سعودی عرب امریکا تعلقات
Posted on March 16, 2017 by STEVEN A. COOK in شمارہ 16 مارچ 2017 // 0 Comments

گزشتہ جنوری میں سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے صاحبزادے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان نے کنگ فیصل ایئر اکیڈمی کی پچاسویں سالگرہ منائی۔ اطلاعات ملی ہیں کہ اس موقع پر سعودی عرب نے اپنے فضائی بیڑے میں چند نئے F-15SAs (لڑاکا طیاروں) کا اضافہ کیا۔ یہ نئے لڑاکا طیارے بوئنگ کے تیار کردہ ایف۔۱۵ طیاروں کا نیا ورژن ہیں۔ سعودی عرب نے ۲۰۱۱ء میں ۴ء۲۹؍ارب ڈالر کا ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت اسے ۸۴ نئے F-15SAs طیارے اور ۶۸ (اپ گریڈ کیے ہوئے) F-15S طیارے ملیں گے۔
یہ بڑا سودا تھا مگر سعودیوں کے لیے یہ کافی نہ تھا۔ ۲۰۱۴ء سے سعودی عرب نے ۳۰؍ارب سے زائد مالیت کے امریکی ہتھیاروں کے آرڈر بھی دے رکھے ہیں۔ یہ سب کچھ مارچ ۲۰۱۵ء میں یمن میں سعودی مداخلت شروع ہونے سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا نتیجہ ہے۔ سعودی عرب نے فرانس اور برطانیہ سے بھی ۲۲؍ارب ڈالر کے ہتھیار خریدے ہیں۔ ان تمام خریداریوں کے نتیجے میں سعودی عرب ہتھیاروں کا دوسرا بڑا خریدار بن گیا ہے۔
حال ہی میں امریکی ایوانِ نمائندگان میں ایک وسیع البنیاد بحث کا اہتمام کیا گیا، جو امریکا سعودی عرب تعلقات کی افادیت کے حوالے سے تھی۔ اس بحث کے دوران دونوں طرف سے دو دو ماہرین نے دلائل دیے۔ بحث کے اختتام پر ایوان میں رائے شماری کرائی گئی تو ۵۶ فیصد ارکان نے سعودی عرب کو اہم اسٹریٹجک پارٹنر قرار دیا اور یہ کہ اس کی یہ حیثیت برقرار رکھی جانی چاہیے۔ ان کی رائے یہ تھی کہ سعودی قیادت امریکا سے اتنے بڑے پیمانے پر ہتھیار خریدتی ہے کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ اور یہ بات بھی یاد رکھی جانی چاہیے کہ سعودی عرب جو ہتھیار خریدتا ہے، اُس سے امریکا میں ہتھیار بنانے والے ادارے ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرنے کے قابل رہ پاتے ہیں۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب معیاری اور باصلاحیت پارٹنر ہے۔
چند برس قبل ریاض میں اعلیٰ حکام نے محسوس کرنا شروع کیا کہ امریکا کو سعودی عرب کی سلامتی یقینی بنائے رکھنے سے کچھ زیادہ غرض نہیں۔ اس تصور کے ابھرتے ہی سعودی قیادت نے دفاع کے حوالے سے اپنے نظریے پر نظرثانی شروع کی۔ سعودی عرب کو ایران سے امریکا کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر غیر معمولی تشویش لاحق تھی۔ جارج واکر بش کے دور میں جب امریکا نے ایران سے بیک ڈور مذاکرات شروع کیے، تب سعودی عرب نے ناراضی کا اظہار کیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے امریکا خلیج فارس کے خطے میں سعودی عرب کے بجائے ایران کو اپنے مرکزی اتحادی کے روپ میں دیکھنے کا متمنی ہے۔ بعد میں براک اوباما نے جو کچھ کیا، وہ بھی سعودی عرب کو ناراض کرنے کے لیے کافی تھا۔ امریکا نے جنوری ۲۰۱۱ء میں مصر میں صدر حسنی مبارک کو برطرف کیے جانے پر ان کی حمایت نہیں کی۔ شام کے معاملے میں بھی امریکی رویہ قدرے جھجھک پر مبنی رہا۔ اس سے ریاض میں یہ تصور مزید پروان چڑھا کہ امریکا اب ایران کی طرف جھک رہا ہے اور خطے میں اسے زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانا چاہتا ہے۔
دی جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن (ایرانی جوہری معاہدہ) کو سعودی عرب اور خلیج میں اس کے حلیفوں نے ایران کی طرف امریکا کے جھکاؤ کے روپ میں دیکھا اور انہیں یقین ہوگیا کہ اب امریکا سعودی عرب اور خلیج کے دیگر ممالک کو پہلی سی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ سعودی قیادت اس نتیجے پر پہنچی کہ اگر امریکی قیادت ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات کو کنٹرول کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہی تو پھر اُسے (سعودی قیادت کو) بھی اپنی مرضی کی راہ پر گامزن ہونے کا حق ہے۔
