آج۔۔۔ جب کہ مغرب مسلسل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طبل جنگ بجا رہا ہے اور دنیا کو مستقبل میں اسلام اور مغرب کے درمیان ایک زبردست تہذیبی معرکہ (Clash of Civilizations)برپا ہونے کی خبر دے رہا ہے‘ ساتھ ہی وہ اپنی طرف سے اس جنگ کے لیے پوری تیاریاں بھی کررہا ہے اور جو کچھ پیش قدمیاں اس وقت کرنا ممکن ہیں‘ وہ بھی کررہا ہے۔
مسلمانوں کے لئے یہ سمجھنا بڑا اہم اور ضروری ہے کہ وہ اصل مسئلہ کیا ہے جس کے گردیہ تہذیبی جنگ لڑی جارہی ہے اور اس جنگ میں فیصلہ کن حیثیت کا ایشو اور کس میدان کو حاصل ہے۔ اس سوال کا صحیح جواب ‘ صحیح سوچ‘ حکمت عملی اور ترجیحات اختیار کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
شاید کم ہی لوگ ہوں گے جنہیں اس بات کا ادراک ہو یا جو اسے آسانی سے تسلیم کرلیں لیکن ہمیں اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اصل اور فیصلہ کن ایشو اور مسئلہ رسالت محمدیؐ کی صداقت کا ایشو اور مسئلہ ہے۔ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں؟ حرا کے بعد‘ روز اول بھی یہی سوال تھا جو اصل موضوع نزاع وجدل تھا ‘ اور آج بھی یہی ہے۔ اس وقت بھی انسان اسی بات کے ماننے اور نہ ماننے پر دو کیمپوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور ان کے جواب نے قوموں کے مقدر اور تاریخ و تہذیب کے رخ کا فیصلہ کردیا تھا‘ آج بھی اسی سوال پر مستقبل کا مدار ہے۔ یہ کشمکش تو ازلی و ابدی ہے:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا اِمروز
چراغ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
مغرب کے معاشی‘ سیاسی اور اسٹراٹیجک مفادات کا مسئلہ بھی یقینا اہم ہے‘ تیل کے چشمے بھی اہم ہیں۔ اس لیے اس نے عالم اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپا ہے‘ مسلمان حکمرانوں کو اپنا باج گزار بنایا ہے‘ مشرق وسطیٰ میں فوجی اڈوں کا جال بچھالیا ہے‘ مسلمان ملکوں کو کمزور اور بے طاقت کررہا ہے‘ یا جن سے سرتابی کا شبہ ہے ان کے گلے میں پھندا کس رہا ہے۔ لیکن مفادات کے مستقل تنازعات تو امریکا ‘ یورپ‘ جاپان‘ چین اور روس کے درمیان بھی ہیں‘ لیکن ان کی بناء پر ان کے درمیان ایسی دشمنی نہیں ہے‘ یہاں معاملہ یہ ہے کہ یہ مفادات ان لوگوں اور علاقوں میں واقع ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہیں‘ بہت اہم ہے۔ اسی لیے انسانی حقوق کی دہائی ہے‘ عورتوں کے مقام ‘ ان کی خود اختیاری (Empowerment) اور آزادی (Liberation) پر اصرار ہے‘ اسلامی قوانین اور حدود کے خلاف دبائو ہے‘ جمہوریت دشمن ہونے کا الزام ہے۔ لیکن دنیا میں بڑی بڑی آبادیاں اور بھی ہیں جو مسلمانوں سے کئی گنازیادہ ان ساری مزعومہ تہذیبی اقدار کی خلاف ورزی کی مجرم ہیں اور ان ’’تحائف‘‘ کی مستحق ہیں۔ ظاہر ہے کہ اصل لڑائی ان تہذیبی ایشوز پر بھی نہیں‘ بلکہ یہ ایشوز تو اس تہذیب کی بربادی کے لیے لاٹھی کا کام کررہے ہیں‘ جس کی تولید و ترکیب اور ترتیب و تکوین رسالت محمدی کے دم سے ہے۔
مغرب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان آج اتنے کمزور ہیں کہ سیاسی ‘ معاشی اور فوجی لحاظ سے کسی طرح بھی وہ ان کا عشر عشیر بھی نہیں۔ اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر مسلمان اپنے نظام معاشرت و سیاست اور جرم وسزا کی تشکیل اسلام کے مطابق کریں‘ حجاب اختیار کریں یا حدود نافذ کریں ‘ تو بھی اس کی تہذیب کو کوئی گزند نہیں پہنچتا۔ لیکن وہ مسلسل اس بات کی رٹ لگائے جارہا ہے کہ اسلام کا احیا اور مسلمان۔۔۔ اس کے الفاظ میں فنڈا مینٹل ازم۔۔۔ مغرب کی تہذیب‘ اس کے طرز زندگی‘ اس کی اقدار اور اس کی آج تک کی حاصل کردہ تہذیبی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے‘ ایسا کیوں ہے؟ رسالت محمدیؐ کی وجہ سے!
