جبکہ عالمی توجہات کا نقطہ ارتکاز اب بھی دہشت گردی ہے امریکا واضح طور سے افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کی کامیاب تکمیل پر تکیہ کئے ہوئے ہے جسے ۱۸ ستمبر کو منعقد ہونا ہے۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے ۲۹۔۲۸ اگست کو افغانستان کا دو روزہ دورہ کیا۔ ۳۰ سالوں میں ہندوستان کے کسی سربراہ مملکت کا یہ پہلا دورہ تھا۔ بہرحال افغانستان کی صورت اب بھی مستحکم نہیں ہے۔ ۲۰۰۵ء کے آغاز سے ہی امریکی سپاہیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ القاعدہ کی قیادت ہنوز پاکستان افغان سرحد سے متصل پہاڑوں میں روپوش ہے قبائلی علاقوں میں ۷ ہزار سے زائد افواج کی تعیناتی کے باوجود پاکستان پر یہ وقتاً فوقتاً الزما عائد کیا جاتا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف بہت موثر کارروائی نہیں کررہا ہے۔ پاک افغان تعلقات کے نشیب و فراز کی تاریخ گیارہ ستمبر کے بعد کا مرحلہ عظیم کھیل (Gereat Game) کے نئے روپ سے مزید الجھ گیاہے ۔واضح رہے کہ انیسویں اور بیسیویں صدی میں اس عظیم کھیل نے ہی عظیم طاقتوں کو ایشیا کے قلب پر کنٹرول کی خاطر باہم الجھا دیا تھا ۔ ۲۰۰۱ء کے وائل ہی میں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ امریکا طالبان حکومت کے خلاف بہرصورت اقدام کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ لیکن گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کے پیش نظر اسے ایک زبرست جواز ملا اور پاکستان نے بھی اپنے آپ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کے لئے مجبور پایا۔ طالبان کو چھوڑ کر پاکستان نے پختونوں میں اپنی حمایت کھودی جبکہ تاجک ‘ ازبک سے ان کے تعلقات پہلے ہی بگڑ چکے تھے اور یہ تینوں گروہ شمالی اتحاد میں شامل تھے اور اب امریکا کے حلیف تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جوابی حملے کا فوری ردعمل یہ ہوا کہ پاکستان کابل میں غیر مقبول ہوگئے خاص طور سے بیورو کریسی میں جو کہ بیشتر شمالی اتحاد سے ماخوذ تھی جغرافیہ اور تاریخ کے تقاضوں کو زیادہ دنوں تک نظرانداز نہیں کیا جاسکتا نیز پاکستان کی راہداری کے ناگزیرکردار کو چون کہ زمینی طورپر مربوط افغانستان کے لئے ضروری ہے۔ نیز پاکستان دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کی اولین بین الاقوامی اآماجگاہ رہا ہے اس لئے بھی پاکستان کے حوالے سے ایک مفاہمت کی فضاء ہے۔ پھر افغانستان کی تعمیر نو کے لئے پاکستان کی جانب سے بون کانفرنس کی حمایت جس میں مالی امداد بھی شامل تھی پاک افغان تعلقات میں مزید بہتری کا موجب ہوئی۔ صدر کرزئی صدر پرویز مشرف کی حکومت سے اپنے تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اس لئے کہ پاکستانی حکومت کے بیش قیمت تعاون سے ہی القاعدہ کے باقیات کا صفایا ہوسکا جن میں بعض نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لے رکھی تھی۔ چنانچہ پاکستان کو اپنی مغربی سرحد پر بڑی تعداد میں فوج تعینات کرنا پڑی اس کے باوجود کہ پاکستان کے مشرقی بارڈر پر بھارتی فوج کی ایک بھاری تعداد موجود تھی۔ کابل میں اقوام متحدہ کی حمایت کردہ حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان نے نہ صرف یہ کہ کابل کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم کیا بلکہ اس کے اہداف و مقاصد جو بون معاہدہ میں طے پائے تھے کے حصول میں اپنا بھرپور تعاون دیا۔ کرزئی حکومت نے جو بھی اقدامات کئے ان میں پاکستان کی اسے حمایت حاصل رہی خواہ وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا معاملہ رہا ہو یا امن و امان کی بحالی کا ہویا انفرااسٹرکچر کے بہتر بنانے کے اقدام ہوں۔ یقیناً امریکا ان تمام اقدامات میں شریک رہا کیونکہ بش انتظامیہ ایک ایسے افغانستان کی خواہاں تھی جہاں ترقی اور جمہوریت کی وہ نمائش کرسکے تاکہ ایران میں اپنی پالیسیوں کی مسلسل ناکامی کی جانب سے لوگوں کی توجہ ہٹاسکے ۔اصلاً شمالی اتحاد پر تکیہ کرکے اور طالبان حکومت کے خاتمے کا تہیہ کرکے جن کے پاکستانی قبائلیوں کے ساتھ لسانی ہم آہنگی کی بناء پر گہرے روابط تھے امریکانے پرویز مشرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت ہی مضبوط تعاون کا مطالبہ کیا۔ میں یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کا تعاون انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کا دائرہ خود پاکستان کی سرحدوں میں پھیل گیا۔ پاکستان سے مطلوب کردار میں یہ بات شامل تھی کہ وہ قبائلی علاقوں میں ان عناصر کے خلاف کارروائی کرے جن کے مشرقی اور جنوبی افغانستان کی پختون آبادی کے ساتھ گہرے تعلقات اور رابطے ہیں اور جہاں سے طالبان کو امداد پہنچتی ہے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں جو ہلاکتیں ہوئیں اس میں بیشتر لوگ پختون تھے جن کا تعلق طالبان ملیشیا سے تھا لہٰذا افغانستان میں اس وقت جو مزاحمت باقی ہے وہ پختونوں کی اپنے قاتلوں کے خلاف انتقامی روایت سے عبارت ہے۔ قبائلی علاقوں میں آپریشن کرکے پاکستانی فوج نے القاعدہ کی جنگجوئوں کی ایک قابل ذکر تعداد کو قتل کیا یا گرفتار کرلیا ان جنگجوئوں کو مقامی قبائل نے پناہ دے رکھی تھی جن کی روایت یہ رہی ہے کہ اسے زیرامان لوگوں کا ہرحال میں دفاع اور تحفظ کریں۔ آسان سرحدوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان سے پاکستانی سرحد میں لوگ گھس آتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو اپنے ان علاقوں میں بھی فوج لگانا پڑی جہاں اصولاً فوج تعینات نہیں کی جانی چاہئے تھی اس لئے کہ برطانوی دور میں ہی طے پائے ایک معاہدے کے تحت قبائلی علاقوں میں فوج اندر جانے کی مجاز نہیں ہے۔ اس حقیقت سے معاملہ اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
دہشت گرد نہ صرف یہ کہ اچھی طرح مسلح ہیں بلکہ انہیں پرپیچ پہاڑی راستوں کا بھی فائدہ ملتا ہے جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کرنے کا معاملہ اور بھی مشکل اور خطرناک ہوجاتا ہے۔ چونکہ بعض دہشت گرد پھر افغانستان کی سرحدوں میں داخل ہوجاتے ہیں اسی وجہ سے افغان حکمرانوں اور حتیٰ کہ بعض امریکی شخصیات (مثلاً سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد جو کہ افغان نژاد امریکی ہیں) کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کی سرزمین میں پناہ لینے والے افغان جنگجوئوں سے موثر طور پر نمٹنے میں پاکستان کی دلچسپی کم رہی ہے۔ ۱۸ ستمبر کو ہونے والے انتخابات کے پیش نظر پاکستان نے افغانستان سے متصل سرحد پر موجود اپنی افواج کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ کردیا یعنی صوبہ سرحد کے بارڈر پر ۵۰۰۰ کا اضافہ کیا اور بلوچستان کی سرحد پر ساڑھے چار ہزار نفری بڑھادی۔ اس اضافے سے افغانستان سے متصل سرحد پر پاکستانی افواج کی کل تعدا د ۸۰ ہزار ہوگئی ہے یہ تعداد International Security Assistance Force (ISAF) کی مجموعی تعداد سے کہیں زیادہ ہے جو اس وقت نیٹو‘ امریکا اورافغان سیکورٹی فورسز پر مشتمل ہے۔ یہ افواج اس لئے تعینات کی گئی ہیں کہ ۱۸ ستمبر کے انتخابات میں پختون جنگجوئوں اور القاعدہ کے بچے کچھے عناصر کی مداخلت کو روکا جاسکے۔ ریاستی سطح پر تعطقات کا جہاں تک معاملہ ہے تو پاکستان نے کابل کی حکومت کی مستقل حمایت کی ہے یہ حمایت ملک میں ایک جمہوری حکومت کی بحالی کے حوالے سے بھی رہی ہے اور افغانستان کی تعمیر نو کے حوالے سے بھی رہی ہے جو کہ ربع صدی کی جنگ اور انتشار کے نتیجے میں بالکل تباہ ہوچکا تھا پاکستان نے ۲۰۰۲ء میں جو اپنی جانب سے امدا کا وعدہ کیا تھا اس کو دگنا کرکے امداد کے لئے ۲ کروڑ ڈالر کی رقم مختص کردی اس نے انسانی ہمدردی کے شعبے میں بھی بڑھ چڑھ کر امداد فراہم کی مثلاً اسپتالوں کی تعمیر نو کا کام کیا‘ ایمبولینسز بطور عطیہ دیں اور دیگر آلات بھی مہیا کئے۔ افغانستان کے تئیں پاکستان کی پالیسی کے جو بنیادی عوامل ہیں۔ ان میں ایک افغانستان کی آزادی کا احترام ہے اور دوسرا اس کی قومی تعمیر کے اہداف ہیں اس کی مدد کرنا ہے جن میں ایک جمہوری حکومت کا قیام اور زبوں حال معیشت کا سدھار ہے ایسی حالت میں کہ لاکھوں شہری دربدر ہیں اور لاکھوں پناہ گزین ہیں۔ افغانستان کے قومی دن کے موقع پر صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان نے جو پیغامات ارسال کئے ان میں انہوں نے اپنے ہمسایہ ملک کو درپیش مسائل کے حل میں مدد دینے کے حوالے سے اپنے عزم کو دہرایاہے۔ دوستی کی برقراری کے لئے دونوں کے مابین اعلیٰ سطحی وفود کے ذریع مستقل رابطے کا سلسلہ ہے۔ سب سے تازہ ترین دورہ ٔکابل وزیراعظم پاکستان شوکت عزیز کا ہے جو معاشی روابط کے استحکام کے پیش نظر کیا گیا تھا۔ براہ افغانستان وسطی ایشیا سے پاکستان‘ ہندوستان اور دیگر ممالک تک پائپ لائن بچھائے جانے کا منصوبہ اور زمینی طور پر مربوط وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان ‘پاکستان کے رستے بحر ہند تک رسائی کے منصوبے کو عملی شکل دینے کی کوشش ہورہی ہے ۔ لہٰذا افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں مزید بہتری کے امکانات بہت روشن ہیں‘ اب بھی پاکستان میں ۳۰ لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین موجود ہیں جنہیں اس وقت تک پاکستان کی جانب سے امداد ملتی رہیں گی تاآنکہ وہ اپنے وطن لوٹ جائیں۔ ان میں سے بہت سارے لوگ پاکستانی معیشت سے مربوط ہوگئے ہیں اور پاکستانی معیشت کو اچھا فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ یہ تعلقات دوستانہ رہیں گے بلکہ دونوں کے فائدے میںیہ تعلقات برادرانہ رہیں گے اور اس کی وجہ سے پورے خطے میں امن و استحکام کے قیام میں مدد ملے گی۔ جسے نیا کھیل کہا جارہا ہے اس میں پاکستان کا کردار بہت نمایاں ہے چنانچہ افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لئے تین ممالک ہندوستان ایران اور چین اس کے علاوہ بڑی طاقتوں کے مابین واضح مسابقت کا لوگ مشاہدہ کریں گے ۔افغانستان کامحلِ و قوع اور مغرب اور وسط ایشیا کے تیل پیدا کرنے والے خطوں سے اس کی قربت یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ ملک توانائی کے ذخائر کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے محاذ آرائی کا مرکز ہوسکتا ہے۔ پاکستان کا جغرافیہ اور اس کی تاریخ اس معاملے میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتی ہے ۔اسے بین الملکی تعلقات اور بنیادی اصولوں اور افغانستان کی حالیہ سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سوچا سمجھا کھیل کھیلنا چاہئے۔ بہرحال امن اور ترقی کی خواہش کا یہ تقاضہ ہے کہ باہمی تعلقات کی بنیاد اعتماد نیز دو طرفہ اور کثیر طرفہ تعاون پر استوار ہو۔
مضمون نگار ایک سابق سفیر ہیں
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ کراچی۔ ۱۵ ستمبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply