آپ بیتی…… یوسف اسلام

یونائیٹڈ ایئرلائن کا جہاز لندن سے واشنگٹن جا رہا تھا۔ امریکا کی سیکوریٹی ایجنسیوں میں سے کسی کو معلوم ہوا کہ یوسف اسلام نام کا ایک مسافر بھی اس میں سوار ہے جو امریکا اور امریکی عوام کے لیے ’’حقیقی خطرہ‘‘ بن سکتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے جہاز کو واشنگٹن سے ہزار کلومیٹر دور کسی ہوائی اڈے پر اتار لیا۔ ان لوگوں نے یوسف اسلام کو اتار کر جہاز کو تو آگے روانہ کر دیا اور تفصیلی انٹرویو کے بعد یوسف اسلام کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر پہلی فلائٹ سے لندن واپس کر دیا۔

یوسف اسلام نے تقریباً چالیس سال پہلے دینِ اسلام قبول کیا تھا جس سے اس کی زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا۔ یوسف اسلام مسلمان ہونے سے پہلے گلوکار تھا جس کی آواز مردہ دلوں کو زندہ کر دیا کرتی تھی۔ یہ ۱۹۷۰ء کی بات ہے جب اسلام قبول کرنے کے بعد وہ انسانوں کے لیے آئندہ کی آواز بن گیا۔ ایسا انسان بن گیا جس نے اپنی زندگی کے مقصد کو پا لیا ہے۔ اب وہ خدائی معنویت سے آشنا ہو گیا ہے۔

۱۹۷۷ء میں وہ ہنری کیٹ اسٹیونس کے نام سے موسیقی کے آسمان کا چمکدار ستارہ تھا۔ مسلمان ہونے کے بعد بھی وہ برطانوی اخباروں کی شہ سرخیوں میں ہی رہا۔ اس وقت مختلف دینی اور سماجی سرگرمیوں کے علاوہ وہ شمال مغربی لندن میں ایک دینی اسکول کا سربراہ بھی ہے۔ اس نے سب سے پہلے کئی سالوں کی کوشش کے بعد برطانوی حکومت کو قائل کیا کہ عیسائی اور یہودی اسکولوں کی طرح مسلمان اسکولوں کو بھی بجٹ ملنا چاہیے۔ سیاسی طور پر بھی اس کی خبریں آتی رہتی تھیں جن میں سلمان رشدی اور اس کی کتاب کی مخالفت، یوگوسلاویہ کے مسلمانوں کی حمایت، اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مسلح جدوجہد کی حمایت اور عراق میں فوج کشی کی مخالفت وغیرہ شامل ہیں۔ عراق جنگ کی مخالفت اور بوسنیا کے مسلمانوں کی حمایت میں اس نے دوبارہ موسیقی اختیار کرلی۔ ان مسائل کو وہ اپنی نظم کا موضوع بنا کر گاتا ہے۔ چند سال پہلے یوسف اسلام کو مقبوضہ بیت المقدس سے اس بناء پر نکال دیا گیا تھا کہ وہ انتہا پسندی کا حمایتی ہے۔ اس مقام پر بہتر ہے کہ اس کی ہیجان انگیز زندگی اسی کی زبانی سنی جائے جو انٹرنیٹ پر موجود ہے۔

’’میرے والد قبرص کے رہنے والے ہیں اور والدہ سوئیڈن سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن چند وجوہات کی بناء پر انہوں نے طے کیا کہ مجھے کیتھولک اسکول میں داخل کرایا جائے۔ اس وقت میرا نام اسٹیون جورچیو تھا۔ آرتھوڈوکس تعلیم پر پلا بڑھا اسی لیے کیتھولک اسکول کے پروگراموں میں شرکت نہیں کرتا تھا۔ میرے گھر والے سخت مذہبی نہیں تھے لیکن اخلاقی تربیت ضروری سمجھتے تھے اسی لیے انہوں نے مجھے ایسے اسکول میں داخل کروایا تھا۔ وہاں میں نے نیک و بد کے بارے میں سیکھا۔ مجموعی طور پر مذہب نے مجھ پر کافی اثر ڈالا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرا ایک دوست صرف اس لیے مذہبی رسوم میں شرکت نہیں کرتا تھا کہ اس سے اس کے کپڑوں پر شکن پڑ جاتی تھی۔ اس وقت میری عمر صرف سات سال تھی۔