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدبیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
عصرِ حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبرؐ کہیں
الخدر آئین پیغمبرؐ سے سو بار الخدر
حافظِ ناموس زن‘ مرد آزما‘ مرد آفریں
عام مسلمان اگر تہذیبی جنگ کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں‘ تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ جو احیائے اسلام کے علم بردار ہیں‘ وہ بھی اس حقیقت کا پورا ادراک و احساس نہیں رکھتے۔ اس لیے رسالت محمدی کا ان کے ایجنڈے پر وہ مقام نہیں جو ہونا چاہیے۔ حالانکہ تہذیبی جنگ دل اور زندگی جیتنے کی جنگ ہے۔ دل پہلے بھی حضورؐ کی محبت سے مجتمع اور توانا ہوئے تھے ‘ آج بھی اسی سے ہوں گے۔ اس کے باوجود رسالت محمدیؐ کے لیے انسانوں کے دل اور ان کی زندگیاں مسخر کرنے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے وہ نہیں کیا جارہا ۔ یہی کچھ کرنے کا احساس اور جذبہ و فکر پیدا کرنا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
رسالت محمدیؐ کے خلاف یورپ کی یہ جنگ کوئی نئی جنگ نہیں۔
جب سے اسلام اور عیسائیت کا آمنا سامنا ہوا ہے‘ اس وقت سے عیسائیت اور یورپ نے اسلام کے خلاف اپنی جنگ کا مرکز و محور ذا ت محمدیؐ اور رسالت محمدیؐ کو بنایا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اچانک صحرائے عرب سے نمودار ہوئے اور پلک جھپکتے میں انہوں نے شام‘ فلسطین‘ مصر‘ لیبیا‘ تیونس اور الجیریا پر‘ جو عیسائیت کے گڑھ تھے‘ قبضہ کرلیا۔ نہ صرف قبضہ کرلیا‘ بلکہ آبادیوں کی آبادیاں رسالت محمدیؐ کی تابع بن گئیں۔ یہی نہیں‘ ہزار سال تک اس کا سورج نصف النہار پر چمکتا رہا اور ا کی ہزار بددعائوں‘ خواہشوں اور عملی کوششوں کے باوجود وہ ڈھلنے پر نہ آیا۔ وہ متحیر ‘ شکست خوردہ اور غیظ و غصب کا شکار تھے۔ مزید غصے کی بات یہ تھی کہ ان کی کرسٹالوجی(سید نامسیح کی ابنیت/ولدیت اور مصلوبیت) اور شریعت کی عدم پابندی کے علاوہ دین محمدیؐ میں کوئی چیز ان کی عیسائیت سے خاص مختلف نہ تھی‘ بلکہ دونوں میں بڑی یکسانیت تھی۔ وہ حیران و ششدر تھے کہ اس غیرمعمولی واقعے کی توجیہ کیا اور کیسے کریں‘ اس کا مقابلہ کیسے کریں‘ عیسائیوں کو مسلمان بننے سے کیسے روکیں۔
ان کو یہی نظر آیا کہ اس سارے ’’فتنے‘‘ کی جڑ‘ اور ان کی ساری مصیبت کا سبب حضورؐ کی رسالت ہے۔ مسلمانوں کی قوت و شوکت کا راز حضورؐ پر ایمان و یقین اور آپؐ کی ذات سے والہانہ محبت اور وابستگی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا سارا زور یہ بات ثابت کرنے پر لگا دیا کہ (نعوذ باللہ) حضوؐر کا دعویٰ رسالت جھوٹا تھا‘ کذب و افترا پر مبنی تھا اور قرآن آپؐ کی تصنیف کردہ کتاب ہے‘ وہ بھی عیسائیوں اور یہودیوں سے مانگ تانگ کر اور مدد لے کر‘ اور اپنے مضامین و اسلوب میں بے ربطی و بے ڈھنگے پن کی وجہ سے ہرگز کلام الٰہی کہلانے کی مستحق نہیں۔ یہ کوئی سنجیدہ‘ علمی مہم بھی نہ تھی۔ دور ظلمت (Dark Ages) ہو یا قرون وسطی (Medieval) یا زمانۂ روشن خیالی (Enlightenment) اس مقصد کے لیے حضورؐ کے کردار پر انتہائی رکیک اور غلیظ الزامات گھڑے اور لگائے گئے‘ آپؐ کی زندگی کے ہر واقعے کو بدترین معنی پہنائے گئے اور اسے مسخ کیا گیا‘ قرآن کو ایک ’’خود ساختہ اور ناقابل اعتبار‘‘ کتاب قرار دیا گیا‘ اور یہ الزام لگایا گیا کہ تلوار‘ خون ریزی اور قتل و غارت کے ذریعے اور لوٹ مار اور جنسی و دنیاوی لذائذ سے لطف اندوزی کی کھلی چھوٹ دے کر‘ آپؐ نے اپنے گرد پیروکار جمع کیے اور ان کے ذریعے دنیا کو فتح کیا۔ یہ سب کچھ کہنے اور لکھنے کے لیے زبان بھی انتہائی غلیظ استعمال کی گئی۔ اتنی غلیظ کہ اس کا نقل کرنا بھی ممکن نہیں۔ ہم نے جو کچھ لکھا ہے یا آگے نقل کریں گے‘ وہ دل پر انتہائی جبر کرکے‘ اس لیے کہ نقل کفر کفر نہ باشد۔
