اِس شمارے سے ہم آپ کی خدمت میں ایک تازہ اور معرکۃ الآرا کتاب کا اردو ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ یہ کتاب قسط وار ’’معارف فیچر‘‘ میں شائع کی جائے گی۔ بعد میں ہو سکا تو مکمل کتاب کی صورت بھی دے دی جائے گی۔
ترک محقق اور دانشور صادق البیراک نے ترکی زبان میں Türkiye’de Din Kavgasi کے نام سے ایک مختصر سی کتاب لکھی ہے، جس میں انہوں نے ’’ترک عثمانی خلافت‘‘ کو ’’ترک سیکولر جمہوریہ‘‘ میں تبدیل کرنے کے مراحل پر اپنی تحقیق اور اپنا تجزیہ بیان کیا ہے۔ ترکی میں جابسنے والے بزرگ پاکستانی اسکالر جناب محمد خان کیانی نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور “Religious Struggle in Turkey” کے نام سے استنبول سے شائع کیا ہے۔ محترم محمد خان کیانی نے کمالِ شفقت سے اپنی یہ کاوش مجھے خصوصی طور پر بھیجی ہے، جس کے لیے میں اُن کا شکرگزار اور اُن کی درازیٔ عمر کے لیے دعاگو ہوں۔ کتاب کی اہمیت، ضرورت اور افادیت کے پیشِ نظر اس کا اردو ترجمہ قسط وار آپ کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ امید ہے آپ یہ سلسلہ دلچسپ بھی پائیں گے، چشم کشا بھی اور مفید بھی۔
ترکی کی ’’لادین کاری‘‘ (Secularization) اور ’’دینی نس بندی‘‘ کی تقریباً ہوبہو نقل اب پاکستان میں روبہ عمل ہے۔ شاید تُرک تاریخ کے اِس بھیانک مرحلے (اسلامیت سے لادینیت تک کی قلب ماہیت) کا مطالعہ ہماری قوم کے بعض اہم اور مؤثر عناصر کی آنکھیں کھول دینے اور حرکت میں آنے کا ذریعہ بن جائے، قبل اس کے کہ پانی سر سے بہت اونچا ہو جائے اور پاکستان بھی ’’اسلامی‘‘ کے بجائے ’’سیکولر‘‘ مملکت بن جائے۔ (سید شاہد ہاشمی۔ مدیر ’’معارف فیچر‘‘)
پچاس سال سے زائد مدت سے اس ملک (ترکی) کے نام نہاد دانشوروں نے ملک کے تمام مسائل اور الجھنوں کو سمجھے اور ان کا تجزیہ کیے بغیر، انہیں اسلام کے کھاتے میں ڈال رکھا ہے۔ آئین میں دی گئی ضمانتوں کا لحاظ کیے بغیر، اسلام اور مسلمانوںکو تنقید اور طنز کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ جن سرکاری محکموں کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کی حفاظت کریں انہوں نے بھی اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کرنے اور اسلام کا تحرک ختم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ مقصود صرف یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں دینی جذبہ سرد اور غیرفعال کردیا جائے۔ اس نکتے پر بہت زور دیا جاتا رہا ہے کہ ملک کے تمام سیاسی اور معاشرتی مسائل کا حل صرف سیکولر ازم کو کھلے دل سے اور مکمل طور پر اپنانے میں مضمر ہے اور یہ کہ قومی سیاست سے مذہب کو الگ تھلگ اور دور رکھا جائے۔ یہ بات بھی کھل کر کہی جاتی رہی ہے کہ نصابِ تعلیم میں مذہبی تعلیمات کی شمولیت سے ملک اور معاشرے کو خطرہ لاحق ہے۔
ترک معاشرے کو درپیش مسائل کی نوعیت اور اصلیت کو سمجھنے اور ثقافتی افلاس و جہالت کے بہتر ادراک کے لیے ہمیں ۱۸۳۹ء میں گلھین پارک (Gulhane Park) کی متعارف کرائی ہوئی ’’اصلاحات‘‘ کا جائزہ لینا ہوگا۔ اِن اصلاحات کے ذریعے مغربی خیالات اور ثقافت کا رخ ترک معاشرے کی طرف کردیا گیا، جس سے اسلام کے لیے خطرہ پیدا ہوا۔ انگریزوں کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے خلافت اور اسلامی اُمّہ کا تصور ناپید ہو جائے گا اور ’’کاسموپولیٹن اوٹومن ازم‘‘ (Cosmopolitan Ottomanism) کا زمانہ آئے گا۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ترکوں نے تین برہائے اعظم پر اپنا تصرف قائم کیا تھا، مگر مغربی تصورات کا سامنا کرنا ان کے لیے ممکن نہ رہا۔ اور یوں سلطنتِ عثمانیہ کی حدود میں آباد غیرمسلم اقلیتوں کو غیرمتناسب طور پر اُبھرنے اور سیاسی امور میں اپنی بات زیادہ مستحکم انداز سے کہنے کا راستہ مل گیا۔ غیرمسلم بہت خوش تھے کہ یورپ کے دباؤ پر، رشید پاشا کے دور میں مسلمانوں کی حق تلفی کرکے، اُنہیں زیادہ حقوق دیے گئے ہیں۔ یورپی طاقتوں نے صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا، جس کے نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ کی حدود میں آباد عیسائی اور یہودی ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ (State within State) کی حیثیت اختیار کرتے گئے۔
عیسائیوں نے سفارتی ذرائع اور طاقت کے ڈھکے چھپے استعمال سے وہ سب کچھ حاصل کرلیا جو ان کے اجداد صلیبی جنگوں کے زمانے میں برہنہ طاقت کے استعمال سے حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اقلیتوں کو جس قدر سہولتیں اور مراعات ملتی گئیں، ان پر دباؤ اُتنا ہی کم ہوتا گیا۔ اُنہوں نے سلطنتِ عثمانیہ کو درپیش مسائل کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ معاشی اور فوجی امداد کی ہر پیشکش کے عوض یورپی طاقتیں سلطنتِ عثمانیہ میں بسنے والے عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات یقینی بنانے میں کامیاب ہوتی گئیں۔ کرائمیا کی جنگ (Crimean War) کے بعد ۱۸؍ فروری ۱۸۵۶ء کو ختی ہمایوں (Hatt-i-Humayun) نے جو فرمان جاری کیا، اس نے سلطنتِ عثمانیہ کے غیرمسلموں کو مسلمانوں کے برابر لا کھڑا کیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اِس فرمان نے اقلیتوں کو امتیازی طور پر اکثریت سے زیادہ مراعات بخش دیں۔ فرمان کے چند نکات پر ایک نظر ڈالیے۔
٭ مذہب یا نظریے کی بنیاد پر سلطنتِ عثمانیہ کے شہریوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔
٭ کسی کو مذہبی عقائد، زبان یا نسل کی بنیاد پر علیحدہ یا برتر حیثیت رکھنے کا اختیار حاصل نہیں ہوگا۔
٭ اقلیتوں سے متعلق قانونی امور آرتھوڈوکس پیٹریارک کی روحانی کونسل یا ایسی ہی کوئی دوسری اتھارٹی نمٹائے گی۔
٭ کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھنے والے شخص کو سول سروس سے وابستہ ہونے کا اختیار حاصل ہوگا۔
٭ سلطنتِ عثمانیہ کے ہر شہری کو فوجی اور سویلین اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
٭ عیسائی چاہیں تو فوجی خدمات انجام نہ دینے کے عوض ٹیکس (جزیہ) ادا کرسکتے ہیں۔
تمام شقوں کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوگا کہ اِس فرمان کا بنیادی مقصد سلطنتِ عثمانیہ میں اقلیتوں کو ہر طرح کی مکمل آزادی فراہم کرنا تھا۔ اِس سے مسلمانوں کے ذہن الجھ گئے اور ان میں اشتعال پیدا ہوا۔ دوسری طرف اقلیتیں بہت خوش تھیں۔ اُن کے حوصلے اِس قدر بڑھ گئے کہ اُنہوں نے حکومتی مشینری کی پروا کیے بغیر اسلام پر تنقید اور اس کی اہانت شروع کردی۔
سلطنتِ عثمانیہ کے دم توڑتے ہوئے جسم پر فرانس، اٹلی اور روس گِدھوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ ترکی میں تعلیمی ادارے قائم کرنے کے حوالے سے اِن بڑی طاقتوں کے درمیان مسابقت شروع ہوئی۔ اِن میں سے ہر ملک کا یہ خیال تھا کہ اگر ترکوں کی نئی نسل کو تعلیم کے ذریعے ہم نوا بنالیا جائے تو سلطنتِ عثمانیہ کی بساط مکمل طور پر لپیٹنا اور اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا بے حد آسان ہو جائے گا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اصلاحات کے نام پر کیے جانے والے اقدامات کے مضمرات پر سلطنتِ عثمانیہ میں کسی نے بھی غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ جبکہ بیرونی قوتوں کو صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ان نام نہاد ’’اصلاحات‘‘ کا مقصد کیا ہے اور اُن کا رُخ کِس طرف ہے۔ آسٹریا کے وزیراعظم شہزادہ میٹرنچ نے اصلاحات کے محرکین (جو خود تُرک تھے) کے نام ایک خط میں لکھا ’’یورپی ممالک کے قوانین مت اپنائیے کیونکہ عین ممکن ہے وہ آپ کے حکومتی نظام اور ثقافتی ماحول سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ آپ کا قانونی نظام اُن اصولوں پر منحصر ہے جو یورپ کے ماحول سے خاصے مختلف ہیں۔ یورپی قوانین بہت حد تک عیسائیت کی تعلیمات سے متعلق اُصولوں پر مبنی ہیں۔ آپ چونکہ ترک ہیں اور ترک ہی رہیں گے۔ اس لیے اسلامی شریعت پر مبنی قوانین بنائیں۔ آپ اسلامی شریعت کو قوانین کی بنیاد بناکر اقلیتوں کو کنٹرول میں لیں اور اسلامی شریعت میں طے کردہ رواداری سے کام لیتے ہوئے اُنہیں تحفظ فراہم کریں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو اپنی سلطنت کی حدود میں عیسائی اقلیت کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ہم چاہیں گے کہ سلطنتِ عثمانیہ اپنے ثقافتی تناظر میں قوانین مرتب کرے اور ان پر پوری دیانت سے عمل کرائے۔ مغرب کا قانونی نظام، اپنائے جانے کے قابل نہیں۔ مغربی قوانین کی نقالی اور مشرقی اقدار و روایات کو نظر انداز کرنا اِس اہم مرحلے پر اسلامی ریاست کے لیے شدید نقصان دہ ہوگا۔ ہم ایسا کچھ بھی کرنے کا مشورہ نہیں دیں گے‘‘۔
جس عظیم سلطنت نے تین بر ہائے اعظم پر اپنا تسلط قائم کیا، وہ اب اس حد تک گرچکی تھی کہ ایک یورپی ملک (آسٹریا) کو بتانا پڑا کہ اسلامی اقدار پر عمل کس طور کرنا ہے اور ان کا تحفظ کس طرح یقینی بنانا ہے! یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ آسٹریا کے حکمران نے ترک عثمانیوں کو اسلامی اقدار اپنانے کا مشورہ دے کر اپنے ہم مذہب اور ہم علاقہ لوگوں میں ساکھ کو کس حد تک داؤ پر لگایا ہوگا۔ یہ دور وہ تھا جب اسلامی اقدار اور ثقافت پر یورپی تصورات غلبہ پا رہے تھے اور غیر بھی اس بنیادی تبدیلی کو شدت سے محسوس کرنے لگے تھے۔ ایک اجنبی نے لکھا ہے: ’’جب تک ترک عثمانی یورپ کے بینکروں اور ساہوکاروں کے اثرات سے دور رہے، تب تک ان کی ہر بات قابل اعتبار رہی‘‘۔
عثمانی خلیفہ عبدالعزیز کے بعد جب سلطان عبد الحمید ثانی نے خلافت سنبھالی تو یورپی ثقافت و اقدار کے اثرات زائل کرنے کے لیے پارلیمان کو غیرمعینہ مدت تک معطل رکھنے کا حکم جاری کیا۔ پارلیمان کے ارکان کی تعداد ۱۱۷ ؍تھی۔ ان میں ۴۸ غیرمسلم تھے اور اسلام کے بارے میں ان کا رویہ واضح طور پر معاندانہ تھا۔ یہ لوگ یورپی طاقتوں کے آلہ ہائے کار تھے۔ دیگر ۶۹؍ارکان میں ۴۷ ترک، ۸؍البانوی اور ۱۴؍عرب اور دُروز تھے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسی پارلیمنٹ اسلام کی کیا خدمت کرتی۔ سلطان عبدالحمید ثانی نے پارلیمنٹ معطل کرنے کا فیصلہ کرکے غیرمعمولی دانش مندی کا ثبوت دیا۔ مگر جو لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے انہیں آج نصابی کتب میں ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے۔
