جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد مُلّاؤں میں اعتدال پسند تھے۔ ان کی موت پاکستان میں دائیں بازو کے لیے بڑا نقصان ہے۔
نومبر ۲۰۰۷ء میں سابق صدر پرویز مشرف نے ہنگامی حالت نافذ کی تو سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاریاں شروع کیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے روپوشی اختیار کی اور پھر بڑے اہتمام سے جامعہ پنجاب پہنچے تاکہ گرفتاری پیش کرکے ہیرو بنیں۔ جامعہ پنجاب پر جماعت اسلامی کے اسٹوڈنٹ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ کا تصرف ہے۔ جمعیت کے کارکنوں نے عمران خان کو بالوں سے پکڑ کر پولیس وین میں ڈال دیا۔
یہ سب قاضی حسین احمد کو سخت ناگوار گزرا۔ وہ اس وقت جماعت اسلامی کے امیر تھے۔ انہوں نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے جماعت اسلامی کو جمعیت سے الگ رکھنا شروع کیا۔ وہ جماعت اسلامی کے سرکردہ ارکان کو لے کر عمران خان کے گھر گئے اور ان سے خود معافی مانگی تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ جو کچھ بھی ہوا، وہ اُن کی خواہش تھی، نہ جماعت اسلامی کی۔ یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ جماعت اسلامی اور جمعیت میں فاصلہ پیدا ہوچکا ہے۔ عمران خان نے قاضی حسین احمد کی جانب سے خلوص کے اظہار کا خاصا اثر قبول کیا۔ ایک ماہ بعد جب عمران خان کے والد کا انتقال ہوا تو ان کی نماز جنازہ زمان پارک میں قاضی حسین احمد نے پڑھائی۔ جماعت اسلامی کے امیر کے منصب سے ہٹنے کے بعد بھی قاضی حسین احمد کا تحریک انصاف سے قریبی تعلق رہا۔
قاضی حسین احمد ۶ جنوری ۲۰۱۳ء کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ ان کی عمر ۷۴ سال تھی۔ ان کے دو بائی پاس ہوچکے تھے۔ قاضی حسین احمد نے ۱۹۸۷ء سے ۲۰۰۹ء تک جماعت اسلامی کی قیادت کی۔ اس دوران انہوں نے جماعت اسلامی کو غیر معمولی شدت پسندی اور انتہا پسندی کی راہ سے ہٹاکر اعتدال کی راہ پر گامزن کیا۔ یہ کام وہ مرتے دم تک کرتے رہے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو القاعدہ کے ارکان سے دور کیا اور ان غیر ریاستی عناصر سے بھی، جنہیں بعد میں عالمی برادری نے دہشت گرد قرار دیا۔
۱۹؍نومبر ۲۰۱۲ء کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے جنگجو سردار عمر آفریدی کی معاونت سے ایک خاتون خود کش بمبار کے ذریعے قاضی حسین احمد پر قاتلانہ حملہ کرایا۔ یہ گزشتہ اپریل میں ان کے ریمارکس کا ثمر تھا، جن کے مطابق افغانستان میں اتحادیوں کے خلاف طالبان کا لڑنا تو جہاد ہے مگر پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان کی لڑائی غیر اسلامی ہے۔ حکیم اللہ محسود نے ایک وڈیو پیغام میں کہا تھا کہ قاضی حسین احمد تحریک طالبان کے جہاد کی نفی کرکے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں اور جمہوریت کی حمایت کرنے کی بنیاد پر یہودی لابی کے حامی ہیں، حکیم اللہ محسود نے مزید کہا: ’’ایک وقت تھا جب پڑھے لکھے لوگ آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔ مگر کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے ہماری جائز لڑائی کو غیر اسلامی کیوں قرار دیا ہے؟‘‘