سنٹ جان آف دمشق(م:۷۵۳) حضرت عمر بن عبدالعزیز سے قبل اموی دربار میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھ اور اسلام سے ناواقف نہیں ہوسکتا تھا‘ وہ لکھتا ہے :’’ بنی اسماعیل کے درمیان محمد کے نام سے جھوٹے نبی نمودار ہوئے۔ وہ تورات و انجیل سے واقف تھے۔ ایک عیسائی راہب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کچی پکی معلومات کے بل پر انہوں نے عیسائیت کی ایک تحریف کردہ شکل وضع کرکے پیش کردی۔ دھوکہ دے کر‘ لوگوں سے تسلیم کرالیا کہ وہ خدا ترس انسان ہیں۔ پھر یہ افواہ پھیلا دی کہ ان پر آسمان سے کتاب مقدس نازل ہوری ہے۔ اس کتاب میں مضحکہ خیز مواد جمع کرکے انہوں نے اپنے پیروکاروں کے سپرد کردیا کہ اس کی پیروی کریں۔ عیسیٰ اور موسیٰ کی طرح وہ اپنی وحی کی صداقت پر کوئی گواہ پیش نہ کرسکے‘ نہ کوئی معجزہ۔ ایسے شخص کی بات پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے جس نے زید کی بیوی زینب سے شادی کرنے کے لیے آیت اپنی پسند کے مطابق گھڑلی!‘‘ (Encounters and Clashes: Islam and Christianity in History II,Rome) انہی خطوط پر خلیفہ ماموں (۸۱۳ تا ۸۳۳) کے ایک درباری نے عبدالمسیح الکندی کا قلمی نام اختیار کرکے الرسالہ کے نام سے ایک فرضی مکالمہ لکھا اور حضورؐ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا : محمد کیا‘ اپنی نبوت کی تائید میں کوئی معجزات پیش نہ کیے ۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو وہ سارا یہودیوں اور عیسائیوں سے سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہے‘ کتاب الٰہی کس طرح ہوسکتا ہے۔
سینٹ جان اور عبدالمسیح کے الرسالہ نے اس صدی کے آغاز تک حضورؐ کے بارے میں اہل یورپ کے رویے اور فکر کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ۱۲ ویں صدی میں الرسالہ کا لاطینی مدیر نے انگریزی ترجمہ لندن سے شائع کرنا ضرور سمجھا۔ ایک ہزار سال کے اس طویل عرصے میں پادریوں اور یورپین دانشوروں نے رسالت محمدیؐ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے‘ وہ عبدالمسیح الکندی اور سینٹ جان ہی کو دہراتے رہے ہیں۔ (۱)قرآن‘ یہودیوں اور عیسائیوں سے دیکھ کر وضع کیا گیا‘ متضاد اور الجھی ہوئی باتوں کا مجموعہ۔ (۲)اخلاقی الزامات۔ (۳)سیاست دانوں اور حکمرانوں کی طرح موقع پرستی اور مکر و فریب کی کارروائیاں (اعاذنا اللہ من ذالک‘ ونشھد ان محمد اعبدہ و رسولہ)
ہم نے ان چیزوں کو نقل کرنا‘ اس لیے ضروری سمجھا تاکہ یہ بتائیں کہ آج‘ بیسویں صدی اپنے اختتام پر ہے‘ ایک طویل زمانہ گزر چکا ہے‘ اب اسلام اور مسلمانوں سے روز کا ربط ہے‘ سائنٹیفک لیکن اہل یورپ کی روشن خیالی اور سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔یہاں تک کہ ان لوگوں کی سوچ اور روشن خیالی میں بھی جو ڈائیلاگ اور فیاضی کی دعوے دار ہیں ‘ مثلا ویٹیکن ‘ منٹگمری واٹ‘ کینتھ کریگ وغیرہ۔ تال اور سُربدلے ہیں‘ راگ وہی ہین‘ الفاظ مہذب ہوگئے ہیں‘ الزامات وہی ہیں‘ دشنام طرازی بھی وہی ہے‘ مگر تہذیب کے جامے میں ہے‘ زبان اور تعبیرات وہ ہیں جو آج کے زمانے میں قابل قبول ہوں مگر تہہ میں بات وہی ہے۔ چنانچہ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہیں۔
رسول اکرمؐ اور قرآن کے متعلق قرون وسطیٰ میں غیر مسلموں کی طرف سے یہ باتیں کی جاتی تھیں کہ:’’قرآن ایک بیل کے سینگوں پر رکھ کر لائے‘ فاختہ کے آکر کان میں وحی ڈال جانے کا ڈھونگ رچایا‘ مرگی کے دورے پڑتے تھے‘ جادوگر تھے او رلوگوں پر جادو کردیا تھا‘ جنوں اور شیطانوں نے قابو پا لیا تھا‘ کوئی مرتد عیسئای پادری تھا جو مسلسل سکھاتا پڑھاتا تھا۔ لیکن اب ان توجیہات کی جگہ ایسی نفسیاتی ‘ سماجی‘ معاشی اور سیاسی عوامل نے لی ہے جن سے جدید ذہن زیادہ آشنا ہے۔ مثلاً راڈنسن (Rodinson) فرائڈ کی راہ نمائی میں حضورؐ کی نفسیاتی تحلیل کرتا ہے اور قرآن و محمدؐ کو عرب کی ریگستانی اور بددیانہ زندگی میں‘ جاہلیت کی خرابیوں میں‘ مکہ میں حلیفوں کے اثرات میں ‘ عیسائی اور یہودی تعلیمات واثرات میں ‘ اور اہل عرب کی سیاسی ضرورت میں پاتا ہے۔ کریگ (Cragg) سوال اٹھاتا ہے کہ ’’رسولیت نے کہا جنم لیا؟‘‘ اور جواب دیتا ہے کہ ’’محمد صلی اللہ علیہ سلم کی اس جستجو اور آرزو میں کہ عرب متحد ہوں‘ اور اس یقین میں کہ ایک کتاب الٰہی ہی ایک عربی قرآن ہی‘ ان کو اتحاد و تشخص دے سکتا ہے۔‘‘ یہ ایقان کیوں کر پیدا ہوا:’’عیسائیوں اور یہودیوں کو دیکھ کر ‘ کہ وہ بھی اہل کتاب تھے‘‘ بس قرآن ابلنا شروع ہوگیا۔
