شرعی طور پر یہ ایک اہم بات ہے کہ کیفیت اور نوعیت کو کمیت اور حجم پر مقدم کیا جائے۔ شریعت میں عددی اکثریت یا حجم میں بڑا ہونے کا اعتبار نہیں ہوتا بلکہ اصل دارو مدار چیز کی نوعیت اور کیفیت پر ہوتا ہے۔
قرآن کریم نے اُس اکثریت کی مذمت کی ہے جس کے افراد نہ عقل رکھتے ہوں اور نہ علم، یا یہ کہ وہ ایمان نہ لاتے ہوں اور شکر نہ کرتے ہوں۔ اس پر کتاب اللہ کی بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں، مثلاً:
بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَo (بلکہ ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔۔۔ العنکبوت:۶۳)۔
وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo (لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔۔۔ الاعراف:۱۸۷)۔
وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَo (لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔۔۔ ہود:۱۷)۔
وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَo (لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔۔۔ البقرۃ:۲۴۳)۔
وَ اِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اﷲِ۔۔۔ (اگر تم نے زمین کے اکثر لوگوں کی پیروی کی تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے گمراہ کر دیں گے۔ الانعام:۱۱۶)۔
دوسری طرف قرآن اس قلیل گروہ کی تعریف کرتا ہے جو مومن، باعمل اور شاکر ہو، اللہ تعالیٰ فرمایا ہے: ’’سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، اور وہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ (سورہ ص:۲۴)
’’اور ہمارے بندوں میں تھوڑے ہی ہوتے ہیں جو شکر گزاری کرتے ہیں۔‘‘ (السباء:۱۳)
’’یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اور زمین میں کمزور کیے گئے تھے۔‘‘ (الانفال:۲۶)
’’پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ایسے اہلِ خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا۔‘‘ (ہود:۱۱۶)
اس بنا پر، ضروری اور فکر و کاوِش کے لائق بات یہ نہیں ہے کہ محض تعداد زیادہ ہو، بلکہ اہم یہ ہے کہ لوگوں میں مومنینِ صالحین کی تعداد زیادہ ہو۔
بہت سے لوگ یہ حدیث تو بیان کرتے ہیں کہ ’’نکاح کرو اورنسل کو آگے بڑھائو اور اپنی تعداد میں اضافہ کرو، میں تمہارے ذریعے سے کثیر الامم بننا چاہتا ہوں‘‘۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ رسول اللہﷺ جاہل، فاسق اور ظالم لوگوں پر تو فخر نہیں کرسکتے، بلکہ آپﷺ نیک، پاک باز، باعمل اور نفع بخش لوگوں پر فخر کریں گے۔ (اسے ابودائود اور نسائی نے معقل بن یسار سے نقل کیا ہے۔ دیکھیے: صحیح الجامع الصغیر ۲۹۴۰)
نبیﷺ فرماتے ہیں: ’’بعض انسانوں کی مثال ان سو اونٹوں کی طرح ہوتی ہے جن میں ایک بھی سواری کے لائق نہ ہو‘‘۔ (متفق علیہ بروایت حضرت ابن عمرؓ ۔ اللؤلؤوالمرجان ۱۶۵۱)
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ لوگوں میں بھی بہترین قسم کے لوگ ایسے ہی نادر ہوتے ہیں جیسے اونٹوں میں ایسے اونٹ بہت کم ہوتے ہیں جو سواری کے لیے، سفر کے لیے اور نقل و حمل کے لیے مناسب ہوتے ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات سو اونٹوں میں ایک بھی ان صفات کا حامل نہیں ہوتا۔
اور انسان کے اندر یہ تفاوت اور فرق جانوروں کی نسبت کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ حدیث میں آیا ہے: ’’دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اپنے جیسے ہزار سے بہتر ہو، سوائے انسان کے‘‘۔ (طبرانی، صحیح الجامع الصغیر)
ہم ہر چیز میں کمیت اور تعداد کے خوگر بن گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ گنتی میں ہزاروں اور لاکھوں سے آگے نکل جائیں۔ مگر اکثر ہمیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ اس کثرت کے پیچھے اصل حقیقت کیا ہے۔ نہ ہم اس حوالے سے سوچتے ہیں کہ یہ ہندسے کس چیز پر مشتمل ہیں۔
دورِ جاہلیت کے ایک عربی شاعر نے بھی اس کا ادراک کیا تھا کہ نوعیت کی اہمیت تعداد سے زیادہ ہے۔ وہ کہتا ہے:
’’میری محبوبہ نے مجھے عار دلائی کہ ہماری تعداد کم ہے۔ میں نے کہا کہ شرفا کی تعداد تو کم ہی ہوتی ہے۔ اور پھر ہمارے کم ہونے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ ہمارے پڑوسی معزز لوگ ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ تعداد میں زیادہ ہیں ان کے پڑوسی ذلیل اور کمینے ہیں‘‘۔