سلطان کے اسلام دوست اقدامات کے خلاف کام کرنے والے نیمک کمال (Namik Kemal) ، ضیاء گوکلپ، مدحت پاشا، شِناسی، علی علوی، آغا آفندی اور دیگر بہت سے لوگوں کو یورپی طاقتوں کی بھرپور تائید اور امداد حاصل تھی۔ یہ گروپ خلافتِ عثمانیہ کو اندرونی طور پر کھوکھلا کر رہا تھا جب کہ یورپی طاقتیں اسے باہر سے ختم کرنے کے درپے تھیں۔ خلافتِ عثمانیہ یورپی طاقتوں کی توسیع پسندی کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ تھی، بالخصوص افریقا و ایشیا کے مشترکہ خطے میں۔ ترکی کو کمزور کرنے والے اس گروپ کو ان نام نہاد نومسلموں (دونمے) کی حمایت بھی حاصل تھی جنہوں نے یہودیت بظاہر تَرک کر دی تھی۔ یہ سب مل کر یورپ کے ’’مردِ بیمار‘‘ کو مزید بیمار کرتے رہے۔ ہزار مشکلات کے باوجود سلطان عبدالحمید ثانی نے خلافتِ عثمانیہ کو تیس سال زندہ رکھا۔ نوجوان ترک اور یورپ کے لوگ ان سے شدید نفرت کرتے تھے اور اس نفرت کا اظہار اب تک کیا جاتا ہے۔
اگر اس دور کے تمام معاملات اور اقدامات سے متعلق دستاویزات کبھی سامنے آ جائیں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ تب کے ترک نوجوان یورپ کی استعماری قوتوں کے گماشتوں سے زیادہ کچھ نہ تھے۔ اس امر کے بھی بے شمار شواہد موجود ہیں کہ یورپ نے مسلم دنیا میں جو قتل عام کیا، وہ دراصل صلیبی جنگوں ہی کا تسلسل تھا۔ حلیل سیدیس پاشا نے اپنی کتاب ’’اوٹومن وار : ۱۸۷۵ء تا ۱۸۷۸ء‘‘ میں لکھا ہے کہ روس کے زار نے رومانیہ کے شاہ چارلس اول کو ایک ٹیلی گرام بھیجا جو جرمن زبان میں تھا۔ ٹیلی گرام میں لکھا تھا کہ ترک ہم پر حملہ کر رہے ہیں۔ جیسے بھی بن پڑے، دریائے ڈنیوب عبور کرکے ہماری مدد کو پہنچو کیونکہ عیسائیت خطرے میں ہے!
یورپی طاقتیں خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرکے صلیبی جنگوں میں شرمناک شکست کا بدلہ لینا چاہتی تھیں۔ انہوں نے جن لوگوں کو اپنے تعلیمی اداروں میں تیار کیا تھا وہ ترکی میں اشرافیہ کا حصہ تھے۔ ان کے ذریعے اپنے کاز کو آگے بڑھانا، یورپ کے لیے زیادہ مشکل نہ تھا۔ جو کام یورپ کے لوگ خود نہیں کرسکتے تھے، وہ نوجوان ترکوں کے ذریعے کرایا جارہا تھا۔ ’’اصلاحات‘‘ کے نام پر بنیادی تبدیلیوں کے لیے زمین تیار کی گئی۔ ۳۱ مارچ ۱۹۰۹ء کو یورپی سازش رنگ لے آئی۔ سلطان عبدالحمید ثانی کو مجبور کیا گیا کہ وہ خلافت چھوڑ دیں۔ ساتھ ہی اعلان کیا گیا کہ ترک، یہودی، آرمینیائی اور یونانی آج سُرخ رُو ہوئے! پروپیگنڈا مشینری نوجوان ترکوں کے ہاتھ میں دے دی گئی۔ آج تک یہی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔
ترک مسلمان، اقلیتوں کے اس قدر زیر اثر آچکے تھے کہ جو وفد سلطان عبدالحمید ثانی کو برطرفی کے بارے میں بتانے گیا تھا، اس کی سربراہی بھی ایمانویل کوراسو (Emanuel Korasu) نام کا یہودی کر رہا تھا۔ یورپ کے قائم کردہ اسکولوں میں تعلیم اور تربیت پانے والے ترک نوجوانوں نے وہی کچھ کیا جو انہیں کرنے کو کہا گیا تھا۔ انہیں بیورو کریسی میں اہم عہدوں پر فائز کیا گیا تاکہ اہم ترین فیصلے یورپ کے مفاد میں ہوں۔ یورپ کی برتری کو نفسیاتی طور پر قبول کرنے والے یہ لوگ خلافتِ عثمانیہ کی حدود میں یورپ کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔ سرکاری مشینری پر یونین اینڈ پروگریس کمیٹی کے ارکان نے تصرف قائم کرلیا۔ اس دور کے ایک شاعر توفیق فکرت نے لکھا ’’دنیا میں ایسے بگڑے ہوئے لوگ بھی ہیں جو اپنے ہاتھوں سے بُت بناتے ہیں، ان کی پوجا کرتے ہیں اور ان کی خدمت گزاری میں لگے رہتے ہیں‘‘۔