پھر کوئی بھی ’’ہمدردانہ‘‘ تحریر ایسی نہیں جو (نعوذ باللہ) وہی الٰہی میں خارجی مداخلت ثابت کرنے کے لیے شیطانی آیات کے واقعے‘ سیاسی موقع پرستی اور دنیاداری کے ثبوت کے لیے نخلہ کے واقعے‘ خون آشامی کی شہادت کے طور پر بنو قریظہ کے قتل کے واقعے اور اخلاقی گراوٹ ظاہر کرنے کے لیے حضرت زینب کے ساتھ نکاح کے واقعے سے خالی ہو۔
جو لوگ حضورؐ کے مخاطب تھے اور رسالت کے منکر‘ جو آپؐ کے خلاف ہجو کہتے پھرتے تھے‘ وہ بھی اتنے اخلاق سے عاری نہ تھے کہ حضورؐپر کوئی اخلاقی الزامات لگائیں۔ لیکن اس کے علاوہ ‘ جاہلیت عرب کا انکار رسالت‘ جاہلیت جدیدہ کے انکار رسالت سے کچھ بھی مختلف نہ تھا۔ وہی الزامات وہی اعتراضات :شاعر ہیں‘ کاہن ہیں‘ پاگل ہیں‘ جن آگئے ہیں‘ جادوگر ہیں اور جادو کردیتے ہیں‘ خود کلام گھڑتے ہیں اسے اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں ’’ایک جھوٹ ہے جو انہوں نے گھڑ لیا ہے اور اس میں دوسرے لوگوں نے ان کی مدد کی ہے۔‘‘ ’’یہ گزرے ہوئے لوگوں کے قصے ہیں جن کو انہوں نے لکھ لیا ہے اور یہ ان کو صبح و شام لکھوائے جاتے ہیں‘‘ (الفرقان:۴۔۵) ’’کہتے ہیں کہ ان کو تو یہ سب کچھ ایک آدمی سکھاتا ہے لیکن یہ جس کی طرف اشارا کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ عربی مبین ہے۔‘‘ (النحل :۱۰۳)
یورپ کی ہزار سالہ مخالفت کو دیکھوتو بے اختیار نگاہوں کے سامنے یہ تصویر آن کھڑی ہوتی ہے: کذالک ما اتی الذین من قبلھم من رسول الا قالو ساحر او مجنون‘اتواصوابہ‘ بل ہم قوم طاغون ’’اسی طرح ان سے پہلے جن لوگوں کے پاس رسولؐ آیا‘ اس کو یہی کہا کہ جادوگر ہے ‘ یا مجنون ایسا لگتا ہے گویا ایک دوسرے کو یہی وصیت کر مرے ہیں(کہ یہ کہنا) کوئی نہیں دراصل ان سب نے سرکشی پر کمر باندھ لی ہے‘‘۔ (الذاریات:۵۱۔۵۲۔۵۳)
اس بات کو نارمن ڈینیل (Daniel) اپنی کتاب Islam and the West, the Marking of an Image میں یوں لکھتا ہے:’’ہم انتہائی غیر جانبدار اسکالر کی تحریر بھی پڑھیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قدیم عیسائیت نے ] اسلام اور محمدؐ [ کے بارے میں کیا اندازفکر و گفتگو اختیار کیا تھا۔ اس لیے کہ وہ انداز ہمیشہ اس مغربی ذہن کا لازمی جزو رہا ہے اور آج بھی ہے‘ جو اس موضوع پر سوچتا اور بات کرتا ہے(ص۳۰۱)
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی کتاب و رسالت کے خلاف عیسائیت اور اہل مغرب کی اس شدید دشمنی کے اسباب کیا ہیں؟
چند تاریخی‘ سیاسی اور نفسیاتی اسباب کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں۔ ان کی نظر میں‘ ان پر اسلام کی صورت میں جو تباہ کن آفت نازل ہوئی تھی‘ اس کی حیرت انگیز قوت و شوکت اور غلبے کا راز رسالت محمدیؐ پر ایمان اور حضورؐ کی ذات سے محبت و وابستگی میں مضمر تھا۔ اس کے مقابلے کا راستہ اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا کہ قوت اور زندگی کے اس منبع کو ختم کیا جائے۔ اس کو ختم کرنے کا طریقہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ حضورؐ کو نعوذ باللہ جھوٹا نبی‘ قرآن کو آپؐ کی تصنیف ‘ اور آپؐ کے کردار کو انتہائی پست ثابت کیا جائے‘ خواہ اس کے لیے جھوٹ گھڑنا پڑے اور تہذیب و معقولیت کی ہر حد پھلانگنا پڑے۔
آج یہ بات کھلم کھلا تو نہیں کہی جارہی‘ لیکن اس کا واضح اعتراف موجود ہے۔ لندن کا ہفت روزہ ’’اکنامسٹ‘‘ لکھتا ہے کہ ’’دنیا کی قیادت کے لیے مغربی تہذیب کا حریف ایک ہی ہوسکتا ہے: وہ ہے اسلام۔ اس سے مغرب کا تصادم ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام ایک آئیڈیا ہے‘ آج کی دنیا مدعی ہے! اس کے نزدیک یہ حق وہ ہے جو ۱۴۰۰ سال پہلے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوا اور قرآن کی صورت میں محفوظ و موجود ہے۔ ایک تہذیب کی قوت اور غلبے کے لیے ایسے الحق پر یقین کی قوت کے برابر کوئی قوت نہیں۔ اس لیے یوروپین‘ اسلام اور مسلمانوں سے خائف ہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ ایک نئی سرد جنگ آرہی ہے‘ جو غالباً ’’سرد ‘‘نہ رہے گی۔‘‘