قرآن نے ہمارے سامنے یہ بھی بیان کیا ہے کہ طالوت کی فوج جو قلیل تعداد میں تھی، کس طرح جالوت کی کثیر التعداد فوج پر غالب آگئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’پھر جب طالوت لشکر لے کر چلا تو اس نے کہا: ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے۔ جو اس کا پانی پیے گا وہ میرا ساتھی نہیں۔ میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے۔ ہاں ایک آدھ چُلو کوئی پی لے تو پی لے۔ مگر ایک گروہِ قلیل کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے۔ پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ کے سارے مسلمان دریا پار کر کے آگے بڑھے، تو انہوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انہوں نے کہا: بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اِذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے، اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔ آخرکار اللہ کے اِذن سے انہوں نے کافروں کو مار بھگایا‘‘۔
قرآن نے ہمارے سامنے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ کس طرح رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ غزوۂ بدر میں مشرکین پر غالب آگئے حالانکہ کفار بڑی تعداد میں تھے اور مومنین کی تعداد بہت کم تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’یقینا جنگ بدر میں اللہ تمہاری مدد کر چکا ہے حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تم کو چاہیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو، امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے۔‘‘ (آل عمران:۱۲۳)
اور ’’یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی اور اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے۔‘‘ (الانفال:۲۶)
دوسری طرف غزوۂ حنین میں جب مسلمانوں نے تعداد کی طرف دیکھا، اس کے دھوکے میں آگئے اور معیار کو نہیں جانچا۔ انہوں نے روحانی قوت اور جنگی تیاری کو نظرانداز کر دیا تو قریب تھا کہ وہ شکست کھا جاتے۔ پہلے پہل ان کی حالت بگڑ گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ سیکھیں، متنبہ ہوں اور توبہ کریں۔ پھر اللہ نے انہیں فتح عطا فرمائی اور ان کی ایسی فوجوں سے مدد کی جنہیں وہ دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے۔ ابھی غزوۂ حنین کے روز (اس کی دست گیری کی شان تم دیکھ چکے ہو)۔ اُس روز تمہیں اپنی کثرتِ تعداد کا غَرّہ تھا۔ مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اُتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرینِ حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے ان لوگوں کا جو حق کا انکار کریں۔‘‘ (التوبہ:۲۵۔۲۶)
قرآن کے نزدیک ایک انسان میں جب قوتِ ایمانی اور قوتِ ارادی یعنی صبر و ثبات (Faith Power & Will Power) ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو اس کی طاقت اپنے اُس دشمن کے مقابلے میں دس گنا تک بڑھنے کا امکان ہوتا ہے جو قوتِ ایمانی اور قوتِ ارادی سے عاری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے نبی! مومنوں کو جنگ پر ابھارو۔ اگر تم میں بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے۔ کیونکہ وہ (منکرین) ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔‘‘ (الانفال:۶۵)
یہ تناسب اس صورت میں ہے جب مسلمان طاقتور ہوں۔ اگر وہ کمزور ہوں تو پھر ممکن ہے کہ ان کی طاقت اپنے دشمن کے مقابلے میں دگنی رہ جائے۔ جیسا کہ سورۂ انفال کی اگلی آیت اشارہ کررہی ہے: ’’اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے۔ پس اگر تم میں سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر، اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دو ہزار پر، اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے۔‘‘ (الانفال:۶۶)
معلوم ہوا کہ کامیابی کا اصل دار و مدار ایمان اور قوتِ ارادی (Faith & Will Powers) پر ہے، تعداد اور کثرت پر نہیں۔ جس نے سیرتِ رسولﷺ کا مطالعہ کیا ہو، اس کو معلوم ہے کہ آپﷺ کی توجہ کمیت پر نہیں، بلکہ کیفیت پر ہوتی تھی۔
سیرتِ خلفائے راشدین سے بھی یہی بات پوری وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عَمرو بن العاصؓ کو فتح مصر کے لیے بھیجا تھا۔ ان کے ساتھ صرف چار ہزار کی فوج تھی۔ پھر انہوں نے کمک مانگی تو مزید چار ہزار فوج بھیجی۔ اس کمک کے ساتھ چار مخصوص افراد تھے جن کے بارے میں حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ان میں ہر فرد ایک ہزار کے برابر ہے۔ اس طرح مجموعی فوج کو بارہ ہزار سمجھو! اور بارہ ہزار افراد کو اس سے کم افراد سے شکست نہیں کھانا چاہیے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ اِس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اصل اعتبار لوگوں کی کیفیت، ان کی مَعنوی قدر و قیمت اور ان کی صلاحیتوں کا ہوتا ہے، نہ کہ ان کی تعداد اور حجم کا۔
حضرت عمرؓ ہی سے یہ بات منقول ہے کہ وہ ایک دن کسی کشادہ مکان میں اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اس دوران انہوں نے فرمایا: اپنی اپنی خواہش ظاہر کرو!