قاضی حسین نے ۱۹۸۰ء کی سخت گیر جماعت اسلامی کو سیاسی حالات سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے ۱۹۹۰ء کے عشرے میں اعتدال پسند پارٹی میں تبدیل کردیا۔ ان کی شخصیت نے جماعت اسلامی کے لیے جہادی نظریات کی حامل پارٹی سے جمہوریت پر یقین رکھنے والی پارٹی میں تبدیل کرنے کی راہ تیزی سے ہموار کی۔ قاضی حسین احمد نے جو رواداری دکھائی اور جس طرح مخالفین کو برداشت کیا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سید منور حسن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جماعت اسلامی کو دوبارہ انقلابی نظریات کی حامل پارٹی بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔
قاضی حسین احمد دس بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ قاضی حسین احمد کا نام جمعیت علمائے ہند کے سابق امیر حسین احمد مدنی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ویسے خود قاضی حسین احمد نے اس بات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ حسین احمد مدنی نے متوقع پاکستان کی نوعیت کے حوالے سے علامہ اقبال سے زبردست مباحثہ کیا تھا۔ مگر خود قاضی حسین احمد زندگی بھر اپنی تقریر و تحریر میں علامہ اقبال کے اردو اور فارسی اشعار کے حوالے دیتے رہے۔ قاضی حسین احمد کا گھرانہ چونکہ دینی پس منظر رکھتا تھا، اس لیے صوبۂ سرحد میں کانگریس کے اثر کے باوجود وہ لبرل سیکولر راہ پر گامزن نہ ہوسکے۔ خیر، وہ روایتی عالمِ دین بننے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے اور جماعت اسلامی کا امیر منتخب ہونے کے بعد اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرنے میں انہوں نے کبھی ہچکچاہٹ بھی محسوس نہیں کی۔
قاضی حسین احمد نے دینی تعلیم کے حصول کے لیے کسی مدرسے میں جانا ضروری نہیں سمجھا۔ پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کرنے کے بعد انہوں نے گھریلو بزنس میں ہاتھ بٹانا شروع کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے تدریس کا بھی آغاز کیا۔ انہوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت ۱۹۷۰ء میں اختیار کی اور صوبائی سطح پر تیزی سے ترقی کرتے کرتے مرکزی قیادت تک پہنچ گئے۔
افغانستان پر سوویت لشکر کشی کے بعد وہاں امریکا اور سعودی عرب کی مدد سے چھیڑی جانے والی جنگ میں جماعت اسلامی سب سے بڑے مہرے کے طور پر ابھری۔ اس دور کے انقلابی ماحول میں پشتون ہونا بہت اہمیت رکھتا تھا۔ جماعت اسلامی کے لیے قاضی حسین احمد مثالی رہنما تھے۔ پاکستان کے اسٹریٹجسٹس نے ممکنہ طور پر قاضی حسین احمد کو جماعت اسلامی کی قیادت کے منصب تک پہنچایا کیونکہ ان کے پیش رَو (طفیل محمد) پنجابی ہونے کے ناطے جہادی عناصر سے بہتر ہم آہنگی قائم کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ ۱۹۸۷ء میں جب قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کے قائد کا منصب سنبھالا تب افغان جہاد خاتمے پر تھا اور مقبوضہ کشمیر میں جہادی سرگرمیوں کا گراف بلند ہو رہا تھا۔