اسی لیے آج بھی رسالت محمدیؐ ان کے حملوں کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ جہاں موقع ملے‘ ذات گرامیؐ پر بھی گندگی ڈالنے سے اجتناب نہیں‘ لیکن یہ کام بالعموم سلمان رشدیوں اور تسلیمہ نسرینوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اپنا اسلوب بدل دیا گیا ہے۔ اب کچھ لوگ حضورؐ کو پیغمبر تسلیم کرنے کے دعویدار ہیں لیکن تورات کے اسرائیلی انبیاء کی طرح کا پیغمبر (جن کی تاریخ خود انہوں نے داغ دار کی ہے) کچھ لوگ وحی کی حقیقت و نوعیت ہی کو مکالمہ اور مفاہمت کے نام پر بدلنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔ کچھ سینٹ پال کی طرح کے مصلح کے ورود کے متمنی ہیں جو ’’شریعت‘‘ سے نجات دے۔ کچھ چاہتے ہیں کہ قرآن کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے: ایک‘ عقائد و اخلاق کی تعلیم‘ اس کو کلام الٰہی مان لیا جائے۔ دوسرا‘ زندگی بسر کرنے کے ضوابط ‘ ان کو حضورؐ کی تصنیف قرار دیا جائے جو قابل تغیر و تبدل ہے۔ کچھ کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے ‘ لیکن وہ انسانی حقوق‘ عورت کے مقام اور جمہوریت کے قیام کے نام پر وہ چیزیں دل و دماغ میں اتاررہے ہیں‘ اور امت محمدیؐ کی زندگی اور عمل کو ایسے سانچے میں ڈھال رہے ہیں جو رسالت پر ایمان اور ناقابل تغیر و تبدل حق پر یقین کو خود بخود بے معنی اور غیر موثر کرکے رکھ دے گا۔
اکنامسٹ نے بالکل صحیح کہا ہے کہ آج رسالت محمدیؐ پر یقین و ایمان ہی مغربی تہذیب کے لیے واحد حریف اور سب سے بڑا خطرہ ہے اور مسلمانوں کے لیے بے پناہ قوت کا سرچشمہ ۔ آیئے مختصراًدیکھیں کہ کس طرح؟
۱۔ مغربی تہذیب اور جدیدیت (Modernism) کی بنیاد یہ ہے کہ انسان اب بالغ ہوچکا ہے‘ کسی ماورائے انسان وجود یا ذریعے سے علم و راہ نمائی لینے کا محتاج نہیں۔ وہ مستغنی ہے‘ خصوصاً خدا اور وحی جیسے ان ذرائع و تصورات سے جن کو اس نے اپنے عہد طفولیت میں اپنے سہارے اور تسلی کے لیے گھڑ لیا تھا۔ رسالت محمدیؐ اس کے برعکس ‘ یہ علم اور یقین بخشتی ہے کہ خالق کا وجود حقیقی ہے۔ وہ علوم کا رشتہ بھی اس کے نام سے جوڑتی ہے‘ زندگی کا بھی وہی خالق حقیقی کھانا بھی کھلاتا ہے‘ شفا بھی بخشتا ہے‘ اختیار و قدرت بھی صرف اس کو حاصل ہے‘ زندگی بسر کرنے کا صحیح راستہ بھی وہی دکھاتا ہے۔ انسان ہر لحاظ سے اس کا محتاج‘ فقیر اور غلام و بندہ ہے۔
۲۔ مغربی تہذیب کے فلسفۂ علم (epistemology) کی بنیاد یہ ہے کہ علم کا زاویہ صرف انسانی حواس اور عقل ہیں‘ تجربہ و مشاہدہ ہے‘ سائنٹیفک میتھڈ ہے۔ یہ سارا علم بھی ظنی ہے۔ جو آج صحیح ہے وہ کل غلط ہو سکتا ہے‘ بلکہ غلط ثابت ہونے کا امکان نہ ہو تو وہ علم ہے ہی نہیں‘ ایک عقیدہ ہے۔ قطعی اور یقینی علم کے نام کی کوئی چیز دنیا میں پائی ہی نہیں جاتی‘ جو معیار حق ہو‘ جس کے آگے لوگ سر تسلیم خم کریں‘ جس کے لیے کوئی کسی سے مطالبہ کر سکے کہ اس کو مانو اور اس پر چلو۔ اس کے برعکس‘ رسالتِ محمدیؐ اس شعور سے معمور کرتی ہے کہ علم یقینی کا وجود ہے اور اس کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے‘ حضورؐ کی رسالت ہے۔ زبردستی کسی پر نہیں کی جاسکتی‘ لیکن جو مان لیں‘ انہیں اس علم کے آگے سر تسلیم خم کرنا چاہیے‘ جہاں اختیار ہو‘ وہاں اس علم کے مطابق چلنا اور چلانا چاہیے۔ مغرب نے حق اور باطل کے الفاظ کو متروک بنا دیا ہے اور ان کا استعمال تہذیب و فیشن کے خلاف۔ رسالتِ محمدیؐ کے ماننے والوں کے لیے یہ الفاظ آج بھی سچائی اور زندگی سے بھرپور ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
۳۔ مغرب کے نزدیک اخلاق و اَقدار ہوں یا قوانین و ضوابط‘ ہر چیز اچھی ہے یا بری‘ مفید ہے یا مضر‘ جیسا اپنا اپنا احساس ہو‘ نقطۂ نظر ہو‘ پسند و ناپسند ہو۔ حقیقت کا انحصار دیکھنے والے کی پوزیشن پر ہے۔ چنانچہ ہرچیز اضافی (Relative) طور پر صحیح یا غلط ہوتی ہے‘ کوئی چیز فی نفسہٖ حق اور باطل نہیں ہو سکتی۔ رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کے نزدیک ان چیزوں کی جو حقیقت وحی نے طے کر دی ہے۔ اسے کسی کی رائے‘ پسند و ناپسند یا تجربہ و دلیل سے بدلا نہیں جاسکتا۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ
۴۔ مغربی تہذیب کے نزدیک علومِ غیبی۔۔۔ اﷲ‘ فرشتے‘ وحی‘ زندگی بعد موت۔۔۔ کے نام کی کوئی چیز کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کے نزدیک زندگی کے معنی و مقصد اور انسان کی حقیقت کا علم صرف علومِ غیبی ہی سے ہو سکتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ حقائق۔۔۔ جن کی تعلیم رسالتِ محمدیؐ نے دی ہے۔۔۔ جیتے جاگتے حقائق ہیں۔ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ
۵۔ دنیا اور دنیا کی زندگی سے رسالتِ محمدیؐ کے ماننے والوں کو اتنی ہی گہری اور بھرپور دلچسپی ہے‘ جتنی اہلِ مغرب کو۔ لیکن مغرب کی دلچسپی کا ہدف یہیں دنیا میں انسان کی خوشی‘ راحت‘ لذت اور زندگی کی کیفیت و معیار ہے‘ کہ وہی مقصود ہے۔ اس کے برعکس‘ رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کی دلچسپی دنیا میں اہلِ دنیا کی بھلائی اور آخرت میں اپنی بھلائی کے لیے ہے۔ اس کے نتیجے میں دو بالکل مختلف قسم کی شخصیتیں اور معاشرے وجود میں آتے ہیں۔ لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحَابُ النَّارِ وَ اَصْحَابُ الْجَنَّۃِ۔
آج کی تہذیبی جنگ میں رسالت محمدیؐ کے مسئلے کو جو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے‘ اس کا پورا اِدراک ان سب کو ہونا چاہیے جو دین سے محبت رکھتے ہیں‘ جو غلبۂ دین کی تمنا رکھتے ہیں یا اس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس اِدراک کی روشنی میں انہیں اپنی ترجیحات پر بھی نظر ڈالنا چاہیے اور حکمتِ عملی پر بھی۔
پہلی بات یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارا یہ زمانہ اگرچہ عہدِ نبویؐ سے چودہ صدیوں کے فاصلے پر واقع ہے اور ہم جن تمدنی حالات میں اسلامی زندگی اور اس کے غلبے کے لیے کوشاں ہیں‘ وہ اس عہد سے بہت مختلف ہیں‘ لیکن یہ ہے اسی عہدِ نبویؐ کا حصہ اور تسلسل۔ کیونکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کسی قوم کی طرف نہیں‘ ساری انسانیت کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے‘ اس لیے آپؐ ہماری اکیسویں صدی کے لیے اسی طرح رسول ہیں جس طرح چھٹی صدی کے لیے تھے اور آج کے سارے انسان اسی طرح آپؐ کی ’’قوم‘‘ ہیں اور آپؐ کے مخاطب‘ جس طرح اس وقت کے اہلِ عرب اور ساری دنیا والے تھے۔ اس سیدھی سادی بات کے دور رَس مضمرات ہیں۔ چنانچہ آج کے زمانے اور لوگوں تک آپؐ کی رسالت کی دعوت اس طرح پہنچنا ان کا حق ہے جس طرح آپ نے پہنچائی۔
دوسری بات یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بحیثیتِ رسول اﷲؐ آپ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ کیونکہ آپؐ کی لائی ہوئی کتاب موجود ہے‘ آپؐ کی سیرت اور اسوہ موجود ہے‘ آپ کا دین موجود ہے اور ان امانتوں کی حامل‘ آپؐ کی امت موجود ہے۔ گویا اپنی رسالت کی طرف دعوت دینے کا جو مشن بحیثیت رسول اﷲؐ نے ادا کیا‘ اب اسے ادا کرنے کے لیے امت ذمہ دار ہے۔
تیسری بات یہ سمجھنا ضروری ہے کہ رسول کی موجودگی میں جو دعوت اور اسلام و جاہلیت کے درمیان جو تہذیبی کشمکش برپا ہوتی ہے‘ اس میں رسالت کی طرف دعوت کو اولین اور فیصلہ کن مقام حاصل ہوتا ہے۔ درجے کے لحاظ سے ایمان باﷲ اسلامی زندگی کا مرکز اور روح ہے‘ اسے سب سے اعلیٰ مقام حاصل ہے‘ رسالت کا مدعا وہی ہے۔ لیکن ترتیب کے لحاظ سے ایمان بالرسالت کی حیثیت اوّلین اور فیصلہ کن ہے۔ آدمی رسول کو اﷲ کا رسولؐ مانتا ہے‘ تب ہی وہ اﷲ اور ہر دوسری چیز تک پہنچتا ہے۔ ایمان باﷲ وہی حق اور معتبر ہے جس کی تعلیم حضورؐ نے دی اور اس لیے ہے کہ آپؐ اﷲ کے سچے رسول ہیں۔ قرآن اسی لیے بلاشک و شبہ کلامِ الٰہی ہے کہ رسالتِ محمدیؐ ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ حلال و حرام‘ واجبات و منہیات اور عذاب و ثواب کے لیے کوئی عقلی یا تجربی دلیل‘ سند ناطق نہیں سوائے حکمِ نبویؐ کے۔ پھر عمل کے لحاظ سے تو ایمان و اتباعِ رسالت عین اطاعتِ الٰہی اور قربِ الٰہی کے مترادف ہے۔ مَنْ یُّطِیْعَ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ اور قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ اُسی مقامِ رسالت کی شہادت ہیں۔
