گوریلا جنگ لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں !

صومالی اسلامک کورٹ کونسل کے چیئرمین شیخ حسن طاہراویس کا کہنا ہے کہ ہماری کونسل تمام صومالی تنظیموں اوربین الاقوامی اداروں جس میں امریکی انتظامیہ سبھی شامل ہے کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے‘ میں نے محض صومالیہ میں امن و امان کی بحالی کی وجہ سے اپنی اس آمادگی کااظہارکیاہے‘مگر واشنگٹن اور اس کے حلیف امن و امان کے نہ خواہاں ہیں نہ کسی ملک کے اندر وہ یہ چاہتے ہیں ان کامقصد صومالیہ میں محض اپنی سازشوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا اورناپاک ارادوں کوعملی جامہ پہناناہے۔

کویت سے شائع ہونے والے عربی میگزین المجتمع کو انٹرویو دیتے ہوئے شیخ حسن کا کہنا تھاکہ اسلامک کورٹ کونسل امن و امان کی برقراری نمایاں خدمات کی وجہ سے بین الاقوامی نوبل انعام کی مستحق ہے۔ غیر جانبدار نگران کار ماہرین کی شہادت و گواہی کے مطابق صومالیہ میں ہماری کونسل کی کوششوں کی بدولت امن ومان کی صورتحال اس قدر بہتر ہوگئی تھی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، اور دو دہائیوں میں جس قدر حالات ابتر ہوگئے تھے اسے ہماری تنظیم نے جس تیزی کے ساتھ بہتر بنا کر لوگوں کو پر سکون زندگی بسر کرنے کا ماحول فراہم کیا وہ قابل داد مگر امن و امان کے دشمنوں کی نگاہوں میں چبھنے والا کانٹا تھا، آئندہ سطروں میں ہم ان سے کیے گئے سوالات اور ان کے جوابات پیش کررہے ہیں۔

سوال: سیکوریٹی کونسل کی قرارداد جس میں صومالیہ کو اسلحہ حاصل کرنے کا پابند بنانے اور افریقی فوج وہاں متعین کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ آپ اسے کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟

جواب: ہم نے اس فیصلہ اور قرارداد کو مسترد کرنے کا پہلے ہی اعلان کر دیا تھا۔ کیونکہ اس فیصلہ کا بنیادی مقصد ایتھوپیائی حکومت کی خدمت کرنا‘ اسے فائدہ پہنچانا اور صومالیہ کے اندرونی معاملات میں اس کی کھلی مداخلت و جارحیت کے لیے جواز پیدا کرنا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف پابندی اٹھائی جارہی ہے اور دوسری طرف انہیں وارننگ دی جارہی ہے۔ تاکہ وہ ایتھوپیائی فوجوں کے سامنے آسانی سے سرنڈر ہوجائیں ، اپنے آپ کو ان کے حوالہ کر دیں، اور وہ صومالیہ میں اپنی تاریخی خواہش آسانی کے ساتھ پوری کر لیں۔

س: ملک میں امن وامان بحال کرنے کے مقصد سے افریقی فوج کی آمد کو آپ کیوں مسترد کرتے ہیں؟جب کہ نگران حکومت کو گرانے کی آپ کی نیت نہیں ہے ، جس کا آپ نے پہلے اعتراف کیا تھا؟

ج: میں نے اس سے پہلے کسی ملک کو نہیں دیکھا کہ اس نے اپنی عوام پر فتح پانے کے لیے بیرونی فوج سے توانائی حاصل کی ہو، اور اپنی عوام کے ڈر سے غیر ملکی حفاظت و نگرانی اور بچائو و تحفظ حاصل کرنے کی درخواست کی ہو، یہ عجیب و غریب بات ہے جو خود ان فوجوں کی روانگی اور تعین کے مقصد کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ صومالیہ کے خلاف سازشی منصوبوں سے متعلق شکوک و شبہات اس لیے بھی ہیں کہ یہی ممالک جو افریقی فوجیوں کی روانگی و تعیناتی کے منصوبہ کو رواج دے رہے اور یہاں اسے بحال کر رہے ہیں، اس سے پہلے اس حکومت کو تسلیم نہیں کرتے تھے، مگر جب اسلامک کورٹ وجود میں آئی اور اس کار ول ظاہر ہونے لگا اور ملک امن و مان اوربحالی کی طرف گامزن ہوگیا تو ہمارے خلاف ساری دنیا اس حکومت کی تائید و حمایت کے لیے یہاں پہنچ گئی ، اسلامک کورٹ کونسل نے صومالیہ میں وہ کر دکھایا جسے دنیا کرنے میں عاجز وبے بس رہی، موغا دیشو اور صومالیہ کے بیشتر حصوں میں ایسا امن بحال ہوا کہ ماضی قریب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ، پھر وہ کیوںہماری مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے، اور ہمیں جنگ کے میدان میں دھکیل لائے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ایک ہی وجہ ہے ، یعنی ایسی کمزور حکومت جو اب تک ملک اور عوام کے لیے کچھ نہیں کر سکی، اس کی تائید وحمایت محض اس لیے کرنا کہ وہ مغربی ممالک کے اشاروں پر چلنے والی اور انہی کے افکار و خیالات اور نظریات کے مطابق کام کرنے والی ہے اورہم اس طریقہ اور فکر کے مخالف ہیں۔

