پاکستان میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان

گزشتہ سال کے دوران اخبارات کے مطابق ملک بھر کے طول و عرض سے خودکشی کے ۲۵۰۷ واقعات درج ہوئے۔ خودکشی کے ان اعداد و شمار کے علاوہ ۱۶۳۴ افراد نے ملک کے مختلف علاقوں میں خودکشی کی کوشش کی‘ اس طرح ۴۱۴۱ افراد نے مجموعی طور پر خودکشی جیسا غیرانسانی اور مذہبی اقدار کے منافی عمل اختیار کرتے ہوئے انسانی جانیں ضائع کیں۔ پاکستان میں خودکشی آہستہ آہستہ مجموعی قومی صحت کا مسئلہ بنتی جارہی ہے کیونکہ ملک کے نوجوانوں میں معاشرتی و معاشی عوامل مثلاً غربت‘ بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ براعظم ایشیا اور بالخصوص جنوبی ایشیا میں معاشرتی تبدیلیوں‘ غیرمستحکم معاشی نظام‘ ڈپریشن یا ذہنی دبائو‘ منشیات کا استعمال اور کمزور خاندانی رویے خودکشی کے اسباب میں شامل ہیں۔

معاشرہ اور معاشرتی اقدار لوگوں کی ذہنی صحت اور خودکشی پر متحمل رویوں کو جانچنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر ذہنی انتشار‘ دبائو یا ڈپریشن ایک اہم بیماری ہونے کے باوجود ڈاکٹروں کی جانب سے سب سے کم تشخیص کی جانے والی بیماری ہے جبکہ پاکستان میں زیادہ تر ڈاکٹر حضرات اس بیماری کی تشخیص اور علاج کے نئے طریقِ کار سے لاعلم ہیں۔ ذہنی امراض سے نمٹنے کے لیے جدید طریقۂ کار لاعلمی کی اہم وجہ اس بیماری کے ساتھ جڑے ہوئے منفی رویے اور سوچ ہے۔ حکومتِ پاکستان نے ۲۰۰۱ء میں مینٹل ہیلتھ آرڈیننس جاری کیا لیکن آج تک اس آرڈیننس کو صحیح معنوں میں نافذ نہیں کیا گیا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق تمام ممالک کو خودکشی کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے‘ جن میں ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے پروگرام‘ منشیات کے استعمال پر روک تھام‘ خودکشی میں استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات کی عام آدمی تک بلاضرورت رسائی پر پابندی لگائی جانی چاہیے اور قیدیوں کی ذہنی صحت کا انتظام کیا جانا چاہیے۔ ایڈووکیٹ ضیاء اعوان صدر‘ وکلا برائے انسانی حقوق و قانونی امداد نے اس سلسلے میں اظہارِ تشویش کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ مینٹل ہیلتھ پالیسی کی جانچ کی جائے اور اسے صحیح معنوں میں قابلِ عمل بنایا جائے۔

۲۰۰۱ء میں وکلا برائے انسانی حقوق و قانونی امداد ذلی ادارہ مددگار (عورتوں اور بچوں کے لیے پاکستان کی پہلی ہیلپ لائن سروس) بنایا گیا اس ادارے کے تحت ایک ریسرچ اینڈ ڈیٹا بیس سینٹر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق واقعات کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے جو اخبارات یا دوسرے ذرائع سے سامنے آتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مددگار کا عملہ روزانہ اردو‘ انگریزی اور سندھی کے ۲۶ اخبارات کا جائزہ لیتا ہے اور حاصل شدہ معلومات پر مبنی تحقیقاتی رپورٹ شائع کی جاتی ہیں۔ خودکشی کے رپورٹ شدہ ۲۵۰۷ واقعات میں سے ۱۶۳ لڑکیوں‘ ۲۳۰ لڑکوں‘ ۷۵۳ عورتوں اور ۱۳۶۱ مردوں نے خودکشی کی‘ جن میں مجموعی اعداد و شمار کے مطابق ۱۰۰ افراد نے بلوچستان‘ ۲۴۳ افراد نے صوبہ سرحد میں‘ ۱۷۴۷ افراد نے پنجاب اور ۲۰۴۱ افراد نے سندھ میں خودکشی کے ذریعے خود کو ابدی نیند سلا دیا۔ مددگار کی تحقیق کے مطابق خودکشی کرنے والوں میں ۳۳۹ افراد ۱۸ سال سے کم عمر تھے‘ ۴۸۱ افراد ۱۸ سے ۲۵ سال کی عمر کے تھے‘ ۱۹۰ افراد کی عمر ۲۵ سے ۳۵ سال کے درمیان تھی۔ خودکشی کرنے والوں میں ۱۱۵ افراد کی عمر ۳۶ سے ۵۰ سال کے درمیان تھی جبکہ اسی عرصے میں ۵۰ سال سے زائد عمر کے ۵۸ افراد نے خودکشی کی۔