سعودی قیادت کے رویے میں رونما ہونے والی یہ تبدیلی خاصی ڈرامائی تھی۔ عشروں تک سعودی عرب یہ سمجھتا رہا کہ وہ اپنی سلامتی کے لیے امریکا پر بھروسا کرسکتا ہے۔ یہ سب کچھ فرینکلن روزویلٹ کے دور میں شروع ہوا تھا۔ سعودی عرب نے اپنی سلامتی یقینی بنانے کے لیے ہمیشہ امریکا کی طرف دیکھا ہے۔ یہ سب کچھ تیل کی دولت پر منحصر تھا۔ سعودی عرب سمیت پورے خطے میں تیل کے وسیع ذخائر تھے۔ امریکا اور یورپ کو تیل کی ضرورت تھی۔ وہ تیل کی سپلائی پر کسی اور خطے کی اجارہ داری یا اثرات برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ دوسری طرف سعودی عرب نے بھی امریکا سے بڑے پیمانے پر ہتھیار خرید کر اس شراکت داری کو غیر معمولی تقویت بخشی۔ سعودی عرب نے امریکا سے بڑے پیمانے پر ہتھیار ضرور خریدے مگر خیر وہ اپنے حریفوں کو دور رکھنے کے لیے طاقت کے استعمال سے زیادہ سفارت کاری پر زور دیتا رہا۔ تیل سے ہونے والی آمدن کو سعودی قیادت نے خطے میں اپنے مفادات مستحکم کرنے کے لیے سیاسی اور سفارتی طور پر خوب استعمال کیا۔
معاملات کبھی مکمل طور پر سعودی عرب کے حق میں نہیں رہے۔ وہ سیاسی اور سفارتی سطح پر جو کچھ کرتا رہا، اُس کے نتیجے میں ہمیشہ مثبت اثرات رونما نہیں ہوئے۔ امریکا سے تعلقات کا بہتر رہنا سعودی عرب کے لیے بہت اہم تھا۔ سعودی عرب اس بات کو سمجھتا تھا کہ امریکا واحد سپر پاور ہے، اس لیے اس کی طاقت غیر معمولی ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ وہ خطے میں اپنے مفادات زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کے لیے وہ سب کچھ کرتا رہا، جو لازم تھا۔ اس کی واضح مثال ۱۹۸۰ء کے عشرے کی ایران عراق جنگ ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب نے عراق کا کھل کر ساتھ دیا۔ عراقیوں کو اسلحہ بھی ملا اور مالی امداد بھی۔ اس کی بہترین مثال صدام حسین کو راستے سے ہٹانے کی ہے۔ صدام کو استعمال کرکے سعودی عرب نے ایران کو کمزور کیا۔ مگر جب ۱۹۹۰ء میں صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تو سعودی حکمراں خاندان کو اپنے لیے خطرات محسوس ہوئے اور اس نے امریکا کی مدد سے صدام حسین کو کنٹرول کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ مگر اس کے بعد سعودیوں نے اپنے دفاع کے لیے امریکا یا کسی اور ملک پر مکمل انحصار کرنا چھوڑ دیا۔ سعودی حکمراں خاندان نے علاقائی سیاست میں مرکزی کردار ادا کرنے پر توجہ دی۔ خلیجی ممالک سے تعلقات بہتر بنائے۔ اور یوں نیا دفاعی نظریہ اپنانے کی کوشش کی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مل کر ۲۰۱۱ء کے موسم بہار میں بحرین کے سیاسی بحران کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور وہاں ۱۵۰۰ سعودی سپاہی تعینات کیے گئے۔ بحرین میں سیاسی بحران تیزی سے پنپ رہا تھا۔ وہاں کے حکمراں خاندان کو مشکلات کا سامنا تھا۔ ایران نے بحرین میں اپنا کردار وسیع تر کردیا تھا۔ ایسے میں سعودی قیادت کے لیے ناگزیر ہوگیا کہ اس کے اثرات کا دائرہ محدود رکھنے پر خاطر خواہ توجہ دے۔
بحرین میں سعودی عرب کا کردار کامیاب رہا۔ بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسٰی الخلیفہ کی حکومت سلامت رہی اور بحرین ایرانی اثرات سے محفوظ ہوگیا۔ یہ آخری موقع تھا کہ جب سعودی عرب نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنا ایک اہم ہدف حاصل کیا۔ ایران اور سعودی عرب لبنان میں کئی برس تک ایک دوسرے کے مقابل رہے تھے۔ لبنان میں ایران اپنے اتحادی (حزب اللہ ملیشیا) کی وساطت سے سعودی عرب کے اتحادیوں کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ طاقتور رہا۔
شام کے بحران میں ایرانی غیر معمولی حد تک ملوث تھے۔ یہ سب کچھ سعودی عرب کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ ایسے میں سعودی عرب نے لبنان میں بڑا قدم اٹھانے کی کوشش کی تاکہ وہاں ایران کے اثرات کا دائرہ محدود کیا جاسکے۔
