بلوچستان گذشتہ کچھ عرصے سے سوختہ نالوں اور گرم آہ و زاریوں کی تپش سے شعلۂ جوالا کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ درحقیقت یہ اُس بے نتیجہ آتش باری کا ثمرہ ہے جو ماضی کے حکمرانوں کی جانب سے اہلِ بلوچستان کو تحفتہً پیش کی گئی۔ سینوں میں سلگتی ہوئی چنگاریاں گزرتے ہوئے وقت کی راکھ تلے سرد کی جاسکتی تھیں لیکن عیّاروں اور شاطروں نے آہستہ آہستہ ہوا دے کر انہیں پھر سے انگارہ بنا دیا ہے۔
بلوچستان‘ ملکِ پاکستان کا وہ بدقسمت صوبہ ہے جو سب کچھ رکھتے ہوئے بھی تہی دامن ہے‘ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہے۔ اس کی یہ شناخت فطری نہیں ہے بلکہ گذشتہ نصف قرن سے اس کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی اور غیرمنصفانہ سلوک کے نتیجے میں یہ صورتحال بن گئی ہے۔ ملک میں قائم ہونے والی وفاقی حکومتوں کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتیں بھی اس گناہ میں برابر کی شریک رہی ہیں۔
بلوچستان باعتبار مسافت پاکستان کے کل رقبے کا تقریباً ۴۳ فیصد ہے۔ تین اطراف میں یہ پنجاب‘ سندھ‘ سرحد جبکہ چوتھی طرف سے افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتا ہے۔ آخری مردم شماری میں اس کی آبادی ۶۵۱۱۳۵۸ نفوس پر مشتمل ہے‘ جن میں سے ۴۹۹۵۰۱۹ افراد دیہات میں آباد ہیں یہ تعداد شہری آبادی سے تین گنا زیادہ ہے۔
قدرت نے سرزمین بلوچستان کو بے پناہ معدنی دولت اور وسائلِ حیات سے مالا مال کیا ہے‘ جن میں زنک‘ کوئلہ‘ گندھک‘ لوہا‘ کرومائیٹ‘ تانبا اور سونا لاکھوں ٹن کی تعداد میں موجود ہے۔ اعلیٰ درجے کا سنگِ مرمر‘ گرینائیٹ‘ کرونا طویل و عمیق چٹانوں کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ قدرتی گیس اور تیل کے وسیع و عریض ذخائر اس کے علاوہ ہیں۔
قابلِ تأسف امر یہ ہے کہ ان وسائل سے استفادے کا کوئی منصفانہ اور جدید ترقی یافتہ کوئی طریق تاحال حکومتیں دریافت نہیں کر سکی ہیں بلکہ اس نوع کے جس قدر وسائل ملکی استعمال میں ہیں‘ وہ بھی مستقل نزاع کا باعث بنے ہوئے ہیں اور ان کی معقول آمدنی کا کچھ بھی اثر بلوچستان کے ماحول پر نظر نہیں آتا۔ مواصلات‘ تعلیم‘ صحت‘ زراعت اور معیشت کی پسماندگی اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ تاریخ انسانی کی کتب میں مذکور پتھر کا زمانہ دوبارہ عود کرتا نظر آتا ہے۔ یہ منظر دیکھنے کے لیے دور دراز پہاڑی دوروں‘ غاروں اور صحرائوں کا سفر کرنا ضروری نہیں بلکہ یہ بلوچستان کے کسی بھی دیہی علاقے میں جاکر دیکھا جاسکتا ہے۔
حکومتوں کے غیرعادلانہ رویے‘ غیردانشمندانہ فیصلے اور اہلکاروں کا ظلم اور بدعنوانی جہاں اس کربناک صورتحال کا باعث ہے تو وہاں پر برسوں سے مسلط سرداری نظام کا جبر اور خوفناک جکڑ بندی بھی اپنا ستم ڈھاتی رہی ہے۔ ان مخصوص حالات کی وجہ سے بلوچستان کی سیاست میں بھی تلخی اور سوزش کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ بے بسی کے ساتھ اپنا گھر لُٹتا ہوا دیکھ کر جو کیفیت ہوتی ہے‘ وہ یہاں جابجا نظر آتی ہے۔ ملکی بقا‘ یکجہتی اور قومی استحکام کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس پر تسلی بخش اور اطمینان افزا اقدامات تجویز کیے جاتے لیکن افسوسناک المیہ یہ ہے کہ ’’مقتدرہ‘‘ بالکل غیرسنجیدہ معلوم ہوتی ہے۔ نتیجتاً تخریبی عناصر‘ علیحدگی پسند اور اُن کے پشت پناہوں کو شرمناک کھیل کھیلنے کے خوب خوب مواقع مل رہے ہیں۔
