کورونا وائرس: چین بازی لے گیا؟
Posted on April 1, 2020 by Kurt M. Campbell, Rush Doshi in شمارہ یکم اپریل 2020 // 0 Comments

کورونا وائرس کی وبا اب ایک حقیقی عالمگیر بحران ہے۔ اس وبا یا بحران کے سیاسی اور سفارتی اثرات بھی یقیناً ہوں گے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس وقت صحتِ عامہ بنیادی مسئلہ ہے۔ دیگر تمام امور بعد میں دیکھے جائیں گے۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والے بحران نے دنیا کی قیادت کے حوالے سے امریکا کی پوزیشن خاصی کمزور کردی ہے۔ ۱۹۵۶ء میں جب نہر سوئز کا معاملہ کھڑا ہوا تھا تب امریکا نے مداخلت کی تو برطانیہ کی عالمی قائد کی حیثیت عملاً اختتام کو پہنچی۔ آج اگر امریکی پالیسی ساز نہ جاگے اور صورتِ حال کے تمام تقاضوں کو نبھاتے ہوئے موزوں پالیسیاں اختیار نہ کیں تو سمجھ لیا جائے کہ کورونا وائرس کی صورت میں امریکا کے لیے ’’سوئز مومنٹ‘‘ آچکی ہے۔
کورونا وائرس کے حوالے سے امریکی قیادت کا ابتدائی رویہ خاصا نیم دلانہ اور بدحواسی پر مبنی رہا۔ ایوانِ صدر، محکمۂ خارجہ، محکمۂ داخلی سلامتی اور سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریونشن نے جو کچھ کہا اور کیا وہ ناکافی ہی نہیں بلکہ صورتِ حال کے تقاضوں کے برعکس تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے جو پالیسی اختیار کی اس پر عوام نے ذرا بھی اعتبار نہیں کیا۔ ایوانِ صدر سے باضابطہ طور پر یا پھر علی الصبح ٹوئیٹس کے ذریعے امریکی صدر جو بیانات داغتے تھے اُن سے معاملات میں ابہام پیدا ہوا، لوگ بدحواس ہوئے۔ سرکاری اور نجی ادارے ناکامی سے دوچار ہوئے، جس سے لوگوں کا اپنی قیادت پر اعتبار و اعتماد مزید کم ہوگیا۔ کچھ ہی دنوں میں یہ بات واضح طور پر سامنے آگئی کہ کورونا وائرس جیسی کسی بھی عالمگیر نوعیت کی وبا سے نمٹنے کی صلاحیت امریکا میں نہیں۔ صدر ٹرمپ نے ہر معاملے میں تنہا جانے یعنی کسی سے مشاورت کے بغیر بہت کچھ کرنے کی جو روش اختیار کی ہے، وہ کسی بھی اعتبار سے قابلِ ستائش نہیں۔ یہ ثابت ہوگیا کہ کورونا وائرس جیسی وبا سے نمٹنے کے حوالے سے امریکا بہت ہی کم تیاری کی حالت میں ہے۔
سات عشروں تک امریکا نے دنیا کو عسکری اور معاشی طاقت کی مدد سے چلایا ہے، مگر معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں رہا۔ امریکی پالیسی سازوں نے اندرون ملک بھی بہتر طرزِ حکمرانی یقینی بنائی ہے۔ صحتِ عامہ کا معیار بلند رہا ہے۔ سماجی تحفظ کا شعبہ بھی قابل رشک رہا ہے۔ کورونا وائرس نے امریکا کی صلاحیتوں کا امتحان لیا ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کسی بھی سطح پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہیے کہ اس ٹیسٹ میں امریکا اب تک ناکام دکھائی دیا ہے۔ کسی بھی عالمگیر وبا کے حوالے سے امریکا کو جس نوعیت کا ردعمل دینا چاہیے تھا وہ اس نے نہیں دیا۔
عالمگیر وبا کے حوالے سے امریکا نے جو خلا چھوڑا ہے، وہ چین نے پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔ چین اس بحران میں باقی دنیا سے الگ تھلگ کھڑا ہے۔ وہ خاصا مضبوط ہوکر ابھرا ہے۔ اُس نے اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی مدد کرنے پر بھی توجہ دی ہے۔ اس حوالے سے اس کی قائدانہ حیثیت ابھر کر سامنے آئی ہے۔
اب تک یہی کہا جاتا رہا ہے کہ کورونا وائرس چین کی نااہلی یا لاپروائی سے پھیلا۔ چینی قیادت سمجھتی ہے کہ قائدانہ کردار کے حوالے سے فیصلہ کن اقدامات کرنے کا وقت یہی ہے۔ اگر کورونا وائرس سے نمٹنے کے معاملے میں امریکا مکمل طور پر نا اہل ثابت ہوگیا تو عالمی سطح پر اس کی قائدانہ حیثیت بھی متاثر ہوگی۔ اور یوں اکیسویں صدی میں عالمی قیادت کے حوالے سے جاری مسابقت کی نوعیت بھی بدل جائے گی۔
