موغا دیشو: رونقیں لوٹ رہی ہیں!

صومالیہ کو خانہ جنگی نے تباہ کردیا ہے۔ ملک میں بظاہر کوئی طاقتور مرکزی حکومت نہیں جس کے باعث خرابیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ مغربی میڈیا نے اسلامی شدت پسندی کا ایسا راگ الاپا کہ مشکلات کم ہونے کے بجائے آپس میں ضرب ہوتی گئیں۔ مگر اب صومالیہ کے ساحل کے حوالے سے یہ امید افزا خبر آئی ہے کہ سب کچھ معمول کی طرف لوٹ رہا ہے۔ ایک طرف تو ساحلوں پر رونق بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف ملک میں خریداری کا رجحان بھی تقویت پارہا ہے۔ یہ بہت حیرت انگیز اور خوش کن امر ہے۔

صومایہ کے دارالحکومت موغادیشو میں ابھی کل تک لوگ کسی نہ کسی طرح صبح سے شام کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ وہ اپنی دکانوں کو سجانے اور گھروں کو بہتر بنانے سے گریز کرتے تھے کہ کون پیسہ ضائع کرے مگر اب ایسا نہیں ہے۔ لوگوں کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔ وہ اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں اور معاشی سرگرمیوں میں بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔ موغادیشو میں بہت سے دکاندار اب اپنی دکانوں کی تزئین و آرائش میں جُتے ہوئے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کاروبار کو ترقی دینے کا ایک اہم راز یہ ہے کہ انسان اپنے کام میں پوری دلچسپی لے اور کرم فرماؤں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت کا اہتمام کرے۔ بادل شیخ محمد کی سوچ بھی بدل گئی ہے۔ کل تک وہ اپنی دکان کو خاصی کسمپرسی کی حالت میں چلا رہا تھا مگر پھر اسے خیال آیا کہ کاروبار بڑھانا ہے تو تھوڑی بہت سرمایہ کاری تو کرنا ہی پڑے گی۔ یوں اس نے دکان میں نئے شیشے کے دروازے لگوائے اور اب حال یہ ہے کہ اس کی دکان میں مختلف پرنٹس نکلوانے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ بادل شیخ محمد کا کہنا ہے کہ ایک سال پہلے تک کچھ بھی نہیں تھا۔ لوگ کسی نہ کسی طرح وقت گزارنے پر یقین رکھتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب لوگ چاہتے ہیں کہ ان کا کاروبار زیادہ پُرکشش دکھائی دے تاکہ زیادہ سے زیادہ گاہک یا کرم فرما آئیں۔

موغا دیشو میں بھاری بمباری کبھی کبھار ہی ہوئی ہے مگر ہاں، ۱۹۹۱ء میں سوشلسٹ سعید بری کی حکومت کے زوال کے بعد سے اب تک شہر چھوٹے ہتھیاروں سے کی جانے والی فائرنگ سے گونجتا ہی رہا ہے۔ ان دو عشروں میں موغا دیشو کو کبھی استحکام کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوسکا۔ سڑکیں اور عمارات تباہی سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔ موغا دیشو چونکہ مرکزی شہر ہے اس لیے اس پر قبضے کی لڑائی ہوتی رہی ہے۔ اسلامی شدت پسند گروپ شباب نے شہر میں قدم جمائے مگر جب افریقی اتحاد کی افواج نے اس کے خلاف کارروائی کی تو اس نے حربی ہتھکنڈے کے طور پر پسپائی اختیار کرلی۔

صومالی حکومت کے پاس تو خیر موغا دیشو کے حوالے سے اعداد و شمار کم ہیں مگر ملک کی سب سے بڑی منی ٹرانسفر کمپنی دہابشیل (Dahabshil) کا کہنا ہے کہ سال رواں کے آغاز سے اب تک شہر کو بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر میں بیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صومالی کرنسی کی قدر میں بھی تقریباً ۳۳ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ترکی نے موغا دیشو ایئر پورٹ کی تزئین نو کی ہے جس کے بعد وہ روزانہ تین بین الاقوامی پروازیں وصول کر رہا ہے۔ اس سے قبل ہفتے میں دو بین الاقوامی پروازیں آیا کرتی تھیں۔ اب طیارے میں نشست حاصل کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ چھ ماہ کے دوران موغا دیشو میں اس قدر ترسیلاتِ زر آئی ہیں کہ مکانات کے کرائے تین گنا ہوچکے ہیں۔