عجیب بات یہ ہے کہ آج میں مسلمان ہو گیا ہوں مگر میرا بچپن بالکل اسلام کی مخالفت میں گزرا ہے۔ دراصل قبرص کی سیاسی حیثیت میں اختلاف کی وجہ سے یونانیوں اور ترکوں کی آپس میں دشمنی ہے اور میرے والد قبرص کے ہیں۔ لہٰذا میں ترکوں کی ہر چیز سے متنفر تھا جس میں ان کا مذہب بھی شامل تھا۔ ایک مسلمان گھرانہ ہمارے گھر کے پاس ہی رہتا تھا لیکن ہم لوگ آپس میں لاتعلق تھے۔

اپنا بچپن میں نے لندن کے مغربی حصے میں گزارا جہاں میرے والدین ایک ریستوران میں ملازمت کرتے تھے۔ ہم لوگ رہتے بھی وہیں تھے لہٰذا مجھے انتہائی ہیجانی ماحول میں آنکھیں کھولنے کا موقع ملا۔ گلی کوچوں میں سجی ہوئی دکانیں، روشنی میں ڈوبی ہوئی سڑکیں، تھیٹر، سنیما، کیفے، خرافات وغیرہ۔ انہی اسباب کی وجہ سے میں موسیقی کی طرف راغب ہوا۔ میں اپنے گھرانے کا سب سے چھوٹا بچہ تھا۔ اسی لیے میرے بھائی بہن کہتے تھے تم بہت لاڈلے ہو۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے میں اپنے حصے کا کام پابندی سے کر دیا کرتا تھا۔ جب دس سال کا ہوا تو ایک دکان میں کام کرنے لگا۔ وہاں سے میں نے لوگوں سے اچھا برتاؤ اور حُسنِ سلوک کا بہترین سبق سیکھا۔ لوگ مجھے بہت انعام دیا کرتے تھے جس محلے میں ہم لوگ رہتے تھے وہاں ہر رنگ و نسل کے لوگ آباد تھے۔ لہٰذا میری دوہری نسل کی شخصیت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن میرے والدین کے درمیان نسلی رسہ کشی کبھی کبھی ہماری پُرسکون زندگی میں تلاطم پیدا کر دیتی تھی۔ اسی لیے جب میں آٹھ سال کا تھا تو دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے، مگر ریستوران کے اوپر رہائشی کمروں میں الگ الگ رہتے رہے اور آفس میں ایک ساتھ کام کرتے رہے۔ میرے بارے میں دونوں میں تناؤ رہتا تھا کہ کس کے پاس رہوں گا حالانکہ میرے والد ہمیشہ کامیاب ہو جاتے تھے مگر میں والدہ کے لیے زیادہ قربت کا احساس رکھتا تھا۔

جب میرے والدین مکمل علیحدہ ہو گئے تو میں اپنی والدہ کے ساتھ سوئیڈن چلا گیا۔ وہیں میں نے اپنی تعلیم حاصل کی۔ اپنے ہم جماعتوں میں جلد ہی گُھل مل گیا کیونکہ میری آنکھیں نیلی، بال گھنے سیاہ اور نقوش سوئیڈش تھے، اسی لیے مجھے پسند بھی کیا گیا۔ میں ایک حساس بچہ تھا۔ عام بچوں کی بہ نسبت زندگی اور مسائل زندگی پر بہت زیادہ سوچتا رہتا تھا۔ میں اپنے آپ میں مگن رہتا اور ہر وقت غور و فکر میں مصروف رہتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب سے سوچنا چھوڑ دوں گا مگر ایسا ہو نہ سکا۔ مجھے یہی فکر کھائے جاتی تھی کہ کسی طرح اپنے امی اور ابو کو ملا دوں۔ خاص طور پر جب میں اپنے والد سے ملنے لندن جاتا تھا، اس وقت زیادہ فکرمند ہو جاتا تھا۔ پھر جب میں ایک گلوکار کے طور پر مشہور ہو گیا تو دونوں اپنی اپنی جگہ فخر کرتے تھے۔ یہی چیز ان کے دوبارہ ملاپ کا سبب بھی بنی۔

