ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کے خطباتِ سیرت

ادارہ تحقیقاتِ اسلامی نے اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ کے اشتراک سے ۲۵ تا ۲۹ مارچ ۲۰۱۳ء کو خطباتِ سیرت کا اہتمام کیا۔ اس پروگرام کے سلسلے میں برصغیر پاک و ہند کے معروف سیرت نگار پروفیسر ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی نے سیرت نگاری کے موضوع پر پانچ خطبات دیے۔ ذیل میں ان خطبات کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے:

پہلا خطبہ:
سیرت نگاری کا عمومی جائزہ

پہلے خطبے میں فاضل مقرر نے فنِ سیرت نگاری کی ابتدا، ارتقا اور اس کے مختلف رجحانات پر روشنی ڈالی۔

سیرت نگاری حدیث کا ایک باب ہے۔ عہدِ نبوی میں حدیث اور سیرت میں کوئی فرق نہ تھا۔ رفتہ رفتہ فنی لحاظ سے علمِ سیرت، علمِ حدیث سے جدا ہوتا چلا گیا۔ ابتدائی دور میں سیرت کی کتابوں کو مغازی کا نام دیا جاتا تھا، گو اُن میں مغازی کے علاوہ دیگر مباحث بھی ہوتے تھے۔

سیرت کی روایت کا اولین اسلوب ترسیل، یعنی زبانی روایت کا ہے۔ یہ عربوں کی خصوصیت تھی کہ وہ علم کو کتابوں کے بجائے اپنی یادداشت میں محفوظ رکھتے تھے، مارگولیتھ نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ اس طرح حدیث کے ساتھ ساتھ سیرت کی روایات کو بھی محفوظ رکھا گیا۔

محدثین کو ہزاروں بلکہ لاکھوں حدیثیں یاد ہوتی تھیں، لیکن یاد رہے کہ احادیثِ نبوی کی کتابت بالکل ابتدائی دور سے ہی شروع ہو چکی تھی۔ دس پندرہ صحیفے عہدِ نبوی میں لکھے جا چکے تھے، پچاس کے قریب صحیفے عہدِ صحابہ میں لکھے گئے تھے اور ڈیڑھ سو کے قریب صحیفے مؤطا امام مالک سے پہلے موجود تھے۔

تمام محدثین اور سیرت نگار تدریس اور تصنیف میں مصروف رہتے اور اپنی کتابوں کی تدریس کے دوران ان میں تبدیلیاں بھی کرتے رہتے تھے، جس کی وجہ سے ایک ہی کتاب کے مختلف نسخے پھیل جاتے تھے۔

مغازی کے نام سے سب سے مشہور کتاب واقدی کی ’’کتاب المغازی‘‘ ہے، لیکن اصل میں انہوں نے بھی ابن اسحاق کی طرح اپنی کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا تھا: ’’کتاب التاریخ والمبعث والمغازی‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقدی کی کتاب المغازی ان کی بڑی کتاب کا صرف ایک حصہ ہے۔

بعد میں سیرت نگاری کا ایک اور رجحان پیدا ہوا، جس میں کتب سیرت کو تین حصوں کے بجائے صرف ’’کتاب المبعث والمغازی‘‘ میں تقسیم کیا گیا۔ اس رجحان کی نمائندہ کتب میں تیمی اور بغدادی کی کتبِ سیرت شامل ہیں۔

ایک رجحان سیرت نگاری میں یہ پیدا ہوا کہ مختلف علوم و فنون پر لکھی جانے والی کتابوں میں سیرتِ نبوی سے متعلق معتدبہ مواد شامل کیا جانے لگا۔ مثلاً نویری نے ’’نہایۃ الادب فی فنون الادب‘‘ کے پہلے حصے میں، ابن حبان بستی نے کتاب الثقات کے پانچ سو صفحات میں اور ابن رشد کے دادا نے کتاب الجامع میں سیرت کے موضوع پر بیش قیمت معلومات فراہم کی ہیں۔

سیرت نگاری میں ایک رجحان یہ بھی سامنے آیا کہ سیرت نبوی کو خلفائے راشدین کی سیرت سے مربوط کر دیا گیا، جس میں کبھی پہلے تین خلفا کو اور کبھی چاروں خلفا کو شامل کیا گیا۔ بعد میں سیرت نبوی کو عمومی طور پر صحابۂ کرام کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔

ایک رجحان زمانی تسلسل اور واقعاتی ترتیب کا ہے۔ ہر مصنف نے یہ کوشش کی کہ سیرت نبوی یا تاریخ اسلام کو اپنے زمانے تک لے کر آئے، گویا سیرت رسول آپ علیہ السلام کے وصال کے ساتھ ختم نہیں ہوئی، بلکہ بعد میں بھی جاری رہی۔ خالص تاریخِ اسلامی کی کتابوں مثلاً تاریخ یعقوبی اور تاریخ طبری وغیرہ میں بھی سیرتِ نبوی پر ایک باب قائم کرنا ضروری خیال کیا گیا۔

