مشرق وسطیٰ میں قنوطیت ویاس کا دور دورہ ہے۔ کبھی کسی نے یہ شرط نہیں ہاری کہ اسرائیلی اور فلسطینی آپس لڑائی جاری رکھیں گے۔ اس طرح یہ بات بھی سچ ثابت ہوتی ہے کہ ترقی ناممکن ہے کیونکہ اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔
اس سوچ کے باوجود حالیہ چند دنوں میں امید کی ایک لہر آئی ہے جسے جھٹلانا بہت مشکل ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کونڈالیزارائس نے ایک سمجھوتے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت غزہ کی سرحدیں کھول دی جائیں گی‘ فلسطینی بلاروک ٹوک مصر میں داخل ہوسکیں گے اور وہ بسوں کے قافلوں کے ذریعے اسرائیلی علاقوں سے گزر کر مغربی کنارے کی جانب بھی جاسکیں گے۔ آئندہ ہفتے تک غزہ کی حیثیت کرہ ارض کی ایک ایسی سب سے بڑ ی جیل کی نہیں رہے گی جو ہر طرف سے بند ہو۔ تاریخ میں پہلی بار فلسطینیوں کو ایک بارڈر پر کنٹرول حاصل ہوگا۔ اس علاقے سے اسرائیلیوں کے انخلاء اور تمام یہودی بستیوں کی مسماری کے دو ماہ بعد فلسطینی اپنی اشیاء برآمد کرسکیں گے‘ وہ اس کا آغاز ٹماٹر اور کالی مرچ سے کریں گے جس کے بارے میں انہیں خدشہ تھا کہ اگر غزہ کا علاقہ بند رہا تو یہ زرعی پیداوار گل سڑجائے گی۔
یہ چیز فلسطینی معیشت کے لیے تو اچھی ہے ہی لیکن اس کی اس سے بھی زیادہ اہمیت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا مشرق وسطیٰ کی سفارتکاری کے مذاکراتی پہلو میں پوری طرح شامل ہوگیا ہے۔ کونڈالیزارائس نے اپنے شیڈول سے ایک رات زائد بیت المقدس میں قیام کیا‘ وہ ذاتی طور پر دونوں طرف کے لیڈروں کے مابین چکر لگاتی رہیں اور اپنے لیپ ٹاپ پر خود سمجھوتے ‘ کے مسودے میں تبدیلیاں کرتی رہیں۔کلنٹن انتظامیہ جو دھول پھانکتی رہی تھی‘ بش انتظامیہ کی ٹیم اس میں سے ایک صاف راستہ نکالنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ رائس دونوں طرف کے موقف میں تبدیلی لے آئی ہیں اور انہیں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ اس کی بنیاد پر مزید آگے بڑھ سکتی ہیں۔
اس سمجھوتے کی تفصیلات میں شامل بعض اہم پہلو اور بھی ہیں۔ اسرائیل کی خواہش تھی کہ غزہ مصر کراسنگ کی نگرانی وہ خود کرے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ اس راستے سے جنگجو یا اسلحہ نہیں لایا جائے گا لیکن اس کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا۔ اس کی بجائے ان پوسٹوں کی نگرانی ایک اطالوی جرنیل کی سربراہی میں یورپی یونین کی افواج کریں گی۔ یہ ایک ایسا اہم اقدام ہوگا جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اب تک اسرائیل نے سیکورٹی کے لیے اپنی فوج (یا شاید امریکیوں ) کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کیا ۔ اب اگر وہ یورپ پر اعتماد کرنے کے لیے تیار ہوگیا ہے اور یہ انتظام کامیاب بھی ہوجاتا ہے تو اس طرح کے اقدامات مستقبل میں بھی قیام امن کے لیے کیے جاسکیں گے۔
اس خطے کے لیے اس انجانی امید کی کرن کا کریڈٹ ایک ایسے شخص کو جاتا ہے جس نے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں اسرائیل کے امن کے حامی کیمپ کو متحرک کردیا۔ اس کا نام امیرپیرٹز ہے اور مراکش نژاد ٹریڈ یونین لیڈر ہیں جس نے اپنی زندگی غربت کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے وقف کر رکھی ہے ۔ گزشتہ ہفتے وہ ہر قیاس اور تخمینے کو شکست دے کر اسرائیلی لیبر پارٹی کے سربراہ بن گئے۔
لوگ پہلے ہی ملکی سیاست میں انقلاب کی باتیں کررہے ہیں۔ امن کے علمبردار یوری ایونری کے مطابق ایک نئے ’’پیرٹزٹرائیکا‘‘ نے جنم لیاہے۔(ان کی تحقیق کے مطابق عبرانی زبان کے لفظ “Peretz” کا مطلب ’’کسی مرحلے کو عبور کرنا یعنی Breakthrough ہے۔ اسرائیل کا بایاں بازو ان کی آمد کو پانچ برس قبل کیمپ ڈیوڈ امن مذاکرات کی ناکامی کے بعد ایک اچھی خبر قرار دے رہا ہے۔
اسرائیلی عوام میں اس قدر جوش و جذبہ کیوں ہے؟ سب سے پہلے مرکزی سوال یعنی فلسطینیوں کے ساتھ تصادم پر ان کے موقف کا جائزہ لیجیے۔ دو عشروں سے وہ ایک فلسطینی ریاست کی حمایت کررہے ہیں ۔ وہ ایریل شیرون کے یکطرفہ اقدامات کے خاتمے اور فلسطینیوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی بات کرتے ہیں۔ وہ اوسلو کے راستے پر دوبارہ چلنے کے بھی حق میں ہیں۔ وہ بڑی جرأت کے ساتھ اوسلو معاہدے کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ حالانکہ ۱۹۹۳ء میں جن لیڈروں نے اس معاہدے کی تشکیل میں حصہ لیا تھا انہیں عموماً ’’اوسلو کے مجرم‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