٭ غلطیاں تو ہوئی ہیں
کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے پر ابتدائی مرحلے میں چین پر غیر معمولی دباؤ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نومبر میں ووہان شہر میں یہ وبا پھوٹی تھی مگر تب اس معاملے کو دبایا گیا۔ جن ڈاکٹروں نے نشاندہی کی تھی اُنہیں سزا دی گئی۔ اس کے بعد پانچ ہفتے یوں ہی گزرنے دیے گئے، یوں معاملہ بگڑ گیا۔ لوگوں کو تیار کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سفر کی بندش اور ٹیسٹنگ وغیرہ میں تاخیر کا ارتکاب کیا گیا۔ جب یہ وبا زور پکڑ گئی تب بھی اِسے دبانے اور چھپانے کی کوشش کی گئی۔ عالمی ادارۂ صحت کے حکام کو ووہان نہیں جانے دیا گیا۔ سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریونشن سے اشتراکِ عمل کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی۔ جنوری اور فروری کے دوران ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ شاید کورونا وائرس کی وبا کے ہاتھوں چینی کمیونسٹ پارٹی کی پوزیشن کمزور پڑ جائے۔ ڈاکٹر لی وین لیانگ ’’وسل بلوئر‘‘ تھا یعنی اُسی نے کورونا وائرس کی وبا کے پھوٹ پڑنے کی نشاندہی کی تھی۔ اُسے خاموش کردیا گیا۔ بعد میں وہ بھی کورونا وائرس میں مبتلا ہوکر مر گیا۔
مارچ کے اوائل میں ایران کے شہر قم میں یہ وبا پھوٹ پڑی۔ تب قرنطینہ کا سلسلہ شروع ہوا اور بین الاقوامی سفر پر بھی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ ملک گیر شٹ ڈاؤن اور لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مارچ کے وسط میں چین میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں یومیہ اضافہ سنگل ڈیجٹ میں آگیا، یعنی دس سے کم رہ گیا جبکہ فروری کے دوران کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں یومیہ سیکڑوں کا اضافہ ہو رہا تھا۔
چین کے صدر شی جن پنگ ابتدائی مرحلے میں الگ تھلگ رہے۔ پھر جب معاملات کچھ درست ہوئے تو انہوں نے اپنے آپ کو نمایاں کیا اور ووہان کا دورہ بھی کیا۔ چین نے میڈیا کو عمدگی سے استعمال کیا ہے۔ دنیا کو یقین دلایاگیا ہے کہ چین نے اندرونی معاملات بہت اچھی طرح نمٹائے ہیں یعنی مرض کو نہ صرف یہ کہ پھیلنے نہیں دیا بلکہ مریضوں کو صحت سے ہم کنار کرنے پر بھی خاطر خواہ توجہ دی۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے کہا ہے کہ چین نے ثابت کردیا کہ وہ کسی بھی عالمگیر وبا سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت و سکت رکھتا ہے۔ مرکزی حکومت نے معلومات کے بہاؤ پر سخت کنٹرول رکھا۔ ہر مخالف بیانیہ دبوچ لیا گیا، مسترد کردیا گیا۔
کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے حوالے سے مغرب کا رویہ بھی نیم دلانہ رہا ہے۔ کوششیں بظاہر تیاری کے بغیر کی گئیں اور ناکام رہیں۔ اس کے نتیجے میں چین کا درجہ بلند ہوا۔ امریکا میں ٹیسٹنگ کٹس کا معاملہ خطرناک انداز سے ابھرا جس کے نتیجے میں عوام کا حکومت پر اعتماد مزید کم ہوگیا۔ اس صورتِ حال سے چین نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ دنیا کو یقین دلایا گیا کہ امریکا نا اہل ہے، سپر پاور ہونے کے باوجود ایک وبا سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی نا اہلی اور بدحواسی کو چین کے سرکاری خبر رساں ادارے سنہوا نے نمایاں کرکے دنیا کے سامنے رکھا۔ واشنگٹن کی سیاسی اشرافیہ کو بالخصوص ہدف بنایا گیا۔ دنیا کو یقین دلایا گیا کہ کورونا وائرس چین سے نہیں پھیلا بلکہ چین میں بھی امریکی فوجیوں کے ایک دستے نے پھیلایا۔ امریکا کی پوزیشن خاصی کمزور ہوچکی تھی۔ اور پھر رہی سہی کسر چین سے سرکردہ امریکی اخبارات کے نمائندوں کے اخراج نے پوری کردی۔
٭ چین دے، دنیا لے!