مکہ و مدینہ کی تاریخ پر لکھی جانے والی کتابوں میں بھی سیرتِ نبوی پر کافی مواد موجود ہے۔ سیرتِ نبوی میں ایک دلچسپ رجحان حولیات نگاری کا پیدا ہوا، یعنی اطرافِ سیرت پر چھوٹے چھوٹے رسالے لکھے جانے لگے۔ بعد میں سیرت کے موضوع پر مختلف فہرستوں کی تیاری اور سیرت کے اساسی مصادر کی شروح و حواشی لکھنے کا رجحان بھی پیدا ہوا۔

سیرتِ نبوی میں ایک اہم رجحان مختصرات سیرت کا ہے۔ اس رجحان کی نمائندہ کتابیں بہت سی ہیں۔ سیرت نگاری میں ایک رجحان منظوم کتبِ سیرت کی صورت میں سامنے آیا۔ زین الدین عراقی کی الفیہ اس رجحان کی نمائندہ کتاب ہے۔ پانچویں اور چھٹی صدی میں مختلف کتابوں سے مواد حاصل کرکے ایک نئی کتاب لکھنے کا رجحان پیدا ہوا۔ ایک رجحان صرف کتبِ حدیث کی بنیاد پر سیرت نگاری کا بھی پیدا ہوا۔

مستشرقین کی خدمات کے نتیجے میں عہد حاضر میں موضوعاتی لحاظ سے کتبِ سیرت لکھنے کا رجحان بھی پیدا ہوا ہے۔ غرض تاریخ سیرت نگاری میں بہت سے رجحانات پیدا ہوئے، جن میں سے بعض کا آئندہ خطبات میں جائزہ لیا جائے گا۔

دوسرا خطبہ:
سیرت ابن اسحق، مغازی و اقدی اور طبقات ابن سعد وغیرہ کی روایات و متون کا تجزیاتی و تنقیدی جائزہ

اس خطبے میں فاضل مقرر نے سیرت نبوی کے بعض بنیادی مآخذ مثلاً سیرت ابن اسحق، سیرت ابن ہشام، مغازی واقدی اور طبقات ابن سعد وغیرہ کی روایات و متون کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ پیش کیا۔

فاضل مقرر نے ابتدائی سیرت نگاروں میں سے ابن اسحق، واقدی، ابن سعد، موسیٰ بن عقبہ، زہری، معمر بن راشد وغیرہ کے بارے میں علمائے جرح و تعدیل اور محدثین کی آرا کا جائزہ پیش کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ان مصادرِ سیرت پر نقد کی نوعیت کی وضاحت کی۔ مزید براں فاضل مقرر نے درج ذیل مباحث پر بھی روشنی ڈالی، کتبِ سیرت کا اسلوب، تاریخی ترتیب واقعات، مکی دورِ حیات کے واقعات کی ترتیب، بعثت کے بعد کی سیرت و واقعات، ابن اسحق و ابن ہشام کا طریقہ نقدِ روایات، ابن اسحق کا تصحیح روایات کا طریقہ اور ابن اسحق و ابن ہشام کا تعصب وغیرہ۔

تیسرا خطبہ:
بعض اہم کتبِ سیرت اوران کے اسالیب کا تنقیدی جائزہ

اس خطبے میں مہمان مقرر نے بعض اہم کتب سیرت مثلاً سیرت ابن اسحق، سیرت ابن ہشام اور الروض الأنف وغیرہ کا طریقۂ تالیف اور بعض اہم خصوصیات بیان کیں۔

فاضل مقرر نے کتبِ سیرت کی ایک اہم خصوصیت یہ بیان کی ہے کہ تقریباً تمام سیرت نگاروں کی عادت آدھا سچ بولنے کی ہے، جسے وہ خالص دروغ گوئی اور غلط بیانی کے الزام سے بچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن اس کا منفی اثر یہ پڑتا ہے کہ اصل حقیقت پوری طرح واضح نہیں ہو پاتی اور بعد میں آنے والے سیرت نگار غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فاضل مقرر نے اس سلسلے میں بہت سی مثالیں پیش کیں، جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ بیشتر سیرت نگاروں کے اسلوب نگارش سے یوں لگتا ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا صرف جناب ابوطالب تھے، حالانکہ سب کو یہ بات معلوم تھی کہ جناب ابوطالب کے علاوہ جناب زبیر بن عبدالمطلب بھی آپ علیہ السلام کے حقیقی چچا تھے۔