ان میں سے ایک نے کہا: میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے پاس اس گھر کے برابر چاندی کے دراہم ہوں اور میں انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کروں۔
دوسرے نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس اتنے سونے کے دینار ہوں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کروں۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرے پاس اس گھر (کی وسعت میں سما جانے کی تعداد) کے برابر ابوعبیدہؓ بن الجراح، معاذؓ بن جبل، ابوحذیفہ کے غلام سالمؓ جیسے افراد ہوں اور میں ان کو اللہ کی راہ میں استعمال کروں۔
ہمارے دَور میں پوری دنیا میں مسلمانوں کی تعداد سوا ایک ارب سے تجاوز کر گئی ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان کی حالت اُسی طرح ہے جس طرح کہ حدیث میں ان کی حالت بیان کی گئی ہے۔ مسند احمد اور ابودائود میں حضرت ثوبانؓ کی روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’گمان ہے کہ دنیا کی قومیں اس طرح تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کہ کھانے والے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘‘۔
کسی نے کہا: یا رسول اللہ! کیا اُس وقت ہم تعداد میں تھوڑے ہوں گے؟
آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، اس وقت تم بہت زیادہ ہو گے، مگر تمہاری مثال خس و خاشاک اور جھاگ کی طرح ہوگی۔ تمہارے دشمن کے دلوں سے اللہ تعالیٰ تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں وَہن ڈال دے گا‘‘۔
کسی نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ یہ وَہن کیا ہے؟
آپﷺ نے فرمایا: حُب الدنیا و کراہیۃ الموت (دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت)۔
یہ حدیث وضاحت کرتی ہے کہ اگر کثرت باہر سے پھولی ہوئی اور اندر سے بوسیدہ ہو تو کسی کام کی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ امت کی تاریخ کے ہر اُس دَور میں ہوتا ہے جب وہ خس و خاشاک کی طرح بن جاتی ہے، اور جب وہ خفت، عدم اتحاد اور فقدانِ ہدف کی اسی صفت کے ساتھ متصف ہوتی ہے جس سے خس و خاشاک متصف ہوتی ہے۔
ان حالات میں توجہ کیفیت و نوعیت اور معیار پر مرکوز ہونی چاہیے، نہ کہ صرف کمیت و تعداد اور مقدار پر۔ یہاں کمیت سے مراد ہر وہ چیز ہے جو صرف مادّی پہلو کی تعبیر ہو، جیسے تعداد کی کثرت، میدانِ کار کی وسعت، بڑی جسامت، بھاری وزن، مدتِ دراز یا کوئی اور چیز جو اسی سلسلے کے ساتھ تعلق رکھتی ہو۔
ہم نے جو بات کثرتِ تعداد کے بارے میں کہی ہے، وہی بات دوسرے امور کے بارے میں بھی ہے۔ مثلاً ایک انسان کی قدر و قیمت کا اصل اندازہ اس کے لمبے قد، جسمانی قوت، موٹے جسم یا خوب صورت شکل کی بنیاد پر نہیں لگایا جاسکتا۔ یہ ساری چیزیں اس کے اصل جوہر اور اس کی انسانیت کی حقیقت سے خارج ہیں۔ جسم تو انسان کے لیے ایک غلاف اور پوشش کی طرح ہے۔ رہی انسان کی حقیقت تو وہ عقل اور قلب کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے منافقین کی صفت یہ بیان کی ہے: ’’انہیں دیکھو تو اُن کے جُثّے (قد کاٹھ) تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں‘‘۔
اسی طرح قومِ عاد کی صفت اُن کے نبی حضرت ہودؑ کی زبان سے ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَسْطَۃً۔۔۔ (اور تہیں خوب تنومند کیا۔۔ الاعراف:۶۹) لیکن خَلقت اور جَسامت میں ان کی اس بڑائی نے انہیں دھوکے اور تکبر میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے: کون ہے ہم سے زیادہ زور آور‘‘۔ (حم السجدۃ: ۱۵)
