اصلاح کے میدان میں اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہر اس چیز کو مقدم رکھا جائے جس کا تعلق فکر کی درستی، نظریے کی صحت اور عمل کے نتیجہ خیز ہونے کے ساتھ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ہر مطلوبہ اصلاح کے لیے ایک قوی بنیاد ہے۔ کیونکہ یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے کہ درست طریقِ کار کے ساتھ صحیح عمل کیا جائے اور اس کی بنیاد جس فکر پر ہے وہ درست نہ ہو۔ شاعر کہتا ہے: اگر لکڑی ٹیڑھی ہو تو اس کا سایہ کیسے سیدھا ہو سکتا ہے؟
جس کا کسی معاملے میں تصور ہی غلط ہو تو اس سے جو توقع کی جاسکتی ہے وہ یہی ہے کہ اس معاملے میں اس کا کردار بھی غلط ہی ہوگا۔ کیونکہ کردار حسن و قبح میں اپنے تصور کا تابع ہوتا ہے۔
اسی وجہ سے فکری معرکہ جو ٹیڑھے افکار کو سیدھا اور غلط مفاہیم کو درست کرتا ہے، وہ ترجیح رکھتا ہے اور اس کو دوسروں پر مقدم رکھنے کا حق ہے۔ یہ قرآن کے ذریعے جہادِ کبیر کی ایک قسم ہے۔ جو سورۂ فرقان میں مذکور ہے جو مکی سورت ہے۔ اسی طرح یہ جہاد باللسان بھی ہے جسے حدیث نبوی نے بیان کیا ہے۔ ’’مشرکین سے جہاد کرو اپنے مال، جان اور زبان کے ساتھ‘‘۔ (احمد، ابودائود، نسائی)
مسلمانوں کا باہمی فکری معرکہ
فکری معرکے کے دو بنیادی میدان ہیں:
٭ ایک مسلمان حلقے کے باہر، یعنی الحاد و دہریت کے خلاف، عیسائی مشنریوں اور مستشرقین کے خلاف جو اسلام پر کھلم کھلا حملہ آور ہیں اور عقیدے، قانون، ثقافت، تہذیب کے خلاف میدان میں ہیں۔ وہ اسلام کی بنیاد پر اٹھنے والی کسی بھی تحریک اور بیداری کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔
٭ دوسرا خود مسلمان حلقے کے اندر، جس کا مقصد مسلمان مذہبی تنظیموں کے لیے رُخ کی درستی، ان کے سفر کو صحیح راستے پر جاری کرنے اور ان کی حرکت کو غلطی سے بچانے کی کوشش کرنا ہے، تاکہ وہ ایک صحیح ہدف کے لیے صحیح راستے پر اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔ ہم اپنی گفتگو اسی حد تک محدود رکھیں گے۔ کیونکہ داخلی اصلاح اصل بنیاد ہے اور اس کو ترجیح حاصل ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں کئی قسم کے دھارے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
٭ خرافاتی دھارا
خرافاتی رُخ یا دھارا وہ ہے جو ایسی بنیادوں یا خواص پر قائم ہے جن میں وہ منفرد ہوتا ہے۔ ان میں سے چند خواص یہ ہیں:
ا۔ عقیدے میں اوہام
ب۔ عبادت میں بدعت
ج۔ فکر میں جمود
د۔ فقہ میں تقلید جامد
ہ۔ کردار میں منفی تاثر
و۔ سیاست میں مداہنت اور ہم نوائی
٭ حَرفی دھارا
ایک رخ اور دھارا حرفی ہے۔یہ دھارا اگرچہ دین کے معاملے میں بڑا سخت ہے اور اس کے دفاع میں شدت سے کام لیتا ہے، مگر اس کے کچھ خصائص بھی ہیں جو اس کے پیروکاروں میں غالب ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے ان کو بھی ایک تفرد حاصل ہے۔ ان کے چند خصائص یہ ہیں:
ا۔ عقیدے میں جھگڑالوپن
ب۔ عبادت میں شکل پرستی
ج۔ فقہ میں ظاہریت
د۔ اہتمام میں جزویت
ہ۔ روح میں خشک مزاجی
و۔ دعوت میں کھردراپن
ز۔ اختلاف میں تنگ نظری
٭ انکار و تشدد کا دھارا
ایک دھارا ایسا ہے جو پورے معاشرے اور اس کے تمام اداروں سے انکار کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کے بھی اگرچہ بعض افراد جرأت اور اخلاص میں ثانی نہیں رکھتے، مگر اس دھارے کی بھی کچھ خصوصیات ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
ا۔ دین پر عمل کرنے میں شدت اور حتمیت