مگر خیر، یہی توفیق فکرت تھا جس نے ایک شعر میں قرآن کی توہین کی اور اسے (نعوذ باللہ) فرسودہ کتاب قرار دیا! توفیق فکرت فرانسیسی سوچ سے بہت متاثر تھا اور اس کا خیال تھا کہ قرآن کی تعلیمات اپنا تاثر کھوچکی ہیں اور جدید دور میں ان کی کوئی اہمیت اور ضرورت نہیں رہی۔ وہ استنبول میں قائم فری میسن تحریک کی نرسری سمجھے جانے والے ادارے گیلادا سارے لیسی (Galatasoray Lycee) کا ڈائریکٹر تھا۔ عبداللہ جیودت، جلال نوری، توفیق اور حسین جاہد اس کے دوست تھے۔ یہ سب ترکی میں یورپی روشن خیالی اور مادّہ پرستی کے مبلغ تھے۔ انہوں نے یورپی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے اور عام ترکوں کے ذہن میں ٹھونسنے کے لیے اسلامی تعلیمات کو مسخ کیا۔ انہوں نے ہیگل اور بوچینن کے تصورات اور نظریات کو ترکی میں متعارف کرایا۔ کلیچ زادے حقی (Kihczade Hakki) اور جلال نوری بعد میں پارلیمان اور ۱۹۲۴ء کا آئین تیار کرنے والی کمیٹی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ توفیق فکرت اور عبداللہ جیودت ری پبلکن نظریات کے لوگ تھے۔ انہوں نے ترکوں میں نیا ولولہ پیدا کرنے کے لیے تجویز کیا کہ اطالوی اور جرمن باشندوں میں زیادہ سے زیادہ شادیاں کی جائیں تاکہ ان کا خون ہمارے خون میں شامل ہو۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور کے ترک نوجوان ذہنی طور پر کس حد تک کمزور اور قلّاش تھے۔ بد قسمتی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ترک اشرافیہ کے سیکولر عناصر میں آج بھی یہی سوچ برقرار ہے۔ یورپی طرزِ تعلیم سے متاثر ہونے والے ترکوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ یورپ کے لوگ برتر تھے اور ترک (خواتین) ان کے لیے لائیو اسٹاک ہیں۔
پہلی جنگِ عظیم کے دوران خلافتِ عثمانیہ کے جاں نثار بیٹوں نے اپنی زمین کی حفاظت کے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔ اس دوران یورپ کی برتری کے علم بردار ایک کونے میں بیٹھ رہے۔ جو لوگ خلافتِ عثمانیہ کے تحفظ کے لیے میدان میں نکلے تھے، وہ کمزور ہونے کے باوجود بلند حوصلے کے مالک تھے۔ انہیں یقین تھا کہ یہ کمزوری کا دور گزر جائے گا اور اسلامی اصول ایک بار پھر دنیا پر اپنی برتری ثابت کریں گے۔ حلیم پاشا نے لکھا ہے: ’’آج اسلام بظاہر معاشی قوت اور تنظیم کھو چکا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ اس کے آفاقی اصول ایک دن اپنا آپ منوانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ یورپی ممالک نے بھی حقیقی کامیابی اسی وقت حاصل کی جب انہوں نے چند اسلامی تعلیمات کو اپنایا۔ اسلام کی بنیاد توحید پر ہے۔ یورپ میں توحید نہیں ہے۔ اس لیے ہم یورپ کی کامیابی کو اسلامی قرار نہیں دے سکتے‘‘۔
پہلی جنگِ عظیم کے دوران ترک فوج نے اپنی سرزمین کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اُمّتِ مسلمہ کے لیے رول ماڈل کا کردار بھی ادا کیا۔ پندرہ لاکھ نفوس پر مشتمل ترک فوج کو کوئی بھی ہلکا نہیں لے سکتا تھا۔ سبھی اسلام کے لیے جان نثار کرنے کے جذبے سے سرشار تھے۔ انہوں نے اسلام کا پرچم بلند رکھنے کے لیے سبھی کچھ داؤ پر لگا دیا۔ وہ دنیا کے طلب گار نہ تھے اور دُنیوی زندگی کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو ہرگز تیار نہ تھے۔ اسلامی تعلیمات کی نوعیت ایسی تھی ہی نہیں کہ کوئی اِس دنیا کے لیے سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو۔ سلطان سلیم سوم نے ایک بار افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’آپ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ اسلام کی سر بلندی کے لیے ہے۔ آپ کو یاد رکھنا ہے کہ آپ کی کارکردگی اسلام کے لیے ہے۔ اگر میرا بیٹا بھی ریاست کے لیے فرائض سے غفلت برتے گا تو میں اس کا سر قلم کردوں گا‘‘۔
خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے لیے اسلام کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات پر ایمان اور عمل تَرک کرنے کے نتیجے میں خرابیاں پیدا ہوئیں اور بالآخر خلافتِ عثمانیہ کا وجود ہی داؤ پر لگ گیا۔ مسلمانوں پر جو بھی مصائب نازل ہوئے ہیں وہ اسلام کے باعث نہیں، بلکہ اسلام کو تَرک کرنے کا نتیجہ ہیں۔ اسلام کے مخالفین نے جو پروپیگنڈا پوری شدت سے جاری رکھا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کو مسلمانوں کے انحطاط اور زوال کا سبب سمجھ لیا گیا ہے۔ کوئی بھی غیرجانبدار مورخ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ مغربی تہذیب کی مجموعی ترقی میں اسلامی تہذیب نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔
خلافتِ عثمانیہ کے وارث اس تصور کے ساتھ لڑتے رہے کہ شاید وہ خلافت کا زرّیں دور واپس لانے میں کامیاب ہو جائیں۔ مگر اس مقصد میں انہیں کامیابی نصیب نہ ہوسکی۔ جنگ ختم ہوئی تو اناطولیہ سیکولر خطے میں تبدیل ہوگیا اور جو لوگ سیکولرازم کے لیے سرگرم رہے تھے، انہوں نے اب خود کو بے نقاب کردیا۔ ثابت ہوگیا کہ یہ لوگ در اصل سیکولر ازم اور مادّہ پرستی کے لیے لڑ رہے تھے۔ انہوں نے صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کی اور ریاست کو چلانے والے تمام اداروں پر اپنا تصرف قائم کرلیا۔ انہوں نے مغرب سے مستعار لیے ہوئے تصورات کی روشنی میں نئی ریاست کی تشکیل کی۔ جب تک جنگ چل رہی تھی، یہ لوگ خاموش تھے اور بظاہر خلافتِ عثمانیہ کے حق میں کام کر رہے تھے۔ مگر جب جنگ ختم ہوئی تو انہوں نے اپنے ایجنڈے پر عمل شروع کردیا۔ پھر جس مسلمان نے بھی ان کی راہ میں دیوار بننے کی کوشش کی، اسے راستے سے ہٹانے میں عافیت محسوس کی گئی۔ اس معاملے میں کسی بھی طریقے کو اختیار کرنے اور کسی بھی حد کو پار کرنے سے گریز نہیں کیا گیا۔
’’ترک جمہوریہ‘‘ کی پہلی پارلیمان نے ۲۳؍ اپریل ۱۹۲۰ء کو پہلے وزیر مذہبی امور کا تقرر کیا۔ ۳ مارچ ۱۹۲۳ء کو مذہبی امور کی وزارت ہی ختم کردی گئی۔ اسکولوں کے نصاب سے مذہبی تعلیمات ختم کردی گئیں اور مذہبی تعلیم کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ مسلمانوں کے دلوں کی طمانیت کے لیے صرف یہ بات رہ گئی تھی کہ آئین کے تحت ’’ترک جمہوریہ‘‘ کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔
ذرا یاد کیجیے کہ لوزاں کانفرنس سے قبل فرانسیسی وزیراعظم مونسیو پوئنکے سے ملاقات کے بعد عصمت اِنونو نے کس قدر پراعتماد لہجے میں لندن کے جریدے ’’مسلم اسٹینڈرڈ‘‘ کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ’’جو لوگ خلافت کے خاتمے کا خواب دیکھ رہے ہیں، انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جن کے دلوں میں خلافت کے حوالے سے خدشات ہیں انہیں بتائیے کہ اس کے تحفظ کے لیے سب کچھ قربان کرنے والے موجود ہیں اور وہ جیتے جی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ اور صرف ایک سال بعد بعد مارچ ۱۹۲۴ء میں خلافت کا باضابطہ خاتمہ ہی نہیں ہوگیا، بلکہ اس سے وابستہ افراد کو ’’جمہوریہ ترکی‘‘ سے نکال بھی دیا گیا۔ جن لوگوں نے مادرِ وطن یعنی ترکی کو اس کی تاریخ، اقدار اور اصولوں سے محروم کردیا، وہ مغرب کی طاقت کے اصل مآخذ کو نہیں جانتے تھے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ برطانوی معاشرہ انتہائی قدامت پسند ہے اور ڈیڑھ صدی کے دوران برائے نام بھی تبدیل نہیں ہوا۔ برطانوی سیاست، قدامت پسند رہی ہے اور اسے ایسا ہی رکھنے پر بہت محنت کی گئی ہے۔ برطانوی آئین سے متعلق امور کے ایک ماہر نے بی بی سی پر گفتگو میں کہا تھا ’’برطانوی سیاست ایڈمنڈ برک اور ڈیوڈ ہیوم کے نظریات پر قائم ہے جو فرانسیسی انقلاب کے سخت مخالف تھے۔ برطانوی معاشی نظام ایڈم اسمتھ کے نظریات کے تابع ہے۔ بادشاہت، جمہوریت، کلیسا، نجی ملکیت، سرمایہ کاری اور سماجی سلسلۂ مراتب نے مل کر برطانوی سیاسی و معاشی نظام ترتیب دیا ہے۔ برطانوی باشندے اپنی روایات کا احترام کرتے ہیں اور اپنے اداروں کو ہر حال میں مضبوط دیکھنا اور رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ ہر وقت اپنے ماضی اور اجداد کو برا بھلا کہتے اور اپنی درخشاں روایات کو استہزا کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہماری معاشرتی، معاشی اور مذہبی زندگی رفتہ رفتہ زوال سے دوچار ہوتی گئی ہے۔
۱۷ ؍فروری ۱۹۲۶ء کو ترک پارلیمنٹ نے ایک ایسے سول کوڈ کی منظوری دی جو سوئس کوڈ کا لفظ بہ لفظ چربہ تھا۔ اس سول کوڈ (نظامِ قانون و تعزیرات) کو اپنانے سے شریعت کو تُرک مسلمانوں کی زندگی میں فیصلہ کن حیثیت حاصل نہ رہی۔ شادی، طلاق اور وراثت جیسے امور میں یہ نیا سول کوڈ ہی قانون بن گیا۔ کرمنل پینل کوڈ کے آرٹیکل ۱۶۳ کے تحت اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل پیرا رہنا اور باقاعدگی سے عبادت کرنا، جرم ٹھہرا۔ اس آرٹیکل کے تحت نماز اور دیگر عبادات کے پابند مسلمانوں کو سزا دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس کالے قانون کے تحت ہر وہ شخص دو تا پانچ سال کی سزا کا مستحق ٹھہرا جو لوگوں کو سیکولر ازم سے دور لے جانے والی تعلیمات دیتا ہو یا ایسے ادارے قائم کرنے کا محرک بنتا ہو جن سے معاشرے میں سیکولر ازم کے سوا کسی نظریے کی بنیاد مضبوط ہوتی ہو۔ اسلامی تعلیمات کی تبلیغ تحریری طور پر کرنے کی صورت میں ڈیڑھ گنا سزا دی جاسکتی تھی۔ اسلامی لٹریچر شائع کرنے والے ہر شخص پر مقدمہ چلاکر سزا سنائی جاسکتی تھی۔ اگر سیکولر ازم کے لیے نقصان زیادہ نہ سمجھا جائے تو پھر پرنٹرز اور دیگر معاونین کو بھی چھ ماہ سے دو سال تک قید رکھا جاسکتا تھا۔
۱۹۴۹ء میں اس کالے قانون کی مزید توثیق ہوئی اور سزا بڑھادی گئی۔ ریاستی مشینری آج بھی اس قانون کو اہل ایمان کے خلاف استعمال کرتی ہے۔
۲۰؍اپریل ۱۹۲۸ء کو عصمت اِنونو نے محمود عزت بوزکُرد، نجم الدین صادق، شکرو سراچوغلو، روشن، اشرف، یونس نادی، جلال نوری، مظہر مفتی، رجب زوہدو، فالق رفیقی آتے، شکرو کایا اور دیگر ۱۲۱ ؍پارلیمانی ارکان کے ساتھ آئین میں ترمیم کی تجویز پیش کی، جس میں درج ذیل آرٹیکلز (شقوں) کو ختم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
آرٹیکل ۲ : ترکی کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔
آرٹیکل ۱۶ اور ۳۸ : صدر اور پارلیمانی ارکان اللہ کو حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھائیں گے۔ (اب یہ محسوس کیا جانے لگا کہ اللہ سے مدد مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی!)
