بادی النظر میں یہ قتلِ عام بدوؤں کی کارستانی معلوم ہوتا تھا، جو سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر نظر انداز کیے جانے یا بھرپور توجہ نہ مل پانے کے باعث تشدد پر اتر آتے ہیں۔ اب یہ بات کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ جزیرہ نما سینا میں جو قتل عام ہوا ہے اس کا اصل ہدف تو مصر کے صدر محمد مرسی تھے جو ملک کے پہلے حقیقی منتخب جمہوری صدر ہیں۔ قتل عام کا بنیادی مقصد صدر مرسی کی پوزیشن کو کمزور کرنا تھا تاکہ وہ پارٹی لائن کے مطابق کام نہ کرسکیں۔ محمد مرسی اخوان المسلمون کے حمایت یافتہ صدر ہیں۔ ان کا صدر کے منصب پر فائز ہونا اندرون اور بیرون ملک بہتوں کی آنکھ میں کھٹکا ہے۔
اسرائیل نہیں چاہتا کہ مصر میں اخوان المسلمون کے تحت کوئی انتظامیہ قائم ہو۔ اسرائیلی قائدین متعدد مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ اخوان المسلمون ان کے لیے سخت ناپسندیدہ ہے اور مصر میں اخوان کی حکومت کا قیام اسرائیل کے وجود اور مفادات کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا۔
مصر کی جانب سے کسی بھی خطرے کو ٹالنے کے لیے اسرائیل نے حسنی مبارک سے اچھے تعلقات استوار رکھے اور یہ سب امریکا کی مہربانی سے تھا۔ مگر اب اسرائیل کو اندازہ ہے کہ اخوان کے زیر سایہ بننے والی حکومت اس کے مفادات کی نگہبان ہرگز نہیں ہوگی۔ اب تک اسرائیل نے غزہ کے معاملے میں اپنی مرضی چلائی ہے۔ اب وہ اس خطے کو الگ تھلگ رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کو یہ بھی اندازہ ہے کہ اس کی سلامتی کی سب سے بڑی ضمانت سمجھا جانے والا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ زیادہ پائیدار نہیں رہا۔ معاہدے کے مطابق مصر جزیرہ نما سینا میں فوج تعینات نہیں کرسکتا مگر اس بات کا امکان ہے کہ محمد مرسی نہ سہی تو کوئی اور منتخب لیڈر اس شق کو ختم کرکے اسرائیل کے لیے خطرات پیدا کرے۔
مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت اور محمد مرسی کو صدر کی حیثیت سے برداشت نہ کرنے پر تُلے ہوئے عناصر اِن سے گلو خلاصی کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ گہری جڑیں رکھنے والے ریاستی حلقے نہیں چاہتے کہ محمد مرسی صدر کے منصب پر فائز رہیں۔ یہ عناصر ترکی میں انسانی حقوق کے شرمناک ریکارڈ کا باعث بھی بنے تھے۔ اندرونی کشمکش ہی نے ترکی کو جمہوریت کے لحاظ سے طویل مدت تک تیسری دنیا کا ملک بنائے رکھا۔ گہری جڑیں رکھنے والے ریاستی حلقوں میں فوج، اسٹیٹ انٹیلی جنس، بیورو کریسی اور کاروباری طبقہ شامل ہیں۔
جزیرہ نما سینا اور بَدّو صدر مرسی کے خلاف ریاستی عناصر کے سب سے بڑے ہتھیار ہیں۔ اِن کی مدد سے حکومت کو کمزور کیا جاسکتا ہے اور صدر کو منصب کے تحت ملنے والے اختیارات کے استعمال سے بھی روکا جاسکتا ہے۔ جزیرہ نما سینا میں مصر چند ایک یونٹس اور تھوڑا بہت عسکری ساز و سامان رکھ سکتا ہے۔
آج بھی ہزاروں بَدّوؤں کو شہریت سے محروم رکھا گیا ہے۔ وہ مخصوص علاقوں تک محدود ہیں۔ انہیں زمین خریدنے کی بھی اجازت نہیں۔ وہ طویل مدت سے اپنے معاشرتی اور معاشی حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ معزول صدر حسنی مبارک نے انہیں تین عشروں تک مشکوک قرار دے کر مرکزی دھارے سے دور رکھا۔ جزیرہ نما سینا کی صورت حال اور بَدّو فیکٹر صدر مرسی کے مخالفین کے لیے بڑے ہتھیار ہیں اور کسی بھی وقت عمدگی سے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ اگر جزیرہ نما سینا کے علاقے میں مزید قتل عام ہوتا ہے تو صدر مرسی پر دباؤ بڑھے گا اور وہ آسانی سے کوئی بڑی کارروائی نہیں کرسکیں گے۔ مرسی کو صورت حال کی نزاکت کا ادراک و احساس کرتے ہوئے سب سے پہلے بَدّوؤں کے دل جیتنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ سب سے پہلے تو انہیں بَدّوؤں کو باضابطہ شہریت دے کر مصر کے دیگر تمام باشندوں کے مساوی حقوق دینے ہوں گے۔
جزیرہ نما سینا میں دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے غیرمعمولی کشش رکھنے والے کئی مقامات ہیں۔ علاقے کے بَدّو سیاحت کے حوالے سے خود کو منظم کرنے اور اس کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔
تعلیم سے دوری اور حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک نے انہیں غیرقانونی سرگرمیوں کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یہ علاقہ ہتھیاروں اور منشیات کے علاوہ انسانوں کی اسمگلنگ کا بھی گڑھ بن گیا ہے۔ اندرون ملک اور عالمی برادری میں صدر مرسی کی ساکھ خراب کرنے کے لیے بَدّوؤں کو آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جب تک صدر مرسی اِس چیلنج سے نہیں نپٹ لیتے، جمہوریت کو مستحکم کرنے سے متعلق ان کے تمام اقدامات ایسے ہی حملوں کی زد پر رہیں گے۔
مصر اس معاملے میں ترکی سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ ترکی میں بھی جمہوریت کو مستحکم کرنے سے متعلق اقدامات کو طرح طرح کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سیاسی قتل اور مظاہرے عام تھے۔ جن لوگوں سے ماضی میں زیادتی ہوئی تھی انہیں جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ ملک دشمن عناصر نے بم دھماکے کیے اور عوام کے حقیقی نمائندوں اور رہنماؤں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
ترکی نے پس ماندگی ترک کرکے تابناک مستقبل کی طرف قدم بڑھایا تو اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے کم تھے اور راہ میں روڑے اٹکانے والے بہت زیادہ۔ حالیہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جمہوریت کو مستحکم کرنے والے اقدامات کو سبوتاژ کرنے کے لیے منظم سازشوں پر عمل کیا گیا۔ یہ اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں کہ قومی ترقی کو سبوتاژ کرنے والے اعمال کی پشت پر کون لوگ تھے۔
مصر کو جمہوریت کی طرف بہت احتیاط سے بڑھنا ہوگا۔ اس معاملے میں مصری قیادت کو ترکی کے تجربے سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مصری جمہوریت کو بھی خون خرابے اور تباہی و بربادی کا سامنا ہوگا۔
(“Sinai Peninsula a Great Test for Mursi”… “Todays Zaman”. August 12th, 2012)
Leave a Reply