میں نے اپنی صلاحیت بچپن میں ہی دکھا دی تھی، اسی لیے والدہ نے بہت ہمت بڑھائی۔ میں زیادہ تر دیر سے سوتا تھا لیکن میری والدہ نے مجھے کبھی منع نہیں کیا۔ مجھے لگتا تھا کہ موسیقی سے میں اپنے تمام احساسات کو بیان کر سکوں گا۔ ہمارے گھر میں ایک بڑا پیانو تھا۔ اسی لیے تیزی سے میں نے سکھ لیا۔ اس کے بعد گٹار لایا اور اس پر سُر نکال لیے۔ اسی وقت میں نے اپنا نام کیٹ اسٹیونس رکھ لیا۔ میرا پہلا گانا ۱۸ سال کی عمر میں آیا جس سے میری زندگی میں انقلاب آ گیا۔

اگرچہ میری زندگی مصروف گزر رہی تھی مگر میرا ذہن مسلسل نت نئے سوالوں کا سامنا کرتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ اس وقت جو کچھ میرے ہاتھ میں ہے وہی اصل زندگی ہے۔ اگر اسے درست طور پر گزارا جائے تو قلبی سکون مل جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔

اسی میں ایک سال گزر گیا اور میں T.B کا شکار ہو کر ۱۹ سال کی عمر میں اسپتال میں داخل ہو گیا۔ میں سچ مچ میں ڈر گیا تھا۔ موت مجھے اپنے بہت قریب محسوس ہوتی تھی۔

اس وقت ایک نئی راہ مجھے نظر آئی۔ پچھلے خیالات نے نیا رنگ اختیار کیا۔ میں سوچنے لگا کہ کیا میں صرف جسم ہوں؟ کیا جسم کے بعد بھی کچھ ہے؟ اب مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ بیماریاں بھی اصل میں اللہ کی نعمت ہیں۔ اس بیماری نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ مجھے اپنے سوالات کا جواب ڈھونڈنے کا موقع ملا ہے۔ اس زمانے میں مجھے مشرق کے عرفان کا شوق تھا کہ مشرقی ممالک میں روحانیت کیا ہے، عرفان کیا ہے؟ وغیرہ۔ اسی لیے میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا۔ پہلی چیز جو پتہ چلی وہ یہ کہ موت کیا ہے؟ اور پھر یہ پتہ چلا کہ روح ہمیشہ رہے گی۔ مجھے ایسا لگا کہ اب اصل زندگی کا آغاز ہوا ہے جو کمال اور بدایت کی طرف جاتا ہے۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ مجھے تو خدا نے ارادہ بخشا ہوا ہے جو الٰہی راستے کی طرف رہنمائی کر رہا ہے۔ یہ تو عظیم نعمت ہے۔ اس زمانے میں میرے ایک کلام کا موضوع یہی تھا ’’اللہ کو پہچاننے کی راہ‘‘ کیونکہ اس زمانے میں، میں اسی راہ کی تلاش میں تھا۔

میں گلوکاری کی وجہ سے امیر سے امیر تر اور مشہور ہوتا چلا جا رہا تھا۔ مگر سکون کی خاطر جس کتاب کا بھی مطالعہ کیا، انجیل بھی پڑھی مختلف دروازوں پر دستک بھی دی، کچھ نہ ملا۔ اس وقت تک اسلام کے بارے میں، میں نے کچھ بھی نہیں پڑھا تھا۔

اس وقت وہ واقعہ ہوا جسے میں معجزہ کہتا ہوں۔ میرا بھائی گھومنے پھرنے بیت المقدس گیا تھا۔ وہاں کسی مسجد میں گیا تو اسے ایسا لگا کہ زندگی کی نبض تو مسجد میں دھڑکتی ہے۔ جب کہ کلیسا (عیسائیوں کی عبادتگاہ) اور کنیسہ (یہودیوں کی عبادتگاہ) میں سناٹا ہے۔ جب میرا بھائی لندن واپس آیا تو اس نے مجھے قرآن کے کسی مضمون کا ترجمہ دیا۔ وہ مسلمان نہیں ہوا لیکن اس نے اسلام میں کوئی ایسی بات دیکھی جو وہ چاہتا تھا کہ میں بھی درک کروں۔ جب سے مجھے وہ کتاب ملی اور میں نے پڑھا ایسا لگا کہ یہ مکمل ترین کتاب ہے۔ میرے تمام سوالوں کا جواب ہے۔ میں کون ہوں؟ میری زندگی کا ہدف کیا ہے؟ کہاں سے آیا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ مجھے ایسا لگا کہ یہ تو مکمل دین ہے۔ یہ ویسا دین نہیں ہے جیسا مغرب والے دیکھ رہے ہیں۔ نہ ہی وہ دین ہے جو صرف بوڑھوں کو بھاتا ہے۔ مغرب میں ہر شخص ایک دین اپنا لیتا ہے اور اس پر زندگی گزارتا ہے۔