س: صومالیہ سے متعلق سلامتی کونسل سے مذکورہ قرارداد پاس کرانے کے پیچھے امریکہ کے کیا مقاصد کار فرما ہیں؟

ج:میرے خیال میں عراق، افغانستان اور دنیا کے دیگر خطوں میں مسلسل نا کامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے یہاں وہ خیالی فتح حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ کی بڑی پریشانی یہ ہو کہ اس افریقی خطہ میں کہیں اسلامی حکومت قائم نہ ہو جائے ، جو جغرافیائی نقطہ نظر سے آبی گزرگاہوں اور بندر گاہوں پر اس کے قبضہ و کنڑول اور مفادات کو چیلنج کرنے والی ہو، اس طرح اس کا ایک مقصد اس خطہ میں اپنے حلیف ایتھوپیا کی کمر سیدھی کرنا اور اس کی تائید و حمایت کرنا ہے کیونکہ افریقہ میں ایتھوپیا مسلمانوں کے ساتھ ویسا ہی ہے جیسے مشرق و سطیٰ میں اسرائیل، اسی طرح ۱۹۹۴ء میں صومالیہ کے اندر امریکہ کی ناکامی و شکست جس میں اس کے متعدد فوجی ہلاک ہوئے تھے، اس کے بعد سے امریکہ کو صومالیہ اور یہاں کے لوگوں سے ایک خاص دشمنی ہوگئی تھی، وہ اس وقت اُس کا بھی انتقام لینا چاہتا اور صومالیہ والوں کو مزا چکھانا چاہتا ہے جب کہ اُس وقت امریکہ کے گنے چنے فوجی ہی مار ے گئے تھے، اور اس وقت بھی ہزاروں صومالی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

س:بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ لوگ واشنگٹن سے بات چیت شروع کرنا چاہتے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے؟

ج: ہم کسی سے کسی بھی وقت بات چیت کے لیے تیار ہیں ، خواہ ہم سے بات کرنا والا کوئی ملک ہو یا بین الاقوامی تنظیم ہو‘ ہمیں دنیا کی ضرورت ہے اور ہم امن و سلامتی کے ساتھ جینا چاہتے،مگر امریکہ ہمیشہ سے اس کا مخالف ہے اور وہ کبھی کہیں امن و امان دیکھناگوارانہیں کرتاہے ، اس وقت وہ صومالیہ کے اندر موجود تین مطلوبہ اشخاص کی سپردگی کا مطالبہ کررہاہے اس کے لیے یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں کہ تین افراد کے بدلے وہ پورے ملک‘ عوام اور آبادی کو ہلاک اور تہس نہس کر دے جب کہ کسی کو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ تین افراد کون ہیں، اور صومالیہ میں وہ کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں؟

س: کسی بین الاقوامی یا امریکی یا کسی ملک کے وفد کا استقبال کرنے کے لیے کیا آپ تیار ہیں‘ جو ان لوگوں کی صومالیہ میں موجودگی کا پتہ چلانے کے لیے آرہا ہو جس کے بارے میں امریکہ کا خیال ہے کہ وہ یہاں چھپے ہوئے ہیں؟

ج: میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر واقعی ایسی کوئی سنجیدگی کی بات ہے تو ہم ہر ایسے افرادکو خوش آمدید کہیں گے جو اس کی تحقیق کرنے کے لیے ہمارے پاس آئیں گے ، مگر بظاہر امریکہ کو اس سے کوئی سروکار یا دلچسپی نہیں ہے، وہ تو ان خیالات اور مفروضوں کو صومالیہ میں اپنے سازشی منصوبوں کی تکمیل کے لیے بطور ڈھال استعمال کر رہا ہے، خاص طور پر اسلامک کورٹ کونسل کے ظہور کے بعد اب وہ اس کے پردہ کے پیچھے اپنے مقاصد اور منصوبوں کو رو بۂ عمل لانا چاہتاہے۔

س:ایتھو پیائی فوجوں کے ساتھ جو جنگ اس وقت لڑی جارہی ہے اس کے مستقبل کے بارے میں آپ کی کیارائے ہے؟

