروری ہوتی ہے۔ اس بنا پر مطلقاً اعمالِ صالحہ کا ترک تو بعض اوقات کفر ہوتا ہے۔ جیسے توحید کا ترک، یا ارکانِ اسلام کا ترک۔ جبکہ ممنوعات پر عمل کرنا فی نفسہٖ کفر نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل حضرت ابن عمرؓ کا قول ہے کہ: ’’ایک دانق کے برابر حرام سے ہاتھ کھینچنا اس سے بہتر ہے کہ اللہ کی راہ میں ایک لاکھ خرچ کیے جائیں‘‘۔
اور بعض سلف سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: اللہ کے ناپسندیدہ ایک دانق کو چھوڑنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہے کہ آدمی پانچ سو حج ادا کرے۔
میمون بن مہران کہتے ہیں: زبان سے اللہ کا ذکر بھی اچھا ہے، مگر اس سے زیادہ اچھا یہ ہے کہ بندہ اسے گناہ کے وقت یاد کرے اور اس سے باز آجائے۔
عبداللہ بن مبارکؒ کہتے ہیں: اگر میں ایک درہم جو مشتبہ ہو، چھوڑ دوں، یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں ایک لاکھ اس کی راہ میں خرچ کروں۔ وہ ایک ایک لاکھ بڑھاتے رہے یہاں تک کہ بات چھ لاکھ تک پہنچ گئی۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کہتے ہیں: تقویٰ یہ نہیں ہے کہ آدمی رات کو نمازیں پڑھے، دن کو روزے رکھے اور کبھی ان کے درمیان آمیزش کرے، بلکہ اصل تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اللہ کے لازم کردہ افعال کو ادا کرے اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ اگر اس کے علاوہ کوئی عمل ہوگا تو وہ بھلائی پر بھلائی ہوگی، اوکما قال۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ پانچ نمازوں کے علاوہ کوئی نماز نہ پڑھوں، سوائے وتر کے اور یہ میں زکوٰۃ دوں اور اس کے علاوہ ایک درہم بھی خرچ نہ کروں، اور یہ کہ میں مضان کے روزے رکھوں اور اس کے سوا کوئی روزہ نہ رکھوں، اور یہ کہ میں زندگی میں ایک حج ادا کروں اور اس کے بعد کوئی حج نہ کروں، اور پھر میں اپنے اضافی مال کو لے کر اسے ان اشیا کے ساتھ ملائوں جو اللہ نے میرے لیے حرام کی ہیں اور ان سب سے دستبردار ہو جائوں۔
ان سب کا حاصل کلام یہ ہے کہ حرام چیزوں سے اجتناب، خواہ وہ کتنے ہی کم ہوں، اس سے افضل ہے کہ آدمی نفل عبادتیں کرے۔ کیونکہ حرام سے اجتناب فرض ہے اور یہ نفل۔
اور متاخرین کا ایک گروہ کہتا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو اس سے اجتناب کرو اور جب تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اسے ممکن حد تک ادا کرو‘‘۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ حکم کو ماننا عمل کے بغیر حاصل نہیں ہوتا اور عمل کا وجود کچھ شرائط اور اسباب سے مشروط ہوتا ہے جن میں سے بعض پر کبھی عمل کرنے کی استطاعت نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے اس کو استطاعت کے ساتھ مقید کر دیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا حکم دیا ہے اور اسے استطاعت کے ساتھ مقید کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جہاں تک تمہارے بس میں ہو، اللہ سے ڈرتے رہو‘‘ (التغابن:۱۶)۔ حج کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے‘‘۔ (آل عمران: ۹۷)
رہا ممنوع امور کا معاملہ توان میں عدم مطلوب ہوتا ہے اور وہی اصل بھی ہے۔ اس میں شریعت کا مقصود گناہ کے غیر موجود ہونے کو جاری رکھنا ہے۔ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی کسی میں استطاعت نہ ہو۔
مگر یہ بات بھی قابل غور ہے۔ کیونکہ بعض اوقات کسی گناہ کے کام کا داعیہ اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ قدرت کے باوجود بندہ اپنے آپ کو اس سے روکے رکھنے پر صبر نہیں کرسکتا۔ ان حالات میں اس سے باز آنا سخت مجاہدے کا محتاج ہوتا ہے جو بعض اوقات نفس پر اتنا مشکل ہوتا ہے کہ اس کے مقابلے میں عمل صالح کو کرنا آسان نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ عبادت میں خوب کوشش کرتے ہیں، مگر اپنے آپ کو حرام سے نہیں بچاسکتے۔ حضرت عمرؓ سے ایک ایسی قوم کے بارے میں پوچھا گیا جو گناہ کا شوق رکھتے تھے مگر اس پر عمل نہیں کرتے تھے، تو انہوں نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے آزما لیے ہیں۔ ان کے لیے مغفرت اور اجرِعظیم ہے۔
یزید بن میسرۃ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی کتاب میں فرمایا ہے: اے نوجوان، جس نے اپنی خواہشات کو چھوڑ دیا ہے اور جس نے اپنی جوانی کو میری خاطر لگایا ہے! تو میرے ہاں میرے بعض فرشتوں کا مقام رکھتا ہے۔
اور کہتے ہیں: جسم میں شہوت کس قدر غالب ہے!! یہ آگ کی طرح جلا دیتی ہے، اس سے پاکباز لوگ کیسے بچ سکیں گے؟
