عرصہ دراز سے ایک ایرانی مسلمان ہونے کے ناطے اسلام اور ایران کے تہذیبی اور ثقافتی تشخص کا تعین ہر وقت میرا مقصدِ جستجو رہا ہے اسی لیے جہاں کہیں امکان ہوتا ہے کہ مجھے میری گم شدہ منزل کا سراغ مل جائے گا میں بڑے شوق کے ساتھ وہاں بڑھتا کوئی تقریر ہوتی تو اسے سنتا اور کوئی کتاب یا مقالہ ہوتا تو مطالعہ کرتا اور حقیقی بات جو میں بتدریج سمجھا یہ تھی کہ ہماری امت و قوم اور اس کی تہذیب و تمدن پر غیروں کی بد نیتی اور ہماری سستی کے باعث بہت بڑا ظلم ہوا ہے۔
ایک طرف اغیار نے مسلمانوں کی تمام خوبیوں کو ماننے سے انکار کیا اور دوسری طرف مسلمانوں نے اپنے علمی اور ثقافتی سرمایہ کے اندراج، ریکارڈ اور منظر عام پر لانے میں غفلت کا مظاہرہ کیا اور اس کا نتیجہ اس غلط عالمی سوچ کی صورت میں نکلا کہ جو خود مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی سرایت کر گئی کہ یہ مغربی اقوام عالم خلقت میں ایک منفرد نوعیت کی حامل ہیں کہ جو غیر معمولی ذہن اور صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، جب کہ مسلمان اور دیگر اقوام ان نعمتوں سے محروم ہیں قدیم یونانی دور سے روم اور یورپی نشاۃ ثانیہ کے دور تک یہی مغربی اقوام ہمیشہ ترقی یافتہ اور موجد ہیں جب کہ مشرقی اقوام اور مسلمان ہمیشہ سے ان کے مقلد اور ان کی ایجادات کے صارف رہے ہیں۔
دو صدیوں سے لے کر اب تک اس قسم کے نظریے کا وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا ہوا کہ جس کا عملی نتیجہ یہ سامنے آیا کہ گویا ہم لوگ (علمی میدان میں ) فضول کو شش نہ کریں اور نچلے درجہ کے انسان کی حیثیت سے اسے اپنی قسمت کا لکھا ہوا سمجھ کر تمام سیاسی اور ثقافتی نتائج کے ساتھ قبول کر لیں اس طرح معلوم ہوا کہ مغربی استعمار کی شیطانی مکاری اور ہم سب کی غفلت آہستہ آہستہ لوگوں میں اس قسم کے نظریات پیدا ہونے کا باعث بنی جنہیں ثانوی صفات کا عنوان دینا چاہیے اور وہ ( نظریات) یہ ہیں کہ’’ ہم فضول کوشش نہ کر لیں‘‘ ہم اس لائق نہیں ہیں کہ علم و دانش کے بلند و بالا درجات کی تمنا کریں بلکہ ایک حد تک قانع رہیں کہ جو ازل سے ہماری قسمت میں لکھا جا چکا ہے۔
کسی بھی ذمہ دار درد دل رکھنے والے کے لیے اس سے بڑھ کر جان سوز غم نہ ہو گا کہ اس کی نظریاتی اور قومی حیثیت کو اس طرح پامال کیا جائے ٹھیک اسی زمانہ سے جب اسلامی اور مشرقی سر زمین اہل مغرب کی فوجی اور ثقافتی یلغار کا مرکز بنی اس قسم کے نظریات کی نشرو اشاعت اور لوگوں کے ذہنوں میں انھیں راسخ کرنے کا آغاز ہوا جو کہ اپنی جگہ استعماریت کا واضح نمونہ تھا تو کچھ عظیم لوگ اٹھ کھڑے ہوئے جنہوں نے اہل مشرق اور مسلمانوں کی بیداری کا نعرہ لگایا اور فرنگیوں کے متکبرانہ عزائم کے مقابلے میں اسلامی بیداری کا نقارہ بجایا۔