ج: اگر امریکہ کی چھتری اس کے سروں پر نہیں ہوتی اور اس کی جانب سے گرین سگنل اور واضح احکامات نہیں ملے ہوتے تو وہ کبھی ہمارے ملک میں داخل ہونے کی جرات نہیں کر سکتا تھا، ہم ان ایتھوپیائی فوجوں اور امریکی یلغاروں و بمباریوں کا مقابلہ کرتے رہیں گے۔ اور ہم اپنی حفاظت کرتے ہوئے انہیں ایسا مزہ چکھائیں گے جسے وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ جو لوگ ان امریکیوں یا ایتھوپیائیوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں وہ ہماری نگاہ میں اسی کے حکم اور زمرہ میں ہیں ، ہم اپنے صومالی بھائیوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اس مثلث سے دور رہیں، ہم کسی صومالی بھائی کا خون بہانا نہیں چاہتے مگر غداروں کو بخشا بھی نہیں جا سکتا ہے۔

س: ان مسلسل تبدیلیوں کے بعد کیا آپ کے اور نگراں حکومت کے درمیان مصالحت کے مواقع ختم ہوچکے ہیں؟

ج: نگراں حکومت کے صدرِ مملکت عبداللہ یوسف نے جس طرح کہا ہے کہ بات چیت یا مصالحت کے دروازے بند ہو چکے ہیں میرا اس کے بر خلاف کہنا ہے کہ بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں ہو سکتے مصالحت کا یہ دروازہ اب بھی کھلا ہے اور جب تک مسائل و مشکلات موجود ہیں، اس کا دروازہ کھلا رہے گا ، ہم تو اندرون و بیرون کہیں بھی کسی بھی وقت حکومت کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں ، مگر ہم چاہیں گے کہ یہ بات چیت ملک کے اندر ہو ، اگر مجھے بیداوا بھی بلایا گیا تو ہم وہاں بھی پہنچ جائیں گے ، ہم تو اس کے علمبردار ہیں، اس سے وہی پیچھے ہٹتا جو امن کا دشمن ہوتا ہے۔

س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یمنی حکومت کی نگرانی میں اسلامک کورٹ کونسل کی مجلس عاملہ اور نگراں حکومت کے اسپیکر شریف آدم کے درمیان طے پایا معاہدہ بحران سے نکلنے کے لیے کافی تھا جب کہ نگران حکومت کے صدرِ مملکت اور وزیر اعظم کو اس پر اعتراض بھی تھا اور پھر جنگ بھی شروع کر دی گئی۔

ج:موغادیشواور نیروبی میں ہم نے موجودہ پارلیمنٹ کے اسپیکر شریف حسن کے ساتھ ایک معاہدہ ضرور کیا تھا ، وہ امن کے خواہاں انسان ہیں، ہم ہمیشہ ان کو اور ان کے ارکان پارلیمنٹ کو جو اپنے وطن اور اپنے دین و مذہب کی محبت میں موغادیشو آئے تھے خوش آمدید کہیں گے، بیداوا میں موجود دیگر ارکان پارلیمنٹ کو بھی ہم مصالحت کی کوششوں میں حصہ لینے کی دعوت دیتے ہیں۔

س: اگر حکومت اپنے موقف پر اڑی رہی تو؟

ج: ہم مصالحتی کوششوں کے اب بھی منتظر ہیں، ہم شہروں سے پیچھے ہٹ گئے ہیں کہ زیادہ خون خرابہ نہ ہو اور بے گناہوں کی جان نہ جائے اگرچہ دشمن کا حربہ یہی ہوتا ہے کہ شہریوں کی جان لے کر امن پسند طاقت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جائے مگر الحمدللہ ہماری طاقت پہلے کی طرح مضبوط ہے اور ہم طویل جنگ لڑ سکتے ہیں ہم امن کی خاطر اب بھی مصالحتی کوششوں کے منتظر ہیں، لیکن اگر اس سے ہمیں بالکل ہی مایوسی ہوئی تو اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنی کاروائیاں پورے صومالیہ میں ایک ساتھ شروع کر دیں اور بن بلائے مہمانوں کی زندگی اس طرح دو بھر کر دیں جیسا کہ پہلے امریکا کو مزہ چکھایاجاچکا ہے ۔ ہم ایک ایسی مشترکہ کانفرنس منعقد کرنا چاہتے ہیں جس میں اندرون و بیرون کے تمام صومالی معاشرہ کی نمائندگی ہوگی، وہی اپنا نمائندہ منتخب کریں گے۔ اس کانفرنس کے سر چشمہ سے اگر اللہ نے چاہا تو ہم صومالیہ کی سرزمین کو ناپاک قدموں سے پاک کریں گے اور ایک اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالیں گے‘ چاہے مغرب کتنا ہی اس کی مخالفت کرتا رہے اور اس کے لیے اپنے وسائل استعمال کرے مگر آج نہیں تو کل ایسا ضرور ہوگا۔ ان شاء اللہ!

(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*