صحیح حدیث میں ہے کہ ’’قیامت کے دن ایک بڑے موٹے تازے شخص کو لایا جائے گا، مگر اللہ کے ہاں اس کا وزن مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں ہوگا۔ (پھر آپؐ نے فرمایا) چاہو تو اس کے بارے میں یہ آیت پڑھو کہ: فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًاo (قیامت کے دن ہم ان کو کوئی وزن نہ دیں گے۔۔۔ الکہف:۱۵)۔
ایک بار حضرت ابن مسعودؓ کسی درخت پر چڑھ گئے تو نیچے سے ساتھیوں نے ان کی پنڈلیاں دیکھیں جو بہت پتلی تھیں۔ وہ انہیں دیکھ کر ہنس پڑے تو نبیﷺ نے فرمایا ’’اچھا! تم لوگ اس پر ہنس رہے ہو کہ اس کی پنڈلیاں پتلی ہیں؟ خدا کی قسم! میزان میں یہ اُحد پہاڑ سے بھی زیادہ بھاری ہوں گی‘‘۔
معلوم ہوا کہ جسم کی موٹائی کا کوئی اعتبار نہیں ہے اگر اس میں عقلِ صحیح اور قلبِ صافی سکونت پذیر نہ ہو۔ ایک پرانا عربی مقولہ ہے: ’’ان نوجوانوں کو تم بظاہر تو کھجور جیسا سمجھتے ہو لیکن تمہیں کیا معلوم کہ اس کے اندر کیا ہے‘‘۔
حضرت حسان بن ثابتؓ نے کسی قوم کی ہجو میں کہا تھا:
’’اس قوم کے چھوٹے بڑے ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ان کے جسم خچروں جیسے، مگر ان کی عقل و فہم چڑیوں جیسی ہے‘‘۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام جسمانی صحت اور قوت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ ہر گز نہیں، وہ تو انتہائی حد تک اس کا اہتمام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت طالوتؑ کی اسی بناء پر تعریف کی ہے۔ فرمایا: وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ۔۔۔ (اور اسے علمی اور جسمانی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔۔ البقرۃ:۲۴۷)
اور حدیث صحیح میں ہے کہ ’’تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے‘‘۔ (متفق علیہ بروایت عبداللہ بن عمرؓ)
اسی طرح ارشاد ہے: ’’طاقتور مسلمان، اللہ کے ہاں کمزور مسلمان سے بہتر اور محبوب ہے۔‘‘ (امام مسلم بروایت ابوہریرہؓ)
اصل بات بس اتنی ہے کہ اسلام محض جسمانی قوت اور ظاہری بڑائی کو فضیلت کا معیار نہیں بناتا۔ پھر جس طرح کہ جسم کا موٹا اور طاقتور ہونا، مردانگی اور فضیلت کا معیار نہیں ہے، اسی طرح کا معاملہ چہرے کی خوشنمائی اور حُسنِ صورت کا بھی ہے۔
حدیث میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور شکلوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔‘‘ (مسلم، بروایت ابوہریرہؓ ۲۵۶۴)
کسی شاعر نے اُموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا: ’’اس کے سر پر تاج سجا ہوتا ہے اور وہ اس کی سنہری جبین پر چمک رہا ہوتا ہے‘‘۔ تو اس نے شاعر پر ملامت کی کہ تم نے تو میری اس طرح تعریف کی ہے جیسے خوبصورت اور نرم و نازک لڑکیوں کی کرنی چاہیے۔ تم نے میری اُس طرح تعریف کیوں نہ کی جس طرح کسی شاعر نے مصعب بن زبیر کی تعریف کی تھی۔ اس نے کہا تھا: ’’مصعب تو اللہ کے ستاروں میں سے ایک ستارا ہے، جس کی روشنی سے اندھیرے چھٹ گئے ہیں۔ اُس کا فیصلہ قوت کا فیصلہ ہے مگر اُس میں کوئی تکبر اور جبروت نہیں ہے‘‘۔
جی ہاں! مَردوں کے جانچنے کا معیار ان کا علم، ان کا ایمان اور ان کا حُسنِ عمل ہوتا ہے۔
یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ اسلام کی نظر میں عمل اپنے حجم یا مقدار کے لحاظ سے نہیں، بلکہ اس لحاظ سے ناپا جاتا ہے کہ اس میں احسان کتنا ہے اور پختگی کس قدر ہے۔
اسلام میں احسان کا مقام نفل کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک فریضہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر لازم کیا ہے، بالکل اُسی طرح جیسے ان پر روزے اور دوسرے فرائض لازم کر دیے گئے ہیں۔
