دنیا میں رقبے کے اعتبار سے دسواں بڑا ملک، سوڈان اب ریفرنڈم کے بعد تقسیم کے مراحل میں ہے۔ جنوبی سوڈان کے باسیوں نے شمالی سوڈان سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ تاہم تیل کے ذخائر کی تقسیم، ساحل اور سرحدوں کا تعین ہونا باقی ہے۔ سوڈان کا رقبہ ۲۵۰۵۸۱۰ مربع کلومیٹر ہے، جبکہ آبادی چار کروڑ ۳۰ لاکھ کے قریب ہے، جس میں ۷۰ فیصد مسلمان، ۲۵ فیصد عیسائی اور پانچ فیصد دیگر مذاہب کے پیروکار ہیں۔ اس افریقی عرب ملک میں ۵۹۷ لسانی گروپ اور قبائل ہیں جو تقریباً ۴۰۰ زبانیں اور بولیاں بولتے ہیں، لیکن سوڈان کی قومی زبان عربی ہے۔ دریائے نیل یہاں ۸۰۰ کلومیٹر لمبائی میںبہتا ہے۔ ماضی میں مصر اور سوڈان ایک ہی ملک تھے۔ یہاں انسانی آبادی کے آثار آٹھ ہزار سال قبل مسیح کے بتائے جاتے ہیں جو یہاں کے غاروں میں کندہ تصویروں سے ثابت ہیں۔ سوڈان چونکہ مصر، شام اور فلسطین کے قریب واقع ہے چنانچہ یہ علاقہ انبیاء کرام کی سرزمین کہلاتا ہے۔ یوں شام اور مصر کی طرح یہاں بھی اسلام کی آمد سے قبل عیسائیت کو فروغ حاصل ہوا۔ اسلام کی آمد کے تھوڑے عرصے بعد، عرب مسلمانوں نے مصر سمیت اس پورے علاقے کو فتح کر لیا۔ انیسویں صدی کے آغاز پر ۱۸۲۰ء میں مصر کے محمد علی سوڈان کے بڑے حصے پر قابض ہو گئے۔ جب یورپی نوآبادیاتی نظام اس علاقے میں بھی در آیا تو برطانیہ نے یہاں قبضہ کرلیا۔ جنگ عظیم اول کے اختتام ۱۹۱۸ء کے تھوڑے عرصے بعد برطانیہ نے مصر اور سوڈان کو آزاد مملکت کی حیثیت سے تسلیم کرلیا۔
پہلی جنگ عظیم ۱۹۱۸ء کے بعد روس کمزور ہوتا گیا تھا، اس لیے اس نے دنیا کے دیگر ملکوں میں مداخلت سے گریز کیا۔ لیکن ۱۹۴۵ء میں دوسری جنگ عظیم کے بعد خصوصاً سلامتی کونسل میں ویٹو پاور لینے اور پھر ۵۰ء کی دہائی میں ایٹم بم اور پھر نائٹروجن بم بنانے کے بعد مداخلت شروع کی۔ اسی دوران برطانیہ نے اپنی سابق نو آبادیات میں اپنے اثر و رسوخ کو مضبوطی سے استعمال کرتے ہوئے ان مخالف اثرات کو دور کرنے کی کوشش کی۔ ۵۳۔۱۹۵۲ء میں جب مصر میں جنرل نجیب اور کرنل جمال ناصر فوجی انقلاب لے آئے تو انہیں روس کی حمایت حاصل تھی۔ جب کہ سوڈان کی صورتحال یہ تھی کہ سوڈان میں مصر کے جھنڈے بھی تھے اور برطانیہ کے بھی۔ عرب ممالک خصوصاً مصر یہ چاہتا تھا کہ فوراً سوڈان کو مکمل آزادی حاصل ہو، یوں جنوبی اور شمالی سوڈان کی مکمل آزادی کے لیے ضروری تھا کہ مصر اور برطانیہ دونوں علاقے سے اپنے پرچم اتار دیں اور آزادانہ انتخابات ہوں۔ ۱۹۵۴ء میں مصر اور برطانیہ نے سوڈان کو آزادی دینے کے معاہدے پر دستخط کردیے۔ ۱۹۵۶ء میں شمالی سوڈان سے مصر اور جنوبی سوڈان سے برطانیہ رخصت ہوا اور اسماعیل الاظہری سوڈان کے پہلے وزیراعظم مقرر ہوئے۔
مصر کا مسئلہ یہ رہا کہ یہاں ایک جماعتی نظام، صدر جمال ناصر تک تو چلا، لیکن بعد میں یہاں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا اور آمریت نے نظریاتی بنیادوں سے بھی انحراف کیا۔ صدر انور السادات کے قتل کے بعد خصوصاً حسنی مبارک کے پاس آمریت اور ایک جماعتی حکومت کے حوالے سے کوئی نظریاتی جواز بھی نہیں رہا، جبکہ اسلامی نظریات کی حامل جماعتیں ۱۹۹۰ء کے بعد سابق سوویت یونین کے ختم ہونے پر یہ جان گئیں کہ اب امریکی پالیسی کا رُخ ان کے خلاف ہو گیا ہے، لہٰذا ان جماعتوں نے بھی امریکا اور مغربی قوتوں کی مخالفت کی۔ سوڈان میں آزادی کے کچھ عرصے بعد ہی علاقائی تنازعات شروع ہوگئے اور سرد جنگ نے یہاں خاصا اور اہم اور منفی کردار ادا کیا۔ پھر بیرونی اور بڑی طاقتوں نے مذہبی، نسلی اور قبائلی بنیادوں پر مداخلت کی۔ کبھی یہاں عرب قوم پرستی کی بنیادوں پر اور کبھی اسلامی نظریاتی بنیادوں پر حکومتیں قائم ہوئیں، کبھی فوجی حکومتیں آئیں، کبھی انتخابات ہوئے، لیکن جب تک سابق سوویت یونین نہیں ٹوٹا تھا، اس وقت تک دنیا میں امریکا و سابق سوویت یونین کے حوالے سے طاقت کا توازن برقرار تھا۔ اگرچہ اس دوران بھی سوڈان میں خانہ جنگی ہوتی رہی لیکن امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی جانب سے شدید اور فیصلہ کن اقدامات نہیں کیے گئے، مگر ۱۹۹۰ء کے بعد صورت حال بدل گئی۔ سوڈان میں حالات زیادہ خراب ہونے لگے، اسی زمانے سے سوڈان خارجی طور پر نہ صرف عالمی برادری سے دور ہوتا گیا بلکہ مغربی ممالک نے اس کے ہمسایہ ملکوں کی مدد کی۔ یوگنڈا، کینیا، ایتھوپیا، اور چاڈ وغیرہ بھی سوڈان کے خلاف ہوگئے۔ باغیوں اور حکومت مخالف تحریکوں کی مدد کرنے لگے، لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ سوڈان میں خود حکومتوں نے جمہوری طرزِ عمل نہیں اپنایا۔ اگر یہاں متواتر آزادانہ اور شفاف انتخابات ہوتے رہتے، حقیقی جمہوری حکومتیں قائم ہوتی رہتیں اور یہ عمل تسلسل سے جاری رہتا تو سوڈان کے تمام داخلی مسائل پارلیمنٹ میں پائیدار بنیادوں پر حل ہو جاتے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی کے آغاز پر امریکا نے سوڈان کو دہشت گردی پھیلانے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کر لیا۔ ۱۹۹۷ء میں امریکی کمپنیوں نے سوڈان میں کام بند کردیا۔ ۱۹۹۸ء میں تنزانیہ اور کینیا میں امریکی سفارت خانوں کے قریب دھماکوں میں سوڈان کے ملوث ہونے کی باتیں ہوئیں۔ ۱۹۹۸ء میں خرطوم سوڈان میں الشفا فارماسیوٹیکل فیکٹری کو امریکا نے کروز میزائل سے حملہ کر کے تباہ کر دیا اور یہ الزام عائد کیا کہ یہ فیکٹری کیمیائی ہتھیار تیار کر رہی تھی۔ ۲۳ دسمبر ۲۰۰۵ء میں مغربی ہمسایہ ملک چاڈ نے سوڈان کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا، پھر دونوں ملکوں کے درمیان تنائو ختم کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں جو ناکام ثابت ہوئیں۔ ۱۱ مئی ۲۰۰۶ء کو سوڈان نے چاڈ سے خارجی تعلقات ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ چاڈ پر الزام عائد کیا کہ اس کی حکومت دارفور کے باغیوں کی مدد کر رہی ہے۔ ۲۰ جون ۲۰۰۶ء کو سوڈانی صدر نے صحافیوں سے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی امن فوج کی سوڈان میں تعیناتی کی اجازت نہیں دیں گے۔ تاہم ۱۷ نومبر ۲۰۰۶ء کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے بتایا کہ سوڈان امن فورس کی تعیناتی پر آمادہ ہوگیا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں انتخابات کے بعد ۲۰۱۱ء میں سوڈان کی تقسیم کے حوالے سے ریفرنڈم طے پایا۔ جنوری ۲۰۱۱ء میں سوڈان میں ریفرنڈم ہوا اور اب تیل کے ذخائر اور آمدنی کی تقسیم کے امور طے ہونا باقی ہیں۔ اس طرح رقبے کے اعتبار سے دنیا کا دسواں بڑا ملک عنقریب دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا کیونکہ سوڈان میں اب تک خانہ جنگیوں کے دوران ۲۰ لاکھ افراد ہلاک اور ۴۰ لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں اور عالمی برادری سوڈان کے لیے تقسیم کا حل تجویز کر چکی ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۲۲ جون ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply