خاموشی حل نہیں ہے!

جہانگیر ترین کا شمار ملک کے ان صنعت کاروں میں ہوتا ہے جو شکر کی پیداوار کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے ۲۰۰۲ء میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں سیاست میں قدم رکھا۔ پہلے وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے مشیر برائے زراعت و سماجی امور بنے۔ اس کے بعد انہیں صنعتوں کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا۔ ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ آج کل جہانگیر ترین کرپشن سے پاک سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر ۲۰۱۳ء کے عام انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ نیوز ویک کے لیے شہر بانو تاثیر نے لاہور میں ۵۹ سالہ جہانگیر ترین کا انٹرویو لیا جو آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔


٭ سیاست میں آمد پر آپ کے تجربات کیسے رہے؟

جہانگیر ترین: میرا تعلق سیاسی گھرانے سے نہیں۔ مگر میں نے ایک سیاسی گھرانے میں شادی ضرور کی ہے۔ میرے ایک برادر نسبتی رحیم یار خان کے ناظم تھے تاہم ڈگری کے ایشو پر ۲۰۰۲ء میں الیکشن نہ لڑسکے۔ میں نے قدرے جھجھکتے ہوئے سیاست کی دنیا میں قدم رکھا ہے۔ میں نے جب بھی اپنے حلقے کے لوگوں سے ملاقات کی ہے انہوں نے بجلی، گیس، سڑکیں اور ایسی ہی دیگر سہولتوں کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ کوئی بھی تعلیم اور صحت عامہ سے متعلق سہولتوں کی بات نہیں کرتا۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم تعلیم اور صحت جیسے انتہائی اہم امور کو در خور اعتناء نہیں سمجھتے۔ میں نے جب لوگوں سے اس سلسلے میں بات کی تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ایک دن ایک معمر شخص نے مجھ سے کہا کہ لوگ سڑکیں اس لیے چاہتے ہیں کہ ان کے ٹھیکوں میں تم سیاست دان آسانی سے کچھ کھا پی سکتے ہو۔ صحت اور تعلیم کے شعبے میں ٹھیکے نہیں ہوتے اس لیے کمیشن کی گنجائش بھی کم ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ لوگوں نے صحت اور تعلیم کے حوالے سے سہولتیں مانگنا بھی چھوڑ دی ہیں۔ مجھے پیغام مل گیا۔ میں نے اپنے حلقے کے لیے مزید اسکول اور بالخصوص گرلز اسکول تعمیر کرنے کی بات کی ہے۔ لوگوں کو بھی میری بات اچھی لگی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ تعلیم انسان کی بنیادی ضرورت ہے جس سے کسی بھی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔

٭ کیا آپ اپنی سیاسی جماعت قائم کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں؟

جہانگیر ترین: جی ہاں۔ میرے خیال میں اب وقت آچکا ہے کہ سیاسی جماعت لانچ کردی جائے۔ لوگ سیاست دانوں کے بارے میں بہت سطحی رائے رکھتے ہیں اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عوام کو ہر معاملے میں مایوس کیا گیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس وقت لوگ بہت مایوس ہیں۔ شاید ہی کسی معاملے میں وہ پرامید ہوں۔ معیشت کا برا حال ہے اور بین الاقوامی سطح پر ہماری قیادت ایسے اقدامات نہیں کر رہی جن سے قومی سطح پر عزت نفس میں اضافہ ہو۔ ہمیں یا تو سیاست ترک کردینی چاہیے یا پھر ایسے انداز سے سیاست کرنا چاہیے کہ کوئی بڑی تبدیلی ممکن ہو۔ میرے ساتھ بیس ایسے دوست ہیں جن کے سیاسی دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ انہوں نے اپنے حلقوں میں کام بھی کرائے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہم پر اعتماد کریں، ہمیں کچھ کرنے کا موقع دیں۔ الیکشن لڑنا اور اس میں ہارنا یا جیتنا تو الگ بات ہے، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ حلقے میں لوگ پہچانیں، کوئی کام ہوتا ہوا دکھائی دے۔

٭ آپ کی پارٹی مرکز میں حکومت کی حلیف ہے۔ مگر لگتا ہے کہ آپ معاملات سے مطمئن نہیں۔ اس سے آپ کے لیے مشکلات تو پیدا نہیں ہوتیں؟

جہانگیر ترین: ہم ایک پارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے ہیں اس لیے اس کے نظم و ضبط کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔ مگر خیر، میری سوچ یہ ہے کہ کسی بھی پارٹی کی تمام پالیسیاں کسی فرد کی سوچ پر منحصر نہیں ہونی چاہئیں۔ ہماری تمام سیاسی جماعتیں اسی انداز سے چلائی جارہی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں پر کسی نہ کسی فرد یا دو تین اشخاص کی سوچ حاوی اور نمایاں ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں کسی ایک گھرانے کی ملکیت ہوکر رہ گئی ہیں۔ جماعتوں کو قیادت کی ضرورت ہے، آمروں کی نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو چلانے کا موجودہ طریقہ صدیوں پرانا اور فرسودہ ہے۔ دنیا اب اس ماڈل کو ترک کرچکی ہے۔