چوتھی بات یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج کی ضرورت یہ ہے کہ دعوت و جہاد میں رسالت کی طرف دعوت کو یہی مقام حاصل ہو۔ اس کے بغیر اﷲ کا اقرار بھی کوئی معنی نہیں رکھتا‘ کجا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق جیسی سماجی اَقدار پر اتفاق و اقرار۔ ورنہ یہودی توحیدِ الٰہی کا عقیدہ رکھتے تھے‘ عیسائیوں کو موحد ہونے کا دعویٰ تھا اور ان کی عبادات و اخلاقی فضائل کی تعریف خود قران نے فرمائی ہے۔ مگر وہ مغضوب اور ضال ٹھہرے کہ ایمان بالرسالت سے انکاری تھے۔
پانچویں بات یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایمان بالرسالت اس معنی میں بھی فیصلہ کن ہے کہ اﷲ کی طرف سے نصرت‘ نجات اور غلبے کا وعدہ‘ رسولوں سے اور ان لوگوں سے ہے جو رسول مبعوث پر حقیقی معنوں میں ایمان لائیں‘ تن من دھن سے اس کے پیچھے چلیں اور اس کے اعوان و انصار بنیں‘ وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ۔ اِنَّھُمْ لَھُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ۔ وَ اِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغَالِبُوْنَ (الصافات:۱۷۱‘۱۷۲‘۱۷۳)
چھٹی بات یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ازل سے جو معرکہ چراغِ مصطفویؐ اور شرارِ بو لہبی کے درمیان برپا ہے اور جو آج اسلام اور مغرب کے درمیان تہذیبی جنگ کی صورت اختیار کر رہا ہے‘ وہ دراصل انسانوں کے دل اور زندگیاں جیتنے کا معرکہ ہے۔ دل فتح ہوں گے تو غلبۂ دین حاصل ہو گا۔ قوت سے زمین فتح ہو سکتی ہے‘ اَموال فتح ہو سکتے ہیں‘ سیاسی اقتدار پر قبضہ ہو سکتا ہے‘ زندگیاں فتح نہیں ہو سکتیں‘ دلوں پر قبضہ نہیں ہو سکتا۔ دلیل سے موافقت اور حمایت حاصل ہو سکتی ہے‘ یکسوئی‘ لگن اور جاں بازی اور سرفروشی نہیں۔ دل جیتنے کا راستہ صرف ایک ہے۔ لوگ رسالتِ محمدیؐ کی صداقت پر ایمان لے آئیں‘ آپؐ کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ دے دیں‘ اپنے دل آپؐ کی محبت سے بھر لیں‘ آپؐ کے آستانے پر سر رکھ دیں‘ آپؐ کی اِطاعت و محبت اور آپ پر اعتماد و یقین سے سرشار ہو کر آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑیں۔ پہلے بھی لوگ اور دل اسی طرح فتح ہوئے تھے‘ تہذیبی جنگ اسی طرح جیتی گئی تھی‘ آج بھی اسی طرح فتح ہوں گے اور اسی طرح جنگ جیتی جا سکے گی۔
اس بات کو سمجھنا بڑا اہم ہے۔ یقینا ہمیں اسلام کی حقانیت اور برتری ثابت کرنا چاہیے‘ ہمیں بتانا چاہیے کہ سودی معیشت انسان کے لیے کتنی تباہ کن ہے‘ اسلام کے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی و خاندانی نظام میں کیا محاسن ہیں‘ اسلام کی خوبیاں کیا ہیں۔ لیکن ہمیں یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان سب کاموں کی حیثیت زمین کو نرم و ہموار اور فضا کو سازگار بنانے کی ہے۔ لوگ یہ سب کچھ مان بھی لیں‘ لیکن محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت پر ایمان نہ لائیں تو تہذیبی جنگ میں کامیابی کی راہ ہموار نہ ہو گی۔ کتنے لوگ ہیں جو اسلام کی تعریفیں کرتے ہیں‘ اس کے آرٹ اور فنِ تعمیر کی داد دیتے ہیں‘ اس کی روحانیت اور تصوف کے ثنا خواں ہیں‘ لیکن وہ محمد رسول اﷲؐ کو اﷲ کا رسول مان کر آپؐ کی اتباع کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے وہ رسالت کے مشن کے اعوان و انصار نہیں بن سکتے۔
اسی طرح اگر ہم یہ ثابت بھی کر دیں۔۔۔ اور ہمیں یہ ثابت ضرور کرنا چاہیے لیکن اس مشق کے محدود نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے۔۔۔ کہ اسلام میں بھی جمہوریت ہے‘ اسلام دوسروں سے بڑھ کر حقوقِ انسانی کی ضمانت دیتا ہے‘ اسلام نے عورتوں کو وہ مقام دیا ہے جو آج تک مغرب نے بھی نہیں دیا ہے‘ اسلامی حدود ظالمانہ نہیں بلکہ منصفانہ اور زیادہ رحم دلانہ ہیں تو اس سے بھی دلوں کے جیتنے کے امکانات روشن نہ ہوں گے۔ اس کے لیے عقلی اتفاق سے زیادہ رسولؐ پر اعتماد و محبت درکار ہے۔
چنانچہ ہمارے کرنے کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ ہم دعوت الی الرسالت کو اپنے ایجنڈے پر سرفہرست مقام دیں۔ ہمارا مطلب یہ نہیں کہ ہم بے ڈھنگے طریقے سے‘ جا و بے جا‘ یہ کہنا اور لکھنا شروع کر دیں کہ حضورؐ سچے رسول تھے‘ حضورؐ پر ایمان لائو‘ یا کفر کے فتوے جاری کرنے شروع کر دیں۔ نہیں‘ بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ:
