قطر اور سعودی عرب دونوں ہی دوسرے ممالک میں شورش کی حمایت کرتے آئے ہیں مگر اب یہ نکتہ واضح ہوچکا ہے کہ سعودی عرب علاقائی سطح پر قائدانہ کردار ہر حال میں برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر سعودی عرب نے قطر کے خلاف محاذ اس لیے کھولا ہے کہ وہ شدت پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں سعودی عرب کی بالا دستی کا تصور کارفرما ہے۔ سعودی عرب مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا دونوں ہی خطوں میں اس تصور کو مزید مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات سمجھنا چنداں دشوار نہیں کہ سعودی حکمراں خاندان اب صرف اور صرف ایک مقصد کے حصول کے لیے سرگرداں ہے… بادشاہت کو بچایا جائے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھی انہی مسائل کا سامنا ہے جن سے دوسرے بہت سے ممالک بھی لڑ رہے ہیں۔ یعنی یہ کہ دہشت گردی اور داخلی خود مختاری کی حدود کا تعین کس طور کیا جائے۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مختلف بنیادوں پر اختلافات رہے ہیں مگر نائن الیون کے بعد سے صورت حال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ شدت پسندی بڑھتی جارہی ہے۔
عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر خطے کے حکمراں خاندانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ جمہوریت کے حق میں ابھرنے والی آوازوں کو کچلنے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پیش پیش ہیں۔ اور اس مہم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس جنگ میں اگر دونوں کامیاب ہوجائیں تب بھی ایک شدید خطرہ تو موجود ہے … یہ کہ سنی اکثریت کی جامد اور غیر لچک دار سوچ تمام امور پر حاوی ہوسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مطلق العنانیت بڑھے گی اور ملک کے لیے پنپنے اور آگے بڑھنے کی راہ مسدود تر ہوتی جائے گی۔ یہ سب کچھ جمہوریت کے شدید منافی ہوگا۔
’’سیاسی اسلام‘‘ عدم استحکام کا باعث؟
شدید رجعت پسندی کے حوالے سے سعودی عرب اور قطر کے حکمراں خاندانوں کی سوچ میں غیر معمولی فرق پایا جاتا ہے۔ ایک معاملے میں یہ دونوں البتہ ایک پیج پر ہیں۔ ان کی نظر میں ایسا کوئی بھی مکتب فکر قابل قبول نہیں جس میں مذہب کو سیاست میں لانے کی گنجائش ہو یا سیاست میں مذہب سے کوئی کردار ادا کروایا جائے۔ دونوں ہی ممالک چاہتے ہیں کہ مذہب کا کوئی سیاسی کردار نہ ہو۔ دونوں ہی ممالک مذہبی عناصر کو سیاست میں ملوث اور فعال دیکھنے کے خواہش مند نہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے قطر کے خلاف جو محاذ کھڑا کیا ہے وہ اب اس خطے تک محدود نہیں رہا بلکہ اسلامی دنیا کے دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا سے ہٹ کر بھی اس کے اثرات محسوس کیے جارہے ہیں۔
اب ایک بڑا مخمصہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور اس کے حلیف اگر قطر کے خلاف اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو بھی گئے تو سعودی عرب میں شدید رجعت پسندی اور بنیاد پرستی مزید مستحکم ہوگی۔ اور اسلام کی اِس تعبیر کو باہر کی دنیا پر تھوپنے کی کوشش بھی تیز ہو جائے گی۔ قطر کے خلاف کامیابی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بنیادی حقوق غصب کرنے کے سلسلے کو دراز کرنے کا باعث بنے گی۔ خادم حرمین شریفین ہونے کے منفرد اعزاز کا سعودی حکمراں خاندان ناجائز فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔
سعودی عرب اور قطر دونوں ہی شاہی خانوادوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ ایک طرف سعودی عرب میں وہاب ازم اپنی انتہائی شکل میں موجود ہے اور دوسری طرف قطر میں ایک ایسا خاندان حکمرانی کر رہا ہے جو جمہوریت پر برائے نام بھی یقین نہیں رکھتا۔ وہ اظہار رائے اور سیاسی سرگرمیوں کی آزادی دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ میڈیا پر بھی پہرے بٹھائے گئے ہیں۔ اس بات کا دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا کہ قطری حکمراں خاندان کھلے معاشرے کے قیام کی اجازت دے گا۔
بہت سے اختلافات کے باوجود متعدد معاملات میں سعودی عرب اور قطر کے حکمراں خاندان ایک دوسرے کا پرتو ہیں۔ دونوں اپنی بقاء کے لیے ایک اسلامی نقطۂ نظر کے حامل ہیں اور اس سے ہٹ کر کچھ بھی سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ خاص طور اسلام کی سیاسی تعبیر و تشریح ان کے نزدیک کسی طور قابل قبول نہیں۔