دسمبر ۲۰۱۳ء میں سعودی عرب نے اعلان کیا کہ وہ لبنان کی مسلح افواج کو مضبوط تر بنانے کے لیے ۳؍ارب ڈالر خرچ کرے گا۔ اس رقم سے نئے ہتھیار خریدے جائیں گے اور افواج کی بہتر تربیت کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد لبنانی مسلح افواج کو ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ ملیشیا کے مقابل زیادہ طاقتور بنانا تھا مگر یہ مقصد پوری طرح حاصل نہ کیا جاسکا۔ لبنان نے ۲۰۱۶ء کے اوائل میں جب تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر حملے کی مذمت سے گریز کیا تو سعودی قیادت ناراض ہوگئی۔ اس سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی کہ لبنان میں سعودی نواز سیاست دانوں کا اثر و رسوخ کم ہوگیا ہے۔
شام میں سعودی عرب کا کردار اتنا نمایاں نہیں تھا، جتنا ترکی کا تھا۔ یا جیسا بشارالاسد کے خلاف اتحاد کی تشکیل میں قطر کا کردار تھا۔ مگر خیر، سعودیوں نے شام میں بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی اپنی کوشش ضرور کی۔ ۲۰۱۲ء کے اوائل میں امریکا میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ بندر بن سلطان نے شام کے حکومت مخالف باغیوں کو کروشیا اور اردن کے ذریعے ہتھیار اور مالی امداد فراہم کرنے کی نگرانی کی۔ کچھ واضح نہیں کہ یہ سلسلہ کب ختم ہوا۔ اردن کی قیادت اس سلسلے سے خوش نہ تھی۔ یہ بھی واضح نہیں کہ سعودی عرب کی طرف سے کی جانے والی اس کوشش کا سب سے زیادہ فائدہ کسے اور کتنا پہنچا۔ اس وقت شام میں کئی گروپ لڑ رہے تھے۔ اب تک یہ بات کھل کر سامنے نہیں آسکی کہ کس گروپ کو سعودی مال کتنا ملا۔
سعودی عرب کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ ایران کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں دیوار کھڑی کرتے ہوئے خطے میں اپنا کردار ادا کرے مگر اس کوشش میں اسے اب تک مکمل یا خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ فی الحال بھی ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ بشارالاسد شام پر حکومت کرتے رہیں گے اور اسے ایران کی اسٹریٹجک فتح ہی سمجھا جائے گا۔
یمن میں سعودی عرب نے مارچ ۲۰۱۵ء میں مداخلت کی جب حوثی قبائل کے جنگجوؤں نے صدر عبد ربہٗ منصور کی حکومت کو دارالحکومت صنعا سے نکال باہر کیا۔ یہ واقعہ سعودی عرب کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔ سعودی قیادت کو اندازہ تھا کہ اگر بھرپور حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے تو یمن کے باغیوں کو سعودی عرب میں داخل ہونے سے روکنا ممکن نہ ہوگا۔ سعودی قیادت جانتی تھی کہ یمن میں باغیوں کی پوزیشن مضبوط ہونے سے ایران کے اثرات بھی مستحکم تر ہوجائیں گے۔ اگر یمن میں حزب اللہ ملیشیا کو قدم جمانے کا موقع ملتا تو ایران خطے میں توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے زیادہ متحرک ہوجاتا۔ ایران کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے سعودی قیادت نے یمن میں مداخلت کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر عمل باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری سے شروع ہوا۔ سعودی ایئر فورس کے ایف۔۱۵ طیاروں نے یمن کے کئی شہروں میں باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کے ذریعے ایران کے اثرات کو کمزور کرنے کی بھرپور، مگر کم کامیاب کوشش کی۔ یمن کے خلاف کارروائی میں سعودی عرب نے غیر معمولی حد تک خرچ کیا ہے۔ سعودی قیادت جن باتوں سے ڈر رہی تھی، وہی باتیں ہو رہی ہیں۔ حوثی باغیوں نے ایران سے مل کر سعودی عرب کے لیے بڑے خطرے کی شکل اختیار کرلی ہے۔ سعودی سلامتی کو پہلے سے کہیں زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ حوثی باغیوں سے سعودیوں کا یہ کوئی پہلا ٹاکرا نہیں۔ ۱۹۳۰ء کے عشرے میں بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ اور ۲۰۰۹ء میں بھی سعودیوں نے حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کی تھی، جو قدرے ناکام رہی اور سعودی فورسز کو پسپا ہونا پڑا تھا۔