میں متعصب نہیں تھا۔ پہلے میں روح اور جسم کے درمیان سرگرداں ہو گیا تھا مگر معلوم ہوا کہ جسم اور روح جدا جدا نہیں ہیں ہمیں تو صرف اللہ کی مرضی ماننی ہے اور ایسا کر کے ہم فرشتوں سے اوپر جا سکتے ہیں۔ اب میری پہلی خواہش تھی کہ جلدی سے اسلام قبول کر لوں۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ سب کچھ اللہ سے وابستہ ہے۔ اللہ وہ ہے جسے نیند نہیں آتی اور ہر چیز اس کی مخلوق ہے۔ اس مقام پر میرا غرور اور تکبر کم ہونے لگا کیونکہ اس روز تک مجھے لگتا تھا کہ جو کچھ بھی میرے پاس ہے وہ میں نے اپنے زورِ بازو سے حاصل کیا ہے، لیکن اب معلوم ہوا کہ میں نے تو کچھ بھی خلق نہیں کیا ہے۔ اب میرا وجود اور میرا مقصدِ حیات دینی تعلیمات کی پیروی کرنا ہے۔ ان انکشافات کے ساتھ ساتھ ایسا لگا کہ مجھ میں ایک ایمان اور اعتقاد پیدا ہو رہا ہے۔ یہ ایک نیا احساس تھا۔ مجھے لگا کہ میں مسلمان ہوں۔ قرآن پڑھ کر اندازہ ہوا کہ تمام پیغمبر جو خدا کی جانب سے آئے تھے وہ سب ایک ہی بات کہتے تھے۔ یہ بات میرے لیے قرآن کا حُسن تھا۔ قرآن تو تم سے یہ چاہتا ہے کہ غور کرو اور عقل استعمال کرو۔ ہر چیز کی پرستش نہ کرنے لگو بلکہ عبادت کے لیے صرف خدا کی ذات ہے۔ اسی نے ہر چیز کو خلق کیا ہے۔ خدا یہ چاہتا ہے کہ سورج، چاند اور ستاروں کے بارے میں غور و فکر کریں۔ کیا ہمیں چاند اور سورج کا فرق معلوم ہے؟ جو لوگ خلاء میں گئے ہیں انہیں زمین کا ننھا سا ہونا پتہ لگ گیا ہے اور وہ کائنات کا پھیلاؤ اور وسعت دیکھ کر دنگ رہ گئے ہیں۔ وہ لوگ عام طور پر روحانی احساسات پا لیتے ہیں۔ کیونکہ خدا کے وجود کو لمس کر لیتے ہیں۔ میں جیسے جیسے قرآن کا مطالعہ کرتا گیا اتنا ہی عبادت اور نیکی کی طرف مائل ہوتا چلا گیا۔ میں ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا لیکن مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ قرآن ہی میرے تمام سوالات کا جواب دے سکتا ہے۔ جسے خدا نے میرے لیے ہی بھیجا ہے اور مجھ سے ہر سطح پر بات چیت کرتا ہے۔ اب میں نے قرآن کو ایک اور زاویئے سے پڑھنا شروع کیا جب میں وہاں پہنچا کہ ’’اے لوگو جو ایمان لے آئے ہو! کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ اور مومن آپس میں بھائی ہیں‘‘ تو مجھے شوق ہوا کہ ان لوگوں کو دیکھوں جو میرے بھائی ہیں۔ یہی سوچ کر اپنے بھائی کی طرح بیت المقدس کا سفر کیا، وہاں جاکر مسجد میں بیٹھ گیا۔ ایک فلسطینی نے مجھ سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ تو میں نے بتایا ’’اسٹیونس‘‘ تو اسے بہت تعجب ہوا۔ اس کے بعد میں نماز کی صف میں کھڑا ہو گیا۔ اگرچہ مجھے نماز کا طریقہ نہیں آتا تھا مگر میں ان کے ساتھ ساتھ ادا کرتا رہا۔ جب میں لندن واپس آیا تو میرے ایک جاننے والے نے نیو ریجنٹ مسجد تک رہنمائی کی۔