مددگار ڈیٹا بیس کے مطابق خودکشی کرنے یا خودکشی کی کوشش کرنے والوں کی کل تعداد ۴۱۴۱ میں سے ۶۱۱ افراد نے کراچی میں خودکشی کی‘ ۵۸۳ نے لاہور‘ ۱۶۲ افراد نے حیدرآباد میں‘ ۱۴۰ نے گوجرانوالہ میں‘ ۱۳۶ نے دادو میں‘ ۸۲ افراد نے فیروزوالہ میں‘ ۷۴ افراد نے لاڑکانہ میں‘ ۶۹ نے پشاور میں‘ ۶۳ نے ٹنڈوآدم میں‘ ۵۹ نے گجرات میں‘ ۵۶ نے خیرپور میں‘ ۵۰ افراد نے راولپنڈی اور کوئٹہ میں‘ ۴۸ نے ملتان میں‘ ۴۵ نے فیصل آباد میں‘ ۳۶ افراد نے ڈگری‘ ۳۶ نے ہالہ میں‘ ۳۵ نے میرپورخاص‘ ۳۳ نے سکھر میں‘ ۳۲ نے اسلام آباد میں‘ سرگودھا میں ۲۴‘ ساہیوال میں ۲۴‘ مردان میں ۲۰‘ میلسی میں ۱۷‘ ٹھٹھہ‘ چترال اور بنوں میں ۱۵۔۱۵ واقعات اور شہدادپور اور حافظ آباد میں ۱۴۔۱۴ افراد نے خودکشی کی۔

اخبارات میں رپورٹ شدہ واقعات میں خودکشی کی درج ذیل وجوہات سامنے آئیں‘ جن میں اعداد و شمار کے مطابق ۶۸۳ لوگوں نے ذاتی ناکامی یا دلبرداشتہ ہونے کی وجہ سے‘ ۹۱۴ نے گھریلو تنازعہ‘ ۵۵۱ نے خاندانی تنازعات‘ ۱۱۲ افراد نے معمولی جھگڑے پر‘ ۱۴۰ افراد نے شادی کے سلسلے میں ناکامی مثلاً منگنی ٹوٹ جانے پر یا رشتے سے انکار پر‘ ۸۵ افراد نے ڈپریشن‘ ۱۷۰ افراد نے مالی مسائل یا غربت سے تنگ آکر‘ ۸۱ افراد نے ذہنی معذوری کے باعث‘ ۸۵ افراد نے والدین کی ڈانٹ ڈپٹ اور ۲۹۹ افراد نے بے روزگاری کی وجہ سے اور ۴۰ افراد نے بیماری سے تنگ آکر خودکشی کی۔ مزید تحقیق سے خودکشی کے درج ذیل طریقہ کار سامنے آئے‘ جن میں ۱۹۵۶ افراد نے زہر کھا کر‘ ۴۲۰ افراد نے کیڑے مار دوا پی کر‘ ۷۷ نے دریا‘ نہر‘ کینال یا سمندر میں ڈوب کر‘ ۴۲۸ افراد نے بندوق کا فائر کر کے‘ ۵۲۳ لوگوں نے پھندے سے لٹک کر اور ۲۴۲ افراد نے خودسوزی کے ذریعے‘ ۸۶ افراد نے چلتی گاڑی یا ٹرین کے سامنے آکر‘ ۸۸ افراد نے جسم کے اعضا کاٹ کر‘ ۲۹ افراد نے کرنٹ کے ذریعے‘ ۲۲ افراد نے دوا کی زیادتی کی وجہ سے خودکشی کی۔ تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ خودکشی کے ۲۵۰۷ واقعات میں سے ۱۶۲ واقعات جنوری میں‘ ۱۷۱ واقعات فروری میں‘ ۱۸۰ مارچ میں‘ ۱۶۵ اپریل میں‘ ۱۷۸ مئی میں‘ ۳۰۶ جون میں‘ ۲۸۰ جولائی میں‘ ۳۱۵ اگست میں‘ ۲۱۴ ستمبر میں‘ ۲۰۳ واقعات اکتوبر میں‘ ۱۶۹ واقعات نومبر میں اور ۱۶۴ واقعات دسمبر میں ہوئے۔

ذہنی امراض کا مسئلہ تمام ممالک کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کی وجہ سے مختلف مسائل سامنے آتے ہیں‘ جن میں پست معیارِ زندگی‘ معاشرتی محرومیاں وغیرہ شامل ہیں۔ انہی امراض کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار میں کمی واقع ہوتی ہے۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے ایسے تمام مسائل سے نمٹنے اور ان کے پائیدار حل کے لیے قوم میں شعور و آگاہی بیدار کی جائے۔ مینٹل ہیلتھ کے ضمن میں کام کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذہنی امراض کا شکار افراد کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کریں۔ نوجوانوں میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان قومی المیہ ہے‘ جس کے لیے حکومت برابری‘ منصفانہ انسانی حقوق اور جنسی تفریق سے بالاتر مربوط لائحہ عمل نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔

(بشکریہ: ’’مخبرالعالمین‘‘۔ کراچی۔ ۲۸ جنوری تا ۳ فروری ۲۰۰۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*