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے بارے میں احسان کو لازم کیا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم کسی چیز کو قتل کرو تو احسن طریقے سے اور جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو وہ بھی اچھے طریقے سے کرو۔ اپنی چُھری کو خوب تیز کیا کرو اور جس جانور کو ذبح کرنا ہو اُسے اذیت سے بچائو‘‘۔ (امام مسلم بروایت حضرت شداد بن اوسؓ)
یہاں لفظ کَتَبَ استعمال ہوا ہے اور اس کے بارے میں اصول یہ ہے کہ یہ وجوب اور فرضیت کے لیے آتا ہے۔
آپﷺ کا ایک ارشاد یہ بھی ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ ایک عامل جب کوئی عمل کرے تو اسے اَحسن طریقے سے انجام دے‘‘۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر عمل میں احسان کو لازم کیا ہے اور اسے واجب قرار دیا ہے، اسی طرح وہ احسان کو بھی پسند فرماتا ہے اور صاحب احسان کو بھی۔ بلکہ قرآن تو مکلفین سے صرف عملِ حَسن کا تقاضا نہیں کرتا، بلکہ انہیں عملِ اَحسن کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور پیروی اختیار کرو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے اَحسن (بہترین) پہلو کی‘‘۔ (الزمر: ۵۵)
’’پس بشارت دے دو میرے اُن بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے اَحسن (بہترین) پہلو کی پیروی کرتے ہیں‘‘۔ (الزمر: ۱۸)
قرآن تو مخالفین کے ساتھ جِدال کے لیے بھی طریقِ اَحسن کا حکم دیتا ہے: ’’اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو اَحسن (بہترین) ہو‘‘۔ (النحل: ۱۲۵)
وہ برائی کو اَحسن طریقے سے دفع کرنے کا حکم دیتا ہے: ’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو اَحسن (بہترین) ہو‘‘۔ (حم السجدۃ: ۳۴)
وہ یتیم کے مال کے قریب جانے سے بھی روکتا ہے، سوائے اس کے کہ طریقِ اَحسن کے ساتھ ہو: ’’مالِ یتیم کے قرب نہ جائو مگر ایسے طریقے سے جو اَحسن (بہترین) ہو، یہاں تک کہ وہ سِنِ رُشد کوپہنچ جائے‘‘۔ (الانعام: ۱۵۲)
بلکہ قرآن نے آسمان و زمین، کائنات اور موت و حیات کی تخلیق کا مقصد ہی یہ بیان کیا ہے کہ مکلفین کو آزمایا جائے کہ ’’ان میں سے کون اَحسن عمل کرنے والا ہے‘‘۔ اس پر کتاب اللہ کی کئی آیات گواہ ہیں۔ (دیکھیے، ہود: ۷، الملک: ۲، الکہف: ۷)۔ ان کے درمیان تسابق اور مقابلہ اس میں نہیں ہے کہ کون بُرا عمل کرتا ہے اور کون اچھا۔ بلکہ اصل مقابلہ اس بات میں ہوتا ہے کہ کون حُسنِ عمل [اچھا] کرتا ہے اور کون اَحسن [زیادہ اچھا]۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک مسلمان فرد کا اصل کام ہی یہ ہو کہ وہ ہمیشہ اَحسن اور اَرفع کی کوشش کرتا رہے۔
حدیث میں ہے: ’’جب تم اللہ سے جنت مانگو تو اس سے جنت الفردوس کی دعا کرو۔ یہ بہترین جنت ہے، یہ سب سے اعلیٰ ہے اور اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے‘‘۔ (اسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب التوحید، باب وکان عرشہ علی الماء میں روایت کیا ہے۔ الفتح ۱۳: ۴۰۴)
مشہور حدیثِ جبریلؑ میں بھی ہے کہ جب جبریلؑ نے نبیﷺ سے احسان کے بارے میں سوال کیا تو نبیﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ اللہ کی ایسی عبادت کرو، گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ یقینا تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔
یہ عبادت میں اِحسان کی تفسیر ہے، اور اس سے مراد ہے: ایسا مگن ہونا اور اس قدر اخلاص کا مظاہرہ کرنا کہ جیسے اللہ سامنے نظر آرہا ہے۔