ب۔ فرد کی اتنی اہمیت، جو اسے معاشرے پر فوقیت دینے کا ذریعہ بنے
ج۔ اپنے سوا سب پر بدگمانی
د۔ دین کے فہم اور زمینی حالات اور کائناتی و معاشرتی حقائق کی سمجھ میں افق کی تنگی
ہ۔ وقت سے پہلے چیز کے حصول میں جلد بازی
ہ۔ کسی قسم کے تحفظات کے بغیر کفر کے فتوے میں جلد بازی
ز۔ قوت کو اہداف کے حصول کا ذریعہ سمجھنا
٭ اعتدال پسند دھارا
ایک اعتدال پسند دھارا ہے جو دین کے فہم، زندگی کی ضروریات اور دینی اقتدار کے لیے توازن اور اعتدال پر قائم ہے۔ اس کی اپنی کچھ خصوصیات ہیں جن کی بنا پر وہ دوسروں سے ممتاز ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ درج ذیل مبادی پر توجہ مرکوز کرتا ہے:
ا۔ دین کی ایسی سمجھ جس میں جامعیت بھی ہو، توازن بھی اور گہرائی بھی
ب۔ بغیر کسی لاپروائی یا خوف زدگی کے، زندگی کے حقائق کی سمجھ
ج۔ اللہ کی سنتوں اور اس کے اُن قوانین کی سمجھ جو بدلتے نہیں، خصوصاً انسانی معاشرت کے بارے میں اللہ کی سنت کی سمجھ
د۔ مقاصدِ شریعت کی سمجھ اور ان کے ظاہر پر جمود اختیار کرنے سے اجتناب
ہ۔ ترجیحات کی سمجھ اور دوسری اسلامی تنظیموں کے ساتھ اختلاف کے آداب کا لحاظ (متفقات میں تعاون اور مختلفات میں تسامح)
و۔ سلفیت اور جدیدیت یا اصالت و معاصرت کا اجتماع (دوسرے الفاظ میں قدیم و جدید کا امتزاج)
ز۔ شریعت کے مسلّمات اور زمانے کی تبدیلیوں میں توازن
ح۔ اس بات پر ایمان کہ فکری، نفسیاتی اور اخلاقی تبدیلی ہی تہذیبی انقلاب کی بنیاد ہوتی ہے۔
ط۔ امت کی نشاۃ ثانیہ اور انسانیت کو جدید معاشی فلسفوں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے اسلام کو ایک کامل تہذیبی پروگرام کے طور پر پیش کرنا
ی۔ فتویٰ میں تیسیر اور دعوت میں تبشیر کا طریق کار اپنانا
ک۔ اسلام کی سیاسی اور معاشرتی اقدار، جیسے: آزادی، احترام، شوریٰ، عدلِ اجتماعی اور حقوقِ انسانی کو اجاگر کرنا
ل۔ دوسروں یعنی غیر مسلم مخالفین یا روحانیت سے محروم اور عقلیت پرست مسلمانوں کے ساتھ اچھے طریقے سے مکالمہ
م۔ مسلمانوں کے مقدسات اور ان کے ممالک کے دفاع کے لیے جہاد کو ذریعہ بنانا
یہ وہ دھارا ہے جس پر ہم یقین رکھتے ہیں اور اس کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ اسلام کی اصل تعبیر ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، جیسا کہ اس کے رسولﷺ نے اپنی سنت و سیرت میں اس کی طرف ہدایت دی ہے، جیسا کہ اسے خلفائے راشدین اور صحابہ کرام نے عملی طور پر کر کے دکھایا ہے اور جیسا کہ ان کے تابعین باحسان اور امت کے خیرالقرون نے اسے سمجھا ہے۔
٭ اعتدال پسند دھارے کا فرض
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دھارا امت کی امیدوں کا مرکز ہے جس کی طرف کل کے لیے نگاہیں اٹھتی ہیں اور اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی دعوت کو نمایاں کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششیں صَرف کرے۔ وہ اپنے کارکنان کی تربیت کرے، اپنے مدمقابل کو قانع کرے، اپنے مخالفین کے ساتھ مکالمہ کرے اور اس جال سے بچ نکلنے کی کوشش کرے، جو اُس کے لیے بچھایا گیا ہے اور جس کے ذریعے اسے ایسے کاموں میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو اسے ناپسند ہیں اور جس کا وہ ارادہ نہیں رکھتا۔
اب یہ بات بے شمار دلائل سے ثابت ہو چکی ہے کہ داخلی اور خارجی مخالف طاقتیں اس دھارے سے دوسروں کی نسبت زیادہ خوف کھاتی ہیں۔ وہ اسے ناپسند کرتی ہیں اور اس کے ساتھ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دشمنی رکھتی ہیں۔