کتبِ سیرت کی ایک اہم خصوصیت تاریخی توقیت کا عدم لحاظ بھی ہے، جس کے نتیجے میں بعض غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں، جس کی واضح مثال مکہ مکرمہ میں صحابہ کرام کے درمیان ہونے والی مواخات کا نظروں سے اوجھل ہو جانا ہے۔

سیرت نگاری میں ایک اہم معاملہ دوسرے مصادر سے اخذِ روایات کا ہے۔ قدیم ترین مصادر سیرت میں قبولِ روایت کا ایک خاص طریقہ ملتا ہے کہ سیرت نگار کسی واقعہ سے متعلق صرف ایک راوی پر انحصار کرتے ہیں یا اس مفہوم کی متعدد و مختلف روایات کو جمع کرکے ایک متحدہ بیانیہ یا متحدہ روایت کے طور پر پیش کرتے ہیں، گو واقعہ و معاملہ ایک ہی ہوتا ہے۔ اختلافِ روایات کی صورت کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سیرت نگار ایک فرد یا طبقہ کے راویوں سے ان کی روایات بالعموم نقل کرتے ہیں اوران سے مختلف روایات بیان کرنے والے راویوں کی دوسری روایات بھی انہی کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں۔ ابن اسحق، ابن ہشام، واقدی، ابن سعد، بلاذری اور دوسرے تمام بنیادی مآخذ میں اسی دوسرے طریقے کو اختیار کیا گیا ہے۔

آخر میں فاضل مقرر نے متضاد روایات کے سلسلے میں سیرت نگاروں کے تین طریقے بیان کیے ہیں، جو اصول حدیث و تاریخ میں بھی مسلمہ ہیں۔

چوتھا خطبہ:
حدیث، انساب اور تاریخ کی کتابوں میں موجود روایاتِ سیرت کا جائزہ

اس خطبے میں فاضل مقرر نے قرآن کریم، حدیث نبوی، کتب انساب اور کتب تاریخ کی روشنی میں سیرت نگاری کے مباحث پر روشنی ڈالی ہے۔ قدیم سیرت نگاروں میں سے ابن اسحاق، ابن ہشام، واقدی اور یعقوبی وغیرہ نے قرآن کریم کو سیرت نبوی کے ماخذ کے طور پر استعمال کیا اور قرآنی آیات کے جابجا حوالے نقل کیے ہیں۔ جدید سیرت نگاروں نے بہت سے امور میں ابن اسحاق و ابن ہشام کی پیروی کے باوجود اس پہلو پر کم توجہ دی ہے۔ اس سلسلے میں علامہ شبلی کا کسی حد تک استثنا کیا جاسکتا ہے۔ فاضل مقرر نے قدیم و جدید سیرت نگاروں کی تحریروں سے سیرت نگاری میں قرآنی آیات سے استشہاد کی بہت سی مثالیں نقل کیں۔

سیرتِ نبوی حدیث و سنت کی ایک شاخ ہے اور فن سیرت اسی مخصوص علم وحی سے ارتقا پذیر ہوا ہے، اسی وجہ سے ایک طرف محدثین فن سیرت کے جامع اور ماہر ہوتے تھے، جب کہ دوسری طرف تمام ممتاز سیرت نگار محدثین میں شمار ہوتے تھے، گو بعد کے سیرت نگاروں نے زیادہ تر کتبِ سیرت کو اپنا اصل ماخذ بنایا اور کتب حدیث کو ثانوی ماخذ کی حیثیت سے استعمال کیا۔ فاضل مقرر نے سیرت نگاروں کے اس باب میں کتب حدیث سے استفادہ کرنے کی بہت سی روایات نقل کیں۔

اس کے علاوہ فاضل مقرر نے درج ذیل مسائل پر بھی روشنی ڈالی، حدیث و سیرت میں تعارض کا مسئلہ، تجزیہ و تحلیل کا مسئلہ، روایت خاص میں دوسری روایت کا تداخل، بعد کے واقعات کا قدیم روایات میں تداخل، دوسرے مآخذ سے ماخوذ روایات، روایات سیرت ابن اسحاق، روایات واقدی و ابن سعد، روایات بلاذری، مصادر سیرت سے نئی معلومات، مختصراتِ سیرت، مقامی تاریخ کی کتابیں مثلاً اخبار مکہ، وفاء الوفاء بأخبار دارالمصطفیٰ اور کتب انساب مثلاً مصعب بن عبداللہ زبیری اور زبیر بن بکار بن عبداللہ زبیری کی کتابیں۔

پانچواں خطبہ: کتب سیرت کی تاریخی اور موضوعاتی ابواب بندی اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع جہات کا مطالعہ