چین کے صدر شی جن پنگ نے چند برس کے دوران عالمی سطح پر مختلف ضروری اشیا کی فراہمی کے حوالے سے چین کی پوزیشن مستحکم کرنے پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ انہوں نے چین کو عالمی امور میں قائدانہ کردار دلوانے کے حوالے سے بھی سوچنا شروع کردیا ہے۔ اس حوالے سے لائحۂ عمل تیار کیا جارہا ہے۔ دنیا کی قیادت کرنے کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے میکینزم کو کلیدی کردار ادا کرنے کی راہ ہموار کی جاتی رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے کام مزید آسان کردیا۔ چین کو ابتدائی مرحلے میں بڑے پیمانے پر ماسک، ٹیسٹنگ کٹس، وینٹی لیٹر اور دواؤں کی ضرورت ہے۔ اُس نے فوری ضرورت کے تحت کئی ممالک سے یہ سامان خرید کر اپنے ہاں وبا کی روک تھام کی۔ اب وہ یہی ساری چیزیں پوری دنیا کو فراہم کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔
کورونا وائرس کے پھیلنے پر یورپ میں سب سے زیادہ متاثر اٹلی ہوا۔ اٹلی کا صحتِ عامہ کا نظام ایک ہی جھٹکے میں جواب دے گیا۔ اطالوی حکومت کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آسکا کہ ہو کیا رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ یوں مرنے لگے گویا درخت سے پتے جھڑ رہے ہوں۔ ان میں نمایاں تعداد معمر افراد کی تھی۔ جب وبا نے پر پھیلائے تو صحتِ عامہ کے میکینزم نے پلک جھپکتے میں دم توڑ دیا۔ اٹلی کی مدد کے لیے چین آگے بڑھا۔ اُس نے ایک لاکھ ریسپیریٹر، دو لاکھ ماسک، ایک ہزار وینٹی لیٹر، پچاس ہزار ٹیسٹنگ کٹس اور بیس ہزار سوٹ بھجوائے۔ ایران کے لیے بھی چین نے ڈھائی لاکھ ماسک کا اہتمام کیا اور ایک میڈیکل ٹیم بھی بھیجی۔ یورپ میں کورونا وائرس کے ہاتھوں ابھرنے والی صورتِ حال سے تنگ آکر سربیا کے صدر نے کہا کہ یورپی امداد پریوں کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ ایسے میں کوئی مدد کرسکتا ہے تو صرف چین ہے۔ چین کی معروف کوریئر کمپنی علی بابا کے سربراہ جیک ما نے امریکا کے لیے بھی ماسک اور ٹیسٹنگ کٹس بھجوانے کا اہتمام کیا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ جیک ما نے افریقا کے ۵۴ ممالک میں سے ہر ایک کے لیے ایک لاکھ ماسک اور بیس ہزار ٹیسٹنگ کٹس بھجوانے کا اعلان کیا ہے۔
اس وقت کیفیت یہ ہے کہ کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے دنیا کو سامان کے حوالے سے تو چین ہی پر انحصار کرنا پڑے گا۔ جب چین میں وبا پھیلی تب اُس نے دنیا بھر سے ماسک منگوالیے تھے۔ اب چین میں ماسک، ٹیسٹنگ کٹ، ریسپیریٹر اور دوسری بہت سی اشیا بہت بڑے پیمانے پر تیار کی جارہی ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں جتنے ریسپیریٹر استعمال کیے جارہے ہیں اُن کا نصف چین سے آیا ہے۔ چین میں لگائی گئی غیر ملکی فیکٹریوں کو بھی پابند کیا جارہا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے بنائی جانے والی اشیا چینی حکومت کو فروخت کرے۔ میڈیکل سپلائیز کو چین نے خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کے ایک موثر آلۂ کار کے طور پر بروئے کار لانا سیکھ لیا ہے۔ ثانوی نوعیت کے انفیکشن کی دواؤں اور اینٹی بایوٹکس کے حوالے سے بھی چین خاصی advantageous پوزیشن میں ہے۔