اول: ہم ہر ممکن طریقے سے‘ تحریر و تقریر سے‘ جدید ذرائع اِبلاغ سے‘ لوگوں کو آپؐ کی شخصیت کے بے مثال حسن‘ آپؐ کے خلقِ عظیم کے بے نظیر جمال‘ آپؐ کی رحمت و رافت و شفقت اور انسانیت کے عدیم المثال کردار سے آگاہ کریں‘ بار بار کریں‘ بکثرت کریں‘ نئے نئے اسلوب سے کریں‘ خصوصاً ان کے سامنے کریں اور ان کی زبانوں میں کریں‘ جو آج‘ آپؐ کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ دوست اگر آپؐ سے چمٹ کر رہ گئے تو آپؐ کی نرمی اور محبت کی وجہ سے‘ دشمن آکر اگر آپؐ کے غلام بے دام بن گئے تو آپؐ کے اخلاقِ حسنہ کی وجہ سے۔
دوم: ہم۔۔۔ وہ بھی جو داعیانِ حق ہیں اور وہ بھی جو عام مسلمان ہیں۔۔۔ اپنے برتائو‘ سلوک اور گفتگو کو جتنا حضورؐ کے اخلاق و کردار کا نمونہ بنا سکیں‘ بنائیں۔ حضورؐ کو دیکھنے کے لیے صرف کتابیں‘ تقریریں اور ویڈیو نہ ہوں‘ بلکہ ہماری زندگی میں بھی لوگوں کو کوئی نہ کوئی کرن اور جھلک آپؐ کی نظر آسکے۔ ہمارے گھر‘ ہماری پبلک سرگرمیاں‘ ہماری مساجد‘ حضورؐ کی زندگی اور پیغام کا نور پھیلائیں‘ مسجدیں نہ ماننے والوں کا اسی طرح استقبال کریں جس طرح حضورؐ نے نجران اور ثقیف کے وفود کا فرمایا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے‘ جب ہماری حالت‘ کسی بھی درجے میں‘ اقبال کے اس شعر کے مصداق بن جائے:
نوائے او بہ ہر دل سازگار است
کہ در ہر سینہ قاشے از دل اوست
ترجمہ: اس کی آواز ہر دل کے لیے سازگار ہے۔ ہر سینے میں اس کے دل کا ایک ٹکڑا ہے۔
سوم: پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہم حضورؐ کو پیش کرنے کا ایسا سلوب وضع کریں کہ‘ بغیر مناظرہ بازی کے‘ دشمنوں نے آپ کے خلاف جو کچھ کہا ہے‘ اس کا اِزالہ ہو جائے۔ بات کرنے والا اچھی طرح جانتا ہو کہ فساد کی جڑ کیا ہے اور کسی بحث و نزاع کے بغیر وہ حضورؐ کو اس طرح متعارف کرائے کہ اس فساد کی جڑ خود بخود کٹ جائے۔
چہارم: حضورؐ کے دین اور پیغام کو عمل کا جامہ پہنانے کی جدوجہد تو بہرحال اصل کام ہے۔
امام مسلم‘ حضرت ابو ہرہؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے‘ اس امت میں سے جو میرے بارے میں ’’سنے‘‘ یہودی ہو یا عیسائی‘ پھر وہ جو میں لایا ہوں اس پر ایمان لائے بغیر مر جائے‘ وہ آگ میں جائے گا‘‘۔ نووی کہتے ہیں کہ اس امت سے مراد ’’امت دعوت‘‘ ہے‘ یعنی آپؐ کی رسالت سے لے کر قیامت تک تمام اہلِ زمین۔ لیکن امام غزالی بڑی اہم بحث اٹھاتے ہیں: ’’سُننے‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ کیا صرف کانوں سے نام سن لینا؟ نہیں‘ وہ کہتے ہیں‘ اس سے حضورؐ کی زندگی اور پیغام کے بارے میں اس طرح سننا مراد ہے جو دل و دماغ کے ماننے کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ جن پر ’’سنانے‘‘ کی ذمہ داری ہے‘ وہ زیادہ آگ کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ آج تو نہ ماننے والوں کی عظیم اکثریت نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام ہی نہیں سنا ہے‘ سنا ہے تو سرسری طور پر یا مخالفانہ۔ جن لوگوں کو کماحقہٗ سنایا گیا ہے‘ وہ براے نام ہے۔ پھر اربوں انسانوں کے ’’اپنے رسول‘‘ آخری رسول پر ایمان نہ لانے کے لیے مسؤل کون ہے؟ کیا ہم نہیں؟
جس طرح حضورؐ نے ایک ایک ملک میں اپنے ایلچی بھیجے تھے‘ آج ایک ارب مسلمان دنیا کے گوشے گوشے میں آپؐ کے ایلچی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں آپؐ کا خط ہے۔ جس کو بھی اپنی اس پوزیشن اور ذمہ داری کا احساس ہو‘ اسے تڑپ کر کھڑا ہو جانا چاہیے۔ سلیقے سے‘ حکمت سے‘ موعظۃ حسنہ سے‘ انسانوں کو حضورؐ سے قریب لانا چاہیے۔ جتنا زور ہم آپؐ کا دین پیش کرنے پر لگاتے ہیں‘ اتنا ہی اہتمام ہمیں آپؐ کی ذات‘ شخصیت‘ کردار‘ اسوۂ حسنہ اور زندگی کو پیش کرنے پر لگانا چاہیے۔ جو سراجِ منیر سے جتنا قریب آئے گا‘ اس کا دل کھلا ہو گا‘ وہ حضور کی روشنی اور حرارت میں حصہ پائے گا۔ جتنے لوگ حضورؐ کی رسالت پر ایمان لاتے جائیں گے‘ آپؐ کے آستانے سے وابستہ ہوتے جائیں گے‘ اتنا ہی تہذیبی جنگ میں حضورؐ کے پیغام کی فتح کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔
یہ ایک قرض ہے جو ہم سب پر ہے‘ اور ہم میں ہر ایک کو اسے اد اکرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
(بشکریہ: ’’ترجمان القرآن‘‘۔ جولائی ۱۹۹۶ء)
Leave a Reply