اسلام جہاں نجی و انفرادی زندگی میں اعتدال کا حکم دیتا ہے‘ وہیں اجتماعی زندگی میں بھی ایسے معاشرے کا خواہشمند ہے‘ جہاں حقوق الناس اور حقوق اﷲ کا توازن قائم کیا ہے۔ اعتدال کا مادّہ عدل ہے اور عدل ہی اسلام کے ہر حکم کی بنیاد اور تقاضا ہے۔ اسلام اپنے پیغام کی ترویج و تبلیغ کا متمنی ضرور ہے‘ مگر اس کے لیے جبر و اکراہ اور زور زبردستی کا قائل نہیں۔ ظلم و ستم کے جو خونچکاں واقعات تاریخ کے صفحات پر منقوش ہیں‘ ان میں سے تین چوتھائی واقعات جبر و تشدد کا نتیجہ ہیں‘ جو ایک گروہ نے دوسرے گروہ کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے بے دریغ روا رکھے۔ اﷲ نے ایمان و عقیدے کا اختیار انسان کو دیا اور اس کا فیصلہ اس پر چھوڑ دیا۔
سیرتِ نبویﷺ میں ہمیں کہیں کوئی ایسی مثال نہیں ملی کہ حضورﷺ نے کسی کو تلوار کے زور سے مسلمان کیا ہو‘ یا کسی آبادی کو محض اس لیے تاراج کر دیا ہو کہ وہ لوگ ہم عقیدہ ہونے کو تیار نہیں تھے۔ آپؐ کبھی مذہب کی بنیاد پر سروں کا مینار تعمیر کرنے نہیں نکلے‘ آپؐ نے رئوساے عرب و عجم کو خطوط ضرور لکھے‘ لوگوں کو دلائل دیے‘ آیات سنائیں‘ مگر دین کو قبول کرنے کے لیے اُن کے سروں پر تلوار نہیں لہرائی‘ آپؐ کی سیرت کا ہر زاویہ اعتدال پسندی کا مرقّع ہے۔ جہاں آپؐ کی نجی اور خانگی زندگی بھی اتنی ہی روشن و طاہر ہے‘ آپؐ جہاں اہلِ ایمان کے ساتھ حُسنِ سلوک کی نصیحتیں فرماتے‘ وہیں آپ کو غیرمسلموں کی جان و مال کے تحفظ کا بھی خیال رہتا‘ آپؐ جس سے بھی معاہدہ کرتے‘ اُس میں مذہبی آزادی کو خاص اہمیت حاصل ہوتی‘ اس کی ایک مثال عیسائیوں کے ساتھ آپؐ کا معاہدہ ہے۔ جس کی ایک شق یہ تھی کہ: ’’اس معاہدے کی بنا پر نہ تو ان کے گرجے گرائے جائیں گے نہ ان کے کسی پادری کو جلاوطن کیا جائے گا اور نہ ان کے مذہب سے کوئی تعرض ہو گا‘‘۔
آپؐ نے روشن خیالی کی وہ پُرنور مثالیں پیش کیں‘ جن کا اس سے پہلے تصور بھی نہ تھا‘ ان ساری رسموں کا انسداد کیا‘ جو توہم پرستی پر مبنی تھیں۔ تعلیم کو نہ صرف مرد‘ بلکہ عورت کے لیے بھی فرض قرار دیا۔ وہ عورت جو اپنے آپ پر بھی اختیار نہ رکھتی تھی‘ شادی میں اُس کی مرضی کو لازمی قرار دیا۔ کائنات میں غور و فکر کی قرآنی دعوت کو عام کیا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ دور جب یورپ میں سائنسی افکار پر موت کی سزائیں دی جاتیں‘ مسلمان سائنس و تحقیق میں اپنا لوہا منوا رہے تھے۔
افسوس آج کے دور میں اسلام دو انتہائوں کے درمیان گھرا ہوا ہے‘ ایک وہ انتہا پسند جو معاشرے کو اسلحے کے زور پر یرغمال بنانا چاہتے ہیں‘ جب کہ دوسری طرف روشن خیالی کے خود ساختہ مبلغین ہیں‘ جو میراتھن ریسوں‘ عورت کی امامت‘ رقص و سرود اور مغربی بود و باش میں روشن خیالی ڈھونڈتے ہیں اور اسلام کی ایسی تشریح کرنے پر مُصر ہیں‘ جو اسلام کی آفاقیت کو کلیسائی نظام میں تبدیل کر دے۔ دراصل یہ دونوں فکریں حد درجہ غلط اور معاشرے میں انارکی کا باعث بن رہی ہیں۔ قوموں کی اخلاقی اقدار ہی وہ زمین ہوتی ہے‘ جس پر قدم رکھ کر قومیں ترقی کی دوڑ میں شامل ہوتی ہیں اور جن قوموں کے پاس اقدار ہی نہیں رہتیں‘ وہ ہوا میں معلق ہو جاتی ہیں۔ روشن خیالی جمہوری کلچر‘ عوامی رائے کے احترام‘ قانون و انصاف کی بالادستی اور علم و ہنر کی ترقی میں مضمر ہے۔
***
Leave a Reply