’’سیاسی اسلام‘‘ … استحکام کا ذریعہ؟
قطر دراصل سعودی عرب اور ایران کے درمیان پس گیا ہے، پھنس گیا ہے۔ ۲۰۱۱ء میں عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی جسے سعودی عرب اور قطر دونوں کے حکمراں خاندانوں نے اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ سعودی عرب یہ برداشت کرنے کے لیے کسی بھی طور تیار نہیں کہ اس کے ہاں جمہوریت کے حوالے سے سوچ پروان چڑھے مگر خیر، قطر نے عوامی بیداری کی لہر کو اپنے لیے بہت بڑا خطرہ تصور نہیں کیا۔
یہ بات اب سعودی عرب میں محسوس کی جارہی ہے کہ شدید رجعت پسندی کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے اور اپنی بات منوانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ سعودی حکمراں خاندان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حالات کی نزاکت اور علاقائی و عالمی معاملات کو قبول کرنے کے لیے کسی بھی طور تیار نہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ تمام مخالفین اور مخالف نظریات و رجحانات کو کچل کر، مسل کر کسی نہ کسی طور حکومت کرتا رہے۔ سعودی حکمراں خاندان اب تک اسی سوچ کا حامل ہے کہ ریاست کا ہر شخص حکمرانوں کا مکمل مطیع و فرماں بردار رہے اور ان کے آگے سر تسلیم خم کرتا رہے۔
غیر سیاسی شورش پسند؟
مدینہ یونیورسٹی کے سابق شیخ الحدیث شیخ ربی الہادی عمیر المدخلی ان لوگوں کے قائد ہیں جو اس نظریے کے حامل ہیں کہ سیاست میں مذہب کا اور مذہب میں سیاست کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ وہ سیاسی طور پر سرگرم سلافیوں اور غیر سلافیوں کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ سعودی حکمراں خاندانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ شیخ المدخلی اور ان کے پیروکار خود کو ایک غلط سرزمین میں بالکل صحیح پیغام پہنچانے والا سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام اگر درست ترین شکل میں کہیں موجود ہے تو وہ سعودی عرب ہے یعنی مغرب اور دیگر خطوں کی ہوا نہیں لگی۔
سعودی پالیسیوں سے انحراف
کئی مسلم ممالک واضح طور پر سعودی عرب کے زیر اثر ہیں۔ پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا، بنگلادیش وغیرہ میں اجتماعی سوچ کو مکمل طور پر قبول کرنے کا رجحان دم توڑتا جارہا ہے۔ شدید رجعت پسندی ان معاشروں میں نہایت خاموشی سے پنپ رہی ہے۔ سعودی عرب کے زیر اثر ممالک میں ایران کے خلاف خصوصی اور شیعوں کے خلاف عمومی طور پر جذبات پروان چڑھتے رہے ہیں۔
لیبیا … کیس اسٹڈی؟
لیبیا میں کئی عسکریت پسند گروہ پروان چڑھتے رہے ہیں۔ متوازی حکومتیں بھی کام کر رہی ہیں۔ خاص طور پر داعش کو تیزی سے ابھرنے کا موقع ملا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ سعودی عرب کی پراکسی وار ہے۔ خطے کے طاقتور ممالک کی باہمی لڑائی لیبیا کی سرزمین پر لڑی جارہی ہے۔ خلیجی ریاستوں کے اختلافات لیبیا میں کھل کر سامنے آئے۔ جنرل ہفتار جدوجہد کی علامت بن کر ابھرے مگر پھر انہوں نے سعودی عرب کے اشاروں پر کام کیا تو معاملات بگڑگئے۔ جنرل ہفتار نے شیخ المدخلی کے حکم پر صوفی ازم کے مخالفین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور مزارات کی تباہی کا سلسلہ شروع کیا۔ یوں صوفی ازم کے ماننے والوں کو مشرقی لیبیا تک محدود رکھنے میں جنرل ہفتار اور اس کے زیر نگیں کام کرنے والوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔
قطر کے خلاف جانے میں متحدہ عرب امارات اور مصر اگرچہ سعودی عرب کے ساتھ ہیں مگر انہیں بھی شدید رجعت پسندی سے بہت ڈر لگتا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب اپنے نظریات سے اختلاف رکھنے والوں کو قبول کرنے کے معاملے میں انتہائی غیر لچک دار ہے۔ قطر کے خلاف جو محاذ کھولا گیا ہے اس کے حوالے سے اصل نکتہ یہ نہیں کہ کون اچھا اور کون بُرا ہے بلکہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کون ہے اور کون نہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Qatar: Did they back the “Wrong” Insurgents?”. (“theglobalist.com”. June 14,2017)
Leave a Reply