آرٹیکل ۵۶ : صدر یہ کہتے ہوئے حلف اٹھائے گا کہ میں اللہ سے مدد مانگتا ہوں۔
آرٹیکل ۲۶ : پارلیمنٹ شرعی قوانین نافذ کرے گی۔
ان مجوزہ ترامیم کو پارلیمنٹ کے ۲۶۳ ؍ارکان نے اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔ یہ گویا اپنے عوام اور ملک سے کیے ہوئے عہد سے غداری تھی۔ پارلیمنٹ کے جن ارکان نے ان ترامیم کی منظوری دی ان میں سے بیشتر وہ تھے جنہوں نے دفاعِ ملک کے لیے ہتھیار نہیں اٹھائے تھے اور جنگ کے پورے دور میں اپنے گھروں یا شراب خانوں تک محدود رہے تھے۔ اب یہ لوگ اقتدار پر قابض ہوگئے تھے اور ان لوگوں کو نکال باہر کرنا چاہتے تھے جنہوں نے اسلام اور ملک کے لیے سب کچھ قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا تھا۔ ترکوں نے ہمیشہ اللہ پر غیرمتزلزل ایمان سے قوت پائی ہے۔ ۱۰۱۷ء میں آرمینیا میں لیک وان کے نزدیک مالاز کرد کے فیصلہ کن معرکے کے موقع پر سلطان الپ ارسلان فوج کے سامنے گھوڑے پر سے اُترا اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوکر مدد مانگی۔ اس نے بھرپور عجز و انکسار سے دعا کی۔ اس نے اللہ کے حضور عرض کیا کہ نیت صاف ہو تو فتح دی جائے اور اگر نیت میں خرابی ہے تو شکست سے دوچار کردے۔ اس کے بعد وہ سجدے سے اٹھا اور فوجیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ اب یہاں سلطان صرف اللہ ہے۔ اب ہماری قیادت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اسی کی نصرت سے ہم لڑ پائیں گے۔ جسے میرا ساتھ دینا ہے وہ ساتھ دے اور جو چھوڑ کے جانا چاہتا ہے وہ چھوڑ کر چلا جائے۔
کیا ظلم ہے کہ الپ ارسلان کے ورثا نے اپنے حلف سے اللہ کا ذکر ہی خارج کردیا ہے، اللہ سے نصرت مانگنے کو غیرضروری سمجھ لیا گیا ہے۔ ۱۹۲۸ء کے بعد سے ترکی کا ماحول سخت غیراسلامی ہوگیا۔ علما کی اتھارتی چھین لی گئی۔ سیکولر ازم کی خدمت کے لیے علما کی نئی کھیپ تیار کی گئی۔ انقرہ میں فیکلٹی آف ڈیوینیٹی (کلیہ الٰہیات) قائم کی گئی۔ اس فیکلٹی نے درج ذیل سفارشات پیش کیں۔
٭ مساجد میں کرسیاں رکھی جائیں اور لوگ جوتے پہن کر عبادت میں شریک ہوں۔
٭ تمام عبادات ترک زبان میں ہونی چاہئیں۔ خطبات کے علاوہ قرآن کی تعلیمات کا پرچار بھی ترک زبان میں کیا جائے۔
٭ مساجد میں موسیقی کے آلات رکھوائے جائیں۔
(۔۔۔جاری ہے!)
☼☼☼
Leave a Reply