اس سے پہلے وہ تشدد اور انتہا پسندی کے دھارے سے لوگوں کو ڈراتے تھے مگر اب ایک اور ترانہ گایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ ’اعتدال پسند اسلام سے بچ کر رہو، کیونکہ یہ دوسروں کی نسبت زیادہ خطرناک ہے‘۔
دوسرے دھاروں کی طبعی عمر اتنی زیادہ نہیں ہوتی اور وہ زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتے۔ مگر یہ دھارا مسلسل جاری رہتا ہے۔ ان کے نزدیک اس کا اعتدال محفوظ نہیں ہوتا۔ اس کا آغاز اعتدال سے ہوتا ہے اور پھر انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں انتہا پسندی خود اسلام میں چھپی ہوئی ہے۔
یہیں سے انہوں نے لوگوں کو ’پیش قدمی کرنے والے اسلام‘ سے ڈرانا شروع کیا ہے اور اسے وہ ’سبز خطرے‘ کا نام دیتے ہیں۔ وہ اس کو ’سرخ خطرے‘ کی جگہ اپنا نیا دشمن گردانتے ہیں، وہ سرخ خطرہ جو پورے یورپ میں اشتراکیت کے زوال کے ساتھ زوال پذیر ہوا۔ لیکن اس بات کا خود ان کے منصف مزاج لوگوں نے جواب دیا ہے اور انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلامی خطرہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا بلکہ یہ محض وہم ہے۔
اعتدال پسند دھارے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود اسلامی ممالک میں مغرب کے آلہ کار اور ان کے شاگردوں کا سامنا کرے جن کے نام تو مسلمانوں کے ہوتے ہیں مگر وہ پوری قوت سے اسلام کے تہذیبی پروگرام کی مخالفت کرتے ہیں اور امت اور دین کے دشمنوں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں رسول کریمﷺ حضرت حذیفہؓ کی روایت کردہ متفق علیہ حدیث میں فرماتے ہیں کہ یہ لوگ: ’’جہنم کے دروازوں میں کھڑے اس کی طرف دعوت دینے والے ہیں، جس نے ان کی پیروی کی وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے‘‘۔ کسی نے کہا: یارسول اللہ! ان کی کوئی صفت بیان کیجیے۔ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ ہم ہی میں ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولتے ہوں گے‘‘۔ (متفق علیہ)
اس بنا پر ان لوگوں کا مقابلہ ضروری ہے۔ یہ امت میں فساد برپا کرتے ہیں، اسے اپنی حقیقت اور اپنے اصل نصب العین سے برگشتہ کرتے ہیں، اس کو میٹھے شہد اور بھوک دلانے والی مرغن غذائوں کی صورت میں زہرِ ہلاہل پلاتے ہیں۔ وہ اخبارات و رسائل کے ذریعے، ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے نوجوان نسل کو گمراہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہماری نئی نسل کی عقل و فکر کا وہی حشر کر رہے ہیں جو مہلک و بائیں جانداروں کے جسم کے ساتھ کرتی ہیں۔
ہماری قوم کے یہ ’مستغربین استعماری افکار رکھتے ہیں۔ یہ کام وہ اس وقت سے کر رہے ہیں جب استعمار نے اپنا بوریا بستر گول کرکے ہمارے ملکوں سے رحلت کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مستشرقین اور عیسائی مشنریوں کے بُرے سے بُرے افکار اپنے ذہنوں میں پالتے ہیں۔ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جنہوں نے ہماری تہذیب کے لیے ایک دن بھی اپنے دل میں اخلاص پیدا نہیں کیا۔ اگر کسی نے اخلاص کیا بھی ہے تو اسے اس تہذیب کے صحیح فہم کے لیے مواد فراہم نہیں ہوسکا اور اسے اس تہذیب کے اصل سرچشموں اور اصل ورثے سے استفادہ کرنے کا موقع نہیں ملا جن میں سب سے اہم زبان ہے۔
ہمارا اصل معرکہ جو خود ہمارے ممالک میں ہمیں درپیش ہے، ان لوگوں کے خلاف ہونا چاہیے جو حقیقتاً حد سے آگے بڑھنے والے ہیں، خواہ وہ سیکولر طبقہ ہو یا وہ مارکس ازم کے بقایا میں سے ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اب لبرل ازم کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے اور انہوں نے اپنے قلم، زبان اور ہر قسم کے اسلحے کو اسلامی بیداری اور امت کی نشاۃ ثانیہ کے خلاف جنگ میں جھونک دیا ہے۔ وہ اس کے داعیوں کے بارے میں تشویش پیدا کرتے ہیں اور لوگوں کو ان سے متنفر کرنے کے لیے نئی نئی اصطلاحات وضع کرتے ہیں، جیسے: سیاسی اسلام اور بنیاد پرستی وغیرہ۔ یہ لوگ اسلام پسندوں اور حکمراں طبقوں کے درمیان اختلاف پیدا کرتے ہیں اور ملکی قوت کو ایسے خون ریز جھگڑوں میں ضائع کرتے ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، سوائے اس کے کہ وہ نئی صورت میں نئے نام سے پھر شروع ہو جائیں۔
معرکے کو اس رخ پر لے جانے کے لیے جو بھی کوشش کی جائے گی اور خود اسلام پسندوں کے درمیان میں جو بھی دشمنی پیدا کی جائے گی… جن کے درمیان یا تو فقہی اور فروعی مسائل میں اختلاف ہوتا ہے، یا بعض عقائد میں، یا ترجیحات عمل میں، یا پھر مختلف جزوی مسائل کے حوالے سے نقطہ نظر میں… تو یہ ایک خطرناک قسم کی غفلت ہوگی۔ یہ اس بات کی دلیل ہو گی کہ ہم نے اپنے اصل دشمن کو نہیں پہچانا جو ہم سب کا مشترکہ دشمن ہے اور وہ ہمیں ایک دوسرے سے ٹکرانا چاہتا ہے۔ وہ پہلے ان کو الگ الگ کرنا چاہتا ہے اور پھر آخری فیصلہ کن وار میں ان سب کو نشانہ بنائے گا۔ اسلام پسندوں میں اگر کوئی یہ کام لاعلمی میں کرتا ہے تو یہ ’ایک‘ مصیبت ہے کیونکہ اس مسئلے سے لاعلمی بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ اور ان میں سے کوئی یہ جانتے ہوئے اس طرح کا کام کرتا ہے تو یہ زیادہ بڑی مصیبت ہے اور اس کا خطرہ بھی بڑا ہے۔ کیونکہ یہ اسلام کے ساتھ، اس کی امت اور اس کی بیداری کے ساتھ خیانت تصور کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ شاعر پر رحم کرے جو کہتا ہے:
’’اگر تم نہیں جانتے تو یہ ایک مصیبت ہے، مگر تم جانتے ہو (اور پھر بھی میرے ساتھ یہ سلوک کرتے ہو) تو یہ زیادہ بڑی مصیبت ہے‘‘۔
میرے خیال میں اعتدال پسند دھارے پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جس کے لیے اسے فکرمندی کے ساتھ بھرپور کوشش اور مسلسل جہاد کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ ذمہ داری یہ ہے کہ مسلمانوں کی یعنی اسلام پسند حلقوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرے اور اس کے لیے ان بنیادوں کو سامنے رکھے جن پر سب کے درمیان اتفاق ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کو اسلامی عقیدے کے چھ ارکان: یعنی اللہ پر، فرشتوں پر، کتابوں پر، رسولوں پر، قیامت کے دن پر اور تقدیر پر ایمان لانے پر مجتمع کرے۔ اس کے بعد عمل کے پانچ ارکان: یعنی کلمہ شہادت، اقامتِ نماز، ادائیگیٔ زکوٰۃ، رمضان کے روزے اور بیت اللہ کا حج پر اکٹھا کرے۔ پھر بنیادی فضائل اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اپنانے اور بنیادی برائیوں اور محرمات، خصوصاً ہلاکت خیز کبائر سے اجتناب کی دعوت دے۔
ہمارے لیے اتنا کافی ہوگا کہ ہم ان کلیات پر اجمالی طور پر مل بیٹھیں، کوئی بات نہیں اگر ہم اس کی جزئیات اور تفصیلات میں نہ جائیں، کوئی بات نہیں اگر ہم فروع میں اختلاف کریں اور ہمارے جزوی نقطہ ہائے نظر میں اختلاف ہو یا ہمارے اجتہادات ایک دوسرے سے الگ الگ ہوں۔ یہ ایسے اختلافات ہیں جن کا دین کی فطرت اور انسان کی طبیعت تقاضا کرتی ہے۔ بلکہ کائنات اور زندگی کے حقائق بھی ان کی تائید کرتے ہیں، جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب الصحوۃُ الاِسلامیۃُ بینَ الاختلافِ المشروع والتفرقِ المذموم میں اس کی وضاحت کی ہے۔