اسلامی بیداری کی لہریں دو سو سال سے اب تک روز بروز بلند اور وسیع تر ہو رہی ہیں عالم اسلام میں اس تاریخی تحریک کا اہم ترین کارنامہ بتدریج خود اعتمادی کے احساسات کے پلٹنے کی صورت میں سامنے آیا، آج ترقی یافتہ آڈیو، ویڈیو اور الیکٹرونک پروپیگنڈے کے باوجود اہل مغرب کا اپنی بڑائی اور برتری پر مبنی قدیم دعویٰ مسلمان اور مشرقی اقوام پر بہت کم اثر چھوڑرہا ہے اور آج فراعین زمانہ کے جادو کی قلعی کھل گئی ہے۔ لیکن ان سے بے زاری کی یہ حالت علمی کم سیاسی زیادہ ہے اور یہ اسی طرح ہے جس طرح استعمار نے سیاسی نفوذ کے بعد اقتصادی استحصال کے لیے ثقافتی و علمی غلبہ حاصل کیا (یعنی مغرب کے خلاف سیاسی بیداری ثقافتی اور علمی بیداری پر منتج ہو گی)۔
اسی لیے سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے بیداری پیدا کرنے والے صف اول کے رہنمائوں نے جو ماحول فراہم کیا ہے اس سے فائدہ اٹھانے اور ساتھ ساتھ علم و دانش میں خود اعتمادی اور استقلال کو پلٹانے کے لیے جو اسباب مہیا کرنا ضروری تھے ان ہی مقاصد تک پہنچنے کے لیے بعض شخصیات نے قابل قدر کوشش کیں، لیکن اس میدان میں اگر غور و فکر کریں تو معلوم ہوگا کہ ابھی راہ کے آغاز میں ہیں اور منزل مقصود تک پہنچے میں کافی فاصلہ پڑا ہے اگر چہ بلاشبہ حرکت کا آغاز ہو چکا ہے۔
ہم نے بھی کوشش کی کہ اپنی بساط کے مطابق قدم اٹھائیں ہمیں امید ہے کہ کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔ چار جلد کتاب پویایی فرہنگ و تمدن اسلام و ایران ‘‘ جو کہ اب تک شائع ہو چکی ہے وہ انہی اہداف کے پیش نظر ایک کوشش ہے اور یہ کتاب ’’اسلامی تہذیب و تمدن کی تاریخ‘‘ اس چار جلد کتاب کی اہم مباحث کا خلاصہ ہے کہ جو یونیورسٹیوں کی نصابی ضروریات کے مطابق مرتب کی گئی ہے۔
اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن کا سفر معین اور دقیق مراحل کا حامل ہے جو واضح اور قابل درک منطقی بنیاد پر تشکیل پایا ہے جو شاید اسی فلسفہ تاریخ کا نمونہ ہے کہ تاریخ اپنے کو دہراتی ہے اور اگر ہم اس کا گراف بنائیں تو ہمیں چند صدیوں اور چند ہزاروں میں ملتے جلتے بلکہ ایک دوسرے کے عین مطابق نکات حاصل ہوں گے ان مراحل کے اصلی عناویں یہ ہیں:
مرحلہ اول: زمانہ دعوت یا اسلامی تاریخ و تمدن کا آغاز
مرحلہ دوم: یثرب میں اسلامی حکومت کے تشکیل کا زمانہ اور تمدن اسلامی کی علامتی بنیاد کا قائم ہونا
مرحلہ سوم: جزیرۃ العرب اور اس دور کی تہذیب یافتہ دنیا میں اسلام کی وسیع پیمانے پر نشر واشاعت کا زمانہ کہ جس میں بین النہرین، ایران، روم، مصر، حبشہ، ہند، ماور االنہر، چین، شمالی آفریقا اور آخر کار جنوبی یورپ شامل ہیں۔