جزیرہ نما عرب کے مغربی حصے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات کا دائرہ محدود کرنے کے لیے اس وقت متحدہ عرب امارات کی قیادت سعودی عرب کا کھل کر ساتھ دے رہی ہے۔ اب یمن کے محاذ پر بھی دونوں ساتھ ساتھ ہیں کیونکہ امارات کو اندازہ ہے کہ اس کی بھرپور معاونت کے بغیر سعودی قیادت کامیاب نہ ہوسکے گی۔
سعودی عرب دو سال سے یمن پر بمباری کر رہا ہے۔ یہ خطے کا غریب ترین ملک ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلسل دو سال سے کی جانے والی بمباری کے نتیجے میں یمن میں کس قدر جانی و مالی نقصان ہوا ہوگا۔
سعودی عرب نے اب تک یہ تاثر دیا ہے کہ یمن میں اس کی فوجی کارروائی بِلاامتیاز ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ سابق صدر براک اوباما نے سعودی عرب کو فضا سے داغے جانے والے اور قطعیت کے ساتھ ہدف پر پہنچنے والے ہتھیار فراہم کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ یمن میں شہریوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے پیش نظر براک اوباما نے سعودی عرب کو کلسٹر بم کی فروخت بھی معطل کردی تھی مگر کانگریس نے فراہمی بحال کردی۔ سعودی عرب نے یمن کی تعمیر نو کے لیے ۱۰؍ارب ڈالر خرچ کرنے کا عندیہ دیا ہے مگر جو تباہی سعودی فوجی کارروائی کے نتیجے میں وہاں ہوئی، اُسے دیکھتے ہوئے یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔
سعودی قیادت نے خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی پالیسی اپنائی ہے مگر یہ پالیسی اب تک منفی نتائج پیدا کر رہی ہے۔ سعودی فورسز اب تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ دی رائل سعودی عربین آرمڈ فورسز پیچیدہ کارروائیاں کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ سعودی عرب نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ شام میں بری افواج کے دستے تعینات کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس اعلان کو سعودی عرب کی طرف سے ناکامی کے اعتراف کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ شام میں کئی ممالک کی فورسز متحرک ہیں۔ ایسے میں سعودی عرب صرف اپنا پرچم بلند رکھنے کی خواہش پر عمل کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس عمل سے بظاہر کچھ بھی مثبت باہر نہیں آئے گا۔ خطے کی دیگر افواج سے سعودی افواج کا کوئی مقابلہ نہیں۔ وہ زیادہ منظم اور مستعد ہیں۔
خطے میں سعودی عرب سفارتی سطح پر بھی کامیاب نہیں رہا۔ معاملہ بیروت کا ہو یا قاہرہ کا یا پھر دوحا کا۔ سعودی قیادت اب تک بھرپور کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے اقدامات سے مزید کشیدگی اور تشدد کو راہ ملی ہے۔
’’دی انٹیلی جنس اسکوائرڈ یو ایس‘‘ بحث میں حصہ لینے والے جن ماہرین نے سعودی عرب کو اسٹریٹجک پارٹنر بنائے رکھنے کی وکالت کی، وہ بالکل درست تھے، گوکہ ان کے پاس وجوہ غلط تھیں۔ امریکا کو چاہیے کہ سعودی عرب کو اپنا اسٹریٹجک پارٹنر بنائے رکھے، اس لیے نہیں کہ سعودی عرب تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے یا یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا بڑا ساتھی ہے، اور نہ ہی اس لیے کہ دو طرفہ تعلقات سے واشنگٹن کو فائدہ پہنچے گا، بلکہ محض اس لیے کہ سعودی عرب کو آزاد حیثیت میں کام کرنے کی اجازت دی گئی تو وہ خطے میں مزید انتشار کے بیج بوئے گا۔ اور اس وقت کوئی بھی ایسا نہیں چاہتا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Should the U.S. maintain its alliance with Saudi Arabia?” (“Council on Foreign Relations”. February 27, 2017)
Leave a comment