صوبائی سیاست میں قوم پرست عناصر اگرچہ پونم کے پلیٹ فارم پر یک رنگی کا ترانہ گاتے ہیں لیکن تجسم جمیعا وقلوبہم شتّی کا فرمانِ الٰہی اُن پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ پہلی تقسیم تو بلوچ اور پشتون کی ہے ہی‘ اس کے بعد بھی (کوئی حد ہے اُن کے زوال کی) تقسیم در تقسیم کا ایک نہ ختم ہونے والا عمل جاری ہے۔ پشتون خواہ ملی عوامی‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ پختون قومی تحریک کاکڑ جمہوری پارٹی‘ کاکڑ اسلامی جمہوری پارٹی‘ پشتون سیاست کے کشتگانِ عشق ہیں۔ دوسری طرف بلوچ نیشنل موومنٹ کے طفلانِ نوزائیدہ اٹھکیلیاں کر رہے ہیں۔ بی این پی عوامی بی این پی مینگل‘ بی این ڈی پی‘ این پی‘ جے ڈبلیو پی بلوچ سیاست کے راہوانِ شوق ہیں۔ ان میں سے بعض جماعتوں نے اپنے اوپر سے محدود علاقائی سیاست اور قوم پرستی کا دھبہ دور کرنے کے لیے ملکی سیاست کے سمندر میں کودنے کا تجربہ کیا مگر کنویں کا مینڈک گہرے پانیوں میں پیراکی نہ کر سکا‘ موجوں نے اُسے پھر تنگ نظری کے ساحل پر لاپٹخا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کی روح علاقائی تعصب اور لسانی نفرت کے پنجرے میں بند ہے۔ پنجاب کو استعمار کہنا اور اُس سے بغض کا اظہار کرنا ان کی سیاست کا محور ہے۔ قبل ازیں وہ مارکس ازم کے روسی علمبرداروں کو نجات دہندہ کے روپ میں دیکھتے رہے اور ان کے منتظر رہے لیکن افغانستان کے کوہساروں میں اُن کی ہزیمت نے یہاں انہیں بھی دونیم کر دیا اب کچھ اور قوتیں اپنے خاص اہداف کے لیے ان کے پرانے جذبات کو گدگدا رہی ہیں۔
قوم پرستی کے زمرے میں آنے والی یہ تمام جماعتیں موجودہ آئین سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ فیڈریشن اور وفاق کے درمیان نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے۔ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی تو ۱۹۴۰ء کی قرارداد کی روشنی میں یکسر نئے آئین اور نئے عمرانی معاہدے کی بات کرتی ہے۔ البتہ باقی جماعتیں ۱۹۷۳ء کے آئین کو تسلیم کرتے ہوئے صوبوں کو مالی‘ سیاسی اور انتظامی اطمینان بخش اختیارات دینے کے لیے ضروری ترامیم کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس آئین میں شامل ’’کنکرنٹ لسٹ‘‘ اور اس میں درج اختیارات چونکہ مجوزہ طور پر دس سالوں میں صوبوں کو منتقل نہیں کیے لہٰذا اب یہ فرسودہ ہو چکی ہے اور اب اس کی صوبوں کو منتقلی بے سود ہے۔ قابلِ قبول حل صرف یہ ہے کہ مرکز‘ دفاع‘ خزانہ اور خارجہ امور کے علاوہ باقیہ تمام شعبوں کے اختیارات صوبوں کو تفویض کر دے۔
وسائل کی تقسیم کے اصول کو بھی آبادی کے بجائے رقبے کے تحت ہونا چاہیے‘ اس کے لیے آئین میں ضروری ترمیم کی جانی چاہیے۔ سول آرڈر فورسز صوبوں ہی کی ہونی چاہییں۔ تمام صوبوں کو مالیاتی اختیارات بالخصوص اپنے وسائل پر پورا تصرف حاصل ہونا چاہیے۔ بلوچستان کی گیس کو باعتبار قیمت دوسرے صوبوں کی گیس کے برابر مرکز کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کو واجب الادا ۶۰۰ ارب روپے گیس سرچارج کی مد میں فوری طور پر ادا کر دے۔