مرحلہ چہارم: نئی اسلامی تہذیب و تمدن کا دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے قریب ہونا اور ان سے آگاہی کی کوشش اور ان ثقافتوں کو اسلامی تہذیب میں ترجمہ، لائبریریوں اور مدراس کی تاسیس کے ذریعے منتقل کرنا اور ان کے دانشمند مفکر اذہان کو اسلام کے علمی و تعلیمی مراکز کی طرف مائل کرنا۔
مرحلہ پنجم: اسلامی تمدن کے پھلنے پھولنے کا زمانہ
مرحلہ ششم: اسلام کی عمیق ثقافت اور عرفانی ادبیات کی بہار کا زمانہ۔
مرحلہ ہفتم: آرٹ اور معماری کا زمانہ
مرحلہ ہشتم: اسلامی تمدن کے زوال کا زمانہ یا وہ زمانہ کہ جب عیسائیوں اور منگولوں نے انتہائی شقاوت اور بے رحمی سے عالم اسلام پر حملے کرتے ہوئے اسلامی کلچر میں مایوسی کی روح پھونک دی اور شہروں کی تباہ و برباد کرتے ہوئے اسلامی تمدن کی بنیادوں کو ہلا دیا۔
مرحلہ نہم: عالم اسلام کا دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے ہونا۔
مرحلہ دہم: استعمار کا حملہ اور زوال کے دوسرے دور کا آغاز یا مسلمانوں کے کلچر میں تبدیلیوں کا زمانہ یہ ایسا حملہ تھا کہ جو عالم اسلام کے حساس مراکز پر برقی جھٹکے کی مانند اثر انداز ہو ا اس یلغار کے دیگر اثرات سے قطع نظر اس سے ایسی حیاتی لہریں پیدا ہوئیں کہ جو اسلام کی جغرافیائی حدود میں مسلسل تاریخی تحریکوں کے وجود میں آنے کا باعث بنیں کہ جسے ہم اسلامی بیداری سے تعبیر کرتے ہیں اسلامی بیداری یا یہ کہ اسلام کی طرف لوٹنے کی دعوت (اس مرحلہ کے تحت چند دیگر مراحل مورد بحث ہیں)۔
مرحلہ اول: اسلامی بیداری:
یہ کہ کس زاویے سے اس واقعہ پر نگاہ ڈالیں یقینا ہمارے تجزیہ و تحلیل میں( دوسروں کی نسبت) فرق پایا جائے گا اسی لیے اہل فکر حضرات نے مسلمانوں کے اس بیدار ہونے کے واقعہ کو گونا گوں عناوین سے یاد کیا ہے ان کی نوع فہم کو مندرجہ ذیل اصطلاحات کی صورت میں معنون کیا جاسکتاہے:
اصلاح پسندی، سلفی گری، اپنی حقیقت کی طرف لوٹنا خرافات سے جنگ، جدیدیت، استعمار سے مقابلہ، اتحاد بین مسلمین… اور اسلامی بیداری۔
اسلامی بیداری کی اصطلاح کا انتخاب اور ایک اہم باب اس بحث سے مختص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ کلمہ انتہائی جامعیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر ابواب کے ساتھ بھی مناسبت رکھتا ہے ایک اور نکتہ کہ جو اس طرح نام رکھنے کی نسبت کافی اہم محسوس ہو رہا ہے وہ یہ کہ شاید سب کے لیے واضح ہو چکا ہو کہ پہلے دور یعنی منگولوں کے حملہ سے پہلے اور موجودہ دور میں اسلامی تہذیب و تمدن کے تمام گونا گوں مراحل میں یکسانیت موجود ہے گویا اسلامی تہذیب و تمدن کے سفر کے تمام پیچ و خم کو دھرا یا جا رہا ہو اور یہ صورت حال فلسفہ تاریخ کے اس مقولے کو یاد دلاتی ہے کہ تاریخ صرف واقعات اور حادثات کی تکرار کا نام ہے۔ یا یہ کہیں گے کہ وجود اسلام میں تجدید حیات اور ترقی کرنے کی استعداد اور خصوصیت قدر تاً موجود ہے اس دعویٰ پر گواہ عصر حاضر میں اسلام کی صورت حال ہے اپنے اور غیر سب تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا ہے کہ اسلام دنیا کی تمام اقوام کے لیے پر کشش ترین دین ہے اس کی ترقی کی سرعت دنیا کے دیگر مذاہب سے قابل موازنہ نہیں ہے اسی بات سے یہ نتیجہ لیا جا سکتاہے کہ یہ دین اب بھی زندہ ہے اور دیگر زندہ موجودات کی مانند اپنے اندر پاکیزگی اور تلخیص کا عمل، بوسیدہ عناصر کی اصلاح اور تعمیر کا عمل، فاسد اور مفسد مواد خارج کرنے، اجنبی موذی اور مضر عناصر کے حملہ کے مقابلے میں دفاع کرنے، ترقی اور نشو ونما کرنے اور استعداد اور صلاحیتوں کو عمل میں لانے کی قدرت رکھتا ہے۔
اسلامی بیداری کا آغاز خود اصل اسلام کی مانند لوگوں کو دعوت دینے سے شروع ہوا امیر عبدالقادر، سید جمال الدین اسد آبادی، شیخ محمد عبدہ، سید احمد خان، شیخ فضل اللہ نوری، عبد الرحمان کو اکبی، شیخ شامل، رشید رضا، علامہ اقبال لاہوری، سید حسن مدرس، حسن البناء سید قطب، ابو الاعلامہ مودودی، سید محسن امین جبل عاملی … اور آخر کا امام خیمنی سب نے لوگوں کو پلٹنے اور احیاء اسلام کی دعوت دی اور لوگوں نے اس دعوت کو قبول کیا، اسلامی اقوام سے گروہ در گروہ لوگوں نے دوبارہ اسلام کے ساتھ بیعت کی خواص کی اس دعوت اور عوام کی قبولیت کا نتیجہ تمام عالم اسلام میں دین اور دینی اقدار کو زندہ کرنے کی ایک وسیع تحریک کو جنم دینے کی صورت میں نکلا۔
عصر حاضر کی تاریخ اور موجود زمانہ کے واقعات کا تجزیہ کریں تو مکمل طور پر یہ حقیقت ہم پر آشکار ہوتی ہے کہ کوئی ایسا اسلامی ملک نہیں ہے کہ جہاں اسلامی بیداری یا اسلام کی طرف پلٹنے کی تحریک کی علامات نہ ہوں یہ حقیقت اسلامی نشاۃِ ثانیہ کی پہلے مرحلہ میں واضح کامیابی کی حکایت بیان کر رہی ہے اس مرحلہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ آج اسلامی سر زمینوں پر بھوکی نگاہیں رکھے ہوئے قدیم استعمار کے وارث’’انسانی حقوق کی حمایت‘‘ اور ’’صلح، امن اور جمہوریت کے دفاع‘‘ کی چادر اوڑھے’’ تہذیبوں کے ٹکرائو‘‘ کا راگ الا پتے ہوئے اس کی نا بودی پر کمر باندھ چکے ہیں اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اپنی تمام تر فوجی طاقت کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلے میں صف آرا ہو چکے ہیں۔
مرحلہ دوم: اسلامی حکومت کی تشکیل:
پہلی تقسیم کے مطابق زمانہ دعوت (اسلام کی طرف لوٹنا) کے بعد دوسرا مرحلہ اسلامی حکومت کی تشکیل ہے، شیعہ اور سنی دونوں مکاتب فکر میں ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے نظریاتی اور عملی میدانوں میں شدت سے کوشش شروع ہوئی اہل سنت کی دنیا میں عنوان خلافت کو مختلف دانشور حضرات نے اسلامی حکومت کی تشکیل کے لیے محور قراردیتے ہوئے لوگوں کو اسی عنوان کی طرف لوٹنے کی دعوت دی، رشید رضا جو کہ سلفی فکر کے اساسی ستونوں میںشمار ہوئے انھوں نے خلافت کے موضوع کو انتہائی مضبوط انداز میں پیش کیا اس حوالے سے ان کی عملی تجویز یہ تھی: عالم اسلام میں شہر موصل کو مرکز قرار دیتے ہوئے اور امام ہادی یعنی یمن کے زیدی امام (رشید رضا کے ہم عصر) کی خلیفۃ المسلمین کے عنوان سے بیعت کرتے ہوئے بین الاقوامی اسلامی حکومت تشکیل دی جائے۔
