لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق الحریری کا قتل

گذشتہ پیر کو رفیق الحریری کے قتل کا واقعہ پُراسراریت کے نرغے میں ہے۔ اسرائیل نے فوراً ہی اس قتل کا الزام شام پر عائد کیا جبکہ دمشق اور تہران نے تل ابیب پر انگشت نمائی کی ہے۔ تہران کا ردِعمل بالکل واضح تھا۔ اس نے سابق وزیراعظم کے قتل کو صیہونی دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا۔ الحریری کے قتل میں جو بم استعمال ہوا ہے‘ وہ انتہائی جدید ٹیکنالوجی کا حامل تھا جس نے کار کے چارجنگ ڈیوائس کو ناکارہ بنا دیا تھا۔ ایران کے مطابق صرف صیہونی حکومت جیسا کوئی منظم گروہ ہی اتنے جدید ترین آپریشن کا اہل ہو سکتا ہے۔ اس کا مقصد لبنان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک عیرمعروف گروہ نے اس فعل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے الحریری کو قتل ان کے سعودی نواز ہونے کی وجہ سے کیا ہے۔ یہ دعویٰ بے معنی معلوم ہوتا ہے۔ سابق وزیراعظم الحریری لازمی طور سے لبنان کی آزادی و خودمختاری کے بہت بڑے حامی تھے اور وہ اپنے ملک پر شام کے اثر و رسوخ پر گرفت لگانے کے بھی حق میں تھے۔ بہرحال اس الزام میں کہیں سے کوئی معقولیت نظر نہیں آتی کہ شام ایک ایسے وقت میں سابق وزیراعظم کے قتل کا مرتکب ہو گا جبکہ اس ملک کے صدر ایمیلی لاہود اور وزیراعظم عمر کرامی یکساں طور سے دمشق نواز ہیں اور برسرِ اقتدار ہیں۔ مزید برآں مئی میں انتخابات بھی درپیش ہیں۔ اس قتل کو اس تناظر میں ضرور دیکھ اجانا چاہیے کہ شام پر کچھ دنوں سے امریکا اور اسرائیل دبائو بڑھا رہے ہیں۔ اسرائیل اور امریکا کی مایوسی اس لیے بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ شام صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے ہنوز تیار نہیں ہے۔ اسرائیل نے یہ اشارہ دیا تھا کہ وہ گولان پہاڑی کا کچھ حصہ واپس کرنے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ شام اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ شام کا موقف یہ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مسئلہ ایک بالکل الگ مسئلہ ہے اسے کسی بھی طریقے سے گولان کی پہاڑی سے مربوط نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ مقبوضہ پہاڑوں کو ہر حال میں اسرائیل کو واپس کرنا چاہیے۔ اسرائیل جس کا مطلب امریکا بھی ہے‘ شام کے خلاف اور بھی دوسری شکایتیں رکھتے ہیں۔ ان شکایتوں میں حزب اﷲ کی حمایت بھی شامل ہے جب اس نے جنوبی لبنان میں اسرائیل کی مزاحمت کی اور وہاں سے اسے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ عراق جنگ کے خاتمہ کے بعد امریکا اور اسرائیل شام کے خلاف کچھ مزید الزامات کے ساتھ سامنے آئے۔ دمشق کی حکومت کی جانب سے عراقی بعثیوں کو مبینہ پناہ دینے‘ شام سے دہشت گردوں کی عراق میں موہوم دراندازی اور عام تباہی کے اسلحوں کی تیاری جیسے الزامات شامل ہیں۔ امریکا اور اسرائیل دونوں یہ چاہتے ہیں کہ شام لبنان سے اپنی فوجیں واپس بلا لے۔ لبنان کو اگر شام کا تحفظ حاصل نہ ہو تو یہ واشنگٹن اور تل ابیب کے دبائو کو قبول کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے قبل شام نے یہ کہتے ہوئے اپنے ردِعمل کا اظہار کیا کہ ’’اس جرم کو امریکا و اسرائیل کے دبائو سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا ہے‘‘۔ امریکا کا بنیادی مقصد اسرائیلی ایجنڈا کو شام میں پروان چڑھانا ہے۔ بش انتظامیہ پہلے ہی شام پر پابندیاں عائد کیے ہوئی ہے اور ہر دوسرے روز فوجی اقدام سے متعلق نئی دھمکیاں دیتی ہے۔ شام کی حکومت نے پہلے ہی لبنان میں تعینات اپنی فوج میں تخفیف کر دی ہے۔ اس وقت لبنان میں اس کی صرف ۱۴۰۰۰ فوج ہے۔ لیکن شام یہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنی فضائی حدود کی حفاظت اور نگہداشت کے لیے وادیٔ بکہ (Bekaa) میں اپنی فوجی نگرانی کو برقرار رکھے تاکہ دمشق تک دشمن کی رسائی نہ ہو سکے۔ دنیا کو ابھی دیکھنا ہے کہ شام کس طرح اس واقعہ پر ردِعمل دکھاتا ہے تاہم الحریری کے قتل سے لبنان میں دوبارہ خانہ جنگی میں مبتلا ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ لبنان کا معاشرہ مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے تشکیل پایا ہے۔ جہاں ریاستی ڈھانچہ طاقتور ملیشیا کی نذر ہو گیا تھا۔ یہ ملک ایک بار پھر سے فرقہ ورانہ تشدد کی لپیٹ میں آسکتا ہے‘ اِلّا یہ کہ تمام لبنانی اپنے مسئلے کا باہمی حل ڈھونڈنے کا عزم کریں۔ اگر وہ اس میں ناکام ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ بیرونی قوت کو پہنچے گا جس کے نتیجے میں لبنان کی ریاست و معاشرہ ہر دو کی اساس تباہ ہو کر رہ جائے گی۔

(بشکریہ: اداریہ روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ ۱۶ فروری ۲۰۰۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*