بلوچستان میں بننے والے میگا پروجیکٹس کے انتظامی اختیارات کے علاوہ ٹیکس کی مد میں ان سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی صوبائی حکومت کو ملنی چاہیے۔ اسی طرح ان منصوبوں کے لیے درکار ملازمتیں بھی صوبہ بلوچستان سے ہی پُر کی جانی چاہییں۔ علاوہ بریں ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے سمندر سے قیمتی مچھلی اور اعلیٰ قسم کا جھینگا پکڑنے کے عوض مرکزی حکومت کو سالانہ تقریباً دو سے تین ارب روپے کی آمدنی ہو رہی ہے جس میں بلوچستان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اس سلسلے میں حکومت نے بعض امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے معاہدات کر رکھے ہیں‘ ان کمپنیوں کے وسیع انتظامات بڑے بڑے ٹرالر اور شکار کے جدید وسائل بروئے کار لانے سے مچھلیوں کا سمندر سے صفایا ہو جاتا ہے جس کے باعث ماہی گیری کی مقامی صنعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے لیکن نیوی اور فشریز کے حریص افسران انہیں ممنوعہ حدود کے اندر تک شکار کی اجازت دے دیتے ہیں اسی طرح سینڈک جیسے بڑے نفع بخش منصوبہ کا صرف ایک فیصد بلوچستان کو مل رہا ہے۔
موجودہ فوجی حکومت نے چند ماہ قبل بلوچستان کے تین اضلاع کوہلو‘ ڈیرہ بگٹی اور گولار میں فوجی چھائونیاں قائم کرنے کا ایک نیا مخمصہ پیدا کر دیا ہے۔ اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے ۲۳ ستمبر ۲۰۰۳ء کو ایک متفقہ قرارداد کے ذریعہ چھائونیوں کے قیام کو مسترد کر دیا۔ حکومتی حلقے فوجی چھائونیوں کی تعمیر کی معقول اور قابلِ قبول وجوہات ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ قومی تنصیبات کی حفاظت اور امن و امان کے قیام کی جو غرض چھائونیوں کے قیام کا سبب بتلائی جاتی ہے‘ اس پر مزید کئی سوالات جواب طلب رہ جاتے ہیں۔ مثلاً پولیس‘ فرنٹیئرکور‘ بی آر پی‘ لیویز اور متعدد خفیہ ایجنسیاں آخر کیوں ناکام ہو گئیں‘ اصل مرض کی جڑ کہاں ہے‘ کس کس کی ملی بھگت سے امن تباہ ہوا‘ قومی تنصیبات پر حملے کا اصل داعیہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سول اور ملٹری بیورو کریسی اور سرداروں‘ نوابوں کی کردفر اسی قسم کے ماحول سے قائم ہے جسے اب پرویز مشرف کمال ’’معصومیت‘‘ سے بلیک میلنگ کہہ رہے ہیں۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
جنرل صاحب اپنے ’’خادمانِ شاہی‘‘ سے اتنا تو پوچھ لیں کہ اس بلیک میلنگ کا طریقہ انہیں کس نے سکھلایا ہے؟
سطورِ بالا میں مذکور مطالبات فی الجملہ اس نوع کے ہیں‘ ان پر نہ صرف بلوچ و پشتون قوم پرست جماعتوں کا اتفاق ہے بلکہ قومی دھارے کی دیگر بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی ان سے کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے۔ ۳ نومبر ۲۰۰۴ء کو سینیٹر مشاہد حسین کی سربراہی میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کی ذیلی پارلیمانی کمیٹی کی کوئٹہ آمد کے موقع پر مختلف صوبائی جماعتوں نے کمیٹی کو جو چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیے‘ اُن میں بہت ساری ایسی اشیا بھی موجود ہیں‘ جن پر وسیع حلقوں میں اتفاق نہیں پایا جاتا بلکہ یہ اُن جماعتوں کی مخصوص سیاسی ذہنیت کی عکاس ہیں۔ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی نے جو یادداشت کمیٹی کو پیش کی اس میں کسی جگہ بھی لفظ ’’بلوچستان‘‘ استعمال نہیں کیا بلکہ زبانی طور پر اس نام کے حوالے سے اپنے موقف اور تحفظات کا بھی بڑی شدت کے ساتھ ذکر کیا۔ صوبہ کا بطور علاقائی نام بلوچستان انہوں نے مجبوراً ہی قبول کیا ہے کہ اس میں پشتون آبادی کا ذکر نہیں سمو سکتا۔ بلوچستان کی جگہ انہوں نے ’’جنوبی پشتون خواہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے حتیٰ کہ ان کے غالب اعداد و شمار اور مطالبات بھی صرف پشتون بیلٹ سے متعلق ہیں۔
