امریکی ریاست وسکونسِن (Wisconsin) میں سکھوں کے معبد گردوارے پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں ۶؍افراد کی ہلاکت نے امریکی حکام کو مزید پریشان کردیا ہے۔ اس واقعے کا ذمہ دار ایک سفید سابق فوجی ویڈ مائیکل پیج ہے۔ اس واقعے نے امریکا میں سفید فام انتہا پسندوں کی جانب سے عسکریت پسندی کے خطرے کو پھر نمایاں کردیا ہے۔ امریکا میں لاکھوں سفید فام ایسے ہیں جو ہر حال میں اپنی برتری قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اِسے پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ اِن کی نظر میں وقعت صرف سفید رنگت کی ہے۔ باقی سب لوگوں کو یہ Colored کہتے ہیں۔ امریکی تفتیشی ادارے اب اِس بات سے خوفزدہ ہیں کہ سفید فام برتری پسند عناصر کہیں فوج کی صفوں میں داخل ہوکر تربیت وغیرہ تو حاصل نہیں کر رہے۔
شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی ادارے (مثلاً سدرن پاورٹی لا سینٹر) یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ سفید فام انتہا پسند اپنے کارکنوں کو بہتر عسکری تربیت کے لیے فوج میں بھیج سکتے ہیں تاکہ بعد میں جرائم بہتر ڈھنگ سے کرنے کے لیے عسکری تربیت سے استفادہ کیا جاسکے۔
ٹی جے لیڈن (T.J. Leyden) سابق سفید فام برتری پسند ہیں اور اب امریکی فوج کو انتہا پسند سفید فام افراد کی شناخت میں مدد دینے پر مامور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج میں یہ خدشہ موجود ہے کہ کہیں سفید فام انتہا پسند اور بالخصوص نازی ازم کے پیروکار بڑی تعداد میں نہ آجائیں۔ بہت سے امریکی فوجی جاننا چاہتے ہیں کہ انتہا پسندوں کو کس طور شناخت کیا جائے اور ان سے کس طور نمٹا جائے۔
ٹی جے لیڈن کا کہنا ہے کہ جب اُنہوں نے انتہا پسند گروپ میں شمولیت اختیار کی تو اُن پر زور دیا گیا کہ میرین کور میں شمولیت اختیار کریں۔ طریق واردات یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ انتہا پسندوں کو فوج میں بھیجا جائے تاکہ وہ بہتر عسکری تربیت لے کر باہر آئیں۔ ایسے اعلیٰ تربیت یافتہ افراد کسی بھی انتہا پسند گروپ کے لیے بہترین اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیڈن کا کہنا ہے کہ سفید فام انتہا پسند گروپ ایک طرف تو اپنے ارکان کو عسکری تربیت کے لیے فوج میں بھیجتے ہیں اور دوسری طرف وہ فوج میں بھی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ فوج میں ارکان کی تعداد بڑھے تاکہ ضرورت پڑنے پر ان سے کام لیا جاسکے۔ فوج میں ارکان کی تعداد بڑھنے سے گروپ کا اعتماد بھی بڑھتا ہے اور اس کے غیر فوجی ارکان بھی خود کو کسی حد تک برتر اور زیادہ با اعتماد محسوس کرنے لگتے ہیں۔
ویڈ مائیکل پیج جب فوج میں تھا، تب نسل پرستی کے حوالے سے اس کے خیالات اور جذبات کیا تھے، یہ کم لوگوں کو معلوم ہے۔ امریکی فوج کی ترجمان لیفٹیننٹ کرنل لیزا گارشیا کا کہنا ہے کہ وہ ویڈ مائیکل پیج کے فوج سے الگ ہونے کے اسباب پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک مرحلے پر پیج سارجنٹ بھی بنا۔ اس نے فوج اسپیشلسٹ کی حیثیت سے چھوڑی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ مفروضہ قائم کیا جاسکتا ہے کہ آرٹیکل ۱۵؍کے تحت کوئی کارروائی ہوئی اور ویڈ مائیکل پیج کا رینک گھٹا دیا گیا۔ آرٹیکل ۱۵؍کے تحت کی جانے والی کارروائی انتظامی نوعیت کی اور کورٹ مارشل سے نچلے درجے کی ہوتی ہے۔