قاضی حسین احمد طلسماتی شخصیت کے مالک تھے۔ افغان ملیشیا رہنمائوں سے ان کے تعلقات اُس دور میں قائم ہوئے، جب وہ سوویت یونین کی ریڈ آرمی کے خلاف پاک فوج کی قیادت میں سرگرم تھے۔ حزب اسلامی کے سربراہ گل بدین حکمت یار سے ان کے تعلقات زیادہ قریبی نوعیت کے تھے اور ان تعلقات ہی کی بنیاد پر انٹر سروسز انٹیلی جنس نے فنڈ اور ہتھیاروں کی فراہمی کے معاملے میں حزب اسلامی کو ہمیشہ ترجیح دی۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ قاضی حسین احمد، گلبدین حکمت یار کی دوستی خیالات کی ہم آہنگی کی بنیاد پر تھی۔ ایک اور سبب یہ بھی تھا کہ حکمت یار جماعت اسلامی کے امیر کا بے حد احترام کرتے تھے۔ قاضی حسین احمد نے کبھی حکمت یار کو مجاہدین کمانڈروں سے لڑنے کا مشورہ نہیں دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جب افغان افواج کے خلاف فیصلہ کن فتح نزدیک تھی تب پاکستانی سرحد سے ملحق پشتون علاقوں میں معاملات خراب کیے جاتے۔ ایک پاکستانی صحافی نے ۲۰۰۱ء میں قاضی حسین احمد کے ساتھ ایران کا دورہ کیا تھا جہاں حکمت یار نے پناہ لے رکھی ہے۔ حکمت یار سے ملاقات میں قاضی حسین احمد نے شکوہ کیا کہ انہوں نے (حکمت یار نے) شمالی اتحاد کے مرکزی رہنما احمد شاہ مسعود سے رابطے کی کوشش نہیں کی۔ قاضی حسین نہیں چاہتے تھے کہ مجاہدین آپس میں لڑیں۔ دوسری طرف حکمت یار نے بھی اجنبیت کا شکوہ کیا۔
آخری ایام میں قاضی حسین احمد نے پاکستانی فوج کو مشورہ دیا کہ افغانستان کے معاملات میں دخل دینے سے گریز کیا جائے۔ افغانستان میں بھارت کی موجودگی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ افغان کسی بھی حالت میں بھارت کی ڈکٹیشن پر نہیں چلیں گے۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جنوبی افغانستان کے پشتونوں کا شمالی پاکستان کے پشتونوں سے دوستانہ رویہ رکھنا بے حد ضروری ہے۔
قاضی حسین احمد نے طویل عمل کے ذریعے جماعت اسلامی کو اعتدال کی راہ پر گامزن کیا۔ جہاد کے حوالے سے دیوبندی اور اہل حدیث مکتب فکر کی اجارہ داری قائم تھی۔ انہوں نے ۱۹۸۰ء کے عشرے میں پاسبان قائم کی جس کے ذریعے بنیادی حقوق اور سماجی انصاف کا پرچم بلند کیا گیا۔ قاضی حسین احمد کا کہنا تھا کہ اگر دولت کی تقسیم منصفانہ نہیں ہوگی تو بھوک اور ہنگامہ آرائی مزید تقسیم ہوگی یعنی زیادہ لوگوں تک پہنچے گی۔ قاضی حسین نے دھرنوں پر زور دیا جو حکومت پر دباؤ ڈالنے اور متوسط طبقے کی توجہ حاصل کرنے کا ایک موثر طریقہ تھا۔ سماجی انصاف کے حوالے سے ’’ظالمو! قاضی آ رہا ہے!‘‘ بے حد مقبول نعرہ ثابت ہوا۔
مگر پاسبان سے قاضی حسین احمد نے جو امیدیں وابستہ کی تھیں وہ بہت جلد دم توڑ گئیں۔ انہیں اندازہ ہوگیا کہ اس تنظیم میں خفیہ اداروں کے ایجنٹ در آئے ہیں۔ پاسبان کو قاضی حسین احمد کے سیاسی کیریئر پر واحد داغ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ۱۹۹۴ء میں پاسبان خطرناک حد تک تشدد پسند تنظیم ہوگئی تو قاضی حسین احمد نے اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے شباب ملی قائم کی جسے انہوں نے عمدگی سے کنٹرول کیا تاہم پرجوش نوجوانوں کا ریسپانس کم ہی مل سکا۔
قاضی حسین احمد نظریاتی اعتبار سے مضبوط شخصیت تھے۔ ایک طرف تو وہ مولانا مودودیؒ کے آئیڈیلز کے وفادار رہے اور دوسری طرف انہوں نے اخوان المسلمون کے رہنماؤں سے بھی تعلقات استوار رکھے۔ وہ سید قطب کے نظریات کو بھی غیر معمولی اہمیت دیتے تھے۔ جب جماعت اسلامی نے جہاد کے معاملے میں گرم جوشی کا گراف نیچے کیا تو لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیمیں آگے بڑھیں۔