امریکا کی حالت بہت خراب ہے۔ وہ شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہوچکا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے پر امریکی قیادت نے جو ابتدائی ردعمل دیا وہ خاصا غیر موزوں اور نیم دلانہ تھا۔ امریکا کی اسٹریٹجک نیشل اسٹاک پائل کا حال بہت برا ہے۔ ملک میں اس وقت جتنے ماسک درکار ہیں اُن کا صرف ایک فیصد دستیاب ہے۔ اس وقت امریکا میں ضرورت کے لحاظ سے صرف ۱۰؍فیصد وینٹی لیٹر اور ایک فیصد ماسک دستیاب ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا کسی طور دشوار نہیں کہ کسی بہت بڑی بحرانی کیفیت کا سامنا کرنے کے لیے سپر پاور کو جس قدر تیار رہنا چاہیے اُس کا عشر عشیر بھی ممکن نہ ہوسکا۔ کورونا وائرس سے بہ طریق احسن نمٹنے کے لیے امریکا کو جو کچھ درکار ہے وہ یا تو چین سے منگوانا پڑے گا یا پھر تیزی سے بہت بڑے پیمانے پر پروڈکشن ممکن بنانا ہوگی۔ اس وقت امریکا میں اینٹی بایوٹکس کی مارکیٹ کا ۹۵ فیصد چین کے ہاتھ میں ہے۔
۲۰۱۴ء میں امریکا نے افریقا سے پھیلنے والے ایبولا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے بارہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ اس بار ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ امریکا نے اتحادیوں کو بھی ایک طرف ہٹادیا ہے۔ جب کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے عالمگیر وبا کی شکل اختیار کی تب امریکی قیادت نے یورپ میں اپنے اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لینا مناسب نہ سمجھا اور سفر پر پابندیاں عائد کرنے سے قبل چین کو مطلع کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔
ایسا نہیں ہے کہ چین نے اپنے ہاں کورونا وائرس پر بہت حد تک قابو پانے کے بعد سکون کا سانس لے کر دوسروں کو نظر انداز کردیا۔ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے درجنوں ممالک کے ہزاروں حکام کو اعتماد میں لیا گیا۔ کورونا وائرس میں مبتلا افراد کے علاج اور اس وبا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے حوالے سے بہت سے مشوروں سے اُن تمام ممالک کو نوازا گیا، جو شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اس معاملے میں چین نے روایتی علاقائی سوچ اپنائی ہے۔ وسطی ایشیا، مشرقی یورپ اور بحرالکاہل کے جزائر پر مشتمل ریاستوں کو اور اُن کے علاوہ افریقا کو مشورے ہی نہیں سامان بھی دیا گیا۔ چین نے جو کچھ بھی کہا اُس کے بارے میں دنیا کو بتانا بھی ضروری سمجھا یعنی میڈیا کا بھرپور سہارا لیا گیا۔
چین نے ایک عالمگیر وبا سے نمٹنے کے حوالے سے غیر معمولی مہارت کا مظاہرہ کرکے باقی دنیا کو کسی حد تک مسحور کیا ہے۔ اُس نے ثابت کیا ہے کہ اُس کے پاس معلومات بھی کم نہیں اور مہارت کا بھی حساب نہیں۔ تمام اہم معاملات پر اُس کی توجہ ہے۔ اُس نے برتری ثابت کرتے ہوئے قائدانہ کردار ادا کرنے کو ہدف بنایا ہے۔
٭ قیادت کیسے کی جائے؟