۱۹۷۷ء میں میرے بھائی کو مجھے قرآن دیئے ہوئے ڈیڑھ سال ہو چکا تھا۔ اب میں نے فیصلہ کیا کہ تکبر اور غرور کو خیرباد کہہ دینا چاہیے اور ایک راستہ اپنا لینا چاہیے۔ یہی سوچ کر ایک دن نماز جمعہ کے بعد میں امام مسجد کے سامنے جا پہنچا اور اپنے ایمان کا اظہار کر دیا۔ میں شہرت اور دولت کے حساب سے بلندیوں پر تھا مگر قرآن ملنے سے پہلے ہدایت اور راہنمائی نے میری طرف رُخ نہیں کیا تھا۔

اب مجھے پتا چل گیا ہے کہ خدا سے براہ راست رابطہ ممکن ہے جبکہ دوسرے ادیان میں یہ ناممکن ہے جیسا کسی ہندو عورت نے مجھ سے کہاکہ ’’تم ہندوؤں کو نہیں جانتے۔ ہم خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں، مگر ان چیزوں کو صرف توجہ مرکوز کرنے کے لیے بیچ میں لاتے ہیں‘‘۔ وہ یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ خدا کو تلاش کرنے کے لیے ایک شریک بنا لیا جائے تو آسانی سے خدا کو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ صرف اسلام ہی ہے جو ان کو رد کرتا ہے۔ اسلام میں عبادت کی بہترین تطہیر ہوتی ہے اور اعتقاد مستحکم ہوتا ہے۔ بطور انسان خدا نے ہم کو عقل و شعور عنایت کیا ہے۔ انسان کو اس لیے خلق کیا گیا ہے کہ وہ خدا کا جانشین بن جائے۔

میں نے بہت رنگین ہیجان انگیز دنیا دیکھی ہے۔ عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ ہر شخص اپنی اصلی فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور یہ والدین ہیں جو اسے اِدھر اُدھر لگا دیتے ہیں۔ میں پہلے بھی جانتا تھا کہ خدا ہے، لیکن خدا سے رابطے کا کوئی سلسلہ نہیں تھا۔ جب مجھے بتایا جاتا کہ یہ خدا ہیں تو میں پریشان ہو جاتا تھا مگر حل نہیں ملتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ عیسائیت سے دور ہوتا چلا گیا اور موسیقی اپنا لی۔ میں ایک بڑا فنکار بننا چاہتا تھا بن گیا، مگر سکون نہ ملا۔ وہ تمام چیزیں جو میں نے میڈیا اور سنیما میں دیکھی تھیں، انہی میں ڈوب گیا کہ شاید میرا خدا یہاں مل جائے۔ میرا مقصدِ حیات پیسے کمانا تھا۔ میرے چچا کے پاس انتہائی قیمتی اور نئی کار تھی میں سمجھتا تھا کہ وہ ایک کامیاب انسان ہیں کیونکہ دولت مند ہیں۔ اسی طرح اپنے چاروں طرف لوگوں پر نظر ڈال کر یہی اندازہ لگاتا تھا۔ صرف پیسے ہی کما رہا تھا اور بس۔

آخری بات جو بہتر ہے کہ آپ جان لیں کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے میرا کسی مسلمان سے کوئی بھی رابطہ نہیں تھا۔ مجھے قرآن سے ہی معلوم ہوا کہ اسلام ہی اصل دین ہے اور اچھا مسلمان بننے کے لیے پیغمبر اکرمﷺ کو نمونۂ عمل بنانا لازمی ہے۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’طاہرہ‘‘ کراچی۔ شمارہ: اگست ۲۰۰۸ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*