شیعہ دنیا میں آیت اللہ نائنی نے عصر جدید میں اسلامی حکومت کی تشکیل کو نظری شکل دی اور اسے ایک کتاب ’’تنبیہ الامۃ وتنزیہ الملۃ‘‘ کی صورت میں نشر کیا اور امام خمینی نے ولایت فقیہ کے موضوع کو پیش کرتے ہوئے آج کے دور کے تقاضوں کے عین مطابق اسلامی حکومت کے ماڈل کو سامنے لائے۔
اس مرحلہ کا دوسرا حصہ اسلامی حکومت کی تشکیل ہے شمالی نائیجریا میں عثمان دان فودیو نے انیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں اسلامی حکومت قائم کی جو ایک صدی تک قائم رہی مکتب اہل سنت میں اس کے علاوہ بھی کامیاب اورنیم کامیاب اقدام ہوئے۔ سوڈان میں اخوان المسلمین گروہ کے حسن ترابی اسلامی حکومت کی تشکیل کا نظریہ دینے والے مفکر کی حیثیت سے ابھرے اور حسن عمر البشیر کے تعاون سے جعفر نمیری کی سیکولر حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اس ملک میں شریعت کے اجرا کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اسلامی حکومت قائم کی۔ ترکی میں نجم الدین اربکان نے اسلامی حکومت کے ہدف کی خاطر قومی رفاہ پارٹی قائم کی اگرچہ اس ہدف کا صریحاً (فوجی جرنیلوں کے ڈر سے ) اعلان نہیں کیا، اس پارٹی نے بہت کوشش کرتے ہوئے اور کئی بار اپنی روش اور طریقہ کار میں تبدیلی لاتے ہوئے بالآخر میڈم تانسو چیلر کے ساتھ اتحاد قائم کر کے ایک مخلوط حکومت کو تشکیل دیا کہ اس حکومت کے واضح ترین ثمرات خواتین کا پردہ برقرار کرنا، اداروں میں نماز جماعت کا قیام اور امام و خطیب کی درس گاہوں کو وسعت دینے کی صورت میں سامنے آئے۔
الجزائر میں عباس مدنی کی قیادت میں نجات اسلامی جماعت حکومت اسلامی کی تشکیل کے اہداف کے پیش نظر قائم ہوئی اور بہت سر عت سے پھیل گئی اس طرح کہ الجزائر کے تمام شہروں کے بلدیاتی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔
عالم تشیع میں بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں آیت اللہ سید عبدالحسین لاری نے ایران کے جنوب میں ولایت فقیہ کی بنیاد پر اسلامی حکومت تشکیل دی۔
میر زا کو چک خان جنگلی کے ذریعہ حزب اتحاد اسلام کے تحت یلان کی حکومت کو بھی شاید حکومت اسلامی کی تشکیل کے حوالے سے نا مکمل نمونہ شمار کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح پاکستان میں ضیا الحق کے زمانے میں پارلیمنٹ میں شریعت بل کی منظوری کے لیے کیے گئے اقدام کے تحت پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں تبدیل کیا گیا اسے ایک اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کی گئی بعض کوششوں کی حد تک شمار کیا جا سکتاہے۔