قاضی حسین نے پاکستانی سیاست میں پائے جانے والے شیعہ سنی تنازع سے خود کو دور رکھنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں کے درمیان فرقہ وارانہ بنیاد پر اختلافات کو ہوا دینے کے رجحان کی بیخ کنی کا بیڑا بھی اٹھایا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پلنے والی رقابت کو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ ایک بار لاہور میں مال روڈ پر جب بپھرے ہوئے نوجوان ایران کے ثقافتی مرکز پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے، تب قاضی حسین احمد نے اچانک موقع پر پہنچ کر نوجوانوں سے بات کی اور سب کو حیران کردیا۔
لوگوں کے بدلتے رویوں نے بھی قاضی حسین احمد کو بہت کچھ سکھایا۔ سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان نے اپنی کتاب ’’پاکستان اینڈ افغانستان : کونفلکٹ، ایکسٹریم اِزم اینڈ ریزسٹنس ٹو ماڈرنٹی‘‘ میں لکھا ہے کہ ۱۹۹۲ء کے پشاور معاہدے کے لیے قاضی حسین احمد نے حکمت یار اور احمد شاہ مسعود سے بات کی مگر یہ دیکھ کر انہیں بے حد دکھ ہوا کہ کبھی ان سے مدد کی التجا کرنے والے اب ان کی بات سننے کو تیار نہ تھے۔ ان دونوں رہنماؤں سے بات کرکے انہیں وزیر اعظم سے گورنر ہاؤس میں ملاقات کرنا تھی۔ اس ملاقات ہی میں انہوں نے افغان رہنماؤں کے بدلے ہوئے رویوں اور تیور کی شکایت کی۔
متحدہ مجلس عمل جماعت اسلامی کے لیے کوئی اچھا تجربہ نہ تھا۔ طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت نے جماعت اسلامی کی پوزیشن کو بھی کمزور کیا۔ صوبائی حکومت کو کنٹرول کرنا بھی بہت مشکل مرحلہ تھا۔ ایم ایم اے کی شکست و ریخت کے بعد قاضی حسین نے ملی یکجہتی کونسل کے ذریعے معاملات کو درست کرنے کی تھوڑی بہت کوشش کی۔ سوات میں صوفی محمد نے تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی جیسی تنظیم قائم کرکے قاضی حسین احمد اور دیگر اعتدال پسند قوتوں کو یکسر مسترد کردیا۔ قاضی حسین احمد جیسی شخصیات کی آواز نہ سننے کی صورت میں فرقہ واریت غیر معمولی حد تک پھیلی۔ بلوچستان میں آباد ہزارہ نسل کے چھ لاکھ افراد میں سے ۸۰۰ پُرتشدد واقعات میں مارے جاچکے ہیں۔
جو لوگ قاضی حسین احمد سے ملتے تھے، اُن کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔ وہ لوگوں کو برے انجام سے ڈرانے کے بجائے بہتر معاملات کی طرف جانے کی تحریک دیتے تھے۔ وہ دشمنوں کے معاملے میں لچک کے حامل تھے۔ ان میں اعتدال پسندی تھی۔
آل پاکستان علما کونسل کے لیڈر (اور اب اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن) علامہ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ قاضی حسین کبھی کبھی جماعت اسلامی کے اصولوں کے خلاف بھی چلے جاتے تھے اور یہ بات جماعت اسلامی کے ارکان واضح طور پر محسوس کرتے تھے۔ قاضی حسین احمد ہی کی کوششوں سے چند برسوں میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی تعداد میں کم و بیش ۴۵ لاکھ کا اضافہ ہوا۔ پاکستان کو قاضی حسین احمد جیسی شخصیات کی ضروت ہے۔
طالبان ایکسپرٹ احمد راشد کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی عالم اسلام کی مرکزی تنظیم اخوان المسلمون کی ہم خیال ہے۔ یہ لوگ بنیادی حقوق اور حقوقِ نسواں کی بات کرتے ہیں۔ مجموعی رویہ اعتدال پر مبنی ہے۔ مگر خیر، جماعت اسلامی کو اشرافیہ کی جماعت بنادیا گیا۔ یہ جماعت مزید عوامی ہوسکتی تھی۔ جماعت اسلامی نے جدید اسلامی جمہوریت کے فروغ میں زیادہ اہم کردار ادا نہیں کیا۔
(“Saint Qazi”… “Newsweek”. Jan. 25th, 2013)
Leave a Reply