ماضی میں بھی امریکی فوج کے افسران اپنی صفوں میں انتہا پسندوں کی موجودگی کے حوالے سے خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ امریکی فوج کی کرمنل انویسٹی گیشن ڈویژن فوج کی صفوں میں انتہا پسندوں کا سراغ لگانے اور ان سے گلو خلاصی جیسے امور پر کام کرتی ہے۔ محکمہ دفاع کے سابق گینگ انویسٹی گیٹر اسکاٹ بارفیلڈ نے ۲۰۰۶ء میں سدرن پاورٹی لا سینٹر کو اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہر سال فوج میں یہ رپورٹ پیش کی جاتی ہے کہ انتہا پسندوں کی تعداد انتہائی گھٹ گئی ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اب بھی فوج کی صفوں میں ہزاروں ایسے انتہا پسند سفید نسل پرست موجود ہیں جو پختہ نظریات رکھتے ہیں اور کسی بھی وقت فوج کے ڈسپلن کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
ٹی جے لیڈن کا کہنا ہے کہ فوج سے آنے والوں کو انتہا پسند اور نسل پرست گروپوں میں بہت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ عسکری تربیت لینے کے ساتھ ساتھ جنگ کا عملی تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ وہ احکام دینا اور لینا جانتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ قیادت کیا ہوتی ہے اور کسی بھی معاملے میں احکام پر عمل کس طور کیا جاتا ہے۔ جن فوجیوں نے عراق اور افغانستان میں جنگ کا عملی تجربہ حاصل کیا ہے وہ اپنے انتہا پسند گروپ کے لیے کسی بھی خطرناک منظر نامے میں بہت عمدہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی نئے ارکان کے حوصلے بلند کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔ ٹی جے لیڈن نے ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۰ء کے دوران میرین کور میں نسل پرست گروپوں سے تعلق رکھنے والے ۶؍ ارکان بھرتی کیے۔ ان ارکان کو سختی سے ہدایت کی گئی کہ وہ بازوؤں پر ٹیٹوز گدوانے سے گریز کریں، تربیت لیں اور جائیں۔ یہ لوگ امریکی حکومت کا تختہ اُلٹنے کا عزم رکھتے تھے اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے تھے۔
لیڈن نے جو ہدایت نوجوان نسل پرستوں کو دی اُس پر خود بھی عمل نہیں کیا۔ اُنہوں نے اپنی گردن پر ایک ٹیٹو گدوایا اور کمرے میں نازی پرچم بھی لہرایا۔ اُن کے کمانڈر نے بس اِتنا کہا کہ جب کمانڈر جنرل آیا کرے تب نازی پرچم اتار دیا کریں! لیڈن کا کہنا ہے کہ اِس کا سبب یہ نہیں تھا کہ کمانڈر نازی ازم کو فروغ دیتے تھے بلکہ وہ اِس بنیاد پر کسی کارروائی کا نشانہ نہیں بننا چاہتے تھے کہ اُن کی صفوں میں نازی ازم کا کوئی حامی موجود ہے۔
آج لیڈن سائمن وائزنتھل سینٹر سے وابستہ ہے۔ وہ فوج کے سینئر افسران کو مشورہ دیتا ہے کہ فوج کی صفوں میں موجود کسی بھی نسل پرست اور انتہا پسند کو برداشت نہ کیا جائے بلکہ فوراً نکال باہر کیا جائے۔
(“Sikh Temple Shootings: Extremist Groups Recruit from US Military Rank”… “Christian Science Monitor”. August 7th, 2012)
Leave a Reply