اللہ کے ہاں جو اعمال شرفِ قبولیت حاصل کرتے ہیں ان کی شکل و صورت اور ان کی تعداد نہیں دیکھی جاتی، بلکہ ان کی اصل حقیقت اور ان کی کیفیت دیکھی جاتی ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک عمل ظاہری شکل کے لحاظ سے بالکل درست ہوتا ہے مگر اس میں وہ روح نہیں پائی جاتی جو اسے زندگی دیتی ہے۔ اس بناء پر نہ اس کا کوئی بدلہ اور ثواب ہوتا ہے اور نہ میزانِ قبولیت میں اسے رکھا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں اور جو ریاکاری کرتے ہیں‘‘۔ (الماعون:۴۔۷)
اور رسول اللہﷺ روزے کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اِس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اُس کا کھانا پینا چھوڑ دے‘‘۔
اور فرمایا: ’’کئی بار ایک روزے دار کو اپنے روزوں کی وجہ سے اس کے سوا کچھ نہیں ملتا کہ وہ بھوکا رہے، اور کئی بار ایک قیام کرنے والے کو اپنے قیام کے بدلے میں اس کے سوا کچھ نہیں ملتا کہ وہ رَت جگا کرے‘‘۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور ان کو اسی بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کرتے رہیں، اللہ کے لیے دین کو خالص کر کے اور حنیف بن کر۔‘‘ (البینۃ:۵)
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ بے شک ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔ پس جس کی ہجرت اللہ کی خاطر ہے، اس کی ہجرت اللہ کی طرف شمار ہوگی اور جس کی ہجرت حصولِ دنیا کے لیے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی خاطر ہے، تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف شمار ہوگی جس کی خاطر اس نے ہجرت کی ہوگی‘‘۔(متفق علیہ بروایت حضرت عمرؓ۔ صحیح بخاری کی پہلی حدیث)
یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام کے ماہرین نے اس حدیث کو بڑی اہمیت دی ہے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح کا آغاز اسی حدیث سے کیا ہے۔ بعض علما نے اسے ایک چوتھائی اور بعض نے ایک تہائی اسلام قرار دیا ہے۔ کیونکہ نیت کا اعمال کی قبولیت میں بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اس حدیث کو علما نے اعمال کے باطنی پہلو کے لیے ایک معیار قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اس حدیث میں ہے: ’’جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہ ہو تو وہ رَد ہے‘‘ (یعنی اُسے اس کے عامل پر لوٹایا جائے گا)۔ یہ حدیث اعمال کے ظاہری پہلو کے لیے کسوٹی ہے۔
فُضیل بن عیاضؒ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔۔۔ (تم میں سے کون ہے سب سے زیادہ اچھے عمل والا۔۔۔ ہود:۷) میں اَحسن العمل کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اَحسن العمل وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ درست اور انتہائی درجے میں اخلاص والا ہو۔
پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ درست اور انتہائی درجے کا اخلاص والا ہونے سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ کسی عمل کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ بیک وقت درست اور خالص نہ ہو۔ اگر وہ درست ہو مگر اخلاص کے ساتھ نہ ہو تو قبول نہیں ہوتا اور اگر خالص ہو مگر درست نہ ہو پھر بھی قبول نہیں ہوتا۔ عمل کا خلوص یہ ہے کہ وہ اللہ ہی کی خاطر ہو اور اس کا درست ہونا یہ ہے کہ وہ سنت کے مطابق ہو۔
دینی معاملات اور عبادت کے بارے میں اَحسن العمل کا یہ مطلب ہے۔ اب رہا دنیوی امور میں اِحسان کا معاملہ تو وہ یہ ہے کہ اسے پختگی کے اُس مقام تک پہنچا دیا جائے جس میں دوسرے لوگوں کے برابر ہو جائے بلکہ ان پر بھی فوقیت حاصل کرے۔ چنانچہ دنیا میں ان لوگوں کے سوا کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے جو پختگی سے کام کرنے والے ہیں۔
