سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد سے روس پاکستان تعلقات سرد مہری کا شکار رہے،لیکن حالیہ کچھ عرصے میں ان تعلقات میں گرم جوشی دیکھنے میں آئی ہے۔قیام پاکستان کے وقت سے ہی سرد جنگ کی وجہ سے روس سے تعلقات اچھے نہیں تھے،پھر ۸۰ کی دہائی میں سی آئی اے کے کہنے پر پاکستان نے افغان مجاہدین کی حمایت کر کے اپنے تعلقات مزید خراب کر لیے۔چونکہ روس کی بھارت کے ساتھ دوستی تھی اور پاکستان امریکا کا اتحادی رہا تو اس کے نتیجے میں دو طرفہ تعلقات ایک حد تک ہی رہنے تھے۔
سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد دونوں طرف سے تعلقات میں بہتری کے لیے کوئی خاطر خواہ کو شش نہیں کی گئی۔۲۰۰۳ء میں پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے ماسکو کا دورہ کیا،جب کہ روس کی طرف سے وزیر اعظم کی سطح کے وفد نے ۲۰۰۷ء میں پاکستان کا دورہ کیا،لیکن اس کے بعد بھی کوئی قابل ذکر نتائج حاصل نہ کیے جا سکے۔
اس کے بعد ۲۰۱۱ء میں صدر آصف علی زرداری اور Dmitri Medvedev کے درمیان باضابطہ ملاقاتوں کے نتیجے میں کچھ پیش رفت ہوتی ہوئی دکھائی دی۔اور ان ملاقاتوں کے بعد ہی صدر آصف علی زرداری نے ماسکو کا دورہ بھی کیا۔چھ سال کے وقفے کے بعد روسی وزیر خارجہ Sergei Lavrov نے ۲۰۱۲ء میں پاکستان کا دورہ کیا۔پھر ۲۰۱۴ء میں روسی وزیر دفاع Sergei Shoigu نے پاکستان کا دورہ کیا، جو کہ تعلقات میں اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس دورے کے نتیجے میں روس نے پاکستان کو اسلحے کی فروخت سے پابندی اٹھاتے ہوئے چار Mi-35ہیلی کاپٹردینے کا فیصلہ کیا۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اعشاریہ سات ارب ڈالر کی لاگت سے کراچی سے لاہور گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ بھی ہوا۔تعلقات میں اس پیش رفت نے اس بات کا اشارہ دیا کے بھارت کے اعتراضات کے باوجود دونوں ممالک تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں۔
پاک روس تعلقات میں بہتری:
تعلقات میں آنے والی بتدریج بہتری کو خطے میں آنے والی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔۲۰۱۲ء میں امریکا نے افغانستان میں فوج کم کرنے، جب کہ ۲۰۱۴ء میں وہاں سے نکل جانے کا اعلان کیا۔اس وقت تک روس اپنے اثرورسوخ کو اس علاقے تک بڑھانے کے حوالے سے پہلے ہی اپنے ارادوں کا اظہار کر چکا تھا۔روس کی افغانستان میں دلچسپی لینے کی دیگر وجوہات وسط ایشیائی ریاستوں کے حوالے سے سلامتی کی صورت حال، ان علاقوں سے دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خدشات بھی ہیں۔ ماسکو کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ افغانستان میں داعش کے ابھرنے سے خطے میں دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس تناظر میں پاکستان کی تزویراتی اہمیت اور اثرورسوخ کی وجہ سے اس سے تعلقات میں بہتری روس کے مفاد میں ہے۔
دراصل روس پاکستان کو افغانستان کی بدلتی ہوئی صورت حال میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر دیکھتا ہے۔ بھارت افغانستان کی موجودہ صورت حال میں القاعدہ اور طالبان کی مدد کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے۔ماسکو نے گزشتہ برسوں میں بھارت کے برعکس طالبان کے ساتھ بھی تعلقات قائم کیے ہیں،جب کہ بھارت ابھی تک شمالی اتحاد سے تعلقات پر اکتفا کیے ہوئے ہے۔۲۰۱۶ء میں پاکستان، چین اور روس نے افغانستان کے معاملات پر مذاکرات کیے، ان مذاکرات میں افغانستان کی عدم نمائندگی کی وجہ سے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔اس کے بعد ان مذاکرات میں توسیع کر کے افغانستان، ایران اور بھارت کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا۔ اسی طرح SCO میں پاکستان کی شمولیت اور SCO افغانستان رابطہ گروپ کے حوالے سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے عمل نے ان دو ممالک (پاکستان، روس) کو اس مسئلے پر باہمی شراکت داری کاایک اور پلیٹ فارم مہیا کیا۔دوسری طرف صدر ٹرمپ نے پاکستان کو اسلحے کی فروخت معطل کی اور دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے تو پاکستان کو ماسکو کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس ہوئی۔