چین طاقتور ہے مگر اِس سے بڑھ کر یہ بات اہم ہے کہ اس وقت امریکا کمزور ہے۔ نا اہلی نے اُس کی کمزوریوں کو مزید پھیلایا ہی نہیں بلکہ اجاگر بھی کیا ہے۔ امریکی پالیسیوں میں سب سے زیادہ اہمیت اندرونی معاملات کو دی جارہی ہے۔ باقی دنیا کا مفاد بہت حد تک نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اگر امریکی قیادت اپنی قائدانہ حیثیت کو بہت حد تک برقرار رکھنا چاہتی ہے تو لازم ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنے اندرونی معاملات کو درست کرے اور دوسری طرف کورونا وائرس سمیت کسی بھی وبا سے نمٹنے سے متعلق سپلائیز کی دستیابی یقینی بنائے۔ فی الحال ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ امریکا میں اندرونی خرابیاں بہت زیادہ ہیں۔ صحتِ عامہ کا معاملہ پہلے ہی بہت خراب تھا، اب رہی سہی کسر پوری ہوگئی ہے۔
کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنا اور علاج ممکن بنانا اولین ترجیح کا درجہ رکھتا ہے۔ سیاست بہت بعد کا معاملہ ہے۔ اس وقت جو کچھ بھی کیا جائے گا اُس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکا کو میڈیکل سپلائیز بڑھانے میں نمایاں حد تک کامیاب ہونا پڑے گا۔ کورونا وائرس سمیت بہت سی وباؤں کے حوالے سے امریکا کو تحقیق اور دواؤں کی تیاری کے میدان میں قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس حوالے عالمگیر سطح پر رابطہ کاری کی بہت اہمیت ہے۔ کوئی بھی ملک سب کچھ اپنے طور پر نہیں کرسکتا۔ امریکا کو بھی یہ بات سمجھنی ہے کہ چین اور دیگر طاقتور ممالک کے اشتراکِ عمل ہی سے دنیا کو محفوظ رکھنے میں کچھ مدد مل سکتی ہے۔ سفر اور معلومات کے تبادلے کے حوالے سے مکمل ہم آہنگی کا پایا جانا لازم ہے۔ امریکا نے عشروں تک قائدانہ کردار ادا کیا ہے اور تحقیق کے حوالے سے اُسے اب بھی قائدانہ کردار ادا کرنے پر متوجہ ہونا پڑے گا۔
کورونا وائرس کے حوالے سے کس نے کیا کِیا، یہ بعد کی بحث ہے۔ امریکا اور چین کو اب مل کر کچھ کرنا ہے تاکہ دنیا میں کوئی بھی ایسی وبا نہ پھیلے جو معیشت اور معاشرت دونوں کا تیاپانچا کردے۔ اُنہیں آپس کے معاملات مزید الجھانے کے بجائے سلجھانے پر متوجہ ہونا پڑے گا۔ دونوں کو پوری دنیا کے فائدے کے لیے کام کرنا ہے۔ الزام تراشی سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ سوال ویکسین کی تیاری کا ہے۔ معیشتوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انہیں اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑے ہونے کے لیے مالیاتی پیکیج درکار ہوں گے۔ اِسی صورت کمزور ممالک کا بھی بھلا ہوسکتا ہے۔ کورونا وائرس ویک اپ کال ہے، خطرے کی گھنٹی ہے۔ ماحول کا تحفظ یقینی بنانے کے حوالے سے بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر امریکا تھوڑا سا جھک جائے اور چین کے ساتھ مل کر چلے تو اِس سے اُس کی شان گھٹے گی نہ اِسے چین کے لیے کسی رعایت سے تعبیر کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنے سے امریکی قیادت کے اعتماد کا گراف بھی بلند ہوگا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Coronavirus could reshape global order”. (“Foreign Affairs “. March 18, 2020)
Leave a comment