اس مسئلے کی تحقیق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان اعمال کا مکلف نہیں کرتا جن کی وہ طاقت نہ رکھتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے بہت سے اعمال کو اس وجہ سے ساقط کر دیا ہے کہ ان میں مشقت تھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں رخصت عطا فرمائی ہے اور ان پر رحم کیا ہے۔ رہے وہ اعمال جن کی ممانعت کی ہے تو ان میں کسی کو اس وجہ سے معذور نہیں کیا گیا کہ ان میں اس کا داعیہ شدید ہے، بلکہ انہیں ہر حال میں ان افعال کے ترک کا مکلف ٹھیرایا ہے۔ صرف اتنی بات ہے کہ کھانے کی اشیا میں جب شدید ضرورت ہو تو اپنی زندگی کو بچانے کے بقدر اس میں سے کھا سکتے ہیں، مگر مزے لینے اور خواہش پورا کرنے کے لیے نہیں کھا سکتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح بات وہی ہے جو امام احمد نے فرمائی ہے کہ نہی کا معاملہ امر کے مقابلے میں شدید ہے۔ اس کے علاوہ نبیﷺ سے حضرت ثوبانؓ کی روایت بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے: فرمایا: ’’سیدھے ہو جائو، مگر تم اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے۔ یعنی تم مکمل طور پر استقامت پر قادر نہیں ہوسکتے‘‘۔ (احمد، دارمی، ابن ماجہ)
مال اور شکر یا فقر اور صبر
یہاں موازنات یا ترجیحات کے مسئلے میں جو مباحث شامل ہوتے ہیں۔ اُن میں سے ایک وہ ہے جس میں قدیم علما نے اس سوال جواب میں بڑی بحثیں کی ہیں کہ ان دونوں چیزوں میں کون سی چیز افضل ہے، کیا مال داری جس کے ساتھ شکر ہو یا غریبی جس پر آدمی صبر کرے۔ دوسرے الفاظ میں مال دار شکر گزار افضل ہے یا غریب صابر؟
اس سوال کا جواب دینے میں اقوال مختلف ہیں کہ پہلی چیز کو ترجیح دی جائے گی یا دوسری کو۔ میں نے جہاں تک نصوص پر غور و فکر اور ان کے درمیان تقابل کیا ہے، تو میرے سامنے یہ بات راجح ثابت ہوئی ہے کہ مال داری کے ساتھ شکر ہو تو یہ افضل اور اولیٰ ہے۔ یہ شکر کوئی معمولی چیز نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں‘‘۔ (سبا: ۱۳)
اور اللہ تعالیٰ ابلیس لعین کی زبان سے فرماتا ہے: ’’اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا‘‘۔ (الاعراف: ۱۷)
نبیﷺ کا ارشاد ہے: ’’اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، عفاف اور مال داری کی دعا کرتا ہوں‘‘۔ (مسلم وترمذی)
’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں فقر سے، کمی سے، ذلت سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم ہو جائے‘‘۔ (ابودائود، نسائی، ابن ماجہ)
’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، غریبی سے، کفر سے، فسق سے، دشمنی سے اور نفاق سے‘‘۔ (حاکم، بیہقی)
’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، بھوک سے، وہ بہت برا ساتھی ہے‘‘۔ (ابودائود، نسائی، ابن ماجہ)
آپﷺ نے حضرت سعدؓ سے فرمایا: اللہ اپنے اُس بندے سے محبت کرتا ہے جو متقی ہو، مال دار ہو اور چھپ کر رہتا ہو۔ (احمد، مسلم)
اور حضرت عمروؓ سے فرمایا: ایک صالح آدمی کے لیے صالح مال بہت اچھا ہے۔
اور وہ مشہور حدیث جس میں ذکر ہے کہ اہل ثروت لوگ اونچے اونچے درجات اڑا لے گئے، اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ مال دار لوگ اگر نعمت کا شکر کریں اور اس کے حقوق ادا کریں تو انہیں بعض ایسی عبادات کا موقع ملتا ہے جو غریبوں کو نہیںملتا، اسی وجہ سے اس حدیث کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ اللہ کا فضل ہے اور وہ جسے چاہتا ہے، دے دیتا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے کئی معزز رسولوں کی تعریف کی ہے اور ان کو شکر کی فضیلت سے متصف کیا ہے۔ جیسے انبیا میں سب سے زیادہ عمر پانے والے حضرت نوحؑ کے بارے میں فرمایا:
اِنَّہُ کَانَ عَبْدًا شَکُورًا۔ (بنی اسرائیل:۳)
’’وہ ایک شکر گزار بندہ تھا‘‘۔
اور ابوالانبیاء والمسلمین حضرت ابراہیمؑ کی تعریف ان الفاظ میں کی: ’’وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ اللہ نے ان کو منتخب کیا اور سیدھا راستہ دکھایا‘‘۔ (النحل:۱۲۱)
حضرت دائود اور سلیمان علیہم السلام کی یہ کہہ کر تعریف کی کہ ’’اے آل دائود! عمل کرو شکر کے طریقے پر، میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہوں گے‘‘۔ (السباء: ۱۳)
حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں حکایت بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے جب چیونٹی کی بات سنی تو انہوں نے کہا: ’’اے میرے رب! مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے‘‘۔ (النمل:۱۹)
حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ’’اے میرے رب! تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا‘‘۔ (یوسف:۱۰۱)
اور نبی پاکﷺ پر ان الفاظ میں احسان کیا ہے: ’’اور تیرے رب نے تجھے ناواقفِ راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی‘‘۔ (الضحیٰ:۸)
پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے فرمایا: ’’اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ (الضحیٰ:۱۱)
اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کے صحابہ پر بھی احسان کیا ہے۔ فرمایا: ’’یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کردی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا۔ شاید کہ تم شکر گزار بنو‘‘۔ (الانفال: ۲۶)
○○○
Leave a Reply