اس طرح کے اقدامات کے نتائج یہ نکلے کہ دونوں ممالک میں وزارتی اور مسلح افواج کے سربراہان کی سطح پر دورے کیے جانے لگے اور ۲۰۱۶ء سے دونوں ممالک کی مشترکہ جنگی مشقیں بھی شروع ہوگئیں۔ان فوجی مشقوں کے بارے میں جب یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ یہ گلگت بلتستان میں ہوں گی تو بھارت نے اس پر کافی شور مچایا کیوں کہ بھارت اس علاقے پر پاکستان کے قبضے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔پھریہ مشقیں چیراٹ میں منعقد کی گئیں۔ ۲۰۱۷ء میں فوجی سطح پر تکنیکی تعاون کے لیے ایک معاہدہ کیا گیا، جس کا مقصد اسلحے کی ترسیل وغیرہ کے معاملات کو دیکھنا تھا۔ایک برس بعد فوجی معاملات میں تکنیکی نوعیت کی شراکت داری کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔لیکن ابھی تک کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوا۔اسی طرح گیزپروم پاکستان کو LNGکی ترسیل کے لیے بھی کوشاں ہے اور اس خطے میں گیس پائپ لائن بچھانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے،یہ پائپ لائن فی الحال تو خطے کی مجموعی صورت حال کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔۲۰۱۸ء میں بحری فوج کے باہمی تعاون کے معاہدہ پر بھی دستخط ہوئے۔ ۲۰۰۲ء میں ’’رشیا پاکستان جوائنٹ ورکنگ گروپ برائے انسدادِ دہشت گردی‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کے سال ۲۰۰۹ء تک صرف چار اجلاس ہوئے۔ ۲۰۱۴ء میں اس گروپ کو ازسرنو فعال کیا گیا،پھر ۲۰۱۴ء،۲۰۱۶ء ۲۰۱۸ ء میں اس کے اجلاس ہوئے اور اب اس سال بھی اس کے اجلاس کا انعقاد یقینی ہے۔
اسی طرح۲۰۱۸ء میں دوطرفہ تجارت کا حجم بڑہ کر ۸۰۰ ملین ڈالر ہو گیا، جو کہ گزشتہ برس ۶۰۰ ملین ڈالر تھا۔ ۲۰۰۰ء میں ’’انٹر گورنمنٹل کمیشن‘‘ قائم کیا گیا جو کہ تجارت، معیشت، سائنس اور تکنیکی معاونت کی فراہمی کے لیے بنایا گیا تھا، جس کے اجلاس باقاعدگی سے منعقد نہ ہو سکے۔
اگران اعدادوشمار کا موازنہ بھارت سے کیا جائے تو صورت حال بالکل مختلف ہے،۲۰۱۷ء میں بھارت اور روس کے مابین تجارتی حجم ۱۰؍ارب ڈالر تھا جو کہ اگر چہ زیادہ نہیں ہے لیکن پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔اگر دفاعی شعبے پر نظر ڈالی جائے تو صرف ۲۰۱۸ء میں ۲ء۵ ؍ ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے جس کے تحت روس بھارت کو S400میزائل دفاعی نظام فراہم کرے گا۔اس کے علاوہ ۹۵۰ ملین ڈالر کی چار فریگیٹ اور اگلے سال ۳ ؍ارب ڈالر کی ایٹمی آبدوز بھی مہیا کرے گا۔اسی طرح ۴۶۴ T-90ٹینک خریدنے کے معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں، جن کی مالیت تقریباً دو ارب ڈالر کے قریب بتائی جارہی ہے۔ دونوں ممالک مل کر AK-203/103 رائفل بھی تیار کریں گے۔۲۰۰۰ء سے دونوں ممالک کے مشترکہ سیمینار باقاعدگی سے منعقد کیے جا رہے ہیں اور تقریباً ہر سال ہی دونوں ممالک کے وفود دورے بھی کرتے رہتے ہیں۔دونوں ممالک بھارت اور روس اپنے تعلقات کی تزویراتی اہمیت کو سمجھتے اور اس کی قدر بھی کرتے ہیں، یہ تعلقات سات دہائیوں پر مشتمل ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ روسی صدرنے بھارت سے تعلقات کی وجہ سے ہی اسلام آباد میں دوطرفہ سربراہی اجلاس میں شرکت سے اجتناب کیا۔