بعض احادیث جو اس مسئلے میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جو مسلم وغیرہ نے حضرت ابوہریرہؓ سے مرفوعاً روایت کی ہے: مَنْ قَتَلَ وَزَغاً فِیْ أَوَّلِ ضَرْبَۃٍ کُتِبَ لَہٗ مِثَۃُ حَسَنَۃِ، وفِی الثَّانِیَۃِ دُوْنَ ذٰلِکَ، وَفِی الثَّالِثَۃِ دُوْنَ ذٰلِکَ۔۔۔ (جس نے چھپکلی کو پہلے ہی وار میں مار ڈالا اس کے لیے سو حسنات ہیں اور جس نے دوسرے وار میں مارا اس کے لیے اس سے کم اور جس نے تیسرے وار میں، اس کے لیے اس سے بھی کم۔۔۔ امام احمد، مسلم، ابودائود، ترمذی اور ابن ماجہ بروایت ابوہریرہ۔ دیکھیے، صحیح الجامع الصغیر ص ۲۴۶۰)
یہ حدیث بھی اسی بات کی طرف رہنمائی کر رہی ہے کہ ہر کام میں مہارت اور پختگی کے ساتھ ساتھ حُسنِ ادا کاخیال رکھنا چاہیے، خواہ چھپکلی کو مارنے جیسا ایک چھوٹا سا معاملہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ہے قتل میں احسان کا مطلب، جس کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ: فَاِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَۃَ۔۔۔ (جب کسی جانور کو قتل کرنا ہو تو اچھے طریقے سے قتل کرو)۔ کسی چیز کو سرعت کے ساتھ قتل کرتے ہیں تو اِس میں اُس کو اذیت نہیںہوتی، خواہ وہ کوئی بھی جانور ہو۔
جس طرح اعمال کمیت اور حجم سے نہیں ناپے جاسکتے، اسی طرح لوگوں کی عمریں بھی لمبائی سے نہیں ناپی جاسکتیں۔ بعض اوقات ایک انسان کو لمبی عمر دی جاتی ہے لیکن اس میں کوئی برکت نہیں ہوتی۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عمر زیادہ لمبی نہیں ہوتی مگر وہ اعمال الخیر اور خیر الاعمال سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔
اسی حوالے سے ابن عطا اللہ اپنی پُرحکمت باتوں میں کہتے ہیں: بعض عمریں لمبی ہوتی ہیں، مگر ان کے فوائد کم ہوتے ہیں اور بعض عمریں مختصر ہوتی ہیں، مگر ان کے فوائد زیادہ ہوتے ہیں۔ جس کی عمر میں برکت ڈالی جاتی ہے، وہ تھوڑے عرصے میں اللہ کی بہت سی نعمتیںحاصل کرتا ہے، اتنی زیادہ کہ جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا اور اشارات تو اس کی گردِپا تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔
اس سلسلے میں ہمارے لیے اتنی ہی مثال کافی ہے کہ نبی کریمﷺ کی زندگی میں اللہ نے برکت ڈالی تو آپؐ نے ۲۳ سال کے عرصے میں، جو رسالت کی زندگی ہے، ایک عظیم ترین دین کی بنیاد ڈال دی اور ایک بہترین نسل تیار کی۔ آپؐ نے ایک خیرامت کی تخلیق کی اور ایک عادلانہ نظامِ حکومت کی بنیاد رکھی۔ آپؐ نے کافرانہ نظامِ بت پرستی اور حد سے بڑھتی ہوئی یہودیت پرغلبہ حاصل کیا اور اپنی امت کے لیے کتاب اللہ کے بعد ایک سنت ہادیہ اور سیرتِ جامعہ بھی میراث میں چھوڑی۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ڈھائی سال میں جھوٹے مدعیانِ نبوت کا قلع قمع کیا، فتنۂ ارتداد کا شکار ہونے والوں کو دوبارہ اسلام کے دائرے میں داخل کیا۔ جنہوں نے بعد میں فارس اور روم کی فتح میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے۔ انہوں نے مانعینِ زکوٰۃ کو سبق سکھایا اور فقرا کے ان حقوق کی حفاظت کی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مال داروں کے مال میں مقرر کیے ہیں۔ اس طرح انہوں نے تاریخ میں یہ بات رقم کی کہ اسلامی حکومت وہ پہلی حکومت ہے جس نے غریبوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔
حضرت عمر بن الخطابؓ نے دس سال کی خلافت میں بیرونی فتوحات بھی حاصل کیں اور اندرونی طور پر عدل و انصاف اور شوریٰ کی بنیادیں بھی مستحکم کیں۔ آپ نے اپنے بعد والوں کے لیے بہت ہی شاندار طریقے وضع کیے جنہیں ’اوّلیّاتِ عمر‘ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اجتماعی فقہ و اجتہاد کی بنیاد رکھی، خصوصاً اس فقہ کی جس کا تعلق ریاست اور حکومت کے ساتھ ہے اور جس کا قیام مقاصد شرع اور مصالح کے مابین موازنہ اور باہمی تکافل پر ہے۔
آپؓ نے لوگوں کو یہ جرأت بخشی کہ وہ حکمران کو نصیحت اور اس پر تنقید کریں۔ فرمایا: لَا خَیْرَ فِیْکُمْ إِذَالَمْ تَقُوْلُہَا، وَلَا خَیْرَ فِیْنَا إِذَا لَمْ نَسْمَعُہَا۔۔۔ (اگر تم ایسی بات نہ کرو تو تم میں کوئی خیر نہیں اور اگر ہم یہ نہ سنیں تو ہم میں خیر نہیں)۔ اس کے علاوہ انہیں دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، ان میں حق کی قوت موجود تھی اور وہ سارے لوگوں کے درمیان عدل اور مساوات قائم کرتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مختلف صوبوں کے گورنروں اور اپنے بیٹوں تک کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا اور مظلوم کو انصاف دلایا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تیس ماہ کے عرصے میں، جو اُن کی ساری مدتِ خلافت ہے، عدل اور ہدایت کی سنتوں کو دوبارہ زندہ کیا۔ اُن کے ذریعے ظلم و جَور اور گمراہی کی بدعتوں کو ختم کیا۔ انہوں نے لوگوں کی غصب شدہ جائیدادیں ان کو لوٹائیں اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی۔ یہ وہ اقدامات تھے جن کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اسلام کا اعتماد بحال ہوا، لوگوں کی جانیں محفوظ ہوئیں، بھوکوں کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوا اور مسلمان شہروں اور بستیوں میں خوشحالی آئی اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ صاحبِ مال اس لیے پریشان ہوتا تھا کہ اپنی زکوٰۃ کس کو دے، کیوں کہ لوگ عموماً مال دار تھے اور زکوٰۃ کا مستحق فقیر نہیں ملتا تھا۔
امام شافعیؒ نے ۵۴ سال کی عمر پائی (۱۵۰۔۲۰۴ھ) اور اپنے پیچھے علم و فکر کے عظیم الشان بنیادی خزانے چھوڑے۔
امام غزالیؒ ۵۵ سال دنیا میں زندہ رہے (۴۵۰۔۵۰۵ھ) اور امت کے لیے عظیم اور بیش بہا علمی سرمایہ چھوڑا۔
امام نَوَوِیؒ کی عمر، وفات کے وقت ۴۵ سال تھی (۶۳۱۔۶۷۶ھ) مگر اس عرصے میں انہوں نے حدیث اور فقہ میں أربعین سے لے کر شرح مسلم تک اور المنہاج فی الفقہ سے لے کر روضۃ الطالبین اور المجموع تک وہ سرمایہ دنیا کو پیش کیا جس سے اللہ تعالیٰ نے پوری امت کو نفع پہنچایا۔ اس کے علاوہ ان کی کتابوں میں تہذیب الأسماء اور اللغات بھی پائی جاتی ہیں۔
ان کے علاوہ اور بہت سے ائمہ کرام جیسے: ابن العربی، سرخسی، ابن الجوزی، ابن قدامہ، قرافی، ابن تیمیہ، ابن قیم، شاطبی، ابن خلدون، ابن حجر، ابن الوزیر، ابن ہمام، سیوطی، دہلوی اور شوکافی وغیرہ نے زمین کو علم و فضل سے بھر دیا۔
بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو موت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں اور ان کی عمر ختم ہو جاتی ہے، حالانکہ اُن کا شمار زندوں میں ہوتا ہے۔۔۔ اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو موت کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ وہ اپنے پیچھے نیک اعمال، علمِ نافع، نیک اولاد اور اچھے شاگرد چھوڑ جاتے ہیں، جو اُن کی عمر میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور ان کی عمر لمبی سے لمبی ہوتی جاتی ہے۔
(’’دین میں ترجیحات‘‘ کا اگلا باب آئندہ شمارے میں ملاحظہ فرمایئے)
Leave a Reply