آخر میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے قیام کو زمانہ حاضر میں اسلامی حکومت کا بہترین اور واضح ماڈل قرار دیا جا سکتا ہے۔
مرحلہ سوم: اسلام کی نشرو اشاعت:
تیسرا مرحلہ جو کہ پہلی صدی ہجری سے ہی شروع ہوا اور اس نے بہت تیزی سے پیش رفت کی اسی طرح عصر حاضر میں اسلام کی تجدید حیات کے حوالے سے بھی یہی تیز رفتار پیش رفت سامنے آئی، آخری عشروں میں امریکا یورپ اور افریقہ میں اسلام کی سرعت کے ساتھ نشرو اشاعت کو اسلام کے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق پھیلائو کا واضح ترین نمونہ شمار کیا جا سکتا ہے۔
مرحلہ چہارم: اسلامی تہذیب و تمدن کی تجدید:
مسلمانوں کی بیداری اور اٹھان کے سایہ میں اسلامی تہذیب وتمدن بھی تجدید کے مراحل سے گزر رہا ہے اسلای ثقافت کے احیاء اور تجدید سے فراعین عصر کے فریب آمیز سحر کی قلعی کھل گئی ہے آج در آمد شدہ مغربی اقدار نہ صرف اہل علم و دانش بلکہ کئی ملین مسلمان عوام کے سامنے اپنا رنگ وروپ کھو چکی ہیں اور اسلامی تہذیب کے علمبردار مغربی ثقافت کے حامی مفکرین کے سامنے مردانہ وار کھڑے ہو کر اور زرخیز اسلامی ثقافت اور اعتقادات پر تکیہ کرتے ہوئے ایک عظیم ثقافت کی تشکیل کا سبب بنے ہیں، شاہکار قیمتی تالیفات مثلاً’’ بیسویں صدی کی جہالت ‘‘ (محمد قطب)، ’’ اسلامی قلمرو میں زمانہ مستقبل ‘‘ ( سید قطب) ’’ ہمارا فلسفہ اور ہمارا اقتصاد‘‘( آیت اللہ سید محمد باقر صدر‘‘ ماذا خسر العالم بالانحطاط المسلمین ‘‘ (ابو الحسن ندوی) اصول فلسفہ و روش رئالیزم‘‘ (علامہ طبا طبائی اور آیت اللہ مطہری) یہ سب اسلامی کلچر کی تشکیل اور تجدید کے لیے عالم اسلام کے اہل علم و دانش کی نظریاتی کوششوں کے نمونے ہیں بسا اوقات بعض اسلامی اقوام کی ترقی یافتہ ٹیکنا لوجی کے حصول کے لیے کی گئی کوششیں مغربی استعمار کو وحشت میں ڈال دیتی ہیں اور یہ چیز تمدن اسلامی کے دوبارہ طلوع کی حکایت کر رہی ہے۔
تہذیب و تمدن کے اتار چڑھائو پر مشتمل تاریخی سفر کے مطالعہ سے یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ پھر وہ زمانہ زیادہ دور نہیں کہ ہم مسلمانوں اور اسلامی تہذیب و تمدن کے عروج اور عظمت کا دوبارہ مشاہدہ کریں گے انشاء اللہ۔
نوٹ: ڈاکٹر علی اکبر ولایتی (سابق وزیر خارجہ ایران) نے اسلامی تہذیب و ثقافت کے عنوان سے ۴ جلدوں پر مشتمل کتاب فارسی میں تحریر کی ہے اردو میں اس کا ترجمہ تلخیص کے ساتھ ہوا ہے جو صرف ایک جلد میں ہے اور جسے معارف اسلام پبلشرز (info@maaref-foundation.com) نے چھاپا ہے۔ زیرِ نظر مضمون اُسی کتاب کی تمہید ہے۔
{}{}{}
Leave a Reply