اسی طرح چار جماعتی بلوچ اتحاد و یکجہتی جس میں نواب اکبر بگٹی‘ سردار عطاء اﷲ مینگل‘ ڈاکٹر عبدالحئی اور نواب خیر بخش مری کی پارٹیاں شامل ہیں۔ یہ اتحاد ابھی حال ہی میں وجود میں آیا ہے۔ انہوں نے کمیٹی کو جو یاداشتیں پیش کی ہیں‘ اُن میں بھی متعدد ایسے مطالبات شامل ہیں جن کی تشریح میں سخت نزاع موجود ہے۔ وہ گوادر میں بالخصوص اور بلوچستان میں بالعموم غیرعلاقائی افراد کو بالکل غیرملکی کی حیثیت دینے کے خواہشمند ہیں۔ وہ بلوچستان میں بھی عرب امارات کے قانون کی طرح مقامی ’’عرب‘‘ اور غیرملکیوں کے درمیان ۴۹۔۵۱ فیصد کی پارٹنر شپ کا اصول لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ گوادر سمیت بلوچستان بھر میں آباد کاری کے باعث چونکہ آبادی کے اقلیت میں تبدیل ہو جانے کا خدشہ ہے لہٰذا آباد کاروں کے بارے میں انہیں ایسی قانون سازی کی اجازت دی جائے‘ جس کے نتیجے میں آباد کاروں کو مقامی سیاسی حقوق سے ایک مدت تک مستثنیٰ رکھا جائے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان حضرات کے بہت سے مطالبات خود مقامی آبادیوں میں عملاً پذیرائی حاصل نہیں کر سکے۔ یہ پارٹیاں گوادر اور پوری ساحلی پٹی پر زمینوں کی خرید و فروخت پر پابندی کے خواہاں ہیں۔ لیکن علاقے کے زمین مالکان بطبیبِ خاطر اپنی زمینیں باہر سے آنے والے زمین کے تجاروں کو فروخت کر رہے ہیں اور کوئی پابندی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنے نوجوانوں اور اپنی پوری قوم میں اہلیت پیدا کرنے کے بجائے تیز رفتار ترقی کو روکنے یا اس سے اپنا حصہ پانے میں کیونکر کامیابی ہو سکتی ہے؟
حال ہی میں منظر عام پر آنے والی بلوچ لبریشن آرمی اور اس کی جارحانہ کارروائیوں سے یہ لوگ اگرچہ اپنی بے تعلقی کا اظہار کرتے ہیں لیکن ایسا کرنے والوں بلکہ ان کے والدین کو خراجِ تحسین بھی پیش کرتے ہیں۔ اس بات کا تذکرہ بھی جابجا کرتے ہیں کہ حقوق نہ ملے تو ملکی استحکام کی ضمانت نہیں دی جاسکتی (صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں)۔ ایک طرف تو یہ تشویشناک منظرنامہ ہے تو دوسری طرف پارلیمانی کمیٹی کے ذمہ داران کا غیرسنجیدہ پن‘ حکمرانوں کا خالص فوجی انداز‘ حقائق سے نظریں چرانا اور عدل و انصاف کے تقاضوں سے فرار‘ آئین کو پامال کر کے اپنی من پسند خواہشات کا اظہار مستقبل قریب میں کیا غضب ڈھائے گا‘ اہلِ بصیرت سے مخفی نہیں۔ اس پس منظر میں علاقائی سیاست کے اندر تہذیبی اور عسکری نفوذ بڑھانے کے لیے امریکی قیادت میں خونخوار بھیڑیوں کا ٹولہ چہار اطراف سے خطہ کی ناکہ بندی کرنے کے لیے بڑھا چلا آرہا ہے‘ ہر ایک کو گل کھلانے کا موقع مل رہا ہے۔
اس نوعیت کی حقیقتوں کا ادراک نہ کرنے کے نتیجے میں دنیا میں کئی ایک المیوں نے جنم لیا ہے۔ خود پاکستان ایسی ہی غفلت کی سزا بھگت چکا ہے۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جائز حدود میں رہتے ہوئے عدل و انصاف کے مطابق حقوق‘ وسائل‘ اختیارات کی تقسیم کو باہم گفتگو کے ذریعہ زیرِ بحث لایا جائے اور کچھ نہ سہی‘ کم از کم خطرات و خدشات کا دروازہ تو اس طرح بند کیا جاسکتا ہے۔
***
Leave a Reply