میں نے اپنی ایک سے زائد کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ اس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ اسلام کے لیے کام کرنے والی جماعتوں میں تعدد ہو، بشرطیکہ ان کا تعدد تنوع اور تخصص کی بنیاد پر ہو، نہ کہ مخالفت اور منافرت کی بنیاد پر۔ تنوع کی بنیاد پر اگر تعدد ہوگا تو یہ مزید ترقی اور نشوونما کا ذریعہ بنے گا اور اگر یہ تعدد مخالفت اور منافرت کا تعدد ہوگا تو یہ آپس میں ایک دوسرے کو کھا کر ختم کردیں گے۔
اب ایسی فکری اور عملی کوششوں کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کی خدمت دین کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیں تاکہ اسلام کی دعوت کامیابی سے ہمکنار ہو، اس کی شریعت حکمران بن جائے، اور اس کی امت ایک ہو جائے۔ تاکہ امت کے مختلف ٹکڑے ایک ہوں، ان کے اندر اعتماد کی فضا پیدا ہو، رواداری اور حسنِ ظن کی روح پروان چڑھے اور نفس کو خودپسندی، غرور و تکبر، دوسروں پر الزامات اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے کی آفات سے پاک کیا جائے۔
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ ’’آدمی کے لیے اتنی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے‘‘۔ (مسلم)
میری رائے میں یہ کام آج کے دَور میں اسلامی تنظیموں کی سطح پر سب سے اہم اور سب سے مقدم ترجیحات میں شامل ہے۔ اگر اسلام پسند حلقے تقسیم و تشتت کے اس خطرے سے متنبہ نہیں ہوتے جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں تو عنقریب وہ ایک دوسرے کو کھا جائیں گے اور مخالف اسلام قوتوں کے خونی پنجے اور ان کے نوک دار دانت ان کو پھاڑ کھانے کے لیے آموجود ہوں گے۔ اور یہ دھارے اور تنظیمیں ایک کے بعد دوسری نشانہ بنتی رہیں گی، یہاں تک کہ سب ختم ہو جائیں۔
اگر ہم میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ مشرق سے لے کر مغرب تک پوری امت کو اکٹھا کرلیں تو کم ازکم ہم یہ کوشش ہی کرلیں کہ اسلامی بیداری کے لیے برپا بڑی بڑی تنظیموں کی قوت کو منظم کرلیں جن کے درمیان مکالمہ اور مفاہمت کا امکان موجود ہے اور یہ اس طرح ممکن ہوگا کہ ہم اپنے اندر کی سختی کو کچھ قابو کریں، آپس میں کسی انتہا پر نہ رہیں، فکری میدان میں ایک دوسرے کے قریب ہوں، اپنے نقطہ ہائے نظر کو منظم کریں، بنیادی اور انجام کے لحاظ سے اہم مسائل پر یکجائی اختیار کریں۔ جو چیزیں متفق علیہ ہیں، اُن میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور جن امور میں اختلاف ہے، اُن کے بارے میں تسامح سے کام لیں۔ یہ مفاہمت، تعاون اور اجتماع ایک دینی فریضہ اور زندہ رہنے کے لیے ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں ایک فکر آپس میں جمع نہیں کرسکتی تو کم ازکم مشترکہ مصائب ہی ہمیں ایک کرلیں، جیسا کہ شوقی کہتا ہے:
’’اے ابن طلحہ! اگر ہمیں جنس نے ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے تو کوئی بات نہیں، مصائب مصیبت زدگان کو آپس میں ملا دیتے ہیں‘‘۔
٭ شریعت کا نفاذ یا تربیت و آگاہی