اگرچہ گزشتہ عرصے میں روس کی جانب سے پاکستان کو اسلحے کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے،لیکن امریکا کی جانب سے پاکستان کو اسلحے کی فروخت میں کمی کا سب سے زیادہ فائدہ چین نے اٹھایا ہے، جس کا اندازہ نیچے دیے گئے اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے۔دوسری طرف بھارت کو روسی اسلحے کی فروخت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۴ء تک بھارت کو اسلحے کی فروخت میں روس کا حصہ ۷۰ فیصد تھا جو کہ ۱۸۔۲۰۱۴ء تک کم ہو کر ۵۸ فیصد رہ گیا ہے۔
اگرچہ روس بھارت تعلقات کی نوعیت پاکستان روس تعلقات کی نوعیت سے بہت مختلف ہے لیکن پاکستان اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے بھارت میں تشویش پائی جاتی ہے۔ روس کی اپنے خصوصی تزویراتی شراکت دار کے خدشات کے باوجود پاکستان کے ساتھ بڑھتے ہوتے ہوئے تعلقات افغانستان اور وسطی ایشیا میں نہ صرف اس کے مفادات کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ یہ بھارت کے امریکا سے بڑھتے ہوئے تعلقات پر اپنی ناراضی کا اشارہ بھی دے رہے ہیں۔ امریکا کے ساتھ بہتر ہوتے تعلقات کے علاوہ بحرالکاہل میں امریکی حکمت عملی اور ماسکو کی چین سے قربت نے بھی حرکیات کو پیچیدہ کر دیا ہے۔
اختتامیہ:
روس نے پاکستان کے ساتھ تزویراتی تعلقات کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی پہلے سے ہی مرتب کر لی ہے، لیکن فی الحال وہ بھارت کی ناراضی کے پیش نظر بہت احتیاط سے ان تعلقات کو آگے بڑھا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والے SCO اجلاس اور BRI فورم میں بھی روسی صدر ولادی میر پوٹن نے عمران خان سے صرف غیر رسمی گفتگو کی۔اس کے برعکس پوٹن نے مودی کے ساتھ SCO کے اجلاس کے دوران نہ صرف رسمی گفتگو کی بلکہ بھارتی رہنماکو’’ایسٹرن اکنامک فورم‘‘ کی صدارت کی پیش کش بھی کی۔۲۰۱۸ء میں ہونے والا غیر رسمی ’’سوچی سمٹ‘‘ بھی ٹھہراؤ کا شکار ان تعلقات کو بحال کرنے کی ایک کوشش ہی تھی۔
روس، چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات اور ایشیا پیسفک میں اپنی کمزوریوں سے بہت اچھی طرح واقف ہے۔ اس صورت حال میں اگر بھارت، روس،چین اور پاکستان کے اتحاد کی تشکیل کا خطرہ محسوس کرے گا تو روس کے ساتھ اس کے تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔بھارت نہ صرف روس کا تزویراتی شراکت دار ہے بلکہ وہ پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا بڑی منڈی بھی ہے۔روس کے اقدامات کی وجہ سے اگر بھارت امریکا کی قربت اختیار کرتا ہے تو یہ روس کے لیے نفع کا سودا نہیں ہو گا۔ بھارت اپنی ترقی کرتی ہوئی معیشت اوراپنے تزویراتی اثر و رسوخ کی وجہ سے روس کی ’’ایشیا پالیسی‘‘ کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
بھارت کے لیے بھی روسی شراکت داری خاص اہمیت رکھتی ہے اور وہ بھی چاہے گا کہ روس کے ساتھ تعلقات کسی صورت خراب نہ ہوں۔روس اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور تعلقات پر خدشات کے باوجود بھارت اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور SCO، BRICS اور RIC جیسے علاقائی فورمز میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔عالمی سطح پر آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں اہم موڑ آئیں گے،لیکن دونوں ممالک کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے تعلقات کی اہمیت نہ صرف برقرار رہے بلکہ تعلقات مستحکم بھی رہیں۔
بھارت کی طرف سے اقتصادی شراکت داری میں بہتری اور مستقبل کی واضح منصوبہ بندی ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے تاکہ روس پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اعتدال کے ساتھ آگے بڑھائے۔اسی طرح روس کو بھی چاہیے کہ وہ بھارت کے خدشات کو مدنظر رکھے تاکہ ابھرتی ہوئی اس طاقتور ریاست کے ساتھ تعلقات خراب نہ ہوں۔
(ترجمہ: محمد نوید نون)
“Russia-Pakistan relations and its impact on India”. (“orfonline.org”. July 3, 2019)
Leave a Reply