٭ آپ کے منصوبوں پر مسلم لیگ (ف) کا ردعمل کیا ہے؟

جہانگیر ترین: بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ف) سندھ کی ایک چھوٹی جماعت ہے۔ مگر دیگر صوبوں میں اس کے لیے مشکلات برقرار ہیں۔ میں نے پارٹی کی قیادت سے سیاسی انداز اور سوچ بدلنے کی بات کی ہے۔ عوام بھی اب تبدیلی کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں۔ جو مسائل حل کرے گا اُسی کی بات سنی جائے گی۔ عوام سیاسی میدان میں غیر معمولی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف متوسط طبقہ یا اعلیٰ طبقے کے لوگ ہی کسی بڑی تبدیلی کے حق میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام مجموعی طور پر اب واضح تبدیلی کے حق میں ہیں۔ ایسے میں قیادت کے انداز کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کیے بغیر کوئی بھی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوسکے گی۔ اس وقت پاکستان میں کسی بھی بڑی اور حقیقی تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود سیاسی قائدین ہیں۔ ان کی سوچ تبدیل نہیں ہو رہی۔

٭ ہمارے پاس متبادل سیاسی قیادت کے طور پر پارٹیاں موجود ہیں۔ ایسے میں آپ کس بنیاد پر اسلام آباد تک رسائی چاہتے ہیں؟ محض کارپوریٹ بنیاد پر؟ کیا کاروباری بنیاد پر سیاست کارگر ثابت ہوسکے گی؟

جہانگیر ترین: سوال پیسے کا نہیں۔ میں جس سیاسی پلیٹ فارم کا خواب دیکھ رہا ہوں اس میں سبھی اس قابل ہیں کہ کسی اور سے مدد لیے بغیر اپنی انتخابی مہم چلاسکیں۔ ہمیں ساکھ کی ضرورت ہے۔ سیاسی بنیاد پر مستحکم ہونا ناگزیر ہے۔ جو کچھ ہم نے اب تک کیا ہے اُسی کو بنیاد بناکر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں کسی مخصوص چھاپ کے بغیر، صرف ہماری اپنی ساکھ کی بنیاد پر اپنایا جائے، ہماری حمایت کی جائے۔ اگر مستقل مزاجی اپنائی جائے تو لوگ بھروسہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ عمران خان پندرہ سال سے سیاست میں ہیں۔ اب لوگوں نے پرامید ہوکر ان کی طرف دیکھنا شروع کردیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم بھی عوام کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوں گے۔

٭ آپ کے ذہن میں پارٹی کے لیے کیا نام ہے؟

جہانگیر ترین: یہ خبر عام ہوچکی ہے کہ ہم ستمبر میں پارٹی قائم کرنے والے ہیں۔ ایسا کوئی بھی فیصلہ اب تک نہیں کیا گیا ہے۔ وقت آنے پر نام بھی سوچ لیا جائے گا۔ فی الحال ہم گروپ کی حیثیت سے کام کرنے کے موڈ میں ہیں۔ لوگوں کا ہم پر اعتبار قائم ہوگا تو پارٹی قائم کرنے کا فیصلہ بھی کرلیں گے۔

٭ اس وقت میدان میں کون سی جماعتیں ہیں جن کے مقاصد سے آپ خود کو ہم آہنگ پاتے ہیں؟

جہانگیر ترین: پاکستان تحریک انصاف ہی ایسی جماعت ہے جو ہمارے مقاصد سے ہم آہنگ دکھائی دیتی ہے۔ یہ پارٹی تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ ملک کو اس وقت تبدیلی ہی کی ضرورت ہے۔ عمران خان سے ہم ذرا مختلف ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی جماعت کو شہری علاقوں میں زیادہ پروان چڑھایا ہے۔ ہم اس لیے مختلف ہیں کہ ہم نے حکومت میں رہ کر کام کیا ہے، ہمیں اندازہ ہے کہ کوئی بھی کام کس طرح عمدگی سے انجام کو پہنچایا جاسکتا ہے اور پھر ہم اپنے اپنے شعبوں میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ ہمارا تعلق روایتی سیاسی حلقوں سے ہے جو ملک کے سیاسی مزاج اور عوام کی امنگوں کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔

۶۳ برسوں میں بہت کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ تبدیلی کے نام پر لوگوں کو صرف دھوکا دیا گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ معاشرے اور سیاست کو یکسر تبدیل کردیا جائے۔ اس کے لیے لوگوں کو نفسیاتی طور پر تیار کرنا ہوگا۔ ملک کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اکیسویں صدی کے تقاضوں پر نظر رکھتی ہو اور اپنی بات عمدگی سے کہنے کی صلاحیت کی بھی حامل ہو۔ پورے نظام کی اوور ہالنگ کرنا پڑے گی۔ ہر شعبے میں بگاڑ پایا جاتا ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ معاملات کو نئے سرے سے چلانے کی کوشش کی جائے۔ اگر بگاڑ دور کیے بغیر کوئی تبدیلی لائی جائے گی تو صرف خرابی پیدا ہوگی۔ ملک کو ایسی قیادت درکار ہے جو تبدیلی کی ضرورت محسوس ہی نہ کرے، خود کو اس کے لیے آمادہ بھی پائے۔

عوام کی زندگی میں کوئی بہتری اور تبدیلی دکھائی بھی دینا چاہیے۔ معیشت کے فروغ کا دعویٰ کردینا بہت آسان ہے، اصل امتحان یہ ہے کہ عمومی معیار زندگی بلند ہو۔ لوگوں کو بنیادی سہولتیں ملیں گی تو وہ کچھ کرنے کے بارے میں سوچیں گے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ عوام کو صرف وعدوں پر ٹرخایا جارہا ہے۔ یہ روش کسی بھی طور معاملات کو بہتری کی طرف نہیں لے جاسکتی۔ لوگوںکو موبائل فون دینا کافی نہیں۔ پورے نظام کی اصلاح ہونی چاہیے۔ لوگ پٹواریوں، تحصیل داروں، پولیس اور محکمہ صحت کے افسران سے الجھے ہوئے ہیں۔ ہر شعبے میں بہتری لانا ہوگی تاکہ معاملات عمدگی سے چلائے جاسکیں۔ لوگوں کو استحصال سے بچانا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔

٭ کسی ایک معاملے کی نشاندہی کریں گے جس میں تبدیلی لاکر معاملات کو درست کرنے کی راہ کسی حد تک ہموار کی جاسکتی ہے؟

جہانگیر ترین: ایک صدی سے پٹواری کے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ یہ سب کچھ اب بدلنا ہوگا۔ چھ ماہ میں ہر ضلع کا پورا لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جاسکتا ہے۔ جب یہ ہوگا تو کوئی بھی زمیندار کیوسک کی مدد سے اپنے معاملات کسی کی مداخلت اور مدد کے بغیر نپٹا سکے گا۔ اس طرف قدم بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔

٭ انتخابات میں کرپشن کا ایشو مرکزی کردار ادا نہیں کرتا۔ اس کا بنیادی سبب کیا ہے؟

جہانگیر ترین: بات یہ ہے کہ ملک میں غیر جانبدار احتساب کمیشن یا بیورو ہے نہیں۔ سبھی کچھ ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ اگر احتساب کا غیر جانبدار ادارہ معرض وجود میں لایا جائے تو کچھ بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ فی الحال ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ لوگ کرپشن کو ایشو کے طور پر اس لیے نہیں لیتے کہ کسی بھی بڑی کرپٹ شخصیت کے خلاف شواہد بھی سامنے نہیں لائے جاتے اور انہیں سزا بھی نہیں ہوتی یا نہیں ہونے دی جاتی۔ یہ صورت حال عوام کے لیے خاصی مایوس کن ہے۔ سرکاری سطح پر تمام معاملات رشوت اور کمیشن کی بنیاد پر چلائے جارہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ سرکاری معاملات کو شفاف اور آسان بنایا جائے۔

زرعی سبسڈیز کا معاملہ ہی لیجیے۔ بیشتر سبسڈیز با اثر افراد لے اڑتے ہیں۔ چھوٹے زمیندار اور بالخصوص کسانوں کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ چند ایک سبسڈیز دینا کافی ہوگا اور وہ بھی پوری ایمانداری سے، شفاف طریقے سے۔ کھاد پر دی جانے والی سبسڈی سے پانچ ایکڑ زمین رکھنے والے چھوٹے زمیندار کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ با اثر اور باحیثیت شخصیات کو کسی بھی سبسڈی کا کم سے کم فائدہ پہنچے۔

حقیقی تبدیلی اس وقت آئے گی جب تمام ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں گے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فوج بڑی تبدیلی لاسکتی ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے۔ یہی کام وہ عمدگی سے کرسکتی ہے۔ اگر اس سے سیاست میں کسی بڑی اور مثبت تبدیلی کی توقع رکھی جائے تو اسے سادہ لوحی قرار دیا جائے گا۔ عدلیہ کا کام بھی انصاف فراہم کرنا ہے، عملی سیاست کے حوالے سے اس کے کسی کردار کی گنجائش نہیں۔ میڈیا کسی بھی تبدیلی کی راہ ہموار کرسکتا ہے اس لیے اسے اپنا کردار پوری ایمانداری اور احساس ذمہ داری سے ادا کرنا چاہیے۔

(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۲۹ جولائی ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*