ترجیحات کے حوالے سے جن باتوں میں خلل پیدا ہوا ہے ان میں ایک یہ ہے کہ اسلامی حلقے میں کام کرنے والے زیادہ تر لوگ اور خاص طور پر تشدد پسند اپنی پوری توجہ اس بات کی طرف کیے ہوئے ہیں جسے وہ ’اسلام کا عملی نفاذ‘ کہتے ہیں۔ اس سے ان کی مراد شریعت کا قانونی پہلو ہوتا ہے۔ بطور خاص سزائیں: مثلاً حدود، قصاص اور تعزیرات وغیرہ۔
یہ پہلو تو اسلام کا ایک جز ہے، اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ اس سے غفلت اور اعراض جائز نہیں ہے۔
مگر اس کے مطالبے میں مبالغہ اور ہر مقام پر اسی کو موضوع بحث بنانا اور اسے دین کا سرا، اس کا عمود اور بلند ترین چوٹی قرار دینا ایک ایسی حرکت ہے جس کے اسلامی فکر اور اسلامی عمل پر بُرے اثرات پڑتے ہیں۔ دوسری طرف عام لوگ بھی اس سے غلط طور پر متاثر ہوتے ہیں اور اسلام اور اس کی شریعت کے دشمن تو اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ صرف قوانین سے معاشرے نہیں بنتے، نہ ان سے قومیں وجود میں آتی ہیں۔ معاشرے اور قومیں تربیت اور علم سے بنتی ہیں۔ پھر قوانین ان کی تنظیم اور حفاظت کرتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ فی الحال ہمارا فرض یہ ہے کہ اس مسئلے کو اُتنی ہی اہمیت دیں، جتنی اہمیت فکری اور عملی طور پر حقیقت میں اس کی ہے۔ اور اس کام کے لیے ایسے مواقع پیدا کیے جائیں جن میں صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور نوجوانوں کی تیاری میں مدد ملے اور ایک کامل اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت کا مطالبہ کیا جائے، جو ماں کی گود سے لے کر یونیورسٹی سے فراغت تک بچے کی نگرانی اور اس کی مکمل نگہداشت کرے۔ اس کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں سے چند یہ ہیں:
مناسب طریق کار اور دلچسپ اسلوب اختیار کرنا
سمعی و بصری آلات کو بروئے کار لانا
جدید ٹیکنالوجی سے مدد لینا، جس کے ذریعے انسانی زندگی کے لیے دین کی ضرورت کا احساس پیدا ہو، اسلام کی جامعیت اور اس کے احکام کی صحت کا یقین ہو جائے۔ اس کی کتاب کا اعجاز، اس کے رسول کی عظمت، اس کی تہذیب کا توازن اور اس کی امت کا دوام ان کے دلوں میں اجاگر ہو جائے۔
یہ تربیت صرف دینی تعلیم یا اسلامی نظامِ تعلیم ہی میں مطلوب نہیں ہے، بلکہ یہ بغیر کسی جعلی پن کے تمام سائنسی اور ادبی علوم کے نصاب میں ضروری ہے۔ اس کی ضرورت کو سائنس اور معاشرتی اور ادبی علوم میں محسوس کیا جانا چاہیے۔ تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ اس کا احساس عمومی فضا میں بھی ہونا چاہیے تاکہ یہ ایک مسلمان نسل کی تیاری میں مددگار ثابت ہو۔ ایسی نسل جو اللہ پر ایمان رکھتی ہو، اپنے دین اور اپنی امت پر فخر کرتی ہو۔ وہ روحانی، عقلی، جسمانی اور وجدانی طور پر اپنے اندر کمال رکھتی ہو۔ وہ اپنے رب کے ساتھ مخلص، اپنے ملک کی خادم، دوسروں کے ساتھ رواداری پر عمل پیرا اور پوری انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کرنے والی ہو۔
یہ بھی ضروری ہے کہ درآمدہ لادینی فلسفوں اور پروگراموں کا راستہ روکا جائے، جو دینی روح سے خالی اور اللہ کے وجود، انسان کے مقام، زندگی کی حقیقت، اس جہاں کی وجۂ پیدائش اور دین و دنیا کے تمام معاملات میں اسلامی فلسفے کے خلاف ہیں۔
اس کے ساتھ کچھ اور مناسب مواقع ذرائع ابلاغ اور ان میں مہارت کے لیے بھی فراہم ہونے چاہئیں جو ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک موثر ہتھیار بن گیا ہے۔ اور اب یہی ذہن سازی کا کام کرتے ہیں، لوگوں کے میلانات پیدا کرتے ہیں، ایک خاص ذوق پروان چڑھاتے ہیں اور زیادہ تر لوگوں کے لیے فکری اور نفسیاتی رخ متعین کرتے ہیں۔
یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ اس میدان کو ان لوگوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے جو اسلام پر اس لحاظ سے ایمان نہیں رکھتے کہ یہ ایک مسلمان فرد اور مسلمان معاشرے کے لیے فکر، کردار اور میل جول میں اعلیٰ ترین ماخذ ہے۔
ضروری ہے کہ ہم دو بنیادی اور کامل محوروں پر کام کریں:
٭ ایک یہ کہ ہم ہر میدان میں اور ہر سطح پر مسلمان ماہرین ابلاغ تیار کریں جو اسلام کی صحیح نمائندگی کر سکیںاور اپنے دور کے عظیم امکانات کے بھی درست ترجمان بن سکیں۔
اس میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے جو موسیقی، اداکاری اور ڈرامے جیسے فنون میں مہارت رکھتے ہیں۔
اس مقام پر ہمیں ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہوگی جو مواد تیار کریں، ایسے لوگوں کی بھی جو اسے مکالمات میں تبدیل کریں اور ایسے لوگوں کی بھی جو اسے تمثیلاً پیش کر سکیں اور اس کی اداکاری کرسکیں۔ اسی طرح اسے عملی شکل دینے والے اور تدوین و تہذیب کرکے آخری شکل دینے والے ماہرین کی بھی ضرورت ہوگی۔
یہ سب چیزیں آسان نہیں ہیں، اس میں بہت سی شرعی اور عملی مشکلات ہیں، جن کو ختم کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے، اگرچہ اس کے لیے ہمیں مرحلہ وار ہی کام کرنا پڑے۔ بہرحال اس کے لیے ہمیں ایسا منصوبہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس کے اہداف مقرر ہوں، جس کے وسائل واضح ہوں اور جس کے مراحل معلوم ہوں، تاکہ کمی کوتاہی کو بروقت دور کیا جاسکے اور عمارت کو مضبوط کیا جاسکے۔
٭ دوسرا کام یہ ہے کہ موجودہ ماہرینِ ابلاغ اور فنکاروں کو اپنے ساتھ ملائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں ایسے لوگ ہیں جو صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوتے ہیں، مگر وہ اپنی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ نہ اسلام کے خلاف ہے اور نہ ان پر اللہ کا غضب نازل کرنے والا ہے۔ بعض اوقات ان میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کو یہ بات تو معلوم ہوتی ہے مگر وہ جو زندگی گزارتے ہیں اور جن عادات کے وہ عادی ہوتے ہیں، اس کا ان پر غلبہ ہوتا ہے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ان لوگوں پر محنت کریں تاکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور اپنے رب کی طرف لوٹ کر اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کے قافلے میں شامل ہو جائیں۔
مجھے پچھلے چند سالوں سے معلوم ہوا ہے کہ متعدد فنکاروں نے اپنے کام سے توبہ کی ہے اور فن کارائوں کی بھی ایک بڑی تعداد اپنے رب کی طرف لوٹ آئی ہے۔ مگر ان میں سے زیادہ تعداد اُن لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے دین کو بچا لے جانے، اپنی نجات کی خاطر اداکاری بھی چھوڑ دی ہے اور اپنے سابقہ دوستوں سے میل جول سے بھی ہاتھ کھینچ لیے ہیں۔
ان کے لیے اس سے بہتر یہ تھا کہ اس مشکل معرکے میں ڈٹے رہتے اور اس پُر مشقت میدان کو اپنے قابو میں رکھتے، ضرورت تھی کہ وہ بھی وہی بات کہتے جو حضرت عمرؓ نے اپنے اسلام لانے کے بعد کہی تھی: ’’خدا کی قسم! کوئی جگہ نہ رہے گی جس میں مَیں نے جاہلیت کی پکار بلند کی ہو، مگر اب میں ضرور وہاں اسلام کی پکار بلند کروں گا‘‘۔
یہ کام سب کے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مشکلات پر قابو پائے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔
○○○
Leave a Reply