موغا دیشو میں کاروبار خوب چمک رہا ہے۔ نئے ریستوران کھلے ہیں۔ اٹالین پاستا بھی مل رہا ہے اور انڈین رائس بھی دستیاب ہے۔ شہر میں سونے کی تجارت بھی خوب پھل پھول رہی ہے۔ روایتی طور پر موغا دیشو میں سونے کی تجارت خواتین کرتی ہیں۔ حمروین مارکیٹ (Hamarweyne Market) میں سونا بیچنے اور خریدنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگوں کی آمدنی بڑھی ہے تو وہ نئی زندگی کے بارے میں بھی سوچنے لگے ہیں۔ شادیاں ہو رہی ہیں، جن لوگوں کے پاس سونا ہے وہ اسے بیچ کر اپنے مکانات کی تزئین نو کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ سونا بیچ کر مکانات بنانا چاہتے ہیں۔ مارکیٹ میں سونے کی مقدار بڑھنے سے قیمت ۵۵ ڈالر فی گرام سے گر کر ۵۰ ڈالر فی گرام تک آگئی ہے۔

موغا دیشو کی مرکزی شاہراہ مکہ مکرمہ ایونیو پر نئی عمارات بڑی تعداد میں دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ عمارات مختلف رنگوں کی ہیں تاہم گلابی رنگ لوگوں کو زیادہ پسند ہے۔ موغا دیشو کی ترقی میں کئی ممالک کی دی ہوئی امداد نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ناروے نے شہر میں دھاتی کھمبے لگانے میں مدد دی ہے۔ شمسی توانائی کو شہر کا حصہ بنانے کے لیے سولر پینل لگائے گئے ہیں۔ جولائی کے آخر تک یہ پینل کام کرنے لگیں گے اور شہر جگمگا اٹھے گا۔ موغا دیشو کے میئر محمد نور کا کہنا ہے کہ شہر کی ایک شاندار تاریخ ہے مگر نئی نسل اس سے واقف نہیں۔ محمد نور حال ہی میں پڑوسی ملک کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ’’موغا دیشو۔۔ کل اور آج‘‘ دیکھ کر آئے ہیں۔ کسی زمانے میں موغا دیشو افریقا کے پرکشش ترین شہروں میں سے تھا۔ پھر مختلف گروپوں کے درمیان لڑائی نے اس کا سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ جب حالات خراب ہوئے تو لوگوں نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی۔ انہیں یقین ہی نہیں تھا کہ یہ شہر کبھی دوبارہ مستحکم ہوسکے گا۔ مگر اب پھر نئی زندگی کی امید پیدا ہوئی ہے۔ لوگ واپس آ رہے ہیں۔ اپنے شہر پر ان کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ موغا دیشو میں شباب کا زور بالکل ٹوٹ گیا ہے۔ اس کے ارکان اب بھی شہر کے جنوب اور مغرب کے کئی علاقوں میں غیر معمولی اثر و رسوخ کے حامل ہیں۔ مگر اس کے باوجود شہر تیزی سے استحکام کی راہ پر گامزن ہے۔ لوگ قتل و غارت سے تنگ آچکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے، معاشی سرگرمیاں تیزی سے فروغ پائیں، لوگوں کو روزگار ملے، شہر ترقی کرے اور اس کے باشندے اپنی زندگی کا معیار بلند کریں۔ امن و امان کا مسئلہ کسی حد تک برقرار ہے مگر مجموعی طور پر ملک پنپ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی پشت پناہی سے کام کرنے والی عبوری وفاقی حکومت کا مینڈیٹ آئندہ ماہ ختم ہو رہا ہے۔ آٹھ برسوں کے دوران یہ حکومت خاصی ڈانوا ڈول رہی ہے۔

حکومت کی تبدیلی کے لیے زعما کی ایک کونسل کا تشکیل دیا جانا ناگزیر ہے تاکہ نئی پارلیمان اور اس سے قبل نئے آئین پر اتفاق رائے ہوسکے۔ نئی پارلیمان خاصی کمزور ہوگی مگر خیر، ملک کسی نہ کسی طور قانون کی حکمرانی کی طرف جا تو رہا ہے۔ نئی پارلیمان اسپیکر اور صدر کا انتخاب کرے گی۔ موجودہ صدر شیخ شریف احمد اور پارلیمان کے اسپیکر شریف حسن شیخ عدن کے درمیان رقابت نے معاملات کو کسی حد تک بگاڑا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق دو شریفوں کی لڑائی میں دو برسوں کے دوران ۱۲؍کروڑ ڈالر امداد کی خرد برد ہوئی ہے۔

امریکا کے معاون وزیر خارجہ برائے افریقی امور جونی کارسن (Johnnie Carson) نے ۱۰؍جون کو موغا دیشو کا دورہ کیا جو ۱۹۸۰ء کے عشرے کے بعد سے کسی امریکی عہدیدار کا پہلا دورہ تھا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ سیاسی بحالی کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کو سخت اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپنے اگلے دورے میں جونی کارسن کو موغا دیشو کے ساحل ’’لیڈو‘‘ (Lido) کی سیر بھی کرنی چاہیے۔ جو کسی زمانے میں نوگوایریا تھا، اب یہاں ہر جمعہ کی نماز کے بعد بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔

(“Somalia: Nice Beaches and Good Shopping”.. “Economist” June 16th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*