اس مقدمے میں فاضل مقرر نے درج ذیل امور پر تفصیلی روشنی ڈالی: روایاتِ سیرت کا درایتی اور متنی نقد و تجزیہ، سیرت نگاری پر اصول درایت کا منفی و مثبت اطلاق، سیرت نگاری میں تجزیاتی نگارش کے طریقے، موضوعاتی ابواب بندی اور متن حاشیے اور ضمیمہ کے مسائل وغیرہ۔

روایتی نقد میں اصول جرح و تعدیل سے کام لیا جاتا ہے، جو بالعموم علمائے فن کے اقوال و آرا پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس معاملہ میں مزید دقتوں کا سامنا اُس وقت کرنا پڑتا ہے، جب ایک راوی کے بارے میں اقوال جرح بھی ملتے ہیں اور آرا تعدیل بھی۔ روایتی نقد و جرح میں محض اقوال و آرا پر انحصار ہوتا ہے اور مجروجن و ضعفاء اور ان کی کتابوں کے ماحول و متن سے سروکار نہیں ہوتا۔ روایت کی بنیاد پر نقد راوی اور جرح مؤلف کا ایک اہم زاویہ ہے، جس کی طرف اصولاً توجہ نہیں کی جاتی، وہ یہ کہ ایک امام سیرت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کوئی محکم اصول نہیں ملتا، بلکہ مختلف پیمانے مختلف زمانوں اور علاقوں میں اختیار کیے جاتے ہیں۔ نقد و تجزیہ کا دوسرا اصول درایت ہے، جس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہے کہ واقعات و روایات کو متن کی بنیاد پر پرکھا جائے۔ سیرت نبوی کے باب میں یہ بحث بھی درایت کے لحاظ سے آنی ضروری ہے کہ مختلف روایتوں میں سے کون سی قابل ترجیح ہے اور کیوں؟ متن یا متون خلافِ عقل، خلافِ قیاس، خلافِ شاہدہ و محسوسات اور خلافِ اصول مسلم وغیرہ ہونے کے علاوہ قرآن و حدیث کے خلاف بھی نہ ہوں۔ تمام روایات تاریخ و سیرت اندرونی شہادتوں کی بھی حامل ہوں اور ان کی تائید بیرونی شواہد سے بھی ہوتی ہو۔

مغربی تاریخ نگاری اور ان کے اصول تجزیاتی و تنقیدی نگارش کی جان ہیں اور وہ اسلامی اصول پر ہی ارتقا پذیر ہوئے ہیں، مستشرقین نے روایتی طریقہ جرح و تعدیل اور پورے اسماء الرجال کے علم سے بہت کچھ سیکھا اور درایتی اصول محدثین سے بھی کافی سبق لیا۔

اصول درایت کے منفی اور مثبت اطلاق دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ غلط و ضعیف کی نفی کے بعد لازمی طور پر صحیح و قوی کے اثبات کا مرحلہ آتا ہے۔ لہٰذا یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔

سیرت نویسی اور تاریخ نگاری کے مشرقی انداز بالخصوص مسلم طریقے پر بات صادق آتی ہے کہ وہ اسے روایات کی کھتونی بنا دیتے ہیں، لیکن تجزیہ و تنقیدِ روایات کرکے ان کی بنا پر بازیافتِ تاریخ یا تعمیرِ شخصیت کا کام نہیں کرتے، کیونکہ وہ تجزیاتی مطالعہ و تنقیدِ تصنیف کے طریقے سے نابلد ہیں۔

ایک جامع سیرت نبویؐ میں قدیم طریق پر مبنی تاریخی توقیت اور زمانی ترتیب کا سلسلہ صرف جزوی طور پر مفید ہے۔ عہدِ جاہلی یا عہدِ نبویؐ کے مکی و مدنی ادوار میں صرف ایک حد تک تاریخی ترتیب، واقعات و حوادث اور سوانح میں قائم کی جاسکتی ہے۔ اس مشکل سے نمٹنے کے لیے قدیم مآخذ و رواۃ نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ تاریخی ترتیب میں ہی موضوعاتی طریق اختیار کرلیا۔ جدید اردو سیرت نگاروں اور دوسرے سوانح نگارانِ نبوی نے بھی اسی قدیم روش نگارش کو جزوی یا کُلّی طور سے اپنا لیا کہ دوسرا چارہ نظر نہ آیا۔

(بشکریہ: ’’اخبار تحقیق‘‘۔ خصوصی شمارہ ۲۰۱۳ء۔ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی)

3 Comments

  1. اسلام علیکم : ی آپ لوگوں کی ایک بہت اچھی کوشش ہے لیکن جا ششماہی مجلہ شائع ہوتا ہے اس کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے اور اس میں ارٹیل؛ کس طرح شائع ہوتا ہے ؟ذرا طریقہ کار کی وضاحت اور اصول واضح کئے جائے۔شکریہ

Leave a Reply to zabih ullah Cancel reply

Your email address will not be published.


*