اسرائیل کی سیاست میںیہ مرحلہ لیبر پارٹی کے سابق لیڈر شمعون پیریز کے بعد آیا ہے۔ پیریز وہ معمر لیڈر ہیں جو ۱۹۵۲ء میں پیرٹز کی پیدائش سے پہلے حکمران حلقوں میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ جب پیریز ایرل شیرون کی یک طرفہ پالیسیوں کی مخالفت کرنے کے لیے لیکود پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے لیے تیار تھے تو اس وقت پیرٹز حکومت سے باہر رہنے کے حق میں تھے۔
پیرٹز کے موقف کو انتخابی اعدا دوشمار سے کہیں زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے ۔ ہفتے کے روز مقتول اسرائیلی لیڈر اسحق رابن کی دسویں برسی کے موقع پر ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پیرٹز نے ’’اخلاقی روڈ میپ‘‘ کا نعرہ بلند کیا جس کا مرکزی نقطہ وقارِ انسانی کا احترام ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ فلسطینیوں پر اسرائیل کا مسلسل تسلط خود اسرائیلیوں کے لیے اخلاقی طور پر مہنگا پڑ رہا ہے۔ اخلاقی روڈ میپ کا ہدف فلسطینیوں پر تسلط کا خاتمہ اور ایک پائیدار معاہدے پر دستخط کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا میرا خواب یہ ہے کہ ایک دن آئے گا جب فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے بچے مل کر کھیلیں گے اور اپنے مشترکہ مستقبل کی تعمیر کریں گے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسرائیلی سیاستدان اس سے پہلے بھی اسی طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں۔۲۰۰۲ء میں ایک اپ سیٹ فتح کے نتیجے میں امرم میٹزانا لیبر پارٹی کے سربراہ بن گئے تھے اور انہوں نے بھی قیام امن کے لیے بڑی پرجوش باتیں کی تھیںوہ بعد میں ایرل شیرون کے ہاتھوں شکست کھاگئے تھے۔ لیکن اس دفعہ حالات بہت ہی مختلف ہیں۔
پیرٹز کا تعلق اس سرزمین کے ساتھ ہے جسے دوسرا اسرائیل کہا جاتا ہے یعنی وہ ایک ایسا یہودی ہے جس کا تعلق مسلمانوں یا عربوں کی دنیا سے ہے۔ یہ لوگ پچاس برس بعد واپس وطن لوٹے اور دوسرے یہودیوں کے مقابلے میں بہت غریب ہیں۔ وہ ترقی پذیر شہروں اور قصبوں میں رہتے ہیں اور ان کے ساتھ یورپ سے آئے ہوئے یہودی امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں۔
لیکود پارٹی نے غریب اسرائیلیوں کی ناراضگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۱۹۷۷ء میں لیبر پارٹی کو شکست دے کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ اسرائیل میں امیر اور پڑھے لکھے یہودی لیبر پارٹی جب کہ غریب اور پسماندہ یہودی دائیں بازو کی جماعت لیکود کو ووٹ دیتے ہیں۔ پیرٹز نے اس رجحان کو ختم کردیا ہے۔ وہ خود ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ صحیح معنوں میں عوام کے لیڈر ہیں‘ انہوں نے ورکرز کے لیے سخت جدوجہد کی ہے لیکن وہ لیبر پارٹی کے سربراہ منتخب ہوگئے ہیں۔
یہ انتخاب اسرائیلی سیاست میں توڑ پھوڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس سے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کا باب جو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد بند ہوگیا تھا دوبارہ واہوجائے گا۔ وہ شیرون کی اُن پالیسیوں کا بالکل مناسب جواب ہیںجن کی وجہ سے اسرائیلی غربت کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ فلسطینیوں کے اسرائیلی رویوں کے سلسلے میں بھی شیرون کے برعکس ایک نئے رجحان کی نمائندی کرتے ہیں۔
اس طرح پیرٹز لیبر اور لیکود دونوں پارٹیوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ دفاع پر اخراجات اور فلسطینیوں پر تسلط برقرار رکھنے کے لیے بھاری رقوم خرچ ہوچکی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب زیادہ پیسہ غریب اسرائیلی بستیوں پر خرچ کیا جائے۔ ان کے نزدیک اقتصادی سیکورٹی بھی نیشنل سیکورٹی کا حصہ ہے۔
کیا وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے؟ وہ فوجی نہیں جبکہ اس ملک میں ہمیشہ جرنیلوں کی قیادت کو ترجیح دی گئی ہے۔ انہیں شیرون کا بھی سامنا ہے جس نے نہ صرف فلسطین کے مرکزی علاقوں کو نہ صرف نوآبادیوں میں تبدیل کیابلکہ طاقت کے زور پر ان پر تسلط بھی قائم رکھا۔ لیکن پیرٹز پہلے بھی کئی مشکلات کا مقابلہ کرچکے ہیں اور وہ تمام لوگ جو مشرق وسطیٰ میں امن کے خواہاں ہیں انہیں دُعا کرنی چاہیے کہ پیرٹز ایک بار پھر درپیش مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہوں۔
(ترجمہ: ملک فیض بخش ۔ بشکریہ ’’گارڈین نیوز سروس‘‘)
Leave a Reply